|تحریر: جوش ہولرائڈ، ترجمہ: اختر منیر|
2008 ء کے عالمی بحران کے بعد آنے والے سالوں میں سو ویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کے متعلق سب سے زیادہ سوالات اور اعتراضات دیکھنے میں آئے ہیں۔ سرمایہ داری کا بحران زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہو رہا ہے جس کی وجہ سے سیاست اور عالمی تعلقات میں شدید عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔
پورے یورپ میں وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے بعد از عالمی جنگ دور تشکیل دیا تھا اب محض حاشیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور نئی آنے والی ’’مقبول‘‘ جماعتوں نے ان کی جگہ لے لی ہے، جبکہ برطانیہ میں بریگزٹ کے حق میں ووٹ نے صدیوں سے وجود رکھنے والی ٹوری پارٹی کو اندرونی تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ لاطینی امریکہ، افریقہ، اور مشرق وسطیٰ میں بڑی بڑی احتجاجی تحریکوں نے حکومتوں کے تختے الٹ کر رکھ دیے ہیں اور دنیا کے امیر ترین ملک امریکہ میں برنی سینڈرز اور ٹرمپ کی انتخابی مہم نے دو پارٹیوں کے نظام کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، ’’سیاسی خود کش حملہ آور کو واشنگٹن بھیج دیا گیا ہے‘‘۔
اتنے گہرے سماجی بحران نے عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، خاص کر نوجوانوں میں جو دنیا کے کئی حصوں میں شدید بے روزگاری، کم اجرتوں اور اپنے والدین کی نسبت کام اور زندگی کے زیادہ کٹھن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ’’کمیونزم کے متاثرین کی فاؤنڈیشن‘‘ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں (1981ء سے 1996ء کے درمیان پیدا ہونے والے) 44 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ ایک سوشلسٹ سماج میں رہنا پسند کریں گے، ان کے برعکس 42 فیصد نے کہا کہ وہ ایک سرمایہ دارانہ سماج میں رہنا پسند کریں گے۔ 7 فیصد (جو ایک کافی بڑی تعداد ہے) نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ایک کمیونسٹ سماج میں رہنا چاہیں گے جس سے میڈیا میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی۔
یہ تبدیلی محض امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ یورپ میں یورپی یونین کی طرف سے کروائے جانے والے ایک سروے میں 18 سے 25 سال تک کی عمر کے لوگوں کی اکثریت نے کہا کہ ’’اگر آنے والے کچھ دنوں یا مہینوں میں حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر بغاوت ہوئی تو وہ اس میں حصہ لیں گے‘‘ اور 80 فیصد لوگوں نے اس بیان کے ساتھ اتفاق کیا کہ ’’دنیا پر پیسے اور بینکوں کی حکومت ہے‘‘۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یورپ پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے۔۔۔
لیکن یہ کسی بھی طرح ایک یکطرفہ عمل نہیں ہے۔ جوں جوں زیادہ سے زیادہ لوگ نالاں ہو کر موجودہ نظام سے منہ پھیر رہے ہیں اور مبصرین ’’لبرل ازم کی موت‘‘ کے نوحے پڑھ رہے ہیں، سرمایہ داری کے حواس باختہ دفاع میں فیاض ارب پتیوں، سیاست دانوں اور مشہور دانشوروں کا گٹھ جوڑ بھی سامنے آرہا ہے جو ’’غربت میں کمی‘‘ کے کسی حد تک حیران کن نعرے کے گرد اکٹھے ہو رہے ہیں۔
’’خاموش معجزہ‘‘
برطانیہ میں تھریسا مے کو سرمایہ داری کے دفاع پر مجبور ہونا پڑا، آزاد منڈی کی تعریف کرتے ہوئے اس نے اسے ’’تاریخ میں مشترکہ ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ‘‘ قرار دیا، ساتھ یہ دعوے بھی کیے کہ جن ممالک میں اسے اپنایا جاتا ہے وہاں ’’غربت کم ہوتی ہے اور لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے‘‘۔ 2016ء میں سابق صدر باراک اوباما نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے پر ایک آرٹیکل میں یہ دعویٰ کیا کہ ’’زندگی گزارنے کے لئے یہ سب سے بہترین وقت ہے‘‘، شاید ایسا ہی ہو اگر آپ باراک اوباما ہیں تو!
