تحریر: | زین العابدین |
کہنے کو تو نوجوان پاکستان کی کل آبادی کے قریباً ساٹھ فیصد پر مشتمل ہیں مگر ان نوجوانوں، جن میں طالبعلم اور محنت مزدوری کرنے والے نوجوان دونوں شامل ہیں؛ کے عمومی حالات کیاہیں؟ یہ کیا سوچتے ہیں؟ کیوں سوچتے ہیں؟ یہ نوجوان کن مسائل کا شکار ہیں؟ اس پر بہت کم بات سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔ طرح طرح کی خبریں روزانہ اخبارات اور میڈیا چینلوں کی زینت بنتی ہیں۔ کبھی سیاستدانوں کی کرپشن کا شور ہوتا ہے تو کبھی نئی سیاسی پارٹیاں بننے کی خبریں آتی ہیں۔ کبھی اس ملک کے حکمرانوں کی جانب سے ایک رات میں اس ملک کے مسائل ختم کر دینے کی نوید سنائی جاتی ہے تو کبھی ان سیاسی مداریوں کی جانب سے ایسی ایسی نورا کشتیاں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ عام انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ اس ملک کے حکمران ہیں۔ اسی طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ فوجی اشرافیہ کی جانب سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے،دہشتگردوں کی کمر توڑ دینے اور ملکی دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے کے دعوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔کبھی پاک بھارت کرکٹ میچ کو اس طرح پیش کیا جاتاہے جیسے اگر بھارت ہار گیا تو اس ملک کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے تو ساتھ ہی کرکٹ میں بھی سیاست اور کرپشن کی خبریں آتی ہیں۔ مگر جس پر شاید ہی کبھی کوئی بات سننے کو ملتی ہے وہ اس آبادی کا وہ کثیر حصہ ہے جوان تماشوں کو دیکھ رہا ہے، سمجھ بھی رہا ہے اور اس سب سے شدید بیزار بھی نظر آتا ہے اور وہ اس ملک کے نوجوان ہیں جو سماج میں موجود مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔جس ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہو تو ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان نوجوانوں کی اکثریت کس طبقے سے تعلق رکھتی ہوگی۔ سماج میں موجود ان گنت مسائل ان نوجوانوں پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ دن بدن بڑھتی مہنگائی، فیسوں میں اضافہ، سیاسی ومعاشی بحران، اخلاقی گراوٹ اور ایسے بے شمار مسائل ان نوجوانوں کی زندگیوں کو تلخ کرتے جا رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھایا جائے ایک بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ ہم کس عہد میں زندہ ہیں اور اس عہد کا کردار کیا ہے؟ آج عالمی سطح پر ہنگامہ خیز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کا تصور بھی چند سال پہلے محال تھا۔ عالمی سیاسی و معاشی منظرنامہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ پر نظر دوڑائیں تو امریکی سیاست ایک نیا رخ لیتی دکھائی دیتی ہے جس کا اظہارامریکی صدارتی انتخابات کے لئے نامزدگیوں کے چناؤ میں نظر آتا ہے۔ سوشلزم کا لفظ جو امریکی سماج میں گالی سمجھا جاتا تھا آج سب سے زیادہ بحثوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ یورپ پر نظر ڈالیں تو یورپی یونین تباہی کے دہانے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ دنوں میں نئی سیاسی پارٹیاں بن اور ٹوٹ رہی ہیں۔برطانیہ میں کٹوتیوں کے خلاف مزاحمت نظرآتی ہے تو فرانس میں عام ہڑتال ہو رہی ہے۔ یونان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کٹوتیوں کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے بد سے بد تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہی حال یورپ کے باقی ملکوں کا ہے۔ مشرق وسطیٰ جنگ کے شعلوں میں لپٹا نظر آتا ہے۔ افریقہ اور ایشیاء میں غربت، افلاس، بھوک، ننگ اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ اور یہ سب بے وجہ نہیں ہے۔ یہ اس زر کے نظام کا بحران ہے جو کہ عالمی ہے۔ اور پاکستان سمیت دنیا کا ہر ملک اس بحران کا شکار نظر آتا ہے اور کیوں نہ ہوں آخریہ سب ایک کل کا حصہ ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اس بحران کا سب سے زیادہ شکار نوجوان اور محنت کش ہی ہیں۔
