|تحریر: ایلن ووڈز؛ ترجمہ: ولید خان|
”یورپ پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے“۔ اس شہرہئ آفاق جملے کے ساتھ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے مصنفین نے انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا۔ یہ 1848ء کا سال تھا، جب پورا یورپ انقلاب کی لپیٹ میں تھا۔ لیکن اب ایک بھوت صرف یورپ ہی نہیں پوری دنیا پر منڈلا رہا ہے۔ یہ عالمی انقلاب کا بھوت ہے۔
عالمی انقلاب کوئی کھوکھلا خیال نہیں ہے۔ یہ ایک نئے مرحلے کے آغاز کی بالکل درست ترجمانی کرتا ہے جس میں ہم داخل ہو رہے ہیں۔ اگر ہم صرف پچھلے بارہ مہینوں کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو فرانس، ایران، سوڈان، الجزائر، تیونس، ہانگ کانگ، چلی، ہیٹی، ایکواڈور، عراق اور لبنان میں انقلابی بغاوتوں، عام ہڑتالوں اور دیوہیکل احتجاجوں نے پوری دنیا کو لرزا کر رکھ دیا۔
فرانس میں پیلی واسکٹ تحریک نے سب کو حیران پریشان کر دیا۔ اس عوامی تحریک سے پہلے ایسا لگتا تھا کہ ایمانویل ماکرون کی ذات میں ”سیاسی اعتدال“ کا منصوبہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کی اصلاحات (درحقیقت ردِ اصلاحات) سکون سے لاگو ہو رہی تھیں۔ ٹریڈ یونین قیادت ذمہ داری کا ثبوت دے رہی تھی (یعنی سر نگوں تھی)۔ یہ سارا پروگرام اس وقت چوپٹ ہوگیا جب عوام اپنی انقلابی روایات کو زندہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی اور حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ لاکھوں لوگوں کی یہ تحریک کسی بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوئی۔
ہانگ کانگ کے حوالے سے بھی یہ بات درست ہے۔ آج اگر کسی کو موجود انقلابی پوٹینشل پر کوئی شک ہے تو اسے ان واقعات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے۔ تحریک سے پہلے لگتا تھا کہ صورتحال بیجنگ اور اس کے مقامی ایجنٹوں کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ لیکن لاکھوں لوگوں کی دیو ہیکل تحریک نے سڑکوں پر آکر ایک مضبوط آمریت کو چیلنج کر دیا۔ اور فرانس کی طرح ایسے محسوس ہوتا تھا کہ تحریک اچانک ہی نمودار ہوگئی۔
یکے بعد دیگرے تمام ممالک میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کے حوالے سے یہی باتیں بارہا دہرائی جاسکتی ہیں۔ اگر محض ایک یا دو ممالک کا سوال ہوتا تو قیاس کیا جا سکتا تھا کہ یہ کوئی حادثاتی عمل ہے۔۔محض معمول سے انحراف جن سے کوئی عمومی نتائج اخذ نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن ایک ہی عمل یکے بعد دیگرے مختلف ممالک میں رونما ہو رہا ہے تو پھر ہم ا تنی آسانی سے حادثہ قرار دے کر اسے رد نہیں کر سکتے۔ بلکہ یہ مظاہر ایک ہی عمومی عمل کے عکاس ہیں جن کے یکساں قوانین اور رجحانات ہیں۔
لاطینی امریکہ میں انقلابی واقعات
2015ء میں جب ماؤریسیو ماکری نے ارجنٹائن میں صدارتی الیکشن جیتا (تو اس کو بنیاد بناتے ہوئے) ساتھ ہی یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ یہ لاطینی امریکہ میں پھیلنے والی ”قدامت پسند لہر“ کا ایک اور ثبوت ہے۔ لیکن حالیہ انتخابات نے ماکری اور اس کے کاروباری بدمعاشوں کے معاشی خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔
جس شخص نے ”غربت کے مکمل خاتمہ“ وعدہ کیا تھا اس کی حکومت کا اختتام پیسو کی ڈوبتی قدر اور سالانہ 56 فیصد افراطِ زر کے ساتھ ہوا۔ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے افراد کی شرح 29 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد ہو گئی۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والا ایمرجنسی قرضہ بھی معاشی توازن بحال کرنے میں ناکافی ثابت ہوا۔
اگر مزدور تحریک کی کوئی واضح قیادت موجود ہوتی تو ایک انقلابی تحریک ماکری حکومت کا تختہ الٹ دیتی۔ ہمسایہ ملک چلی میں ہونے والے حالیہ واقعات اس کی واضح مثال ہے۔
اس تحریک کا آغاز سانتیاگو میں میٹرو ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کے خلاف کالج کے طلبہ کے احتجاج سے ہوا۔ لیکن ایک مرتبہ شروع ہونے کے بعد یہ تحریک برق رفتاری سے ایک قومی تحریک میں تبدیل ہو گئی جس کا مقصد حکومت کا خاتمہ بن چکا ہے۔ یہ 30 سالوں کی کٹوتیوں، نجکاری، محنت کش طبقہ پر حملوں، ڈی ریگولیشن اور خوفناک عدم مساوات کا نتیجہ ہے۔
25 اکتوبر جمعہ کے دن 10 لاکھ سے زائد افراد نے دارالحکومت میں احتجاج کیا۔ یہ تحرک پورے ملک کے ہر شہر اور مقامی آبادی میں دیکھا گیا۔ 20 لاکھ سے زائد افراد نے سڑکوں پر موجود تھے۔ پینیرا حکومت کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کرنے، سڑکوں پر افواج اتارنے اور کرفیو لگانے کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد سماج میں مجتمع غصہ پھٹ پڑا۔ لیکن شدید جبر، ٹارچر، کرفیو اور جھوٹے وعدے اس تحریک کا راستہ نہیں روک سکے جو اب بغاوت میں تبدیل ہو رہی ہے۔
یہ کوئی کٹا ہوا الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی ہم نے ایکواڈور میں انقلابی شورش دیکھی جس کا آغاز صدر لینن مورینو کے آئی ایم ایف کی شرائط لاگو کرنے سے ہوا اور پھر یہ ایک عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گئی جس کے نتیجے میں حکومت کو قومی اسمبلی کو تالا لگا کر دارالحکومت کویٹو سے بھاگنا پڑا۔
چلی کی طرح یہ تحریک بھی برق رفتاری سے بغاوت میں تبدیل ہو گئی جس نے واضح طور پر طاقت و اقتدار کا سوال کھڑا کر دیا۔ بنیادی سوال رنگ برنگی اصلاحات کا نہیں بلکہ اقتدار کا ہے کہ حاکم کون ہے؟ حکومت نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے پولیس اور فوج کو حکم دیا کہ بغاوت کو ہر صورت کچلا جائے جس سے ایک موت واقع ہوئی، درجنوں زخمی ہوئے اور کئی سو افراد گرفتار کر لیے گئے۔ لیکن عوامی بغاوت کے سامنے ریاستی جبر کے تمام آلات ناکارہ ہو چکے ہیں۔
حکومت کو کویٹو سے بھاگنا پڑ۔ 9 اکتوبر بدھ کو ایک طاقتور عام ہڑتال نے پورا ملک جام کر دیا اور 50 ہزار سے 1 لاکھ کے درمیان افراد کا دیو ہیکل ہجوم کارونڈولیٹ صدارتی محل کی جانب مارچ پر چل نکلا جسے ایک دن پہلے ہی مورینو نے خالی کیا تھا۔ کچھ لمحوں کے لیے تحریک نے قومی اسمبلی پر قبضہ کر لیا تاکہ ایک عوامی اسمبلی قائم کی جائے۔
یہ واضح ثبوت ہے کہ نہ صرف چلی اور ایکواڈور بلکہ پوری دنیا میں کتنا بھرپور انقلابی پوٹینشل موجود ہے۔
لبنان
