|تحریر: ڈینئیل مورلے، ترجمہ: اختر منیر|
چین کا قومی دن، جو یکم اکتوبر کو ماؤ کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی یاد میں منایا جاتا ہے، ہمیشہ دھوم دھام اور فوجی طاقت کی نمائش پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن 70 ویں سالگرہ کے موقع پر شی جن پنگ نے تمام حدیں پار کر دیں، جس میں چین کی آج تک کی سب سے بڑی فوجی پریڈ اور نئے سپر سانک خود کار ڈرون طیاروں اور ایٹمی میزائلوں کی فخریہ نمائش بھی شامل تھی۔ پیغام صاف اور واضح تھا، جیسا کہ شی نے خود کہا، ”کوئی بھی طاقت اس عظیم قوم کے مقام و مرتبے کو متزلزل نہیں کر سکتی“۔
طاقت کے اس مظاہرے کا مقصد شی کی حکومت کی مضبوطی اور استحکام سے متعلق تمام شکوک و شبہات دور کرنا تھا، چاہے وہ داخلی ہوں یا خارجی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو تجارتی جنگ سے متعلق مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا، ”ہم ایک خطرناک دشمن ہیں۔ ہم ایک لمبی اور سنجیدہ جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسا مت سمجھو کہ تم ہمارے ساتھ بدمعاشی کر سکتے ہو۔ تمھارے لیے بہتر یہی ہو گا کہ اس تجارتی جنگ سے پیچھے ہٹ جاؤ۔“ اپنے اندرونی دشمنوں، جن میں میں افسر شاہی کے مخالف دھڑے اور احتجاج اور ہڑتال کرنے والے لوگ شامل ہیں، کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا، ”میں بہت طاقتور ہوں۔ تم نہیں جیت سکتے۔“
ظاہری طور پر تو یہ پریڈ اس عظیم انقلاب کا جشن ہے، جس نے 70 سال پہلے چین کو سرمایہ داری اور سامراجیت سے سے آزاد کرایا تھا، مگر اس کا اصل مقصد عوام کو چینی ریاست کی طاقت سے اس قدر خوفزدہ کرنا ہے کہ وہ ایک نیا انقلاب شروع کرنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکیں۔
ہانگ کانگ کا بھوت
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات کرتے ہوئے شی جنگ پنگ کا اشارہ ہانگ کانگ میں احتجاج کرنے والوں کی جانب تھا۔ یہ اس وقت مزید واضح ہو گیا جب مضحکہ خیز انداز میں یہ کہا گیا کہ چینی کیمونسٹ پارٹی ہانگ کانگ کی ”طویل مدتی خوشحالی اور استحکام کو قائم رکھے گی“ جو ”ایک ملک دو نظام“ کی بنیاد پر ہے۔ اس بیان کی مضحکہ خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہانگ کانگ میں چین کی کٹھ پتلی کیری لیم اس کے ساتھ کھڑی تالیاں بجا رہی تھی۔
جب وہ طویل المعیاد استحکام اور خوشحالی کی باتیں کر رہا تھا تبھی ہانگ کانگ میں تاریخ کے پر تشدد ترین مظاہرے قابو سے باہر ہو رہے تھے۔ 17 ہفتے سے چلنے والے احتجاج میں پہلی دفعہ پولیس نے سیدھے فائر کیے جس کے نتیجے میں میں ایک 18 سالہ احتجاج کرنے والا نوجوان زخمی ہوگیا جو ابھی ہسپتال میں نازک حالت میں ہے۔ اگر وہ بچ گیا تو اس پر پر دنگے کرنے کا مقدمہ چلایا جائے گا جس کی پاداش میں 10 سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
پورے دن کے دوران پولیس نے باضابطہ طور پر 14سو آنسو گیس کے کنستر اور 13سو ربڑ کی گولیاں چلا کر اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا۔ ایک انڈونیشین صحافی کو ربڑ کی گولی لگی جس سے وہ ہمیشہ کے لیے ایک آنکھ سے اندھا ہو گیا۔ ایک مرتبہ پھر مظاہرین پر واٹر کینن میں نیلی سیاہی بھر کر پھینکی گئی۔ قانون ساز کونسل کے ایک بیجنگ مخالف رکن ایڈی چو پر انتہائی قریب سے مرچوں والا سپرے کیا گیا اور وہ دم گھٹنے سے مرتے مرتے بچا۔ مظاہرین کے جتھوں پر گاڑیاں چڑھا دی گئیں۔ پولیس نے تمام بڑے مظاہروں پر پابندی لگا دی جس سے چھوٹے چھوٹے غیر منظم مظاہرے شروع ہو گئے۔ انہوں نے ریل کے نظام کے ایک بڑے حصے کو بھی جام کر دیا۔