آج پاکستان میں نوجوانوں کو مہنگی تعلیم، روزبروز بڑھتی ہوئی فیسیں، بے روزگاری جیسے خوفناک مسائل کا سامنا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ تعلیم جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے؛ آج ایک عیاشی بن کر رہ گئی ہے جو چند لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ تعلیم کا کاروبار آج سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکاہے جو کہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ جس طرح برسات کے موسم میں کھمبیاں اگتی ہیں ٹھیک اسی طرح نجی تعلیمی ادارے اگ رہے ہیں۔ تعلیمی بجٹ جو پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے اس کو بھی کم کیا جارہا ہے اور سرکاری تعلیمی ادارے کوڑیوں کے بھاؤبیچے جا رہے ہیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ تعلیمی اداروں کی لوٹ سیل کا عمل زوروشور سے جاری ہے۔ تعلیم بیچی جاتی ہے اور بس وہ ہی خرید سکتا ہے جس کی جیب میں پیسے ہوں۔ یونیورسٹیوں کالجوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق درمیانے طبقے اور نچلے درمیانے طبقے سے ہے کیونکہ مہنگی تعلیم اور معاشی بوجھ آبادی کی وسیع اکثریت سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیتا ہے۔ اور جس رفتار سے تعلیم مہنگی ہو رہی ہے اب تو درمیانے طبقے کی لئے بھی تعلیم کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے۔ مگر نوجوانوں کے اس معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے۔ ان تعلیمی اداروں میں طالبعلموں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ ایک دوڑ کا سماں نظر آتا ہے مگر کس لئے دوڑ رہے ہیں یہ معلوم نہیں۔ طرح طرح کے ٹیسٹوں کے نام پر طلبہ کو مسلسل ایک دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ اور جن اداروں میں سمسٹر سسٹم رائج ہے وہاں یہ ظلم مزید بڑھ جاتا ہے۔ جہاں سال میں دو بار فیس ادا کرنا پڑتی ہے تو وہیں تھوک کے حساب سے ملنے والی اسائنمنٹس اور پروجیکٹس ایک طرف تو معاشی بوجھ بڑھاتی ہیں تو دوسری طرف طلبہ کو مسلسل دباؤ میں رکھتی ہیں۔ اور ان نام نہاد اسائنمنٹس کا مقصد سوائے سٹوڈنٹس کو ذہنی اذیت دینے کے اور کچھ نظر نہیں ہوتا۔ اس سے بھی بڑھ کر جو سب سے بڑا ظلم دیکھنے کو ملتا ہے وہ پروفیشنل ازم کے نام پر خوب زوروشور سے مسلط کی جانے والی گھٹیا مقابلے بازی کی نفسیات ہے۔ ایک ساتھ بیٹھنے اورپڑھنے والوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے نفرت اور حسد کی آگ جل رہی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ جس قسم کی اخلاقیات مسلط کی جاتی ہے وہ ان تضادات کومزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ مقابلے بازی جہاں حد درجہ کیرئرازم کو بڑھاوا دیتی ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ مذہبیت کو بھی پروان چڑھاتی ہے اور یہ دونوں اسی نظام کے پروردہ ہیں۔
مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ یہ نوجوان جیسے تیسے ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں تو ان کوبے روزگاری کی دلدل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے سارے خواب ہوا ہوجاتے ہیں اور سب سپنے ٹوٹ جاتے ہیں۔ بے روزگاری کینسر کی طرح سماج کی رگوں میں پھیل چکی ہے اور ان نوجوانوں کو چاٹ کھا رہی ہے۔ ان نوجوانوں کے جذبات، احساسات اور نفسیات کو مجروح کر رہی ہے۔ جہاں انفرادی بقا نا ممکن ہوتی جا رہی ہو وہاں گھر کا بوجھ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ اول تو نوکریاں دستیاب ہی نہیں اور جہاں ہوں تو وہاں انٹری ٹیسٹ پاس کیے بغیر نوکری نہیں ملتی۔ ان ٹیسٹوں سے بے روزگاری کو جواز فراہم کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بے روزگاروں کا انٹری ٹیسٹ فیس کے نام پر معاشی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ بے روزگاری کا یہ عفریت ایک طرف انفرادی بقا کو بڑھاوا دے کر نوجوانوں کو بیگانہ کر رہا ہے تو دوسری طرف یہ دہشت گردوں اور منشیات کا دھندہ کرنے والوں کے لئے خام مال بھی ہے۔ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو کریہ نوجوان منشیات اور جرائم کی جہنم میں اتر جاتے ہیں اور کچھ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور خودکشیوں کے یہ واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ترقی یافتہ ممالک بالخصوص یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ جا نے کی آرزومند نظر آتی ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید وہاں جا کر اپنا مستقبل محفوظ بنا سکیں۔ اور ان میں سے کچھ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ فریب بھی جلد ہی اپنی حقیقت آشکار کر دیتا ہے کہ وہاں بھی حالات کچھ مختلف نہیں۔جس کا اظہار ان ممالک میں آئے روز ہونے والے مظاہروں میں مقامی نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد میں کی شرکت سے ہوتا ہے۔
