|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان اور پیرامیڈیکل سٹاف فیڈریشن کی جانب سے اپنے 16 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے سلسلے میں یکم اکتوبر سے برسر احتجاج ہیں۔ احتجاج کے سلسلے میں او پی ڈیز اور ہسپتالوں میں چند الیکٹیو سروسز کا مکمل بائیکاٹ جاری تھا، کہ 7 اکتوبر کو بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں زلزلہ پیش آیا، جس میں 20 سے زائد اموات واقع ہوئیں، جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں گھر، سکولز، دکانیں، و دیگر انفراسٹرکچر وغیرہ تباہ ہوئے۔
اس صورتحال میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان، وائی ڈی اے سپریم کونسل اور پیرامیڈیکل سٹاف فیڈریشن کے اشتراک سے ہرنائی میں زلزلے سے متاثرہ مریضوں کیلئے 8 اکتوبر کو فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ کیمپ میں وائی ڈی اے بلوچستان کے صوبائی صدر، صوبائی جنرل سیکرٹری، کابینہ کے دیگر ممبران، وائی ڈی اے سپریم کونسل کے سینئر ممبران، پیرامیڈیکل سٹاف فیڈریش کے عہدیداران سمیت شعبہ طب کے مختلف کنسلٹنٹ ڈاکٹرز اور پوسٹ گریجویٹ ریزیڈنٹس نے شرکت کی۔ کیمپ میں مختلف امراض کے ساتھ آنے والے 1250 مریضوں کا معائنہ اور علاج سپیشلسٹ ڈاکٹرز سے ہوا۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مریضوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے بیک وقت کیمپ کا انعقاد ڈی ایچ کیو ہرنائی، آر ایچ سی شاہرگ اور موبائل ٹیموں کے ذریعے مختلف بیسک ہیلتھ یونٹس میں ہوا۔ اس موقع پر وائی ڈی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہرنائی کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بدعنوان حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں بیان کرتی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں نہ تو کوئی ادویات تھیں، نہ ہی کوئی لیبارٹری، نہ کوئی ایکس رے/الٹراساونڈ کی سہولیات، ای سی جی مشین کا تو تصور ہی نہ تھا، شعبہ صحت میں انقلاب کا نعرہ کھوکھلا اور جھوٹ پرمبنی ہے۔
ہرنائی میں پیش آنے والے زلزلے کے تباہ کاریوں نے نااہل، بے حس صوبائی حکومت اور کرپٹ بیوروکریسی کی جھوٹ پرمبنی تمام تر غلط بیانیوں اور سوشل میڈیا پر کاغذی و تصاویری پروپیگنڈوں کی قلعی کھول دی، جہاں پر وزیراعلیٰ بلوچستان ٹویٹر پر خیموں سے بنائے ہوئے ہسپتال کی تشہیر کرتے ہوئے شرماتا بھی نہیں ہے۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہرنائی سمیت پورے صوبے میں صحت کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ جبکہ دوسری جانب اسی طرح کے ہسپتالوں پر سالانہ بجٹ کی مد میں کروڑوں اربوں روپے صرف کاغذات کی حد تک مختص ہوتے ہیں جبکہ وہی پیسہ انہیں حکمرانوں، وزیروں مشیروں اور کرپٹ بیوروکریسی کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ پورے صوبے کے اندر ہسپتال صرف عمارتوں کی حد تک محدود ہیں۔ کسی بھی ہسپتال میں آکسیجن جیسی بنیادی سہولت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ حالانکہ بلوچستان میں کمزور انفراسٹرکچر اور ریاستی اداروں کے خصی پن اور لاقانونیت کی وجہ سے درجنوں کی تعداد میں حادثات واقع ہوتے ہیں اور ان میں اکثر مریضوں کو کوئٹہ سے دور دراز علاقوں میں ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے جانیں چلی جاتی ہیں جو کہ نااہل حکمرانوں کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔
صحت کے شعبے کی زبوں حالی کے خلاف ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پیرا میڈیکل سٹاف کی جانب سے احتجاج جاری تھا۔ جس میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنے 16 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کو حکومت کے سامنے پیش کیا تھا جن کے چند مطالبات درج ذیل ہیں:
1۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کے ذریعے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کی ہم مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ایکٹ کو ختم کیا جائے۔
2۔ ہیلتھ کارڈ کو بنیاد بناکر ہسپتالوں کو پرائیوٹائز کیا جارہا ہے، جوکہ قابلِ مذمت ہے۔
3۔ ایم ایس ڈی سے اب تک کسی بھی ہسپتال کو ادویات کی فراہمی نہیں ہورہی، غریب مریضوں کے لئے ادویات کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
4۔ کنسلٹنٹس کو سہولیات دیئے بنا دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
5۔ پی پی ایچ آئی کے نام پر 665 سنٹر قائم کئے گئے ہیں جہاں کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں۔ ان تمام تر سنٹرز میں ڈاکٹروں کی تعیناتی کو ممکن بنایا جائے۔
