تحریر: آدم پال:-
’’اگر فوج کو عوام سے اتنی محبت ہے تو اپنے سالانہ بجٹ کا نصف صحت کے شعبے کے لئے مختص کر دے‘‘
اتوار یکم جولائی کی رات سروسز ہسپتال لاہور میں ینگ ڈاکٹروں کے جنرل کونسل کے اجلاس پر پولیس کے دھاوے اور بہیمانہ تشدد کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔اس کے علاوہ پنجاب گورنمنٹ اور آئی ایس پی آرکے اشاروں پر میڈیا کاینگ ڈاکٹروں کے خلاف جانبدار رویہ بھیقابل مذمت ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی حالت زار کی ذمہ داری ینگ ڈاکٹروں پر ڈالی جا رہی ہے جبکہ شہباز شریف اور پنجاب حکومت کو بری الذمہ قرار دیا جا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خادم اعلیٰ کا ڈھونگ رچانے والا ظالم وزیر اعلیٰ خود ینگ ڈاکٹروں کے ساتھ کیے گئے بہت سے وعدوں کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ینگ ڈاکٹروں کی جانب سے ان وعدوں کی کئی دفعہ یا ددہانی کرائی گئی لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔اس کے بعد انہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال کی تیاری شروع کر دی اور حکومت کو کئی دفعہ آگاہ کیا کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرے ورنہ ان کے پاس کوئی دوسرا رستہ نہیں رہ جائے گا۔لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ سالانہ بجٹ میں پرانی روش پر چلتے ہوئے صحت کے لیے انتہائی شرمناک رقم مختص کی گئی۔اگرآئندہ تمام فیصلے اسیبجٹ کے تحت کیے جائیں جس کے امکانات انتہائی کم ہیں تو بھی اس صوبے کے ہر شخص پر حکومت سالانہ 120 روپے خرچ کرے گی۔دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو عام لوگوں کے علاج سے کوئی سروکار نہیں۔اگرلوگ قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں تو مرتے رہیں حکومت دوسرے کاموں میں مصروف ہے۔
اسی طرح صحت کے لیے اس شرمناک حد تک کم بجٹ کے بارے میں نہ تو میڈیا میں کوئی شور و غل کیا گیا اور نہ ہی کسی پارلیمانی بحث میں اس کو موضوع بنایا گیا۔ جبکہ میڈیا، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے لیے اہم ان کی آپس کی لوٹ مار کی لڑائی رہتی ہے۔ایک طرف لوگ علاج کے بغیر اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث مر رہے ہیں اور دوسری طرف حکمران نان ایشوز کی سیاست زر خرید میڈیا کے ذریعے عوام پر مسلط کر رہے ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر روز 1132لوگ غربت کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔یہ تعداد کسی بھی دہشت گردی میں مارے جانے والوں سے زیادہ ہے۔
صحت پر حکومتی اخراجات نہ ہونے کے باعث سرکاری ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ انتہائی ضروری آپریٹس بھی موجود نہیں ہوتااور جب ڈاکٹر بھی پرچی پر لکھ کو مریض کے لواحقین کو دیتا ہے کہ باہر میڈیکل سٹور سے لے آؤ تو لواحقین کا غصہ کرنا فطری عمل ہے۔سرکاری ہسپتالوں کی ایکسرے، سی ٹی سکین، ایم آر آئی و دیگر مشینیں اکثر خراب رہتی ہیں اور نجی ہسپتالوں سے مہنگے داموں یہ ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔اسی طرح ہسپتالوں کی کمی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی ہے۔ ایک ہی بستر پر دو سے تین مریض زیر علاج ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ آپریشن تھیٹر سمیت ہر جگہ دیواریں ٹوٹی ہیں، گندگی ہے،بیت الخلا بدبو دار ہیں، بجلی عام طور پر غائب ہوتی ہے اور دیگر بہت سے گھمبیر مسائل ہیں۔ یہاں تک کے پینے کا پانی اکثر دستیاب نہیں ہوتا۔