دوسری جانب دور پار مشرقِ وسطیٰ میں ایسا لگتا تھا جیسے قدامت پسندی نے ہر جگہ ڈیرے جما لیے ہیں اور عرب انقلاب دفن ہو چکا ہے۔ لیکن ایک مرتبہ پھر اس عظیم انقلاب کی قوتیں حرکت میں آچکی ہیں۔
لبنان جیسے ملک میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد سڑکوں پر ہیں جس کی پوری آبادی صرف 60 لاکھ ہے۔ جنگ و جدل سے تباہ حال عراق میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر فوجی اور نیم فوجی دستوں سے نبرد آزما ہیں۔ لبنان اور عراق میں طاقتور عوامی مظاہروں کے نتیجے میں وزرائے اعظم چند ہفتوں کی تحریکوں کے بعد ہی مستعفی ہو چکے ہیں۔
دہائیوں سے قدامت پسند حکومتیں سماج میں فرقہ وارانہ تفریق کو طبقاتی جدوجہد کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں لیکن اب یہ حربے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ تحریکیں طبقاتی تضادات کو ابھار کر سامنے لا رہی ہیں۔ سڑکوں پر نوکریوں، تعلیم، صحت اور سماج کی بالائی پرتوں میں شرمناک کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف مطالبات گونج رہے ہیں۔ 2018ء میں اردن کی عام ہڑتال اور دیو ہیکل عوامی مظاہرے وزیرِ اعظم ہانی مُلکی کی حکومت بہا لے گئے۔
لینن کا کہنا تھا سیاست مجتمع شدہ معیشت ہے۔ یہ بات آج کے زیرِ بحث واقعات پر سو فیصد صادق آتی ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اس ساری صورتحال میں صرف معاشی مسائل ہی واحد جزو نہیں ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شدید معاشی بحران اور حکمران اشرافیہ اور اس کی کٹھ پتلیوں کی دہائیوں پر محیط خون آشام کرپشن نے سماج کو دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
لبنان(اس عمل کی) ایک اچھی مثال ہے۔ اس کی جی ڈی پی کے موابلے میں قرضوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ میں سے ایک ہے۔ بیروزگاری کی شرح 25 فیصد ہے اور ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان ہر سال بہتر زندگی کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ یہ تما تر حالات ایک سماجی دھماکے کے اجزائے ترکیبی ہیں۔
جن سیاسی پارٹیوں نے خانہ جنگی کے دوران پورا ملک فرقہ ورانہ بنیادوں پر بانٹ دیا تھا آج بھی حکومت میں ہیں اور ہر سال بجٹ میں بے پناہ گھپلے اور بجٹ خساروں کا باعث بن رہی ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا لیکن اب ایک انتہائی طاقتور انقلابی تحریک لبنان کے طول و عرض میں پھٹ چکی ہے اور پورا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔
17 اکتوبر سے پورے ملک میں بے لگام کرپشن، عوامی سہولیات کے فقدان اور برباد معیشت کے خلاف عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ معاشی انہدام کے خوف سے بینک بند ہو چکے ہیں جبکہ مظاہرین لاکھوں کی تعداد میں سڑکیں بلاک کر کے چوراہوں میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔
مظاہرے خودرو اور مکمل طور پر غیر منظم ہیں۔ کوئی تنظیم ان مظاہروں کی قیادت کی دعویدار نہیں کیونکہ یہ واقعی ایک عوامی انقلاب ہے۔ مختلف فرقوں، سماجی طبقوں اور سیاسی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سڑکوں پر معیشت کی تباہ حالی پر احتجاج کرتے ہوئے چوروں کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر ہے ہیں۔