کتابوں کی الماریاں سٹیون پنکر کی ’’Enlightenment Now‘‘ اور ہانس روزلنگ کی ’’Factfulness‘‘، جو اس کی موت کے بعد شائع ہوئی، جیسی بیسٹ سیلر کتابوں سے بھری پڑی ہیں، جس میں ’’انسانی ترقی کے خاموش معجزے‘‘ کا شور مچایا گیا ہے۔ بل گیٹس جیسے فیاض سرمایہ دار روزلنگ کی کتاب کی مفت کاپیاں بانٹتے ہوئے ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ’’میرا بھروسہ کرو، دنیا واقعی بہتر ہو رہی ہے‘‘۔ دی اکانومسٹ جیسے بڑے خبر رساں ادارے رپورٹ کرتے ہیں کہ ’’کل سے لے کر اب تک شدید غربت میں رہنے والے افراد کی تعداد میں 1 لاکھ 37 ہزار کی کمی ہوئی ہے‘‘ اور ساتھ ہی یہ واویلا بھی کرتے ہیں کہ میڈیا اس عظیم کامیابی پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ’World Poverty Clock‘جیسی خوبصورت ویب سائٹس لش پش انداز میں اعداد و شمار کے ساتھ دنیا کی کم ہوتی ہوئی غربت دکھاتی ہیں۔ لبرلز اور جارڈن پیٹرسن جیسے بائیں بازو کے انتہا پسند مل کر راگ الاپتے ہیں: ’’2006ء سے 2012ء تک قطعی غربت میں 50 فیصد کمی آئی ہے، یہ انسانی تاریخ میں بہتری کی سب سے تیز ترین شرح ہے‘‘۔ ایک پورا نیا شعبہ لوگوں کو یہ بتانے کے لیے وجود میں آ چکا ہے کہ موجودہ نظام کتنا اچھا ہے۔ یہ بھی آزاد منڈی کا ہی ایک شاہکار ہے۔
اگر حالات اتنے ہی اچھے چل رہے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو اس کے برعکس کیوں لگتا ہے، پنکر اور روزلنگ کے مطابق اصل مسئلہ عوام کی ’’جہالت‘‘ اور ہمیشہ برا ہی تصور کرنے کا رجحان ہے، اس کے باوجود کہ ان سے برتر لوگ انہیں اس کے برعکس بتا رہے ہوں۔ روزلنگ کہتا ہے کہ جب پوچھا جائے کہ دنیا میں کتنے لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں تو لوگ ’’منظم طور پر غلط جواب دیتے ہیں۔‘‘ اس کا درست جواب کیا ہے؟ ’’حقائق پر بھروسہ ،صرف وہی رائے رکھنے کی ذہنی دباؤ کم کرنے والی عادت جس کے بارے میں آ پ کے پاس کافی ٹھوس شواہد موجود ہوں‘‘ کی ایک اچھی خوراک۔
اس دلیل کی منطق کی مضبوطی اس کی سادگی میں ہے: اگر حقائق یہ بیان کرتے ہیں کہ تقریباً ہر پیمانے کے مطابق دنیا میں بہتری آرہی ہے تو یقیناًتمام خرابیوں کے باوجود نظام چل سکتا ہے اور اگر نظام اکثریت کے لیے کام دے رہا ہے تو لوگوں کے پاس کوئی وجہ نہیں کہ وہ دائیں یا بائیں بازو کی تبدیلی کی سیاست کی طرف جائیں، سوائے اس کے کہ وہ جاہل اور متعصب ہوں۔ لبرلزم انتقام لینے واپس آچکا ہے۔ لیکن جب دنیا کی غربت کی بات ہوتی ہے تو حقیقت اور فسانے کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے۔
غربت کی سیاست
ایک دلچسپ قابل ذکر بات یہ ہے کہ غربت کے جو اعداد و شمار پنکر، روزلنگ اور پیٹرسن نے بیان کیے ہیں وہ ایک ہی ذریعے سے حاصل کیے گئے ہیں اور وہ ورلڈ بینک ہے۔ 1981ء سے لے کر اب تک ورلڈ بینک ترقی پذیر ممالک سے ’’شدید‘‘ اور ’’قطعی‘‘ غربت کے اعداد و شمار جمع کر رہا ہے، جنہیں عالمی غربت کی لکیر (IPL) سے پرکھا جاتا ہے۔ آج IPL کی سطح یومیہ 1.90 ڈالر ہے، جو 2011ء کی قوت خرید کے مطابق ہے (جو اشیاء کی ایک دی گئی مقدار رکھنے والی ٹوکری خریدنے کے لیے درکار رقم ہے)۔
پہلی نظر میں یہ بات حیران کن لگتی ہے کہ عالمی غربت کی نگرانی دنیا میں مالیاتی سرمائے کا سب سے نمایاں ادارہ تقریباً اکیلا ہی کر رہا ہے، لیکن شک کرنے والوں کو ورلڈ بینک گروپ کی مشن سٹیٹمنٹ پر نظر ڈالنی چاہیے جو واشنگٹن میں ان کے ہیڈکوارٹر کے باہر پتھر پر کندہ کی گئی ہے: ’’غربت سے پاک ایک دنیا ہمارا خواب ہے‘‘۔