ان تمام مسائل کا ذمہ دار کون ہے اور یہ سہولتیں مہیا کرنا کسی کی ذمہ داری ہے؟ یقیناًیہ سب حکومت کے دائرہ کار میں آتی ہیں لیکن حکمران تو کہتے ہیں کہ ہم نے’’ گڈ گورنس‘‘ کی مثال قائم کر دی ہے اور ملک کے ہر کونے میں خوشحالی کا دور دورہ ہے۔یہ حکمران اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ ایک وقت میں اپنے ہی جھوٹ کو سچ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔لیکن حقائق انتہائی تلخ اور اس کے بر عکس ہیں۔
ینگ ڈاکٹروں کا سروس اسٹرکچر کا مطالبہ اور موجودہ ہڑتال در حقیقت صحت کے شعبے میں بہتری کی ایک کوشش ہے جس سے نہ صرف ڈاکٹروں کے کام کے حالات کار بہتر ہوں گے بلکہ مریضوں کو بھی بہتر ماحول میسر ہو گا۔ لیکن اقتدار کے نشے میں دھت حکمرانوں نے اسے اپنی حکمرانی کے لیے چیلنج سمجھا دوسرا یہ حکمران کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہتے جس سے عوام کا بھلا ہو۔ وہ صرف ایسے منصوبے شروع کرتے ہیں جس میں انہیں کمیشن ملے اور ان کی دولت میں اضافہ ہو۔لیپ ٹاپ کی تقسیم ہو یا تعمیرات کے منصوبے سب میں کمیشن اور ٹھیکے انتہائی زیادہ مفید ہیں کیونکہ بیرون ملک بینکوں میں پڑی دولت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن صحت کی سہولت میں بہتری سے ان ظالم حکمرانوں کا کیا سروکار۔
ینگ ڈاکٹروں نے جب اس عوامی مسئلے پر آواز اٹھائی تو ان حکمرانوں نے انہیں سبق سکھانے کا منصوبہ بنایا تا کہ آئندہ کوئی بھی اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھا سکے۔سارا دن عوام کی خدمت کا ناٹک کرنے والے وزیر اعلیٰ کے چہرے سے نقاب ہٹا اور دنیا نے دیکھا کہ اس نے پولیس کے غنڈوں کو نوجوان ڈاکٹروں پر کھلا چھوڑ دیا۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایمرجنسی اور دوسرے شعبوں میں علاج کروانے والے مریضوں کی زندگیوں کا بھی خیال نہ کیا اور سب پر دھاوا بول دیا۔بعض اطلاعات کے مطابق یہ سب کرنے سے پہلے میڈیا کے نمائندوں سے میٹنگ کی گئی اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ڈاکٹروں کے خلاف پراپیگنڈہ تیز کر دیں۔ اور اس پولیس ایکشن کے نتیجے میں جو ہلاکتیں ہوں گی ان کی ذمہ داری ڈاکٹروں پر ڈال کر ان کے کردار کو مسخ کیا جائے۔
میڈیا نے اپناغلیظ کردار انتہائی وفاداری سے نبھایا اور مرنے والوں کی تمام ذمہ داری ینگ ڈاکٹروں پر ڈالتے ہوئے ان پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔زرد صحافت کا حقیقی چہرہ چند ہفتے قبل تمام لوگ دیکھ چکے ہیں لیکن ینگ ڈاکٹروں نے ایک مرتبہ پھر غلام میڈیا کا مکروہ چہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
سروسز ہسپتال میں ینگ ڈاکٹروں کی جنرل کونسل کے اجلاس پر حملے کے بعد جن ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا ان پر حوالات اور جیلوں میں انتہائی بہیمانہ تشدد کیا گیا۔گنگا رام ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر نعیم پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ان کا دایاں حصہ مفلوج ہو چکا ہے اور وہ مشین کے ذریعے سانس لے رہے ہیں۔ آخری خبریں آنے تک وہ جناح ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ینگ ڈاکٹروں کے راہنما ڈاکٹر عامر بندیشہ پر تشدد کر کے ان کی دونوں ٹانگیں توڑ دی گئیں اور ان کی کمر کی ہڈی کو مفلوج کر دیا گیا۔وہ اس وقت ایمرجنسی میں ہیں۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے نوجوان ڈاکٹرکی ایک ٹانگ توڑ دی گئی۔ اس وقت 350سے زائد ڈاکٹر زیر حراست ہیں اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔دوسرے ڈاکٹروں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ان کے والدین کوہراساں کیا جا رہا ہے۔ لاہور میں لیڈی ڈاکٹروں کے تمام ہاسٹل رات 2بجے خالی کرائے گئے اور انہیں ہراساں کیا گیا۔لیکن میڈیا اس تمام ظلم اور بربریت پر خاموش ہے اور اس جبر کی کوئی خبر نہیں دے رہا۔
