|تحریر: راشد خالد|
گزشتہ مہینے کا آغاز ایک انتہائی دلخراش واقعے کے ساتھ ہوا جب NFCفیصل آباد کے طالب علم سیف اللہ جمالی نے کم نمبر آنے کے باعث یونیورسٹی گیٹ پر خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ اور یہ صرف ایک خبر ہے اس طرح کے دلخراش واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ روزانہ کئی ایک خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ فلاں جگہ فلاں نوجوان نے کم نمبر آنے یا بیروزگاری سے تنگ آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا دباؤ اور شدید جبر بھی طلبہ کے نروس بریک ڈاؤن کا باعث بنتا ہے اور ابھی سیف اللہ جمالی کے خون کے دھبے دھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ یونیورسٹی آف لاہور گجرات کیمپس کی اقرا حمید کی یونیورسٹی انتظامیہ کے دباؤ کے باعث برین ہمیریج سے موت کی خبر منظر عام پر آ چکی ہے۔ صرف اس ایک سال کو دیکھا جائے تو تعلیمی مسائل یا بیروزگاری سے تنگ آ کر نوجوانوں کا اپنا زندگیوں کا خاتمہ کر دینے کے واقعات سینکڑوں میں ہیں۔ یہ کیسا تعلیمی نظام ہے جو ہمارے نوجوانوں کو ایک سہانے مستقبل کے لئے لڑنے کی شکتی دینے کی بجائے اندر سے کھوکھلا کر کے زندگی سے ہی بیزار کر دیتا ہے؟ اور یہ کیسا نظام ہے جو بچوں کو تعلیمی مسائل سے نبٹنے کی صلاحیت تک فراہم نہیں کر سکتا؟
یوں تو دنیا بھر میں لاتعداد کہانیاں، بے شمار افسانے اور ان گنت شاعری نوجوانی کے دنوں کی یاد میں تحریر کی گئی ہے اور کی جاتی ہے۔ نوجوانی کے دنوں کا لاابالی پن، کچھ کر جانے کی لگن ، سہانی یادیں اور نہ جانے کیا کیا موضوعات تحریر کئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس تمام تر افسانوی دنیا اور آج کے عہد کی زندہ حقیقتوں کا موازنہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ ان کا باہم دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بالخصوص جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس میں نوجوانی تو دور کی بات ہے، ایک بڑی اکثریت بچپن سے ہی معاشی مسائل کے ایسے گھن چکر میں الجھ جاتی ہے کہ نوجوانی کی تمام تر رعنائیاں ان کے لئے مفقود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اور جن کو بچپن میں ذرا فراغت نصیب ہو بھی تو نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ذمہ داریوں کا ایک ان دیکھا بوجھ ان کے سامنے موجود ہوتا ہے ۔ یہ اکثریت اپنی تمام تر زندگی انہی ذمہ داریوں کو پورا کرتے کرتے پرلوک سدھار جاتی ہے۔
گو کہ یہ ملک یوں تو پوری آبادی کے لئے ایک مسائلستان ہے لیکن ہماری نوجوان نسل کے لئے اس ملک میں زندگی یقیناًایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 64فیصد 30سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اور اگر اس میں 15سے 29سال کی عمر کے افراد کا تناسب دیکھا جائے تو یہ کل آبادی کا 29فیصد بنتے ہیں۔ یہ نسل ایسے حالات میں تاریخ کے میدان میں اتر رہی ہے جب ایک طرف تو عالمی معاشی بحران نہ صرف شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے بلکہ ملکی سطح پر بھی سیاسی اور معاشی بحران تاریخ کی کبھی نہ دیکھی گئی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ سہانہ مستقبل ان کے لئے کوئی خواب بھی نہیں کہ ان کے والدین کی نسل تمام تر محنت و مشقت کی زندگی گزارنے کے باوجود انہیں ایک معیاری زندگی فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور یہی وجہ ہے کہ اس نسل کے لئے مستقبل میں اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کسی بہتری کی امید بھی موجود نہیں ہے۔