دوسری جانب مظاہرین بھی پر تشدد اور بے باک ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک غیر منظم کردار اور سیاسی قیادت نہ ہونے کا ناگزیر نتیجہ ہے جس سے شدید بے چینی نے جنم لیا ہے۔ مہینوں پر مبنی پولیس کے تشدد کے بعد ہانگ کانگ کے رہائشی پہلے سے زیادہ ثابت قدم اور غضبناک ہیں۔ مگر کسی کے پاس حکومت کو شکست دینے کا لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ مزدور تحریک کمزور ہے اور ایک منظم ہڑتالوں کا لائحہ عمل بنانے میں ناکام رہی ہے، جو کہ ایک واحد چیز تھی جس کی وجہ سے تحریک کو طاقت اور نظم مل سکتا تھا، جس کی اسے سخت ضرورت ہے۔ ایسے میں مظاہرین اپنا مطالبہ، ہر ایک کے لیے ووٹ کا حق، منوانے کے لیے مایوسی کے عالم میں جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔
کسی واضح قیادت کی عدم موجودگی میں جلد یا بدیر یہ تحریک تھک جائے گی۔ اس کے آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اس میں سماجی مطالبات بھی شامل کیے جائیں اور محنت کش طبقے کو منظم کرتے ہوئے ایک طاقتور عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔ اکا دکا پولیس اسٹیشنز کے کچھ حصوں کو جلانے سے کچھ نہیں ہو گا، اس کی بجائے ایک عام ہڑتال ہانگ کانگ کی معیشت کو گھٹنوں پر لے آئے گی جو حکومت کے لیے اس سے کہیں بڑا مسئلہ ہو گا۔
مراعات
یہ سچ ہے کہ مظاہرین کے اقدامات نے شی کو یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور کردیا ہے کہ کچھ رعایتیں دینا ضروری ہیں۔ کیونکہ بیجنگ ہر ایک کو ووٹ کا اختیار نہیں دے سکتا اور یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ ہانگ کانگ کے لوگ کسی بھی طرح رائے شماری کے ذریعے چین سے علیحدہ ہو کر امریکی سامراج کی گود میں جا بیٹھیں، لہٰذا اس نے فیصلہ کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے پراپرٹی سے تعلق رکھنے والے ارب پتیوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ سماجی رہائشی منصوبے شروع کریں۔ پیپلز ڈیلی (حکومت کے مرکزی ترجمان اخبار) میں آرٹیکل آنا شروع ہو گئے ہیں جن میں ان لینڈ ڈیویلپرز کی اراضی ضبط کرنے کا کہا جارہا ہے۔ بائیں بازو کے کچھ افراد بیجنگ حکومت کو سراح رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ہانگ کانگ کی سرمایہ داری پر حملہ کرتے ہوئے سوشلزم لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف سوشلزم سے کوسوں دور ہیں بلکہ یہ بہت تاخیر سے سامنے آئی ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے ہی ہانگ کانگ میں پراپرٹی کا کاروبار کافی پھیل چکا ہے، رہائش کا بحران اور عدم مساوات بڑے پیمانے پر موجود ہیں اور یہ سب کچھ بیجنگ حکومت کے زیر سایہ ہوا ہے۔ درحقیقت بیجنگ نے جان بوجھ کر ہانگ کانگ کے امیر ترین سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ جتنا ہو سکے مال اکٹھا کر لیں تا کہ ہانگ کانگ کا حکمران طبقہ چین کا وفادار ساتھی بن جائے۔
بہرحال جیسا کہ ہم نے پہلے بھی نشاندہی کی تھی کے اصل حکومت جس سے لڑائی ہے وہ ہانگ کانگ میں نہیں بلکہ بیجنگ میں ہے، اس لیے ہانگ کانگ کے محنت کش طبقے کے مسائل کا حل لڑائی کو چینی سر زمین تک لے جا کر ہی ممکن ہے۔ یہی وہ بات ہے جس سے حکومت سب سے زیادہ خوفزدہ ہے اور ان کا خوفزدہ ہونا بنتا بھی ہے۔ اس ہفتے ہونے والی شاندار پریڈ کے پس پردہ شی جنگ پنگ کو عدم تحفظ کا احساس گھیرے ہوئے ہے۔ یہ عدم تحفظ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی تجارتی جنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کے اپنے محنت کش طبقے کو لے کر ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی نے سوویت یونین کے انہدام کا بغور مطالعہ کر رکھا ہے۔ اسے خوف ہے کہ اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔ اسے اچھی طرح اندازہ ہے کہ عدم مساوات اور بدعنوانی کی وجہ سے بے چینی میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔ بلاشبہ یہ ہانگ کانگ میں رہائش کی حد سے زیادہ قیمتوں کے مسئلے کو حل کرنے کی ایک وجہ بھی ہے، کیونکہ بڑے پیمانے پر عدم مساوات اور استحصال دو ایسی چیزیں ہیں جو ہانگ کانگ اور اور چین کے محنت کش طبقے کے لیے مشترک ہیں۔ اگر ہانگ کانگ کے باسیوں نے اس عدم مساوات کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور ایسی ہی تحریک سرحد کے پار بھی شروع ہو گئی تو کیا ہو گا؟ شی جنگ پنگ اس خطرے سے دہشت زدہ ہے۔
چینی معیشت کی سست روی ان کے خدشات میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کا جواز اس بنیاد پر ہے کہ وہ کروڑوں لوگوں کے معیارِ زندگی میں مسلسل اضافہ کرنے کے قابل ہے۔ سرمایہ داری میں کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا اور ان کی معیشت میں بڑھوتری کی صلاحیت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ انہیں علم ہے کہ جلد یا بدیر یہ سلسلہ رک جائے گا۔
وہ دن قریب آتا نظر آرہا ہے۔ ترقی کی شرح پچھلی کئی دہائیوں سے کم ہے اور یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اب یہ اس قدر کم ہو چکی ہے کہ یہ دیہی علاقوں میں رہنے والے سابق کسانوں کو روزگار مہیا کرنے کے بھی قابل نہیں رہی۔ 2008ء کے عالمی بحران کے بعد سے چین کے قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اب یہ دنیا میں سب سے زیادہ قرض میں ڈوبے ہوئے ممالک میں سے ایک ہے۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ سے ان مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
چینی محنت کش دنیا کو ہلا سکتے ہیں
پچھلے کچھ سالوں کے دوران چینی محنت کش طبقے کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے کئی ہڑتالیں کی ہیں۔ چائنا لیبر بلیٹن نے رپورٹ دی کہ چین کی کاروں کی صنعت بحران سے گزر رہی ہے (2019 کے پہلے حصے میں 14فیصد گراوٹ کے ساتھ)، کاروں کی صنعت میں کام کرنے والے محنت کشوں کی جانب سے ہڑتالوں اور مظاہروں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے:
”چائنا لیبر بلیٹن کے ہڑتالوں کے نقشے کے مطابق اس سال اب تک کاروں کی صنعت سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے 25 مشترکہ مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں، جبکہ پچھلے سال یہ تعداد پانچ تھی۔“
حکومت ہڑتالوں میں اضافے سے خوفزدہ نہیں ہے، بلکہ اسے یہ ڈر ہے کہ یہ بکھری ہوئی مقامی ہڑتالیں کہیں آپس میں مل کر ایک ملک گیر لہر نہ بن جائیں۔ ایسی ہڑتالوں کی ایک لہر چین کی آمرانہ حکومت کے خلاف برسوں سے جمع ہوتے ہوئے غصے کی وجہ سے فوری طور پر حکومت کو للکارنے والی ایک انقلابی تحریک میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہانگ کانگ کی تحریک سے متعلق بھی وہ اسی بات سے خوفزدہ ہیں۔ اگر اس تحریک نے محنت کش طبقے کی تحریک کا کردار حاصل کر لیا اور شین زن اور گوانگ ڈونگ صوبوں اور پورے چین میں موجود محنت کشوں سے حمایت کی اپیل کر دی تو انہیں علیحدہ رکھنا کافی مشکل ہو جائے گا، کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں محنت کش ہانگ کانگ اور چینی سر زمین کے آر پار آتے جاتے ہیں۔
شی جنگ پنگ سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے والے 1949ء کے اس انقلابی ورثے کو فوجی ساز و سامان کے نیچے دفن کرنا چاہتا ہے۔ مگر جب چین کا محنت کش طبقہ، دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ، اپنی انقلابی روایات کی جانب لوٹے گا تو پوری دنیا کا اسلحہ ملا کر بھی اسے نہیں روکا جا سکے گا۔ ایسا ہو گا، جلد یا بدیر۔