تحریر: |ماہ بلوص اسد|
موجودہ عہد عالمی سطح پر بظاہر نظریاتی جمود کا شکار نظر آ رہا ہے جس کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ کوئی نئی سوچ، طرزِ فکر اور انسانیت کو آگے کی جانب لے جانے والی بصیرت منظر عام پر موجود نہیں جبکہ حالاتِ زندگی دن بدن مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی کیفیت سماج کی کئی پرتوں کو خاص طور پر مڈل کلاس، جو کہ بے صبری اور جلد بازی کی نفسیات کی حامل ہوتی ہے، پر مایوسی حاوی کر دیتی ہے۔ اور نوجوانوں میں یہ مایوسی بیگانگی میں تبدیل ہو جاتی ہے اس وجہ سے ہمیں اپنے عہد کی نوجوان نسل سیاسی اور معاشرتی بیگانگی کا شکار نظر آتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ نظام کے اس زوال کے عہد میں جو زوال پذیر سیاست اور اخلاقیات نوجوان نسل کے سامنے ہے کیا وہ اس قابل ہے کہ جس سے کسی بھی طرح کی جڑت رکھی جا سکے۔ موجودہ نظام میں سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نظریات سوائے روزگار کی منڈی میں نوجوانوں کی قیمت بڑھانے اور گھٹانے کے اور کیا دیتے ہیں؟ اور اب یہ نظام اپنے تاریخی بحران کے عہد میں روزگارکی منڈی کو بھی سکیڑتا جا رہا ہے تو ایسے میں اکیسویں صدی کی نوجوان نسل کے پاس سوائے بیگانگی کے کونسا راستہ رہ جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے مصیبت ٹل نہیں جاتی۔ بیگانگی اور فرار، سطح پر نظر آنے والی مایوسی، حالات و واقعات کے زبردست ہتھوڑوں سے چاک ہو جاتے ہیں اور زندگی کے بنیادی سوالات جس میں سیاست، معیشت کے متعلق سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے اور اسی ضرورت کے تحت نوجوان اپنے عہد کے تلخ تجربات سے سیکھتے ہوئے وہ نتائج اور نظریات اخذ کرتے ہیں جو انسانی سماج کی ترقی کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ موجودہ عہد ایسی ہی سماجی تجربہ گاہ ہے جہاں سے نوجوان نسل نئے عہد کے نظریات دریافت اورتخلیق کرے گی اور اس نظریاتی جمود کو اپنی عملی جدوجہد کے تجربات سے سیکھتے ہوئے توڑے گی۔
سرمایہ دارانہ نظام جہاں اپنی پیدائش سے ہی طبقاتی تضادات کا شکار رہا ہے وہاں طبقاتی کشمکش اور محنت کش عوام اور نوجوانوں کی بغاوتیں بھی اس نظام کا ایک خاصہ رہی ہیں۔ سرمایہ داری کے مختلف ادوار میں مختلف سیاسی و سماجی نظریات کے تحت یہ سیاسی جدوجہد جاری رہی ہے اور بڑے انقلابات تاریخ میں رونما ہوئے ان میں سب سے موثر اور سماجی شعور کو متاثر کر نے والا سب سے بڑا سیاسی و معاشی نظریہ سوشلزم کا تھا، جس کا عظیم تجربہ روس کی سرزمین پہ پہلی دفعہ کیا گیا لیکن اس انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری اور ’’ ایک ملک میں سوشلزم ‘‘ کے غیر مارکسی نظریے کی وجہ سے یہ انقلاب بھی ناکام ہوا اور اس ناکامی نے نوجوانوں اور محنت کشوں کے اندر مایوسی کو فروغ دیا۔ لیکن ان چار دہائیوں میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی ایک نئی نسل جوان ہوئی جو کہ ماضی کے انقلابات کی شکست اور بڑی بڑی کمیونسٹ پارٹیوں کی زوال پذیری کے اثرات سے باہر آ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بظاہر معاشی ترقی کے عہد میں ہمیں نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریک میں ایک جمود دیکھنے کو ملا جو کہ ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔ سرمایہ داری اپنے بحران کو مصنوعی بنیادوں پر ٹالتی رہی لیکن زائد پیداوار کا یہ بحران 2008ء میں شدت سے منظر عام پر آیا اور خاص طور پر ترقی یافتہ دنیا میں گہرے اثرات مرتب کیے ۔2008ء کے بحران نے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی کردار کو بلکہ اس کی نظریاتی شکستگی کو بھی عیاں کیا۔ جو نسل ایک لمبے عرصے سے یہ سنتی آ رہی تھی کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام ہی انسانیت کی حتمی منزل ہے اور اس پر تاریخ کاخاتمہ ہو چکا ہے، انقلابات ماضی کا قصہ بن چکے ہیں، مارکسزم اور سوشلزم غلط ثابت ہو چکے ہیں اور اب ہم سب مڈل کلاس ہیں‘‘، اب وہ نسل اپنے سامنے سرمایہ درانہ نظام کے حقیقی کردار کو دیکھنے لگی ہے کہ حتمی طور پر یہ نظام صرف اور صرف سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحت چلتا ہے اور بحرانات کے عہد میں بھی اسی طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ موجودہ عہد میں سرمایہ داری کے بحران نے نئی نسل کے شعور پر اثرات مرتب کرنا شروع دیئے ہیں اور ایک لمبے عر صے سے حاوی جمودمحنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک نئی نسل کے شعور کی بیداری کے نتیجے میں ٹوٹنا شروع ہوگیاہے جس کا اظہار ہمیں عالمی پیمانے پر طلبہ اور مزدوروں کی مختلف تحریکوں کی صورت میں نظر آرہا ہے۔
سرمایہ داری کی جنم بھومی یورپ کی سرزمین اس وقت جہاں گہرے معاشی بحران کا شکا ر ہے وہاں طلبہ تحریکیں روز کا معمول بنتی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں فرانس میں شروع ہونے والی طلبہ اور مزدوروں کی تحریک ’’Nuit-Debout‘‘جس کا آغاز مارچ میں ہوا اور جس میں لاکھوں طالب علموں اور نوجوانوں نے شرکت کی ہے مزدور قوانین کے خلاف ا حتجاج کے طور شروع ہوئی جوکہ سیا سی اور معاشی مطالبات رکھتی ہے۔ فرانس کی تاریخ میں ایک لمبے عرصے کے بعد ایسی تحریک ابھری ہے جو کہ نئے طبقاتی اور سیاسی شعور کے اجاگر ہونے کی علامت ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال اکتوبر میں سپین میں چلنے والی طلبہ اوراساتذہ کی تحریک، جوکہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف تھی، میں 25 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف یہ بہت بڑی تحریک تھی جس میں اسپین کے 90فیصد طلبہ اور 60 فیصد اساتذہ نے حصہ لیا۔ اسی طرح فروری میں ڈنمارک میں طلبہ کی ایک شاندار تحریک نظر آتی ہے جس میں 30ہزار طلبہ نے مختلف سکولوں و کالجوں سے احتجاج اور ہڑتالوں میں حصہ لیا۔ کوپن ہیگن کے مرکزی چوراہے میں جمع 20ہزار طلبہ کا نعرہ تھا کہ’’ تعلیم ڈنمارک کا واحد خام مال ہے نہ کہ بیچے جانے والی کوئی شے۔‘‘
جرمنی جو کہ بظاہر 2008ء کے بحران سے باہر نظر آرہا تھا وہاں بھی جون 2009ء میں نئے سیاسی شعور کے حامل نوجوان مفت تعلیم کے حق میں اور یونیورسٹیوں کی فیسوں کے خلاف متحرک ہوتے نظر آئے۔ اس تحریک میں جرمنی کے 70 شہروں میں 10ہزارطلبہ نے حصہ لیا اور انکے نعرے ہی اس بات کی عکاسی کرتے تھے کہ نوجوانوں کی ترقی یافتہ پر تیں کس طرح اس نظام کو سمجھنے لگی ہیں۔ ان کے نعرے تھے ’’پیسہ تعلیم کے لیے‘ نہ کہ بینکوں کے لیے‘‘، ’’تعلیم کی کمرشلائزیشن نا منظور نا منظور‘‘، ’’تعلیم علم کے لیے‘ نہ کہ محنت کی منڈی کے لیے‘‘۔ ایک طالب علم نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’میں معاشر ے کو سمجھنے کے لیے تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں نہ کہ روزگار کی منڈی میں اپنی قدر بڑھانے کے لیے‘‘۔ بلغاریہ میں بھی مہنگائی غربت، بدعنوانی اور بیروزگاری کے خلاف تحریک نے جنم لیا۔ برطانیہ میں بھی2010ء میں طلبہ متحرک نظرآئے۔ ترقی یافتہ یورپ میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے شعور میں تبدیلی نسل انسانی کو سرمائے کی غلامی سے آزاد کروانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
