|تحریر: نکلس ایلبن سوینسن، ترجمہ: ولید خان|
سولر پینلز، واشنگ مشینوں، اسٹیل اور ایلومینیم پر بھاری محصولات لگانے کے بعد ٹرمپ اب چین سے جھگڑا مول لینے کے لئے پر تول رہا ہے۔ اس کی نئی تجاویز کے نتیجے میں60 ارب ڈالر کی چینی برآمدات متاثر ہوں گی جبکہ ان اقدامات کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ شروع ہونے کے خطرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ مذاکرات کے دوران دیدہ دلیری دکھانے کا خواہاں ہے۔ وہ ہر معاملے کو سنجیدہ تنازعے کی نہج پر پہنچا کر اچانک پسپائی اختیار کرتے ہوئے ڈیل پر دستخط کر دیتا ہے۔ یہی کام اس نے روس کے ساتھ شام کے معاملے پر کیا (تنہائی میں) اور شمالی کوریا کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ حال ہی میں سب سے بڑی سفارتی لڑائی اسٹیل اور ایلومینیم پر محصولات پر تھی۔ امریکہ کے قریبی اتحادیوں کو محصولات کی دھمکی دینے کے بعد ٹرمپ نے، کم از کم وقتی طور پر ہی صحیح، پسپائی اختیار کی ۔ یورپی یونین نے اب ٹرمپ کے ساتھ مل کر چین کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کی پیشکش کر دی ہے۔
اس وقت چین ٹرمپ کے نشانے پر ہے۔ صدر کی کوشش ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی خسارے کو کم سے کم کیا جائے اور اس کوشش میں اس کے ساتھ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹس، دونوں شامل ہیں۔ یہ مسئلہ اسٹیل محصولات کے برعکس (امریکہ چین سے کوئی قابل ذکر اسٹیل درآمد نہیں کرتا)ٹرمپ کے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے ایجنڈے سے زیادہ گہرا ہے۔ ٹرمپ سے پہلے اوبامہ، یورپی یونین اور کینیڈا نے پچھلے چند سالوں میں چین کے خلاف مختلف نوعیت کے اقدامات کئے ہیں۔
یورپی اور امریکی حکمران طبقہ، چینی مسابقت کے حوالے سے ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پریشان ہوتا جا رہا ہے۔ چین کا ٹیکسٹائل، فرنیچر اور الیکٹرانکس کی مینوفیکچرنگ ایک طرف لیکن جدید ترین صنعت کی طرف چینی پیش قدمی مکمل طور پر ایک مختلف صورتحال کو جنم دے رہی ہے۔ اس وقت چینی کارپوریشنیں عالمی معیار کے مطابق ٹرینیں اور ٹیلی کام کی اشیا بنانے میں مہارت رکھتی ہیں جن میں کچھ کردار مغربی کمپنیوں کی ٹیکنالوجی کی چوری اور نقل نے بھی ادا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ’’قومی سیکیورٹی وجوہات‘‘ کی بنیاد پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے بہت ساری پابندیاں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب چینی اور بھی زیادہ منڈیوں پر نظریں جمائے کھڑے ہیں۔
پچھلے سال شائع ہوئی ایک دستاویز ’’میڈ ان چائنہ 2025ء‘‘ کے مطابق، ہائبرڈ گاڑیوں اور آلات، بحری جہازوں کے ہائی ٹیک پرزے، صنعتی روبوٹس، طبی آلات، زرعی مشینری، موبائل فون چپس اور ہوائی جہازوں کی پیداوار کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ Artificial Intelligence اور بائیو ٹیکنالوجی میں بھی ان کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ پالیسی میں واضح ہے کہ چین ان صنعتوں کو ترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ ابھی تک چین کو ان جدید ترین اشیا کی درآمدات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ ان صنعتوں کے ذریعے ان منڈیوں تک رسائی حاصل کی جائے جہاں ترقی یافتہ ممالک کی نسبت چین کی رسائی کمزور رہی ہے۔
دیگر سامراجی قوتوں کو اپنی برتری سے ہاتھ دھونے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ انہیں پہلے ہی کئی صنعتوں میں چین کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ ابھی تک چین کی سستی محنت ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اتنی پیداواری قوت کی حامل نہیں رہی لیکن اب آٹومیشن کے ذریعے اس فرق پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ یورپی اور امریکی کاروباروں کے لئے ایک انتہائی سنجیدہ خطرہ ہے۔