سماج کی بوسیدگی کی انتہا اس نوجوان نسل کو اپنی زندگی کے ہر ہر پہلو میں نظر آ رہی ہے۔ جہاں نصف سے زائد بچے سکول جانے کی عمر میں کام کے اوزار سنبھال لیتے ہیں اور جو سکولوں میں پہنچ جاتے ہیں ان کی بھی ایک اکثریت تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ چاہے تعلیم ہو یا نہ ہو، بہرصورت روزگار حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ زندگی کی کوئی بھی آسائش ان کی پہنچ میں ہے ہی نہیں۔ UNDPکے ایک سروے کے مطابق پاکستان کی نوجوان نسل کے 95فیصد کے پاس کسی لائبریری کی سہولت موجود نہیں، 93فیصد کے پاس کھیلوں کے میدان یا دیگر مواقع دستیاب نہیں، 78فیصد کوپارکس دستیاب نہیں، 97فیصد سینما نہیں جا سکتے اور 71فیصد ایسے ہیں جن کے پاس ان میں سے کوئی ایک سہولت بھی دستیاب نہیں۔ یعنی یہ نسل انسانوں کو دستیاب سہولتوں کے بنا ہی پروان چڑھ رہی ہے۔
ایسے میں یہاں کا حکمران طبقہ جو کہ تاریخی طور پر کبھی بھی عوام کو ایک مناسب زندگی دینے میں سنجیدہ نہیں رہا، مزید وحشی اور خونخوار ہوتا جا رہا ہے۔ اپنے مفادات اور منافعوں کو برقرار رکھنے کے لئے یہ عوام سے تمام تر رہی سہی سہولیات بھی چھینتا جا رہا ہے اور انہیں غربت اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلتا جا رہا ہے۔ لیکن سماج کبھی بھی محض حکمران طبقات کی خواہشوں کے تابع نہیں ہوتے۔ اس حکمران طبقے کی ہوس کا شکار بننے والے یہی کروڑوں لوگ اس حکمران طبقے کے گلے کا ایسا پھندہ بنیں گے کہ نہ تو یہ حکمران طبقہ اپنا وجود برقرار رکھ پائے گا اور نہ ہی اس کی حکمرانی کا نظام۔
جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ پاکستان میں سکول جانے کی عمر والے نصف سے زائد بچے سکول جا ہی نہیں پاتے۔ اس بات کو کرنے کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ جو بچے سکول کی دہلیز پر قدم رکھ لیتے ہیں ان کے لئے کوئی سہانا مستقبل یقینی ہو جاتا ہے۔ ان کے لئے بھی نئی سے نئی مشکلات ہر قدم پر پھن پھیلائے بیٹھی رہتی ہیں۔ تعلیم، علاج اور اس جیسی دیگر بنیادی سہولیات کبھی بھی یہاں کے حکمران طبقے کی ترجیح رہی ہی نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملکی جی ڈی پی کا 2فیصد سے کم تعلیم کے شعبے کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ یعنی نئی پروان چڑھنے والی نسل جس کو یہی حکمران اور ان کے دانشور ملک کا مستقبل کہتے نہیں تھکتے، ان کو تعلیم جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنا ان حکمرانوں کی آخری ترجیح ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو تباہ کرنا اور نجی شعبے کو پروان چڑھانا ایک طویل وقت سے ان حکمرانوں کا خاصہ ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں پر تعلیم کے سرکاری شعبے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ایسی پالیسیاں مرتب کی گئیں کہ یہ نجی شعبے کے ساتھ مقابلہ بازی میں پیچھے رہے اورپھر اس مقابلہ بازی میں نجی شعبے کی برتری کو مزید ہولناک پالیسیاں ترتیب دینے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری بھی اسی پروپیگنڈے کی بنیاد پر شروع کر دی گئی۔