اگرچہ لوگوں کا سیاسی پس منظر مختلف ہے لیکن جو چیز انہیں جوڑے ہوئے ہے وہ ان کے معیارِ زندگی پر خوفناک حملے ہیں۔ یہ غم و غصہ، میرے خیال میں، لبنان کے امیر ترین 10 فیصد (جن میں حکمران سیاست دان اور کارپوریٹ اشرافیہ شامل ہے) اور محنت کش طبقے کے درمیان بڑھتی عدم مساوات کی وجہ سے ہے۔
بڑھتی بے چینی ایک عوامی تحریک کی صورت میں پھٹ پڑی جب 20 لاکھ سے زائد افراد ملک کے طول و عرض میں ہر صوبے میں فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے۔ کسی نظم یا قیادت کے بغیر انقلابی عوام خوفناک جبر برداشت کر رہی ہے تاکہ ڈاکو حکمرانوں سے مقابلہ کیا جا سکے۔
چلی اور ایکواڈور کی طرز پر حکومت نے مسلح قوتوں اور آنسو گیس کے ذریعے مظاہرین کو دبانے کی کوشش کی اور پولیس جبر کی کئی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بن گئیں۔ لبنانی حزب اللہ اور اس کی سیاسی حلیف ’عمل‘ نے بیروت میں مظاہرین پر ننگا جبر کیا۔
کئی سالوں سے ایران نواز شیعہ تحریکیں امریکہ کے ساتھ چپقلش اور سعودی اسرائیلی سامراج کے پیچھے اپنا حقیقی چہرہ چھپائے ہوئے تھیں۔ لیکن اس وقت وہ خود حکمران اشرافیہ کا اہم حصہ ہیں۔ انقلابی موجوں کے سامنے انہوں نے اپنا حقیقی رنگ دکھا دیا اور اس وقت پوری مستعدی سے اپنے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرنے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
مظاہرین پر کھلم کھلا حملوں نے ان کے حقیقی رجعتی کردار کو ننگا کر دیا۔ اسی لیے حزب اللہ بھی لبنانی عوام کے غم و غصے کا شکار بنی، نام نہاد ”خدا کی پارٹی“ جو غرباء اور محکوم کی محافظ کا بہروپ دھارے بیٹھی تھی۔ جب اس کے قائد حسن نصراللہ نے لبنانی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تو سڑکیں ”سب کا مطلب سب ہیں، ان میں نصراللہ بھی ہے!“کے نعرے سے گونج اٹھیں۔
آخر کار لبنانی وزیرِ اعظم سعد حریری کو یہ تسلیم کرتے ہوئے استعفیٰ دینا پڑا کہ وہ 13 دن سے جاری دیو ہیکل تحریک کے سامنے ”بے بس“ ہے۔ دی انڈی پینڈنٹ اخبار نے تجزیہ کیا کہ
”مظاہرین نے لبنانی سیاسی اشرافیہ کو انتشار میں دھکیل دیا ہے۔ 1990ء کے بعد سے بحیرہئ روم کے مشرق میں واقع اس قوم پر حکمران فرقہ وارانہ سیاسی نظم پہلی مرتبہ ایک عوامی تحریک کا شکار ہے جس کا مقصد ہی اس کا خاتمہ ہے“
مزید لکھتا ہے کہ
”تحریک کا آغاز نئے ٹیکسوں سے شروع ہوا لیکن جلد ہی یہ ایک اور ہی بڑے مظہر میں تبدیل ہو گئی۔ حکومت یا کسی سیاسی قائد کو نشانہ بنانے کے بجائے مظاہرین لبنان کے پورے کرپٹ سیاسی طبقے کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں“۔
ہم نے بالکل یہی عمل ایکواڈور اور چلی میں دیکھا ہے۔ فوری، ٹھوس اور معاشی مطالبات پر شروع ہونے والی عوامی تحریک فوراً ”بڑے مظہر“ میں تبدیل ہو گئی۔ یعنی عوام نے اپنے تجربے سے سیکھتے ہوئے اب انقلابی نتائج اخذ کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اب چھوٹی موٹی اصلاحات سے کام نہیں چلے گا بلکہ مکمل تبدیلی ہی اس عہد کا مطالبہ ہے یعنی ”پورا سیاسی طبقہ“۔ اور یہی تو انقلاب کا مطلب ہوتا ہے!