6۔ کورونا وبا میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو رسک الاؤنس دیا جائے۔
7۔ ٹراما سنٹر میں غیر فعال وینٹی لیٹرز اور افرادی قوت کی کمی کو دور کیا جائے۔
8۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں بند آپریشن تھیٹرز کو فعال کیا جائے۔
9۔ سول ہسپتال میں ماس ویکسینیشن سنٹر میں تعینات پرائیویٹ افراد کو فی الفور دور کیا جائے۔
10۔ بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں میڈیکل آفیسرز کے امتحان کے لیے پاسنگ اوسط کم کرکے 33 رکھی جائے۔
اپنے مطالبات اور احتجاجی تحریک کے لائحہ عمل کے حوالے سے وائی ڈی اے کا احتجاج 27 اکتوبر تک او پی ڈی اور آپریشن تھیٹر میں الیکٹیو سروس کے بائیکاٹ تک محدود تھا، مگر مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں 23 اکتوبر سے ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف فیڈریشن کی جانب سے صوبہ بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں کرونا ویکسی نیشن سنٹرز اور کرونا ویکسی نیشن کے عمل سے بائیکاٹ کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈ زون میں دھرنا دیا گیا۔ مگر 27 اکتوبر کو پولیس کی جانب سے ریڈ زون میں جاری احتجاجی دھرنے پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 19 کے قریب ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا جو کہ 19 دن سے جیل میں قید ہیں۔ ریاستی جبر کے خلاف ینگ ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور ینگ نرسز نے سول ہسپتال کوئٹہ کے احاطے میں احتجاجی کیمپ لگایا جو کہ پچھلے 19 دنوں سے مسلسل جاری ہے۔
اس کے علاوہ احتجاج میں شدت لاتے ہوئے ینگ ڈاکٹرز نے تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی کے علاوہ باقی تمام تر سروسز سے بائیکاٹ کیا جو کہ اب تک جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے ساتھ مختلف دورانیوں میں وفود کی شکل میں مذاکرات بھی ہوئے جس میں کرونا ویکسی نیشن سنٹر سے بائیکاٹ کا عمل واپس لے لیا جبکہ دیگر سروسز سے بائیکاٹ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور آل پاکستان پیرا میڈیکل سٹاف فیڈریشن کے تمام تر مطالبات کی غیرمشروط مگر ہڑتال کی مشروط حمایت کرتا ہے اور انہیں یقین دلاتا ہے کہ ریڈ ورکرزفرنٹ ان مطالبات کے حصول کے لیے جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ صحت جو کہ انتہائی حساس ادارہ ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں صوبے بھر کے غریب محنت کش عوام کے علاج کے لیے ایک ہی ذریعہ ہے، جسے اگر بار بار ہڑتالوں کے ذریعے بند کیا جاتا ہے تو اس کا غریب محنت کش عوام کے اوپر انتہائی بوجھ ہوتا ہے کیونکہ جو غریب لوگ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرنے کی غرض سے آتے ہیں وہ نجی ہسپتالوں میں علاج نہیں خرید سکتے جس کی وجہ سے وہ ان بیماریوں کی بنیاد پر ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں اور ان کی اکثریت موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ جس کی براہ راست ذمہ داری ریاست کے اوپر آتی ہے، مگر اس کے ساتھ ینگ ڈاکٹرز کو بھی بار بار ہڑتالوں کے حوالے سے اپنے رویے تبدیل کرنے چاہئیں کیونکہ ینگ ڈاکٹرز اس معاشرے سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور یہ ایک دو طرفہ عمل ہوتا ہے جس کا ایک دوسرے کے اوپر انحصار ایک لازمی جز ہے۔ ہڑتال کو پہلی آپشن کی بجائے آخری آپشن رکھا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وائی ڈی اے بلوچستان اور پیرا میڈیکس سٹاف فیڈریشن نے جن مطالبات کو اٹھایا ہے اس ان میں بالخصوص ایم ٹی آئی ایکٹ کے کالے قانون کے حوالے سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں محکمہ صحت کے تمام تر سٹیک ہولڈرز کی جدوجہد ہمارے سامنے موجود ہے۔ لہٰذا ان تمام تر مطالبات کے حصول کیلئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ملازمین کی جدوجہد سے اسباق لینے کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے ہمدردی اور حمایت لینے سے زیادہ اہم بلوچستان بھر کی مزدور و ملازمین تنظیموں سے رابطہ کرتے ہوئے ان کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ یہ صرف وائی ڈی اے یا پیرامیڈیکس سٹاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام تر عوامی مسائل ہیں جن پر بھرپور عوامی کمپئین کرنے کی ضرورت ہے اور صوبہ بھر کی مزدور و ملازمین تنظیموں سے کیساتھ ساتھ ملک گیر محنت کش طبقے سے اپیل کی جا نی چاہئیے۔