یہاں ہمیں فوج کا بھی گھناؤنا کردار نظر آتا ہے جو ایک طرف تو میڈیا کو ڈاکٹروں کے خلاف جانبدار رہنے کا حکم دے رہی ہے تو دوسرے طرف ان ڈاکٹروں کی جگہ فوج کے ڈاکٹر بھیج رہی ہے۔پہلے تو یہ ایک بہت بڑا مذاق ہے کہ اتنے کم وقت میں کوئی بھی دوسرے ڈاکٹر پورے پنجاب کا صحت کا نظام سنبھال سکتے ہیں۔فوج کے بہت سے ڈاکٹر جنہیں میو ہسپتال لاہور میں تعینات کیا تھا کام کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ ہو سکتا ہے ہڑتال کی وبا فوج کے اندر پھیل جائے۔لیکن اہم چیز یہ ہے کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے جس میں وہ بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ہر روز ہونے والے ڈرون حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیت کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔دوسرے گزشتہ سال 2مئی کو ایبٹ آباد آپریشن میں فوج کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ جب فوج اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر سکتی تو وہ ہسپتالوں کو کیسے سنبھالے گی۔ یہ خود ایک لمحہ فکریہ ہے۔ دوسرے بلوچستان میں اپنے ہی شہریوں کو قتل کرنے میں مصروف فوج کسی کی زندگی کیا بچائے گی۔اگر فوج کو عوام سے اتنی محبت ہے تو اپنے سالانہ بجٹ کا نصف صحت کے شعبے کے لئے مختص کر دے!
در حقیقت اس تمام ظلم کے پیچھے اہم نقطہ یہ ہے کہ حکمران محنت کشوں کے ہڑتال کے حق کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔کسی بھی جائز مطالبے کے لیے آواز اٹھانا، احتجاج کرنا اور ہڑتال کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے جو حکمران طبقے کے لیے سب سے ناپسندیدہ فعل ہوتا ہے۔ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کو بدنام کر کے وہ تمام اداروں کے محنت کشوں کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ جو بھی اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے گا یا ہڑتال کرے گا اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ اس لیے ہر قسم کے ظلم اور جبر کو برداشت کرتے رہو۔دوسرے فوج بھی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے اور میڈیا پر یہ دکھایا جا رہا ہے کہ فوج کتنی اچھی ہے کہ وہ غریب مریضوں کا خیال رکھ رہی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ غریب مریضوں کے لیے صحت کا بجٹ اس لیے نہیں رکھا جاتا کیونکہ اس غریب عوام کو جرنیلوں کی عیاشیاں اور اسلحے کی خریداری میں ان کے کمیشن کے پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ جس فوج کے جرنیل ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی اور بحریہ ٹاؤن بنانے میں غرق ہوں ان سے بھلائی کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔
اسی طرح ہمیں یہاں سینئر ڈاکٹروں کا کردار بھی نظر آتا ہے جن کی اکثریت اپنے نجی ہسپتالوں کو چلا رہی ہے یا صحت کے کاروبار سے لاکھوں روپے بنا رہی ہے۔ انہیں عوام کے لیے صحت کی سہولیات اور سروس اسٹرکچر سے زیادہ دلچسپی نہیں بلکہ ان کی دلچسپی حکمرانوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے میں ہے تا کہ مزید مفادات حاصل کیے جا سکیں۔اس لیے وہ حکومت کے ایما پر مذاکرات کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے بھی ہڑتال کے دوران ہسپتال چلانے سے معذرت کر لی کیونکہ اس سے ان کے نجی کاروبار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ایسے میں ایک اور پراپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹروں کا پیشہ تو انتہائی مقدس ہے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے او زیادہ پیسوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ پیشہ اتنا ہی مقدس ہے تو حکومت نے پرائیویٹ ہسپتالوں کی اجازت کیوں دے رکھی ہے۔