عراق، تیونس، سوڈان۔۔۔
عراق میں بھی شیعہ اکثریتی علاقوں میں شروع ہونے والے مظاہروں کی متعدد لہروں نے پورے سیاسی ڈھانچے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یکم اکتوبر سے اب تک دیو ہیکل ریڈیکل احتجاجوں نے پورا ملک ہلا دیا ہے۔ اس مرتبہ بغداد سے شروع ہوکر احتجاج فوراً پورے ملک میں پھیل گئے۔ عراقی افواج اور پولیس بدترین جبر کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں 150 افرد کی اموات (کچھ رپورٹوں کے مطابق 300) اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ خوفناک جبر تحریک کو کچلنے میں ناکام رہا ہے۔
تیونس میں یکے بعد دیگرے احتجاجوں نے پورا ملک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور الجزائر میں ایک دیو ہیکل انقلابی تحریک نے بیمار بوتفلیکا کی حکومت ختم کرتے ہوئے ریاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ الجزائر میں حکومت کا خیال تھا کہ 2011ء کے بعد بے تحاشا ریاستی اخراجات کر کے سماج میں دائمی امن قائم کرلیا ہے۔
سوڈان میں ہم نے دیکھا کہ ایک انقلابی ممکنات سے لبریز تحریک نے پورے خطے کے حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ نوجوانوں اور خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کی بہادری اور جرأت مندی متاثر کن تھی۔ سوڈانی محنت کش طبقے نے عام ہڑتالوں کے ذریعے ریاست کی طاقت کو چیلنج کیا اور اقتدار کا سوال لا کھڑا کیا۔
الجزائر میں بھی یہی کچھ ہوا۔ یہ ساری صورتحال اس حقیقت کی نوید ہے کہ عرب انقلاب میں ابھی بھی بے پناہ ممکنات پوشیدہ ہیں۔ لیکن ان مظاہر کو بیان کیسے کیا جائے؟ اور ان کا مطلب کیا ہے؟ سطحی مبصرین اور تجربیت پسند ان واقعات کے سامنے گونگے ہو کر رہ گئے ہیں جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو گا اور نہ ہی ان کے پاس ان واقعات کی کوئی وضاحت موجود ہے۔ بورژوازی کے سطحی تجربیت پسند محض واقعات کی سطحیت تک محدود رہتے ہیں (نام نہاد ”حقائق“تک)۔ وہ سطح سے نیچے عوامل کی گہرائی میں اتر کر نہ کچھ دیکھ اور سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔
انقلاب کا سالماتی عمل
ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ واقعات کی پیش بینی ان سے حیران ہونے سے کہیں برتر ہے اور یہ نظریے کی بدولت ہی ممکن ہے۔ عوامی بے چینی کے اچانک اور دھماکہ خیز مظاہر ہمیشہ بورژوزی اور اس کے کرائے کے ”ماہرین“ کو حیران و پریشان کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بورژوا ”ماہرین“ کے پاس کوئی تھیوری نہیں (سوائے اس کے کہ تمام تھیوری بیکار ہے)اور اس وجہ سے وہ اچانک رونما ہونے والے واقعات کے سامنے ششدر رہ جاتے ہیں۔
سماج کی گہرائیوں میں پنپنے والے ان عوامل کی حقیقی آشنائی کے لیے صرف ایک ہی موزوں ترین آلہ موجود ہے اور وہ جدلیات ہے۔ ظاہر ہے کہ بورژوازی کو جدلیات کی کوئی سمجھ نہیں اور اصلاح پسندوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ اس حوالے سے مختلف فرقوں کا ذکر تو ویسے ہی فضول ہے کیونکہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے۔ تناظر کی عدم موجودگی ہی وہ واحد وجہ ہے جس نے ان سب کو بحران میں مبتلا کیا ہوا ہے۔
ٹراٹسکی نے واقعی ایک شاندار اصطلاح تخلیق کی، ”انقلاب کا سالماتی عمل“۔ اس فقرے پر کچھ بات لازمی ہے۔ ٹراٹسکی کا اشارہ جدلیات کی طرف تھا اور جدلیات کو سمجھے بغیر آپ کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ عوامی شعور میں تبدیلی عام طور پر ایک سست رو اور بتدریج عمل ہے۔ یہ سست روی اور بغیر کسی اظہار کے لیکن ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک نقطے پر آ کر مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے اور عوامل اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