نجکاری کی پالیسی کے تحت ہی ابتداء میں یونیورسٹیوں اور کالجز کے فنڈز میں کٹوتیاں کی گئیں۔ یونیورسٹیوں پر بورڈ آف ڈائریکٹرز مسلط کر تے ہوئے ان کے فنڈز کو کم کر کے یہ ڈیمانڈ کی گئی کہ ادارے اپنے فنڈز خود جنریٹ کریں جس کی وجہ سے ایک تو تعلیم اتنی مہنگی ہو گئی کہ اچھی خاصی مڈل کلاس کی پہنچ سے بھی باہر ہونے لگی اور دوسری طرف سیلف فنانس اور اس طرح کی دیگر امیر پرور پالیسیاں پروان چڑھنے لگیں۔ یہی نہیں بلکہ نجی تعلیمی ادارے کھمبیوں کی طرح اگنا شروع ہو گئے؛ نجی سکول سسٹم، نجی کالجز اور نجی یونیورسٹیاں وغیرہ۔ اور اس نجی شعبے کی میڈیا اور اشتہارات میں تو بڑی چکا چوند دکھائی جاتی رہی اور ابھی بھی دکھائی جاتی ہے لیکن ان کے کیمپس تک دکانوں، مکانوں اور کوٹھیوں میں کھلے ہوئے ہیں جو کسی طور ایک تعلیمی ادارے کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی انتہا کے باعث ان نجی اداروں کو سٹاف کی کمی کبھی نہیں رہی لیکن معیار رٹے اور زیادہ سے زیادہ نمبروں کا مقرر کیا گیا اور ایک دوڑ سی لگ گئی۔ ان نجی تعلیمی اداروں کی حالت کا اندازہ صرف پاکستان میں نجی یونیورسٹیز اور ایچ ای سی کے مابین تضادات سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ایچ ای سی کے مطابق اس وقت پاکستان میں 165یونیورسٹیز کام کر رہی ہیں جو ایچ ای سی سے تصدیق شدہ نہیں ہیں اور اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں میں ایچ ای سی نے پورے پاکستان میں 150سے زیادہ یونیورسٹیوں کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود آئے روز نئے سے نئے سکینڈل کھل کر سامنے آ رہے ہیں جس میں یونیورسٹیوں کے دیگر شہروں میں کھلنے والے کیمپسوں کی ڈگریوں کا ایچ ایس سی سے مصدقہ نہ ہونے کے مسائل سب سے زیادہ منظر عام پر آئے۔ ابھی بھی یونیورسٹی آف سرگودھا کے لاہور کیمپس کے سینکڑوں طلبہ احتجاج در احتجاج میں مصروف ہیں لیکن ان طلبہ سے کروڑوں روپے فیس کے نام پر بٹورنے کے باوجود ان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ اس سے قبل کامسیٹس میں بھی دوہری ڈگری کے پروگرام کے نام پر طلبہ سے اربوں روپے کمائے گئے جس کے عوض طلبہ کو ایک بیرون ملک یونیورسٹی کی جعلی ڈگریاں فراہم کی گئیں جن کو بعد میں ایچ ای سی نے ہی ماننے سے انکار کر دیا۔ ابھی تک ان پروگرامز میں داخل ہونے والے طلبہ کی ڈگریوں کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ اس سے قبل بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے لاہور کیمپس کی ڈگریوں کا معاملہ بھی سرگرم رہا جسے بعد میں طلبہ کی مین کیمپس میں منتقلی پر نبٹایا گیا۔ اگر اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا یہ حال ہے تو نجی شعبے کے کالجوں اور سکولوں کے نام پر کیا کھیل رچایا جا رہا اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹیوں میں کرپشن کے خلاف ’ مہم ‘بھی آج کل اپنے عروج پر ہے۔ حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر اینڈ کمپنی اور یونیورسٹی آف سرگودھا کے سابقہ وائس چانسلر کی کرپشن کے کیس میں گرفتاری پر میڈیا میں کافی ہلچل رہی ہے۔ بالخصوص پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر عملے کی ہتھکڑیوں میں تصاویر کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر پروپیگیٹ کیا گیا اور کہا جاتا رہا کہ اساتذہ کی عزت کو یوں نیلام نہیں کیا جانا چاہئے۔ اخلاقی اعتبار سے اس کو ایک حد تک درست کہا جا سکتا ہے کہ جب سینکڑوں افراد کے قتل کے ملزمان اور مجرمان اور اربوں کی کرپشن کے کیسوں میں ملوث افراد کو پروٹوکول میں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہو، وہاں اساتذہ کے ساتھ اس طرح کا سلوک واقعی قابل مذمت ہے۔ لیکن اس بحث کے پیچھے اس پروفیسر مافیا کی کرتوتوں کو چھپانا بھی ہرگز درست نہیں ہو گا۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم دشمن پالیسیوں کو لاگو کروانے میں اس پروفیسر مافیا کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی کے نام پر انہی مافیاز نے تعلیمی اداروں کو جیل خانہ جات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ طلبہ کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر سب سے پہلی مخالفت کا سامنا بھی انہی پروفیسرز کی طرف سے کرنا پڑتا ہے۔ انہی پروفیسروں نے تعلیمی اداروں کو غیر سیاسی بنانے کے نام پر طلبہ حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کے خلاف تو شدید تادیبی کاروائیاں کیں لیکن ریاستی ایما میں پلنے والی جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کے خلاف کبھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا بلکہ ان کی مکمل پشت پناہی اور ان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا رہا۔ اور انہی پالیسیوں کی وجہ سے آج تعلیمی ادارے طلبہ کے لئے ایک ایسا پریشر ککر بن گئے ہیں جہاں ان کو سوائے ڈپریشن کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
لیکن تعلیمی اداروں میں کرپشن کیخلاف مہم کو پھر یہ حکمران ایک بالکل غلط رنگ سے بھی پیش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ وہ کونسی پالیسیاں تھیں اور کس نے مرتب کی تھیں جن کے تحت یہ وائس چانسلرز اتنے بااختیار ہوئے کہ بڑے پیمانے کی کرپشن کر سکیں۔ یونیورسٹیوں کی آزاد مینیجنگ باڈیز ترتیب دینے کا مطلب جہاں تعلیمی شعبے کا بوجھ ریاست کے سر سے ہٹا کر غریب عوام کے کندھوں پر منتقل کرنا تھا وہیں اس کرپشن کے بیج بھی اس میں موجود تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس عمل میں یونیورسٹیوں اور ان کی دیگر شہروں میں فرنچائزوں کے کاروبار سے اربوں روپیہ کمایا گیا۔ اور اس کھیل میں ریاست کے بالا ادارے اور ان اداروں کے افسران براہ راست شامل تھے۔ اگر تعلیمی اداروں میں کرپشن کے خلاف کاروائی کی جانی ہے تو ان تمام تر افراد کو برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے جن کی اس کھیل کو دیکھ کر رالیں ٹپکنا بند ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ یہ نام نہاد مہم محض نچلے لیول کے افراد کو قربانی کا بکرا بنا کر اصل ذمہ داروں کو تحفظ فراہم کرنے کی کاروائی ہے۔ لیکن اس نظام میں کبھی بھی کسی جرم کے محرکات کو سمجھنے کی نہ تو کوشش کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے تدارک کی کوشش ہوتی ہے۔ اس نظام کا وطیرہ ہے کہ مرض کا علاج کرنے کی بجائے اس کی علامات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ بہرحال یہ عمل تعلیمی اداروں کو غیر سیاسی رکھنے والے اساتذہ و پروفیسرکرام کے لئے بھی ایک چتاونی ہے کہ جس پالیسی کے تحت ان کو تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ مزاحمت ختم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا وہی پالیسیاں ان معزز حضرات کے اپنے گلے کا پھندہ بھی بن رہی ہیں۔ سیاست سے نفرت سکھانے والے ان حضرات کو اس عمل سے بہرحال اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ان کے جرائم نے طلبہ میں سیاست سے دوری کو جنم دیا اور تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کی تباہ کاری کے راستے ہموار کئے۔
بطور کل پاکستان کا تعلیمی نظام طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی بجائے ایک کاروباری عمل بن کر رہ گیا ہے اور کوئی ایسا ویسا نہیں بلکہ ایک بڑے پیمانے کا منافع بخش کاروبار۔ اس منافع کے حصول کی دوڑ میں نئے نئے کھلاڑی اس میدان میں اترنا شروع ہو ئے۔ چھوٹی چھوٹی کوٹھیوں میں سپیس سائنس تک پڑھائی جانے لگی اور’ اعلیٰ‘ ڈگریاں جاری کی جانے لگیں۔ طلبہ کو انسان سمجھنے کی بجائے ایک کسٹمر کی طرح ڈیل کیا گیا اور اسی وجہ سے طلبہ نے علمی میدان میں نمبروں کی دوڑ میں تو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے لیکن ان کی حقیقی علمی اور ذہنی قابلیت پست ہوگئی۔ پس اس نظام نے نوجوانوں کو ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے جہاں ان کا واحد مقصد اچھے گریڈز میں پاس ہونا ہی رہ گیا ہے۔