حال ہی میں کئی تجارتی معاہدوں کو روکا گیا ہے جس کی تازہ ترین مثال براڈکام کمپنی کی جانب سے کوالکام کمپنی کے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کو ٹرمپ نے قومی سیکورٹی کی بنیادوں پر روک دیا۔ چینی کمپنیاں انتہائی سرگرمی اور جارحیت کے ساتھ چھوٹی یورپی اور امریکی کمپنیوں کو خرید رہی ہیں تاکہ ان کی ٹیکنالوجی حاصل کی جا سکے۔ ChemChina نے بیج اور کھاد کی سوئس کمپنی سین جینٹا خریدی، گیلی(Geely) نے سویڈش کاریں بنانے والی کمپنی والو وخریدی اور زوم لیون نے ٹیریکس کورپ کو خرید لیا۔ لیکن بیرونی کمپنیوں کی خرید کا سلسلہ ماند پڑ گیا ہے کیونکہ اب خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ یہ کمپنیاں قرضوں کی دلدل میں دھنس رہی ہیں۔
امریکہ نے چین پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ وہ جاسوسی اور ہیکنگ کے ذریعے راز چرا رہے ہیں، شاید یہ درست بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی حکومت ایک طویل عرصے سے چین میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو زبردستی چینی کمپنیوں کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی شیئر کرنے کے لئے مجبور کر رہی ہیں۔
اس ساری صورتحال کا لب لباب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کے قریب پہنچ رہا ہے، لیکن اگر روبوٹکس کی مثال لی جائے تو مغرب کے مقابلے میں چین کی ترقی کی رفتار کہیں کم ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں امریکہ میں ہر 10 ہزار ملازمین پر 189 روبوٹس ہیں جبکہ چین میں یہ شرح صرف 68 روبوٹس کی ہے۔ جنوبی کوریا میں ، جہاں بہت سارے وہ پرزے بنتے ہیں جنہیں بعد میں چین میں جوڑ کر اشیا بنائی جاتی ہیں، ہر 10ہزار ملازم پر 631 روبوٹس ہیں اور جاپان میں یہ شرح 303 ہے۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ چین کو ابھی کافی وقت درکار ہے۔
ان اقدامات کا سب سے حیران کن پہلو ٹرمپ کو حاصل ہونے والی حمایت ہے۔ ڈیموکریٹس، ریپبلیکن اور یورپی یونین، سب چین کے خلاف ان جارحانہ اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ ٹرمپ کی شاندار سفارتی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک ابھرتا ہوا مشترکہ فرنٹ ہے۔ چین کئی سالوں سے مغربی ٹیکنالوجی کی نقالی کر رہا ہے اور ایک طویل عرصے تک امریکی اور یورپی حکمرانوں نے اس حوالے سے کوئی پرواہ نہیں کی۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے آغاز میں تعلقات پھر بھی قدرے بہتر تھے کیونکہ عالمی سرمایہ داروں کو یہ امید تھی کہ چینی منڈی وہ کھپت فراہم کرے گی جس کی بنیاد پر امریکہ اور یورپ بحران سے باہر نکل آئیں گے۔ یہ اب واضح ہو چکا ہے کہ بے پناہ قرضے اٹھانے اور خرچے کرنے کے باوجود، چین میں بحران کو حل کرنے کی اہلیت ہی موجود نہیں۔ اس کے برعکس، امریکہ اور یورپ کے حکمران طبقے کو اب یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ چین سکڑتی عالمی منڈیوں میں ان کا حصہ بھی ہڑپ کر جائے گا۔
دوسری طرف چینی حکومت محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے اضطراب، ملک کے مغربی حصے میں موجود قومی مسئلے اور ممکنہ معاشی بحران کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ وہ پیداواری قوت کو بہتر کر کے اس سماجی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کرہے ہیں تاکہ ان کو ساز باز کے لئے کچھ وقت مل سکے اور وہ نئی صنعتیں تعمیر کر سکیں۔ وہ عالمی منڈی میں ایک زیادہ بڑا حصہ حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جسے روکنے کے لئے دیگر عالمی قوتیں کمر کس رہی ہیں۔
بحران عالمی قوتوں کو بڑھتے ہوئے تضادات کی جانب دھکیل رہا ہے۔ ٹرمپ ایک ایسے کھیل میں کود پڑا ہے جس میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ ایک تجارتی جنگ کے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔ اگر بڑے کھلاڑی اس مرتبہ کوئی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی کچھ عرصے میں ہی یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ گھمبیر ہو کر سر اٹھائے گا۔