طویل عرصے تک شعور مایوسی، غصہ اور سب سے بڑھ کر سطح سے نیچے بے چینی کے سست رو اجتماع میں اپنا اظہار کرتا رہتا ہے۔ یہاں وہاں، کچھ علامات، کچھ اشارے اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں جو ایک ماہر مشاہدہ کرنے والا ہی سمجھ سکتا ہے جو یہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ امر کا اظہار ہیں۔ لیکن موٹے دماغ کے تجربیت پسندوں کے لئے یہ ایک ایسی کتاب ہے جو سات پردوں میں چھپی ہے، جن کا ایک ہی راگ ہے۔۔ ”حقائق“۔ وہ باقی ہر چیز سے بے بہرہ ہیں۔
فلسفی ہیراکلیتس نے تجربیت پسندوں سے اپنی نفرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ”آنکھیں اور کان ان افراد کے لئے بیکار گواہ ہیں جن کی روح ان کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے“۔ بائبل میں اس خیال کا اظہار ان الفاظ میں ہے کہ ”ان کی آنکھیں ہیں پر وہ دیکھ نہیں سکتے“۔ جتنے مرضی حقائق اور اعداوشمار اکٹھے کر لیے جائیں، وہ کبھی بھی درست نتائج پر پہنچ نہیں سکتے۔
برطانیہ اور فرانس
اچانک اور تیز ترین تبدیلیاں آج کے عہد کا خاصہ ہیں۔ یہ اچانک سماجی دھماکے لاکھوں کروڑوں افراد میں مجتمع شدہ غم و غصے اور مایوسی کا اظہار ہیں جو پورے نظام کے خلاف ابھر رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کا واضح اظہار ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور پر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔
کچھ لوگ یہ بحث کریں گے کہ انقلابی تبدیلیاں، جن کا ہم نے یہاں ذکر کیا ہے، صرف غریب اور معاشی طور پر پسماندہ ممالک میں ہی آسکتی ہیں۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جدلیات ہمیں سکھاتی ہے کہ جلد یا بدیر چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
برطانیہ اس کی بہترین مثال ہے۔ صرف چار سال پہلے برطانیہ کو یورپ کا سب سے مستحکم ملک سمجھا جاتا تھا، یا شاید پوری دنیا میں، لیکن اب وہ اپنے الٹ میں تبدیل ہوکر غالباً یورپ کا سب سے غیر مستحکم ملک بن چکا ہے۔ ”پارلیمانوں کی ماں“ ایک زمانے میں اپنی شائستگی اور روایات کے حوالے سے ایک مثال تھی لیکن اب اس میں بے پناہ بحرانات اور دراڑیں موجود ہیں۔ اطمینان کی جگہ انتشار پھیل چکا ہے۔
برطانوی سماج اس وقت ایسی شدید پولرائزیشن کا شکار ہے جو ایک طویل عرصے میں نہیں دیکھی گئی۔ یہ پولرائزیشن سرمایہ دار طبقے اور اس کے نظریاتی چمچوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ وہ پریشان ہیں کیونکہ انہیں مبہم سا ادراک ہے کہ اس پولرائزیشن مستقبل کے انقلابی واقعات کے بیج چھپے ہوئے ہیں۔
2008-09ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے ایک سست رو عمل میں بے چینی اکٹھی ہوتی رہی۔ یہ عالمی سطح پر پورے منظرنامے میں ایک واضح تبدیلی کا اظہار تھا۔ یہ ہرلحاظ سے ایک مکمل اور معیاری تبدیلی تھی۔ اب ہم انقلاب کا وہ سالماتی عمل دیکھ سکتے ہیں جس کا ذکر ٹراٹسکی کرتا تھا۔ یہ ایک خاموش پوشیدہ عمل ہے۔ یہ حسیاتی ہے، اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آپ وثوق سے نہیں کہہ سکتے یہ کیا ہے کیونکہ یہ سطح سے نیچے پنپ رہا ہے۔ لیکن یہ ہر لمحہ موجود ہے اور چھچھوندر کی طرح مسلسل کھدائی کر رہا ہے۔
ماضی میں برطانوی عوام کو فطری طور پر قدامت پسند تصور کیا جاتا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ ان کا خمیر کسی قسم کی انقلابی روش سے نا آشنا ہے۔ ان کے پاس ٹھوس ادارے موجود تھے جو انقلاب کے خلاف مضبوط و توانا رکاوٹیں تھیں یعنی پارلیمنٹ، ہاؤس آف لارڈز، بادشاہت اور قانون کی بالادستی۔ عوام ان اداروں کی قدر کرتی تھی جو سماجی امن اور سیاسی استحکام کی ضمانت تھے۔