ان تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ساتھ کیا سلوک جاری ہے۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو بلیک میل کرنا ایک معمول ہے۔ یہاں تک کہ طالبات کو جنسی بنیادوں پر ہراساں کرنے اور استعمال کرنے کا ایک پورا نیٹ ورک تشکیل پا چکا ہے جہاں ان کو فیل کرنے کی دھمکی سے ہی ان وحشیوں کے مذموم مقاصد پورے ہو جاتے ہیں۔ یہ کھیل کل تک پس پردہ تھا۔ جس کی ایک بڑی وجہ طالبات پر موجود سماجی دباؤ ہے لیکن پھر چیدہ چیدہ کیس کھل کر سامنے آنے لگے جس سے ان درندہ صفت پروفیسرز اور انتظامیہ کے دیگر افراد کے ’’کارہائے نمایاں‘‘ ہمارے سامنے آشکار ہونے لگے۔ طلبہ کا مستقبل براہ راست اس پروفیسر مافیا کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے اس ظلم کے خلاف کوئی منظم آواز ابھی تک موجود نہیں ہے۔ لیکن انفرادی پیمانے پر اس کے خلاف ابھرنے والا ردعمل ایک بڑی مزاحمت کو سطح کے نیچے پروان چڑھا رہا ہے اور جلد یا بدیر طلبہ کی ایک بلند اور طاقتور آواز اس کے خلاف ابھر کے سامنے آئے گی۔
تمام تر جبر کے ہتھکنڈوں کے باوجود طلبہ میں ایک نیا معمول حالیہ عرصے میں پروان چڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ معمول ہر مسئلے پر طلبہ کی طرف سے احتجاج کا منظم ہونا ہے۔ طلبہ سیاست کو یوں تو دہائیوں کی سماجی برین واشنگ کے ذریعے اس حد تک طلبہ کے لئے ناقابل قبول بنایا گیا ہے کہ سیاست کے ذکر پر عمومی طور پر طلبہ فوری طور پر دلچسپی نہیں لیتے لیکن عمل میں وہی طلبہ فیسوں میں اضافوں، ہاسٹلوں کی کمی، ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل پر اب آواز بھی اٹھاتے ہیں اور کئی بار تو یہ صورتحال احتجاج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یعنی بظاہر سیاست سے دور نظر آنے والی یہ نسل لا شعوری طور پر عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھنا شروع ہو چکی ہے۔ ابھی تک بہت محدود یا چھوٹے پیمانے پر اس کا اظہار ہوا ہے لیکن طلبہ کو پورے ملک میں جس پیمانے کے یکساں مسائل کا سامنا ہے ایسی صورتحال میں آنے والے وقتوں میں ایک طاقتور اور ملک گیر طلبہ تحریک کا ابھرنا یقینی ہے۔ اور طلبہ میں دہائیوں سے پلتے غم و غصے کو دیکھا جائے تو ایسی کسی بھی تحریک کے ابھرنے کی صورت میں یہ حکمران اور ان کا نظام اپنی بنیاد وں سے ہل کر رہ جائیں گے۔ ابھی تک ابھرنے والے زیادہ تر احتجاج یا تو بغیر کسی قیادت کے ہوئے ہیں یا ان احتجاجوں نے وقتی اور حادثاتی قیادتیں تراشی ہیں۔ محض اکا دکا احتجاجوں پر ہی ماضی کی طلبہ تنظیمیں خود کو مسلط کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ یوں اگر طلبہ مسائل کو سنجیدہ بنیادوں پر حل کرنا مقصود ہے تو ہمیں طلبہ کو ملک گیر سطح پر ایک سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرنا ہو گا۔ دوسری طرف اس نئے ابھرنے والے معمول کو طلبہ کے ساتھ بحثوں میں لاتے ہوئے طلبہ مسائل کے حل کو ان کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ ایک بار پھر طلبہ میں نظریاتی بحثیں اتارنے کا وقت آچکا ہے۔ صرف اسی صورت میں طلبہ سے ایک ایسی نظریاتی قوت کو تعمیر کیا جا سکتا ہے جو اپنے محنت کش ساتھیوں کے ساتھ اتحاد بناتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکے جو کہ ان کے تمام تر مسائل کا حقیقی ذمہ دار ہے۔