ژوب/قلعہ سیف اللہ: دہشتگردی کے ناسور کا مقابلہ عوامی دفاعی کمیٹیوں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے!

کچھ روز قبل بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے گوال اسماعیل زئی سے دو افراد جن میں ایک ڈاکٹر شامل تھا، کو چار مسلح افراد نے اغوا کیا۔ اس کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے پورے علاقے میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اس کے بعد اس اغوا کاری کو ناکام بنانے اور مغویوں کو باحفاظت بازیاب کرانے کے لیے پورے علاقے کے عوام مسلح ہو کر نکلے۔

اس دوران ایک مغوی کو اغواکاروں نے قتل کر دیا، جبکہ دوسرے مغوی کو اگلے روز زندہ بازیاب کرا لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق چار اغوا کاروں میں سے دو اغوا کاروں نے گرفتار ہونے کے ڈر سے خود کو خودکش دھماکے سے اڑا لیا، جبکہ ایک اغوا کار فرار ہونے میں کامیاب اور چوتھے کو عوام نے مار دیا۔ اس سے پہلے بھی مذکورہ علاقے میں اس طرح کے واقعات ہوئے جن کو عوام نے اپنی قوت بازو کے تحت ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس واقعے کو رپورٹ کرنے کا اہم مقصد یہی ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کی نئی لہر نے پورے پاکستان بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع جبکہ سابقہ فاٹا کے اکثریتی علاقے دہشت گرد تنظیموں کے نشانے پر ہیں، جہاں روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے۔

مختلف اطلاعات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، ٹانک اور ان سے منسلک سابقہ قبائلی علاقہ جات میں کئی موقعوں پر عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت دہشت گردوں کو شکست دی ہے۔ حالیہ عرصے میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف عظیم الشان عوامی تحریکوں کی وجہ سے ہی افغانستان پر دوبارہ طالبان کے کنٹرول کے بعد بھی ٹی ٹی پی کی دوبارہ انسٹالیشن ممکن نہیں ہو پائی۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی پچھلے لمبے عرصے سے مسلسل دہشت گردی کے خلاف عوامی مزاحمت کو جمہوری طور پر منتخب عوامی دفاعی کمیٹیوں میں منظم کرنے کی بات کرتی آ رہی ہے۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اہتمام پشاور یونیورسٹی میں ”پختونخوا امن کانفرنس: دہشتگردی کیخلاف طبقاتی جنگ“ کا انعقاد!

جب خیبر پختونخواہ دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہوئی تو ہم نے اپنی ویب سائٹ اور اخبار میں؛ اور مختلف لیفلیٹ چھاپ کر یہ موقف واضح رکھا۔ ہم انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف عوامی دفاعی کمیٹیوں کی تعمیر پر 2016ء میں لکھے گئے ایک مضمون کا اقتباس نقل کرتے ہیں۔ اس کا عنوان تھا ”دہشت گردی سے کیسے لڑا جائے؟“مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں!

”ایسی صورت میں عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود منظم ہونا ہو گا اور محلے کی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی جو مختلف جرائم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مقامی کونسلروں یا نام نہاد نمائندوں پر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ تحریکوں کی عدم موجودگی کی کیفیت میں خود جرائم پیشہ افراد ان کمیٹیوں کے سربراہ بن کر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لیے ان کمیٹیوں میں جمہوری اندازمیں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں جرگے، پنچایتیں یا ایسے ہی رجعتی ادارے موجود ہیں جو علاقے کے مختلف امور پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں دولت مند اور حکمران طبقے کے افراد ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جرگے اور پنچایتیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ اکثر دہشت گردی کے معاون رہے ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی۔ اسی طرح ایسے تمام افراد بالخصوص تاجر اور کاروباری جو دہشت گردتنظیموں کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں، ان پر بھی سخت پابندی لگانی ہوگی۔ ریاست اور یہاں موجود حکمران طبقات ان تمام اقدامات کی مخالفت کرے گی اور اس کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گی۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کو مسخ کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان اداروں کو بدنام کروانے کی سازش بھی کی جا ئے گی۔ اس کے علاو ہ آغاز میں دیگر ساتھیوں کا اعتماد جیتنے اور خوف توڑنے میں بھی دقت ہو گی لیکن اگر یہ سارا عمل ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ ادارے زیادہ فعال اور واضح شکل میں ابھر کر سامنے آئیں گے۔“

Comments are closed.