اب یہ تمام دلکش سراب ہوا ہو چکے ہیں۔ طویل عرصے سے پارلیمانی جمہوریت پر چلا آ رہا اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ سیاست دان اور ویسٹ منسٹر اشرافیہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ حکمران طبقے کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ اگر لوگ اب اپنی زندگیوں اور قسمتوں کے فیصلے ماہر سیاست دانوں اور افسر شاہی (”جنہیں سب پتہ ہے“) کے ہاتھوں میں دینے پر راضی نہیں تو ایک دن وہ یہ سب کچھ اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہی سب کچھ حال ہی میں فرانس میں ہو چکا ہے۔
نومبر 2018ء میں پیلی واسکٹ تحریک اچانک ہی پھٹ کر سامنے آئی جس میں عام عوام کے دیو ہیکل ہجوم سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ ایک انقلابی پوٹینشل موجود ہے۔ یہاں تک کہ بریگزٹ بھی ایک مخصوص مسخ شدہ شکل میں اسی حقیقت کا اظہار کر رہا ہے۔ کئی دیگر ممالک میں ایسا ہی احساس موجود ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید نفرت۔ لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح نام نہاد بایاں بازو اس انقلابی موڈ کو کسی قسم کا منظم اظہار فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہا۔
اکتوبر میں سیاسی قیدیوں کو سزائیں سنانے کے بعد سے کیٹالونیا میں بھی دیو ہیکل تحریک شروع ہو چکی ہے۔ ان سیاسی قیدیوں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے 2017ء کا آزادی ریفرنڈم منظم کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔ ایک جمہوری حق کو استعمال کرنے کے ”جرم“ میں دی جانے والی خوفناک عمر قید (مجموعی طور پر 100سال پر محیط) پر شدید عوامی غم و غصہ پھٹ پڑا اور لاکھوں افراد نے نکل کر سڑکیں، ریلوے لائینز اور بارسلونا ائرپورٹ بلاک کر دیا۔
پولیس کے بدترین تشدد کا سامنا کرتے ہوئے ہزاروں افراد نے، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، اپنا دفاع کیا اور واپس جواب بھی دیاجس کے نتیجے میں ایک ہفتہ تک رکاوٹیں جلتی رہیں اور سڑکوں پر لڑائیاں چلتی رہیں۔ 18 اکتوبر کو ایک عام ہڑتال ہوئی جس میں بارسلونا میں ایک دیو ہیکل ہجوم امڈ آیا جو پانچ کالموں میں منظم ہو کر کیٹالونیا کے مختلف علاقوں سے پیدل شہر پہنچا۔ کیٹالان جمہوریہ کی جدوجہد کی قیادت پیٹی بورژوا پارٹیاں کر رہی ہیں جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی ساکھ کھو رہی ہیں لیکن ابھی تک کوئی متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہیں آ سکی۔
یہ آنے والے دیو ہیکل زلزوں کی نشانیاں ہیں۔ روایتی پارٹیوں کے بانجھ پن کے نتیجے میں عوامی بے چینی مختلف ممالک میں مختلف انداز میں اظہار کر رہی ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر عوام مسلسل ریڈیکلائز ہو رہی ہے جس کی وجہ سے عوامی موڈ بائیں اور دائیں بازو کے رجحانات کے درمیان پنڈولم بنا ہوا ہے۔ ریڈیکلائزیشن کا عمل بحران کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ شدت اختیار کرتا جائے گا جس کی وجہ سے طبقات کے درمیان پولرائزیشن اور زیادہ شدید ہوتی چلی جائے گی اور ان دیکھے حیران کن انقلابی دھماکوں کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی۔
موجودہ صورتحال اور مارکس وادیوں کی ذمہ داری
مارکس وادی اپنی فطرت میں رجائیت پسند ہیں لیکن ہماری رجائیت جھوٹی یا بناوٹی نہیں۔ اس کی بنیاد ٹھوس تجزیہ اور تناظر ہیں۔ مارکسزم کی مضبوط چٹان پر ہماری بنیادیں استوار ہیں۔ ہماری تنظیم فخر کرتی ہے کہ ہم بنیادی اصولوں اور جدلیاتی طریقہ کار پر پر ثابت قدم رہے ہیں جو ہمیں سطح سے نیچے غوطہ زن ہونے اور سماج کی گہرائی میں متحرک عوامل کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔
جس عہد سے ہم گزر رہے ہیں اسے آنے والے وقت میں ایک فیصلہ کن لمحے کے طور پر دیکھا جائے گا، ایک ایسا لمحہ جس نے صورتحال کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ’حقائق‘ سے اس دعوے کا منہ چڑایا جاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ عالمی معیشت چلتی جا رہی ہے اور درحقیقت بورژوا معیشت دانوں نے واویلا مچایا ہوا تھا کہ یہ تاریخ کی طویل ترین معاشی بحالی ہے۔ لیکن اب واقعات برق رفتاری سے رونما ہو رہے ہیں۔ صرف مارکسی جدلیاتی طریقہ کار ہی ان عوامل کی ایک منطقی وضاحت دے سکتا ہے جس تک مایوس اندھے تجربیت پسند کبھی نہیں پہنچ سکتے۔
کئی حوالوں سے موجودہ صورتحال سلطنتِ روم کے انحطاط اور انہدام سے مشابہت رکھتی ہے۔ بینکار اور سرمایہ دار مستقل اپنی دولت اور عیش و آرام کی خودنمائی کرتے رہتے ہیں۔ 2030ء تک دنیا کے 1 فیصد امیر ترین افراد دنیا کی دو تہائی دولت پر براجمان ہو جائیں گے یعنی کھربوں ڈالروں کے انبار جنہیں وہ کسی پیداواری کام میں نہیں لگاتے۔ حکمران طبقہ مکمل طور پر طفیلیہ اور انحطاط کا شکار ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے پوری دنیا میں ہر جگہ غم و غصہ اور نفرت پھیل رہی ہے۔
اس وقت مارکسی نظریات کی ترویج کے دیو ہیکل امکانات موجود ہیں۔ یہ وہ بنیادی ہدف ہے جس پر ہماری تمام توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ ہمیں بنیادی نکات پر بحث کرنی چاہیے، صرف واقعات ہی نہیں بلکہ عمومی حرکیات۔ ان تمام واقعات میں ان ٹوٹ دھاگہ کیا ہے؟ شدید سیاسی اور سماجی پولرائزیشن۔ طبقاتی جدوجہد ہر سو سر اٹھا رہی ہے۔
ہم بڑھ رہے ہیں اور ہماری تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ابھی ہم اس قدر قلیل تعداد میں ہیں کہ ہم مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات پر فوری طور پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ ہماری نظر میں اگر فیصلہ کن انقلابی واقعات کچھ دیر سے رونما ہوتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ سادہ وجہ یہ ہے کہ فی الحال ہم تیار نہیں۔ ہمیں ایک انقلابی متبادل تعمیر کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
تاریخ اپنی رو میں آگے بڑھتی ہے اور یہ کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ موجودہ صورتحال میں ہماری تیاری سے پہلے دیو ہیکل واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اچانک اور تیز تر تبدیلیاں عہد کا خاصہ ہیں۔ ہمیں دیو ہیکل چیلنجوں کے لئے تیاری کرنی ہے۔ بہترین مزدور اور نوجوان ہمارے نظریات کے متلاشی ہیں۔ ہمیں ہر صورت ان پرتوں تک نظریات پہنچانے ہیں اور پرانے تھکے ہوئے مایوس عناصر کو رد کرنا ہے۔ ہماری صفوں میں شکوک و شبہات اور معمولاتِ زندگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اوپر سے نیچے تک، ہر فرد کی رگ رگ میں عجلت بھر ہونی چاہیے۔
ہمارا مقابلہ وقت سے ہے۔ دیو ہیکل واقعات ہمیں پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ ہمیں تیاری رہنا چاہیے۔ اس لئے، ہمیں اپنی تنظیم کی تعمیر کرنی ہے اور جتنا جلد ممکن ہو سکے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہوئے انہیں ساتھ جوڑنا اور ان کی تربیت کرنی ہے۔ یہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ ہم اس راستے پر گامزن ہیں۔ کوئی مسئلہ، کوئی پریشانی، کوئی مصیبت، کوئی خلفشار ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ ہمارا نعرہ ہے:
”عالمی سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!“