[تحریر: یاسر ارشاد]
ہندوستان کے عام انتخابات کے آغاز پر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر طالب علموں کی ایک بڑی تعداد پر امن احتجاجی مظاہروں میں متحرک ہونا شروع ہو گئی ہے۔ 10 اپریل سے کشمیر میں مرحلہ وار ووٹنگ کے آغاز سے قبل ہی کشمیری نوجوانوں نے سیکیورٹی پابندیوں، گرفتاریوں اور اظہار رائے پر قد غن کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ 9 اپریل کو سرینگر کے مختلف تعلیمی اداروں کے طالب علموں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں ان نوجوانوں نے کشمیر میں نافذ سخت فوجی قوانین خاص طور پر آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی فوجی یا نیم فوجی اہلکار کو اختیار ہے کہ وہ محض شک کی بنا پر کسی کو گرفتار کرے یا کسی گھر کی تلاشی لے یا کسی شخص کو شدت پسند کہہ کر گولی مار دے۔
عین انتخابات سے قبل سڑکوں کا رُخ کرنے والے ان طلباء کا کہنا تھا کہ جو لوگ انتخابات لڑتے ہیں وہ نوجوانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ لیکن اسمبلی میں نوجوانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ عدنان نامی ایک طالب علم نے بی بی سی کو بتایا کہ سیاستدان ہمارا استحصال کرتے ہیں وہ اپنی اولادوں کو اعلیٰ نوکریاں دیتے ہیں لیکن عام نوجوانوں کو کالے قوانین کے تحت جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں شریک نوجوانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں پر امن جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کیا۔ در حقیقت احتجاجی مظاہروں کا یہ سلسلہ 2010ء میں ابھرنے والی سنگ بازوں کی تحریک کا ہی تسلسل ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں اور عوام کیلئے براہ راست اور ننگے فوجی جبر کا خاتمہ اور روزگار کا حصول سب سے بنیادی اور سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ ایک جانب بھارتی حکمران طبقہ اور عالمی ذرائع ابلاغ دنیا کے سب سے بڑے اور شائد سب سے بیہودہ جمہوری ناٹک یعنی انتخابات کا واویلا کر رہے ہیں۔ تو دوسری جانب کشمیر کی نام نہاد آزادی پسند قوم پرست اور مذہبی جماعتیں ان انتخابات سے لا تعلقی کا شور شرابہ اور ڈھونگ کر رہی ہیں۔ ایسے میں کشمیری نوجوانوں کی بڑی اکثریت انتخابات کے انعقاد کے حکومتی تماشے اور انتخابات سے لا تعلقی کے قوم پرستوں کے منافقانہ اور بے معنی عمل کو بیک وقت مسترد کرتے ہوئے اپنے حقیقی مسائل کے حل کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کے یہ احتجاجی مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ نوجوان اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ نہ تو ان حکمرانوں کی جمہوریت کے ذریعے اور نہ ہی اس کے دوسرے رخ یعنی محض انتخابات سے لا تعلقی کے ذریعے ان کے بنیادی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ نوجوان ایک تیسرے راستے یعنی پر امن سیاسی جدوجہد کو اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے ان نوجوانوں نے درست طور پر سماج میں موجود طبقاتی تقسیم کو بھاپنتے ہوئے طبقاتی جدوجہد کو اپنے مسائل کا حل سمجھا ہے۔ دوسری جانب ایک انتہائی سیاسی ماحول میں یعنی عام انتخابات کے موقع پر پارلیمانی سیاست کی غلاظت میں غرق ہوئے بغیر سماج کے حقیقی مسائل کو اپنی احتجاجی تحریکوں کے ذریعے اجاگر کرنے کا فیصلہ ان نوجوانوں کے انتہائی بلند سیاسی و شعوری معیار کی بھی عکاسی ہے۔ اگر ہم عمومی طور پر ہندوستان کی سماجی کیفیت کاجائزہ لیں تو ہندوستان میں کل ووٹروں کی تعداد (80 کروڑ چالیس لاکھ) سے زیادہ لوگ (82 کروڑ) غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ عرصے میں ہندوستان کی معیشت سالانہ 9 فیصد سے زیادہ کی شرح سے ترقی کر رہی تھی اور ہندوستان کے حکمران چمکتے ہوئے ہندوستان کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس وقت بھی ہندوستان کی دو تہائی آبادی غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں سسک رہی تھی تو اب عالمی معاشی زوال کے گہرے ہونے کے ساتھ جب ہندوستان کی شرح ترقی 5فیصد سے بھی نیچے گر چکی ہے۔ ہندوستان کے کروڑوں غریبوں کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ان غریبوں کو روزگار‘ علاج، پینے کیلئے صاف پانی، تعلیم، رہنے کو گھر یا اس جیسی بنیادی سہولیات فراہم تو نہیں کر سکتی۔ البتہ معاشی زوال کا سارا بوجھ ایک قیامت بن کر ان افلاس کے ماروں کو مزید برباد ہی کرے گا۔ ایسی کیفیت میں کشمیر جیسی ریاست جس میں 86 فیصد لوگ روزگار کے حصول کو اپنا سب سے اولین مسئلہ قرار دیتے ہیں یہ جمہوریت کیا دے پائے گی۔ عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام کے زوال کے بارے میں خود سرمائے کے تمام سنجیدہ ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کم از کم ایک دہائی تک اس بحران کے خاتمے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک میں اس نظام کا زوال ایک دہائی تک مزید گہرا ہوتا ہے تو ہندوستان جیسی پسماندہ معیشتوں میں یہ بحران غریب عوام اور محنت کش طبقات پر ایک عذاب بن کر نازل ہو گا۔ ایسی کیفیت میں عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد کے نئے طوفان اُمڈتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ہندوستان میں بھی سرمایہ دارانہ جارحیت کیخلاف محنت کشوں کی نئی تحریکیں اُبھریں گی جو کشمیری نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریک کو تقویت دیں گی۔
12 اپریل کو بی بی سی کی ویب سائیٹ پر شائع ہونیوالی ایک تجزیاتی رپورٹ نے کشمیر پر پاکستان کے منافقانہ رویے اور ہندوستانی جبر کی ناکامی کے حوالے سے دلچسپ وضاحت پیش کی ہے۔ بی بی سی کا نمائندہ اوون بینیٹ جونز لکھتا ہے ’’کوئی بھی شخص جو پاکستان جا چکا ہو وہ کشمیر کے بارے میں اپنے حصے کی بہت سی خبریں (اور پروپیگنڈہ) سن چکا ہوتا ہے۔ پندرہ برس تک پاکستان میں آتے جاتے مجھے بھی وہ سب از بر ہو گیا تھا جو پاکستانی کشمیر کے بارے میں کہتے ہیں۔ لیکن اب جب میں خود لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب آیا ہوں تو میں نے خود اپنے نتائج اخذ کیے ہیں۔ جن چیزوں نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا ان میں پہلی یہ کہ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وادی میں بغاوت اس قدر تیزی سے کم ہو چکی ہے۔ پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر بیس برس سے زیادہ عرصے سے ہم علیحدگی پسندوں اور بھارتی فوج کے درمیان شدید جھڑپوں کے مناظر دیکھتے رہے ہیں۔ ہنگامے اب بھی ہوتے ہیں لیکن اتنے کم کہ رات کے وقت بھی آپ حفاظت سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں۔ اب تو سرینگر سے زیادہ چیک پوسٹیں پشاور اور حتیٰ کہ اسلام آباد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بھارتی ریاست کشمیر کے باسیوں کے دل جیتنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ سرینگر میں بہت سارے طلبہ اب ڈٹ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بھارتی راج جابرانہ ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ ساری زندگی اس راج کیخلاف مزاحمت کرتے رہیں گے۔‘‘