حالیہ بحران کے اثرات ہمیں امریکہ میں بسنے والے عام محنت کش اورنوجوانوں کے شعور کو بھی متاثر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں2014 ء کے خزاں میں ہی مختلف یونیورسٹیوں میں ایک سو ساٹھ احتجاجی مظاہرے ہوئے، نومبر 2015ء میں ملین مارچ کے نام سے ایک اور تحریک نظر آئی جو فیسوں کے خاتمے، طلبہ کے قرضوں کے خاتمے اور کم از کم تنخواہ پندرہ ڈالر فی گھنٹہ کرنے کے مطالبات کر رہی تھی۔ امریکہ کے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق، اسی سال امریکہ میں ایک طالبعلم کا قرض اوسطاً 35 ہزار ڈالر ہے۔ یہ تحریک ایک سو چھ مختلف امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رہی، فروری 2016ء میں ہونے والے امریکن فریش مین سروے کے مطابق نئے آنے والے طالبعلموں میں سیاسی اور احتجاجی رحجان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں تین فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جو پچھلے پچاس سالوں کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اسی سروے کے مطابق ا مریکی طالبعلموں میں ساٹھ فیصد نوجوان بائیں بازو کا رحجان رکھتے ہیں، امریکہ جس میں سوشلزم اور بائیں بازو کے نظریات گالی بن چکے تھے وہاں یہ سروے ثابت کرتا ہے کہ نئی نسل اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ نسل انسانی کو خونی جنگوں میں ڈبونے والے امریکی سامراج میں خود ایک تاریخی طبقاتی جنگ ابھر سکتی ہے، جو نسل انسانی کو سرمایہ داری کی بربریت سے آزاد کرانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
لاطینی امریکہ جو انقلابی روایات کی زر خیززمین ہے ایک مرتبہ پھر انقلابی شعور کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ حالیہ بحران نے لاطینی امریکہ کے بظاہر معاشی طور پر مستحکم ممالک کو بھی متا ثر کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمیں ان ممالک میں طلبہ تحریکیں ابھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مئی 2016ء ارجنٹائن میں بیونس آئریس یونیورسٹی (UBA)پر طالبعلموں نے قبضہ کر لیا تھا۔ یہ قبضہ یونیورسٹی میں جاری اساتذہ اور دوسرے ملازمین کی ہڑتال کے ساتھ یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا، اس احتجاج کی مانگ تھی کہ ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے 45 فیصد اضافہ کیا جائے۔ برازیل جو کہ آنے والے اولمپکس کی میزبانی کرنے والا ہے، وہاں ریو ڈی جینیرو میں ستائیس شہروں کے ستر سکولوں نے تعلیمی معیار اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے 4 مئی کو احتجاج کیے۔2015ء میں برازیل کی معیشت میں 3.8 فیصد گراوٹ دیکھنے کو آئی جو گزشتہ پچیس سالوں کی سب بڑی گراوٹ ہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ اس وقت تعلیم کا شعبہ چھیالیس ملین ڈالر کا مقروض ہے جبکہ حکومت اولمپکس کے لیے دو بلین ڈالر فنڈز دے رہی ہے۔ میکسیکو میں بھی 2015-16 ء میں چلنے والی پولی ٹیکنیک کے طلبہ کی تحریک بے مثال تھی جس میں ڈھائی لاکھ کے قریب محنت کشوں اور نوجوانوں نے شرکت کی، یہ ایک شاندار آغاز تھا۔جون 2015 ء میں چلی میں معیاری تعلیم کے حق میں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف طلبہ تحریک نظر آتی ہے یہ تمام تحریکیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انقلابی شعور جو کہ لاطینی امریکہ کی تاریخ کا خاصہ رہا ہے اب دوبارہ زور پکڑ رہا ہے اور ایک بار پھر اس نظام کو چیلنج کرنے کو تیار ہے۔ افریقہ میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ خاص طور پر جنوبی افریقہ جو کہ ’’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ کا بھی حصہ ہے وہاں حالیہ بحران نے نوجوانوں کے شعور کو متاثر کیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اگلے سال فیسوں میں 10.5 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اس اعلان نے طلبہ میں چنگاری کا کام کیا اور جنوبی افریقہ کی 26 میں سے 18 یونیورسٹیوں میں تحریک شروع ہوگئی جو کہ 1994ء کے بعد کی سب سے بڑی عوامی تحریک تھی، فیسوں میں کمی کی اس تحریک نے ملک کے صدر کو اعلان واپس کرنے پر مجبور کیا۔ سال کے اختتام پر امتحانات کے دنوں میں کئی یونیورسٹیاں جبراََ بند کروا دی گئی، اس کے باوجود تحریک جاری رہی۔ اسی طرح حال ہی میں نائیجیریا میں سات سے زائد بڑی یونیورسٹیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت اور فیسوں میں کمی کے لیے احتجاج کیے گئے۔ یہاں بھی عین امتحانات کے دنوں میں ادارے بند کر دئے گئے اور طلبہ کو زبردستی گھر بھیج دیا گیا تاکہ احتجاج کو دیگر یونیورسٹیوں میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ایشیا جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ یہاں کے لوگ ظلم کے عادی ہوچکے ہیں اور بغاوت کرنے کی سکت نہیں رکھتے، یہاں بھی سیاسی اور معاشی حالات نوجوانوں اور محنت کشوں کے شعور پر زبردست اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے 2010ء کے انقلابات نے پوری دنیا کہ لوگوں کو متاثر کیا، حالیہ خانہ جنگی کے باوجود وہاں کے محنت کش اور نوجوان اپنی تلخ زندگیوں سے اہم اسباق حاصل کر رہے ہیں۔
بھارت جس کے بارے میں سرمایہ داری کو غلط فہمیاں تھی کہ اس کی ’’ابھرتی ہوئی معیشت‘‘ عالمی معیشت کو سہارا دے گی وہاں گزشتہ سال 2ستمبر کو تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال ہوئی جس میں پندرہ کروڑ محنت کشوں نے حصہ لیا اس کے ساتھ ہی بھارت کے مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں میں طلبہ متحرک نظر آ رہے ہیں، اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ان میں سب زیادہ موثر تحریک جواہرلعل نہرو یونیورسٹی (JNU) کے طلبہ کی تحریک ہے، اس سے قبل بھی یہ تحریک یونیورسٹی گرانٹس کمیشن(UGC) اور دلت پی ایچ ڈی اسکالر روہت ویمیولا کی خودکشی کے بعد سے مختلف ایشوز کے گرد چل رہی تھی۔ لیکن JNU میں اس تحریک کو ایک معیاری جست لگی اور یونین قیادت پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں یہ بھڑک اٹھی اور پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ اس تحریک کا مشہور نعرہ ’’آزادی ‘‘ ہے۔ لیکن یہ آزادی کسی ملک یا سامراج سے نہیں بلکہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی ہے۔
اس نعرے کی پاداش میں طلبا رہنماؤں کو بھارت کی ’’سیکولر‘‘ ریاست نے جیل میں ڈال دیا۔ یہ کہہ کر کر کہ وہ ملک سے غداری کے مرتکب ہیں لیکن ریاست کے اس گھناؤنے پراپیگنڈے نے تحریک کو بھی جلا بخشی اور یہ تحریک اب بھی جاری ہے۔ آزادی کے ستر سال بعد بر صغیر پاک و ہند کی نوجوان نسل نہ صرف سرمائے کی غلامی کو محسوس کرنے لگی ہے بلکہ آگے بڑھ کر ان کو توڑنے کی جدوجہد بھی کر رہی ہے۔ سرحد کے اس پار یعنی پاکستان میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں یہاں پر بھی معاشی جبر نے محنت کش عوام کو متحرک کیا ہے۔ یہاں کے نوجوان بھی اب اس استحصالی نظام کے خلاف چھوٹی چھوٹی تحریکوں میں مختلف تعلیمی اداروں میں احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ ملکی سطح پر بظاہر کوئی بڑی طلبہ تحریک موجود نہیں لیکن مختلف اداروں میں مقامی مسائل کے حل کے لیے طلبہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ جس میں اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی میں فیسوں کے اضافے کے خلاف ہونے والی جدوجہد، گورڈن کالج راولپنڈی اور مرے کالج سیالکوٹ میں نجکاری مخالف، ملتان ایمرسن کالج میں طلبہ کی ڈگریوں کی تاخیر کے خلاف احتجاجی مظاہرے، پشاور یونیورسٹی میں طلبہ کی تحریک اور اس کے علاوہ ادارہ جاتی مسائل کے خلاف مختلف احتجاج ہمیں نظر آتے ہیں۔
پاکستان کا غلام میڈیا ان احتجاجوں کوکبھی زیر بحث نہیں لاتا جس کی وجہ سے مڈل کلاس کی پرتیں یہ سمجھتی ہیں کہ نوجوانوں کے مسائل ہی نہیں ہیں اور جو ہیں بھی وہ حل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان کے حل کے لئے کوئی عملی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ ان کی دنیا بس سوشل میڈیا اور دیگر سرگرمیاں ہی ہیں۔ لیکن پاکستان کے نوجوانوں کے شعور کی یہ تصویر پیش کرنے والے سطح سے نیچے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ بظاہر اس جمود اور بیگانگی کے نیچے مسائل سلگ رہے ہیں جن کے خلاف فوری طور پر نوجوان کوئی رد عمل نہیں کر رہے اور صرف چھوٹی چھوٹی تحریکوں میں متحرک ہیں لیکن کوئی بڑا واقعہ یا حادثہ بڑی طلبہ تحریک کو جنم دے سکتا ہے۔ 16دسمبر2014 ء کے واقعے کے بعد فوری طور پر تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کر کے اس وقت ایک ابھرتی ہوئی تحریک کو دبا دیا گیا تھا لیکن یہ تحریک اپنا اظہار کرے گی۔ پاکستانی ریاست خود اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور اس واقعہ کے بعد تعلیمی اداروں کو جیل خانوں میں بدل دیا گیا ہے جہاں سیکورٹی کے نام پر طلبہ کو دبانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی ہے۔ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والا حملہ بھی طلبہ تحریک کو خوفزدہ کرنے کی سازش تھی۔ اس کے علاوہ آئے روز دہشت گردی کے خطرے کے نام پر تعلیمی ادارے بند کروا دیے جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ تعلیمی ادارے جن میں خاص طور پر طلبہ متحرک ہونے کی کوشش میں ہوتے ہیں ان اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردورں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ طلبہ کا معاشی قتل عام کرنے والے یہ حکمران اور ریاست طلبہ کو خوفزدہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان ہتھکنڈوں سے طلبہ تحریک کو دبا سکتے ہیں۔طلبہ کو خوفزدہ کرنے کی یہی کوشش ہی طلبہ تحریک کے ابھار کا موجب بن سکتی ہے۔
تاریخ اپنے ارتقائی سفر میں نہ صرف آگے بڑھتی ہے بلکہ آگے کی جانب سفر کے لیے درکار زندہ قوتوں اور ایسے شعور کی بھی آبیاری کرتی ہے جو اس کے آگے کی جانب سفر کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ تاریخ میں ایک مقررہ وقت میں اس عہد کے حاوی نظریات اس عہد کے واقعات سے بہت پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ اس نظریاتی جمود کو توڑنے کے لیے واقعات کے آہنی ہتھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔عالمی پیمانے پر ہم ایک تبدیلی کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں، یہ عہد جہاں ماضی کے روایتی رحجانات کو چیلنج کر رہا ہے وہیں اپنے ساتھ نئے رحجانات بھی لا رہا ہے۔ عالمی طور پر طلبہ تحریک میں ہمیں کسی ایک سیاسی رحجان سے جڑت نظر نہیں آتی بلکہ ماضی کے تمام سیاسی و روایتی رحجانات کو نوجوان نسل رد کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ معاشی پروگراموں کو سمجھ رہی ہے۔ وہ اس سرمایہ دارانہ سیاست اور جمہوریت دونوں کے فریب کو جھٹلا رہی ہے اور معاشی آزادی، بہتر معیار زندگی اور روزگار کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اس نئی نسل کی سیاسی بیگانگی جہاں اس کی سب سے بڑی طاقت ہے وہاں یہ اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ اس نسل کے پاس ماضی سے لینے کے لیے مایوسی کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور مستقبل کے لیے متبادل کی تلاش اور جستجو موجود ہے،سوال اس وقت اس سیاسی خلا کو پر کرنے کا ہے جو کہ نسل انسانی کے بہتر مستقبل کی نوید ہو اور سرمائے کی غلامی سے آزاد کروا سکے۔ انقلابی سوشلزم کے نظریات محنت کشوں اور نوجوانوں کی اس نئی نسل تک پہنچانا انقلابیوں کا تاریخی فریضہ بن چکا ہے جس کے ذریعے ایک متبادل سیاسی رحجان تخلیق کر کے نئے عہد کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