کئی دہائیوں سے ورلڈ بینک اپنے اس خواب کی تکمیل کے لیے ترقی پذیر ممالک کو قرضے دیتا آ رہا ہے اور وہی قرضے وال سٹریٹ کے سرمایہ کاروں کو 15 فیصد تک کی پرکشش شرح سود پر بیچتا آ رہا ہے۔ یہ قرضے حاصل کرنے کے لیے ان ممالک کو قرضے واپس نہ کر پانے کی صورت میں IMF کی ’’ساختی مطابقت‘‘ سے متفق ہونا پڑتا ہے، اس صورت میں انہیں قومی اثاثے بیچنے اور عوامی اخراجات اور پنشن وغیرہ میں کٹوتی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسی پالیسیاں، جو ہو بہو وہی ہیں جو یورپ کے مرکزی بینک نے یونان کے معاملے میں کیا، ترقی پذیر دنیا کی GDP کی شرح نمو کم کرنے میں کامیاب رہی ہیں جو 1960ء کی دہائی میں 3.2 فیصد تھی، 1980 ء اور1990ء کی دہائی تک 0.7 فیصد تک آ گئی۔ 2015ء تک پوری دنیا کی آدھی دولت 1 فیصد آبادی کے ہاتھوں میں آ چکی تھی۔
لیکن اسی سال ورلڈ بینک نے بتایا کہ دنیا میں 1.90 ڈالر یومیہ کے برابر سے کم پر زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 1990ء میں تقریباً 10 میں 4 افراد سے کم ہو کر 10 میں 1 سے بھی کم رہ گئی ہے۔ سب سے تیز ترین بہتری سال 2000ء کے بعد ہوئی جس میں 2008ء میں آنے والے بحران کے بعد کی کساد بازاری بھی شامل ہے۔ ان معجزاتی اعداد و شمار کی سیاسی اہمیت واضح ہے۔ اگر دولت کے کم سے کم ہاتھوں میں ارتکاز کے باوجود دنیا کی غربت میں تیز ترین کمی آئی ہے تو پھر شاید مارگریٹ تھیچر اور رونلڈ ریگن ٹھیک ہی کہتے تھے کہ سرمایہ داری ایک ایسی لہر ہے جو تمام بحری جہازوں کو اوپر لے جاتی ہے۔
یہ سب ایک سہانے خواب کی طرح لگتا ہے اور درحقیقت یہ ایک خواب ہی ہے۔ یہ تمام نتائج دینے والے ادارے کے اپنی پالیسیوں کو لے کر مفادات، اعداد و شمار کی تشکیل اور اس سے بنائے جانے والے مفروضوں کے باوجود ان نتائج کا،جن کابل گیٹس جیسے ’بے صبرے خوش فہم‘ ہمیں یقین دلانا چاہتے ہیں، حقائق سے بہت کم تعلق ہے۔
قطعی غربت کا مفروضہ
جب سیاستدان اور اشاعتی ادارے غربت میں کمی کی بات کرتے ہیں تو تقریباً ہر مرتبہ ہی ان کا مطلب قطعی غربت ہوتا ہے (جسے شدید غربت بھی کہا جاتا ہے)، جسے Our World Data نے کم سے کم ’’جامد معیار زندگی جونہ صرف وقت کے لحاظ سے بلکہ مختلف ممالک میں بھی ایک سا رہتا ہے‘‘۔ یہ انسانی بقا کے لیے درکار کم سے کم رقم ہے جسے IPL میں 1.90 ڈالر یومیہ مقرر کیا گیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اوپر اوپر سے یہ کتنا ہی سائنسی کیوں نہ دکھائی دے، وقت اور جگہ کے اعتبار سے جامد قطعی غربت کا تصور صریحاً ایک حماقت ہے۔
اپنے سرمایہ داری کے دفاع اور بصیرت کے رموز میں سٹیون پنکر IPL کے بارے میں بتاتا ہے کہ ’’یہ وہ کم سے کم آمدن ہے جو آپ کے خاندان کو خوراک مہیا کرنے کے لیے ضروری ہے‘‘۔ بدقسمتی یہ کہ اس کا ایک ایک لفظ غلط ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ IPL کا حساب آمدنی کے حوالے سے نہیں بلکہ خرچ کے حوالے سے کیا جاتا ہے، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ اتنی کم ہے کہ زیادہ تر ممالک میں یہ ایک خاندان کو کھلانے کے لیے ناکافی ہے۔