یہ درست ہے کہ پاکستانی سرکاری ٹی وی ابھی تک 1990ء کے ہنگاموں اور ان پر کیے جانیوالے بھارتی ریاستی تشدد کی ویڈیوز دکھا کر بھارت کو کشمیریوں پر وحشیانہ جبر کرنے والی ریاست (جو کہ وہ ہے) ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں کشمیری نوجوانوں اور عوام کے شعور اور ان کی جدوجہد میں جو بنیادی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اس کو پاکستانی حکمران طبقات شعوری طور پر منظر عام پر اس لیے نہیں لا رہے کیونکہ یہ تبدیلی پاکستانی حکمرانوں کے منافقانہ سامراجی عزائم کیلئے ایک خطرہ ہے۔ یہ تبدیلی کشمیری نوجوانوں کے قومی و مذہبی بنیادوں پر جدوجہد کی بجائے طبقاتی جدوجہد کو اپنا لینے کی تبدیلی ہے۔
لیکن اوون جونز کی پیش کردہ تصویر سے اُبھرنے والا یہ تاثر بھی درست نہیں کہ بھارتی تسلط کیخلاف جدوجہد بالکل ماند پڑ چکی ہے بلکہ یہ جدوجہد نسبتاً پر امن، سیاسی اور طبقاتی ایشوز کے گرد ہے جن میں ننگے فوجی جبر کا خاتمہ اور روزگار کے حصول جیسے مطالبات سر فہرست ہیں۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ تمام تر ریاستی جبر اور بے پناہ فوج کی موجودگی کے باوجود کشمیری نوجوان اپنے بنیادی مطالبات کے گرد انتہائی جرأت کے ساتھ پر امن احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کے ذریعے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کی یہ تحریکیں اگرچہ ابھی تک کسی منظم سیاسی پلیٹ فارم، درست نظریاتی بنیاد اور پروگرام سے عاری ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی سمت اور طریقہ کار بالکل درست ہے۔ اپنی جدوجہد کے تلخ تجربات سے سیکھتے ہوئے یہ نوجوان اپنی تحریک کی ان خامیوں کی نشاندہی کرنے اور ان خامیوں کو دور کرنے یعنی ایک درست نظریے تک رسائی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہونگے۔ لیکن یہ عمل یکطرفہ طور پر مکمل نہیں ہو سکتا بلکہ مارکسی نظریات کی علمبردار قوتوں کو ان نوجوانوں کو مارکسزم کے نظریات سے لیس کرنے کا انقلابی فریضہ ادا کرنا ہو گا۔
مارکسزم اور قومی سوال
قومی سوال پر مارکسزم کے نظریے کا نچوڑ یہ ہے کہ مارکسزم تمام محکوم اقوام کے محنت کش طبقات اور عوام کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ لینن نے وضاحت کی تھی کہ مظلوم اقوام کے حکمران طبقات ظالم اور جابر اقوام کے حکمران طبقات سے زیادہ رجعتی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لیے مارکسی مظلوم اقوام کے حکمرانوں یا درمیانے طبقے کی تنگ نظر اور رجعتی قوم پرستی کی حمایت کی بجائے مظلوم اقوام کے محنت کش طبقے اور عوام کے حق خود ارادیت کی مکمل حمایت کرتے ہوئے انہیں طبقاتی اور پرولتاری بین الاقوامیت کی بنیادوں پر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں منظم و متحرک کرنے کیلئے ہر قسم کے تعصب، تنگ نظری اور فرقہ پرور علیحدگی کیخلاف بے رحمانہ لڑائی لڑتے ہیں۔ کسی بھی خطے میں ایک مارکسی تنظیم صرف اس صورت میں مظلوم اقوام کے محنت کشوں کے حق خود ارادیت کی مکمل عملی اور متحرک حمایت کر سکتی ہے جب وہ تنظیم خود سوشلسٹ انقلاب کیلئے ایک نا قابل مصالحت جدوجہد پر مکمل طور پر کار بند ہو۔ دوسری صورت میں جیسا کہ ہمارے سامنے ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کی مثال ہے جن کی مرکزی قیادت سوشلسٹ انقلاب کی بجائے دو مراحل پر انقلاب کے مسترد شدہ نظریات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے اپنی حالیہ عملی جدوجہد میں زیادہ تر معاملات میں بورژوا قوم پرستی کے نظریات اور موقف کی حمایت کرتی ہے۔ ایسا صرف اس نظریاتی خامی کی وجہ سے ہے کہ جب آپ پہلے مرحلے پر ایک صحت مند اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاست کی تشکیل کے عمل پر یقین رکھتے ہوں تو لازمی طور پر آپ کو بورژوازی کے نقطہ نظر، پالیسیوں اور ہر قسم کے اقدامات کی فروعی اختلافات کے باوجود آخری تجزیے میں حمایت کرنا پڑے گی۔ اسی لیے ہمیں نظر آتا ہے کہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں قومی سوال پر بھی مارکسزم کے نظریات سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ در حقیقت دو مراحل پر مبنی انقلاب کے نظریے پر کار بند رہتے ہوئے اس کے علاوہ کچھ ممکن بھی نہیں۔ اگر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کی عملی جدوجہد اور اس کی کامیابی کے فوری طور پر نہ تو امکامات ہیں اور نہ ہی حالات تو اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے جو سمجھا جا رہا ہے کہ بورژوازی اپنی تمام تر بدمعاشیوں، سفاکانہ جبر، استحصال اور وحشت ناک خونریزی کے باوجود ان کے پہلے مرحلے کی تکمیل کا عملی کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔ اس بنیاد پر جب یہ کمیونسٹ پارٹیاں خود سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی عملی جدوجہد ترک کر چکی ہیں تو اگر یہ کمیونسٹ پارٹیاں قوموں کے حق خود ارادیت اور حق علیحدگی کے اُصول کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کرتی ہیں تو اس کا نتیجہ یقیناًبہتری اور سماج کو آگے لے جانے کی بجائے ہندوستانی ریاست کی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر خونریز ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں برآمد ہو گا۔ جو موجودہ کیفیت سے بھی زیادہ بھیانک تناظر ہو گا۔ لیکن اگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قومی علیحدگی کی حمایت کا موقف غلط ہے تو دو مراحل پر مبنی انقلاب کے نظریے پر کار بند رہتے ہوئے موجودہ کیفیت اور سرمایہ دارانہ استحصال کے ساتھ مظلوم اقوام پر ریاستی جبر کی خاموش حمایت بھی ایک جرم بن جاتا ہے۔ اس لیے ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں دو مراحل پر مبنی انقلاب کی نظریے کو ترک کرتے ہوئے اگر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو اپنی بنیاد بناتی ہیں تو وہ بہت تیزی کے ساتھ کشمیر سمیت ہندوستان کی تمام مظلوم قومیتوں کے محنت کش طبقات کو اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑنے کی جدوجہد میں طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی نجات کو یقینی بنا سکتی ہیں۔
صرف سوشلسٹ انقلاب کو برپا کرنے کی ناقابل مصالحت جدوجہد کو اپنی بنیاد بناتے ہوئے ہی قومی سوال پر مارکسزم کے بنیادی اُصول پر عملدرآمد ممکن ہے۔ اس لیے کشمیر سمیت پورے ہندوستان میں محنت کش طبقات اور کمیونسٹوں کو مارکسزم کے نظریات کو دوبارہ اپنی بنیاد بنانے کیلئے پارٹیوں کے اندر اپنی جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا۔ خاص کر کشمیر کی کمیونسٹ پارٹی کو ان بار بار اُبھرتی ہوئی نوجوانوں کی تحریکوں کو مارکسزم کے حقیقی نظریات، انقلابی پروگرام اور پلیٹ فارم مہیا کرنا ہو گا۔ اگر پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں مارکسزم ایک بڑی قوت کے طور پر سیاسی اُفق پر نمودار ہوتی ہے تو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں اور کمیونسٹ پارٹی پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف مارکسی قوتوں کی بڑھوتری مسئلہ کشمیر کے حقیقی حل سمیت پورے برصغیر کے محنت کشوں کو اس سرمایہ دارانہ جہنم سے نجات کا راستہ دکھا سکتی ہے۔
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – مسئلہ کشمیر کا مسئلہ!