|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبر پختونخواہ|
محکمہ تعلیم میں 2018ء سے بھرتی کیے گئے 64 ہزار ایڈہاک ملازمین کو تاحال مستقل نہیں کیا گیا ہے۔ ان ملازمین کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں جبکہ ان کو سالانہ انکریمنٹ بھی نہیں دیا جاتا اور نہ ہی ان کا ایک سکول سے دوسرے سکول میں تبادلہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے نزدیک کے سکولوں میں خالی پوسٹیں موجود ہونے کے باوجود یہ ملازمین دوردراز کے علاقوں میں ڈیوٹی دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی آدھی تنخواہ اپنے ڈیوٹی سٹیشن پر آنے جانے میں ہی خرچ ہو جاتی ہے۔ اس طرح مہنگائی میں ہو شربا اضافے کی وجہ سے بھی یہ ملازمین اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتے اور معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے 20 فروری کو کے پی اسمبلی کے سامنے دھرنے کی کال دی تھی۔ ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن کچھ ہی عرصہ پہلے بنائی گئی جس میں موجود تمام ایڈہاک ملازمین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انتہائی قلیل عرصے میں پورے صوبے کے اندر کرک اور بنوں سے لے کر اَپر دیر، سوات اور ہزارہ تک یونین کونسلز سے لے کر تحصیل، ضلع اور صوبائی سطح تک میٹنگز کا انعقاد کیا۔ اور ہر سطح پر کابینہ تشکیل دیں۔ ان میٹنگز میں ایڈہاک ملازمین کے مسائل پر بحث مباحثے کیے گئے اور ایک منظم انداز میں چارٹر آف ڈیمانڈ بنایا گیا۔ اس طرح دھرنے کیلئے بھر پور تیاریاں کی گئیں، میٹنگز منعقد کی گئیں اور تمام ملازمین سے فنڈ اکٹھے کیے گئے۔ ایڈہاک ملازمین کو اتنی محنت کے بعد منظم کرنے پر یقینا ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن داد کی مستحق ہے۔
17 فروری کو سیکرٹری ایجوکیشن کے دفتر سے وائی ٹی اے کی صوبائی قیادت کے ساتھ رابطہ کیا گیا اور ان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی۔ 17 فروری کو مذاکرات کا پہلا راؤنڈ ہو ا جس میں کوئی فیصلہ نہ ہو پایا اور پھر اگلا اجلاس 18 فروری صبح 10 بجے ہوا جس میں وائی ٹی اے نے تین مطالبات پیش کئے۔
1۔ تمام ایڈہاک ملازمین کی تاریخ تقرری سے مستقلی
2۔ تاریخ تقرری سے سینارٹی
3۔ ایڈہاک ملازمین کیلئے تبادلے کا حق
سیکرٹری ایجوکیشن نے ان تمام مطالبات کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ کابینہ کے اگلے اجلاس میں ایڈہاک ملازمین کی مستقلی کا بل کابینہ سے پاس کروا کر صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جس پر وائی ٹی اے نے اپنا دھرنا موخر کر دیا۔
وائی ٹی اے کا کہنا تھا کہ، اگر اگلے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ایڈہاک ملازمین کی مستقلی کا بِل پیش کر کے اسے پاس نہ کیا گیا تو بھرپور دھرنا دیا جائے گا۔ جس کیلئے تمام ملازمین تو تیار رہنے کی تلقین کی گئی۔
یقینا یہ ایڈہاک ملازمین کے اتفاق، اتحاد اور جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ حکومت کو مجبوراً ان کی شنوائی کرنا پڑی۔ لیکن ملازمین کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئیے، اس وقت ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے جس کا تمام تر بوجھ حکومت محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے اور آئی ایم ایف کے ایما پر مختلف سرکاری اداروں کی نجکاری زوروں شوروں سے جاری ہے۔ سرکاری ملازمین کو جبری طور پر بر طرف کیا جارہا ہے۔ نجکاری کے اس حملے سے صحت سے لے کر تعلیم تک کوئی شعبہ نہیں بچا ہوا۔
حکومت نے کہا ہے کہ ایڈہاک پر بھرتی کیے گئے ڈاکٹرز کو مستقل نہیں کیا جائے گا، جس پر ینگ ڈاکٹرز اسوسی ایشن نے 27 فروری کو اسمبلی ہاؤس کے سامنے دھرنے کی کال دی ہے۔ حکومت نے ایڈہاک ڈاکٹرز سے بھی بار بار وعدے کئے اور ان کو مستقل کرنے کی یقین دہانیاں کرائیں، مگر اب حکومت نے صاف طور پر کہا ہے کہ ان کو کسی صورت مستقل نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ 2018ء کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین مستقل نہیں ہوں گے، اور ان کو ایڈہاک پر رکھا جائے گا۔ جبکہ پنشن ریفارمز کے ذریعے ان ملازمین کی پنشن ختم کی جا رہی ہے۔
تمام ایڈہاک ملازمین کو حکومت کے ان تاخیری حربوں پر نظر رکھنی چاہئیے۔ حکومت مختلف ہتھکنڈوں سے احتجاجوں اور دھرونوں کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے، اس لئے ہمارے پاس جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