پرائیویٹ لیبارٹریاں اور دوا ساز ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں اتنے بڑے منافع کیوں کما رہی ہیں۔سب سے پہلے تو پھر حکومت علاج کو مکمل طور پر مفت قرار دے اور پرائیویٹ ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور دوا ساز کمپنیوں پر پابندی عائد کر کے ان کو نیشنلائز کرے۔ایک طرف حکومت خود صحت کو کاروبار بنانے کی اجازت دیتی ہے اور دوسری طرف نوجوان ڈاکٹروں کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ بغیر تنخواہ کے ہی کام کرتے رہیں۔اس کا مقصد صرف اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا ہے جو وہ صحت کے لیے کم ترین بجٹ رکھ کر کرتی ہے۔دوسرے سروس اسٹرکچر کے مطالبے میں یہ مطالبہ شامل ہے کہ اگر نان پریکٹس الاؤنس کو معقل حد تک بڑھایا جائے تو ینگ ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس نہیں کریں گے۔
اس کے علاوہ حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ جعلی دوائیوں سے سینکڑوں لوگ مر رہے ہیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جعلی دوائیوں سے مرنے والے لوگوں کے قاتلوں کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا بلکہ ان کے خون کے سیمپل بھی چور ی کروا دیے گئے۔دوسرے حالیہ اطلاعات کے مطابق بڑے پیمانے پر غیر معیاری دوا ساز کمپنیوں کو کمیشن لے کر لائسنس جاری کیے جا رہے ہیں اور دواؤں میں منافعوں کی شرح کو اپنی مرضی سے بڑھایا جا رہا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ تمام حکمران اور سرکاری افسران اپنا علاج بیرونِ ملک سے یا نجی ہسپتالوں سے کرواتے ہیں اس لیے انہیں یہاں کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر پابندی لگا دی جائے کہ تمام وزیر، مشیر، سرکاری افسران اپنا اور اپنے خاندان کا علاج صرف سرکاری ہسپتالوں سے کروائیں گے تو بہتری ممکن ہے۔
لیکن اس مسئلے سمیت صحت کے شعبے کے دیگر مسائل پر تمام سیاسی جماعتیں خواہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں مکمل خاموش ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں کی کردار کشی کے خلاف بھی کسی سیاسی راہنما کا بیان نہیں آیا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ینگ ڈاکٹروں کی اس تحریک کو دوسرے محنت کشوں کی تحریک کے ساتھ جوڑ اجائے۔ پیرا میڈیکل اور نرسیں کچھ عرصہ پہلے احتجاج کر رہی تھیں۔انہوں نے ینگ ڈاکٹروں پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ انہیں ساتھ جوڑتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح ریلوے، واپڈا، پی ٹی سی ایل سمیت دوسرے تمام اداروں کے محنت کشوں ساتھ جوڑتے ہوئے اس تحریک کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ حکمرانوں کے غلیظ پراپیگنڈے کا جواب دیا جا سکے۔اس کے لیے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔گزشتہ سال یوم مئی پر PTUDCکی لاہور میں تقریب میں ینگ ڈاکٹروں کے پنجاب میں صدر حامد بٹ نے اسی عزم کا اعادہ کیا تھا۔ اگر اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو نہ صرف سروس اسٹرکچر کا مطالبہ تسلیم کروایا جا سکتا ہے بلکہ ان ظالم حکمرانوں سے مکمل نجات کی جدوجہد کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ڈاکٹروں کے لیے بہتر سہولیات سمیت عوام کے لیے مفت علاج کی سہولت میں سب سے بڑی رکاوٹ منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس ظالمانہ نظام کو ختم کیا جا سکتا ہے۔موجودہ حالات ایسے ہی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
متعلقہ: