رپورٹ : |صابر حسین|
محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر ماروی گوٹھ میں پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) اور’’ماروی گوٹھ نوجوان اتحاد‘‘ کے زیر اہتمام سیمینار منعقد کیا گیا جس کا مقصد نوجوانوں کو شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد اور عالمی مزدور تحریک سے روشناس کرانا تھا۔سیمینار میں سٹیج سیکر ٹری کے فرائض صابر حسین نے ادا کیے۔
سب سے پہلے مقرر پروفیسر خان تھے جنہوں نے شکاگو کے محنت کشوں کی حالات زندگی اور ان کی جدوجہد کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ 1886ء میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سرمایہ داروں اور محنت کشوں کا ایک دوسرے کی جانب رویہ اور ان کے باہمی رشتے کی واضح مثال ہے کہ کس طرح سرمایہ دار اور ان کی سہولت کار ریاست محنت کشوں پر جبر کرتی رہی ہے ۔ انسانوں کی پوری تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے ۔ محنت کشوں نے ہر اس نظام کو اکھاڑ پھینکا کہ جس میں اس کی بقاء خطرے میں تھی۔ اسی طرح آج سرمایہ داری اپنی تاریخی متروکیت کے بعد نسل انسانی کے لیے ایک خطرہ ہے ۔ آج کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے کندھوں پر تاریخ نے اس نظام کو اکھاڑ کر نئے نظام کی بنیاد رکھنے کی ذمہ داری ڈالی ہے ۔ایک ایسا نظام جو نسل انسانی کی بقاء کی حقیقی ضمانت دے ۔ ایسا نظام سوشلزم کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
اس کے بعد میزان راہی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالی ۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بھی حالات 1886ء سے ذیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ ایک طرف سائنسی ایجادات انسانی شعور کی عزمت کا پرچار کرتے نہیں تھکتی مگر دوسری جانب ابھی تک انسان روٹی کے نوالے نوالے کو محتاج ہیں۔ کام کے اوقات کارکئی اداروں میں 8گھنٹے سے بڑھا کر پھر سے 12گھنٹے کر دیے گئے ہیں۔ ان تمام مظالم کا مطلب ہے کہ ایک بار پھر بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
بحث کوسمیٹتے ہوئے تصور قیصرانی نے کہا کہ 1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر وہ جنگ جیتی تھی ۔ مگر آج جب محنت کشوں کی جدوجہد کی بات کی جاتی ہے تو کچھ نام نہاد دانشور محنت کشوں کے منقسم گروہوں کو دلیل بناتے ہوئے تحریک اور جدوجہد پر مایوسی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر در حقیقت پوری دنیا میں تحریکیں بھی موجود ہیں اور جدوجہد بھی جاری ہے ۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ ان تحریکوں کو ایک لڑی میں پرونا ہے اور ان چھوٹے چھوٹے احتجاجوں کو ایک بڑی تحریک میں بدلنا ہے۔ یہ فریضہ آپ نوجوانوں کے کندھوں پر ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی ریاست کا ہر ادارہ اپنے اندر سے طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ اور تاریخ نے یہ بات کئی بار ثابت کی ہے کہ متحارب طبقات میں بناوٹی جڑت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھی جا سکتی۔پاکستان میں بلکہ اس پورے خطے میں ایک انقلاب پنپ رہا ہے ۔اس کی آبیاری ہمارا فریضہ ہے۔