2005ء میں امریکی حکومت نے اپنے ’کفایتی خوراک کے منصوبے ‘ میں بتایا کہ ایک اوسط شخص کو اپنی کم سے کم خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روزانہ کم از کم 4.58 ڈالر درکار ہیں، جو IPL کے لیے منتخب کی گئی کم از کم رقم سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ درحقیقت لندن کی سڑکوں پر رہنے والا کوئی شخص کسی بھی سپر مارکیٹ سے روزانہ ایک سینڈوچ خرید کر خود کو شدید غربت کی سطح سے اوپر لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ترقی پذیر ممالک میں بھی IPL کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے۔ ورلڈ بینک کی طرف سے استعمال کیے جانے والا 1.90 ڈالر یومیہ کا عدد گیمبیا اور سیرا لیون سمیت دنیا کے 15 غریب ترین ممالک کی غربت کی لکیروں کے اوسط کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر دیہی آبادی جو گزارے کے لیے زراعت پر انحصار کرتی ہے، کے (بے ہنگم اور ناقص تحقیق سے معلوم کیے گئے) کم از کم خرچ کو بنیاد بنا کر ورلڈ بنک کی نظر میں تمام ’’ترقی پذیر ممالک‘‘ کی غربت کا اندازہ لگایا جاتا ہے جن میں چین، جمہوریہ کانگو اور ارجنٹائن بھی شامل ہیں۔
ظاہر ہے کہ غلط طریقہ کار سے غلط نتائج ہی برآمد ہوتے ہیں۔ پاکستان اس کی ایک مثال ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان اپنی غربت کم کرنے کی کوششوں میں بہت کامیاب رہا ہے، 1996ء سے لے کر 2013ء تک اس کی غربت کی شرح 15.9 فیصد سے کم ہو کر 6.1 فیصد پر آ گئی۔ ’عالمی غربت کی گھڑی ‘ نے ورلڈ بینک کے مہیا کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان میں شدید غربت’’ تین فیصد سے بھی کم‘‘ ہو گئی ہے۔
مگر پاکستان کے اپنے 2011ء کے سروے برائے قومی خوراک کے مطابق پاکستانی بچوں میں سے ایک تہائی وزن کی کمی کا شکار ہیں، 44 فیصد بچے غیر کامل نمو (Stunted Growth )کا شکار ہیں اور آدھے انیمیا (خون کی کمی) کے مریض ہیں۔ سب سے مایوس کن بات یہ ہے کہ 2013ء میں دی لینسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران حاملہ ماں اور بچے کی غذائی کمی میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ عمومی حالات میں بھی زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ گلوبل ہنگر انڈیکس2016 ء کے مطابق 22 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی غذائی قلت کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔
ایک اور مثال انڈیا ہے جسے اکثر غربت میں کمی کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 2015ء میں انڈین حکومت کے ایک ترجمان نے اپنی ایک تقریر میں ان 30 کروڑ لوگوں کی حالت زار کا اعتراف کیا جن کے پاس نہ کوئی نوکری ہے نہ زمین، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق قبائل سے یا کم تر سمجھی جانے والی ذاتوں سے ہے۔ لیکن جنوری 2016ء میں عالمی غربت کی گھڑی کے مطابق انڈیا میں تقریباً ساڑھے چودہ کروڑ لوگ شدید غربت میں زندگی گزار رہے تھے جو اس تعداد کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ ایشیاء سے باہر بھی ایسی ہی مبہم صورتحال ہے۔ 2010ء میں میکسیکو کی حکومت نے غربت کی شرح 46 فیصد بتائی تھی لیکن عالمی بینک کے مطابق غربت کی شرح 5 فیصد تھی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2016ء میں پوری دنیا میں 81 کروڑ 50 لاکھ لوگ (ایک سال سے زیادہ رہنے والی) دائمی غذائی قلت کا شکار تھے اور یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن 2013ء میں عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 76 کروڑ 70 لاکھ لوگ قطعی غربت میں زندگی گزار رہے تھے اور 2016ء میں یہ تعداد اس سے بھی کم تھی۔ یہ یقیناًایک معجزانہ نظام ہے جو لوگوں کے منہ میں کھانے کا نوالہ ڈالے بغیر ہی انہیں غربت سے باہر نکال لاتا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے 1859ء میں لکھا تھا ’’ضرور اس سماجی نظام کی بنیادوں میں کچھ گل سڑ رہا ہوگا جس میں مصائب میں کمی کے بغیر دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے‘‘۔