اس سب پرملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو بنیاد بنا کر تعلیمی اداروں میں کئے جانے والے نام نہاد سکیورٹی اقدامات ہیں جو اس جبر میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔خاص طور پر آرمی پبلک سکول پشاور کے اندوہناک واقعے کے بعد تو تعلیمی ادارے فوجی بیرکوں کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں، بیریرز اور خاردار تاریں عام دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان انتظامات کا بظاہر مقصد تو تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانا ہے مگر درحقیقت اس کا مقصد طلبہ کی طرف سے ہونے والی ممکنہ مزاحمت کو روکنا ہے کیونکہ ان حکمرانوں کے پاس طلبہ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ کئی اداروں میں تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ہاسٹل کے طالبعلم کا دوسرے ہاسٹل میں داخلہ ممنوع ہے۔ دہشت گرد جہاں چاہیں آجا سکتے ہیں مگر ایک ادارے کے طالبعلم کا دوسرے ادارے میں جانا منع ہے۔ ظاہر ہے اس کا مقصد ان نوجوانوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر اور تقسیم کر کے رکھنا ہے کہ کہیں یہ اکٹھے ہو کران حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔ مگر یہ ان حکمرانوں کی بھول ہے کہ ان اونچی اونچی دیواروں، خاردار تاروں اور مسلح جتھوں سے ان نوجوانوں میں پلنے والی نفرت اور بغاوت کو اظہار سے روک لیں گے۔
پچھلے عرصہ میں ایسے بہت سے واقعات اور چھوٹی بڑی تحریکیں پاکستان کے قریباً تمام بڑے تعلیمی اداروں میں دیکھنے کو ملی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ہو یا جامعہ کراچی، پشاور یونیورسٹی ہو یا قائد اعظم یونیورسٹی ہر جگہ اس جبر کے خلاف طلبہ اپنی نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے عرصہ میں پنجاب یونیورسٹی میں متعدد بار ہمیں طلبہ جمعیت کی غنڈہ گردی کا جواب دیتے نظر آتے ہیں اور ان غنڈہ گردوں کو یونیورسٹی سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی میں مذہبی غنڈوں نے طالبات کو کرکٹ کھیلنے پر تشدد کا نشانہ بنایا جس کے خلاف پوری یونیورسٹی میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور جواباً یونیورسٹی کی طالبات نے سرعام اکٹھے ہو کر احتجاجی کرکٹ کھیلی اور جمعیت کو اس عمل کو برداشت کرنا پڑا۔ اسی طرح پشاور یونیورسٹی میں بھی فیسوں میں اضافے کے خلاف تحریک دیکھنے کو ملتی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی میں فیسوں میں دن بدن بڑھتے ہوئے اضافے اور وائس چانسلر کے طلبہ کے بارے توہین آمیز بیان کے بعد طالب علموں کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے کو ملا جس کے بعد مزید احتجاج کے ڈر سے یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا۔ اسی طرح گومل یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے اور ہاسٹلوں میں ناکافی سہولیات کی وجہ سے انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ جس کے بعد یونیورسٹی بند کر دی جاتی ہے۔ یہ واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ جو نوجوانوں کے عمومی حالات اور ان کے شعور میں ہونے والی تیز تبدیلیوں کی غمازی کرتے ہیں۔
ایسے میں جس چیز کی زیادہ شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے وہ ایسے پلیٹ فارمز کی عدم موجودگی ہے جہاں سے طلبہ اپنے مسائل کے حل کی آواز بلند کر سکیں اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر سکیں۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ اگر ایسے پلیٹ فارمز موجود ہوتے تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔ آج طلبہ عمومی سیاست سے لاتعلقی اور بیزاری کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور یہ ان کے بلند شعور کی بھی غمازی کرتا ہے۔ سٹوڈنٹس یونین ہی وہ ادارہ ہوتا ہے جہاں سے طلبہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے اور جدوجہد کرتے ہیں مگر پاکستان میں 1984ء سے طلبہ یونین پر پابندی ہے اور یہ پابندی ضیا آمریت کے دوران سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائی گئی تاکہ طلبہ کی تحریکوں کو روکا جا سکے اور اس کے بعد رجعتی طلبہ تنظیموں کو ریاستی سرپرستی میں تعلیمی اداروں پر مسلط کر دیا گیا۔ جس میں اسلامی جمعیت طلبہ اور مسلم سٹودنٹس فیڈریشن قابل ذکر ہیں۔ نظریات سے عاری ان تنظیموں کا مقصد تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس پھیلانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ تعلیمی اداروں میں اسلحہ کلچر کا فروغ، منشیات کا استعمال اور حتیٰ کہ ڈاکے اور چوریاں تک ان کا معمول تھا۔ اس عمل نے ماضی میں ہونے والی طلبہ سیاست کے کردار کو یکسر مسخ کر دیا اور طلبہ سیاست کے مثبت پہلوؤں کو مجروح کرتے ہوئے سیاست کو محض غنڈہ گردی اور آوارہ گردی بنا دیا گیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلبہ کو سیاست سے متنفر کیا گیا اور پھر سیاست طلبہ کے لئے ایک شجر ممنوعہ بنا دی گئی۔ آج کسی طالب علم سے طلبہ سیاست پر بات کی جائے تو وہ اس کو غنڈہ گردی اور نفرت ہی سمجھتا ہے۔ مگر طلبہ مسائل کا حل ابھی بھی سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی جدوجہد کے ساتھ منسلک ہے۔ یہی وہ ادارے ہیں جن میں منظم ہو کر وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر سکتے ہیں جو کہ ان کا جمہوری حق بھی ہے۔ جس طرح ہندوستان کے طلبہ حال ہی میں ایک شاندار جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک اپنے اندر پاکستان کے طلبہ کے لئے بہت سے اسباق رکھتی ہے۔
ایک طویل عرصہ سے طلبہ سیاست پر پابندی کی وجہ سے جہاں طلبہ ماضی کی شاندار سیاسی روایات سے ناواقف ہیں تو دوسری طرف روز بروز بڑھنے والے مسائل مہنگائی، بیروزگاری، ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کے مسائل، ڈسپلن کے نام پر ہونے والا جبر، یہ سب ان کے شعور میں تیز ترین تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔ آج نوجوانوں کی جانب سے عمومی سیاست سے بیزاری اور نفرت کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان سیاسی نوراکشتیوں سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس دھوکوں کے سوا نوجوانوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ چند سال پہلے تحریک انصاف کی شکل میں بننے والا بلبلہ جس نے درمیانے طبقے کے نوجوانوں کو تحریک دی جلد ہی بیٹھ گیا اور آج نوجوان تحریک انصاف سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی مسلم لیگ سے یا پیپلز پارٹی سے۔ ایسے میں یہ نوجوان نئے نظریات کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے ان مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ جس شدت سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہی نوجوانوں میں انفرادیت پسندی اور کیرئیرازم کی طرف رجحان بھی بڑھتا ہے مگر یہ کیفیت لمبے عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی کیونکہ اس نظام میں ان کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا۔
آج نوجوان اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ ان مروجہ پارٹیوں کے پاس مسائل سے نبٹنے کا کوئی واضح پروگرام موجود نہیں ہے سو ایسے میں کسی نئے متبادل کی تلاش اور جستجو بھی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ آج پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں بکھری بکھری اور چھوٹی چھوٹی تحریکیں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو مستقبل کے واقعات کا عندیہ بھی دے رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ خود کو منظم کریں اور اس کے لئے پہلا قدم طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد ہے جس میں ان کی براہ راست شمولیت ہو گی۔ اور طلبہ یونین کی بحالی سے نہ صرف نظریاتی سیاست کا احیا ہو گا بلکہ تعلیمی اداروں میں ایک مثبت بحث و مباحثے کا آغاز بھی ہو گا جو انہیں اس نظام کی حرکیات کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا اور وہ ریڈیکل نظریات کی جانب راغب ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکوں کی ابتدا انہی نوجوانوں سے ہوتی ہے، یہی نوجوان جب حرکت میں آتے ہیں تو سماج کے دوسرے پسے ہوئے طبقات کو بھی تحرک میں لاتے ہیں۔ آج اس بربریت میں یہی نوجوان روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ نوجوان مستقبل ہیں!