حقیقت تو یہ ہے کہ شدید اور قطعی غربت کا پورا تصور ہی بالکل بیکار ہے۔ یہ صرف خوش کن اعداد و شمار بنانے کے کام آتا ہے جن سے ورلڈ بینک اور اس کے سب سے بڑے حصہ دار امریکہ کی پالیسیوں کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اس طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے بھی، جو سازگار سے سازگار نتائج حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، ورلڈ بینک کو کئی موقعوں پر اپنے ہی اعداد و شمار میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنے اہداف کو تبدیل کرنا پڑا۔
بکواسیات، جھوٹ اور اعداد و شمار
اپنی کتاب ’’تقسیم: عالمی نا برابری اور اس کے حل، ایک مختصر جائزہ‘‘ میں LSE کے محقق جیسن ہکل نے ورلڈ بینک کے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کی مختصر تاریخ بیان کی ہے، کیوں کہ یہ پہلے اپنے لیے شدید غربت کو نصف سطح پر لانے اور بعد میں ختم کرنے کا ہدف طے کرتا ہے، جسے اس نے ’’غربت مٹانے کا عظیم عمل‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔
2000ء میں دنیا بھر کے رہنماء اقوام متحدہ کے میلینیم اعلامیے پر دستخط کرنے کے لیے نیویارک اکٹھے ہوئے، جس میں دنیا بھر میں غربت کی لکیر (جو تب 1.02 ڈالر یومیہ تھی) سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد نصف تک لانے کا ہدف طے کیا گیا تھا۔ لیکن جلد ہی ورلڈ بینک نے اپنی 2000ء کی سالانہ رپورٹ میں یہ اعلان کیا کہ 1.02 ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو 1987ء میں 1.2 ارب کے مقابلے میں سن 2000ء میں 1.5 ارب ہو گئی تھی۔ یہ پیشین گوئی بھی کی گئی تھی کہ 2015ء تک یہ تعداد 1.9 ارب ہو جائے گی۔ اس کے باوجود 2001ء میں عالمی بینک کے صدر جیمز وولفنسوہن نے یہ اعلان کیا کہ ’’ 1980 ء سے اب تک غربت میں رہنے والے لوگوں کی تعداد میں تقریباً 20 کروڑ کی کمی ہوئی ہے‘‘۔
یہ اتنی بڑی تبدیلی کس طرح لے کر آئے؟ آسان سی بات ہے انہوں نے غربت کی لکیر کو ہی تبدیل کر دیا۔ ورلڈ بینک IPL کو وقتاً فوقتاً افراط زر کے مطابق ڈھالنے کے لیے تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اصولاً تو اس سے اعداد و شمار میں مزید بہتری آنی چاہیے، مگر در حقیقت اسے مسلسل اعداد و شمار میں رد و بدل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تا کہ اقوام متحدہ کے ترقی کے اہداف کی جانب بہترین پیش رفت دکھائی جا سکے۔ مثال کے طور پر 2001ء میں غربت کی لکیر 1.08 ڈالر تھی جو حقیقی معنوں میں پہلی والی سے نیچے تھی۔ اس کا مطلب ہکل یہ بیان کرتا ہے کہ ’’غربت کے اعداد و شمار میں حقیقتاً راتوں رات تبدیلی آ گئی، حالانکہ اصل دنیا میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا‘‘۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ ورلڈ بینک نے اپنے ہی اہداف کو تبدیل کرلیا ہو۔ 2005ء میں IPL میں دوبارہ تبدیلی کی گئی اور اسے 1.08 ڈالر سے 1.25 ڈالر پر لے جایا گیا۔ اس مرتبہ یہ تبدیلی کرنے سے IPL سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن اہم بات یہ تھی کہ اس سے ترقی کی شرح میں کافی اضافہ دکھائی دینے لگا، IPL کی سطح 1.25 ڈالر مقرر کرنے سے 1990ء سے لے کر 2005ء کے دوران 1.08 ڈالر کے مقابلے میں غربت میں رہنے والے لوگوں کی تعداد میں کافی زیادہ کمی نظر آ رہی تھی۔ یہ بات اہم تھی کیونکہ ورلڈ بینک کا ہدف IPL سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد نصف کرنا تھا نہ کہ حقیقی غربت میں کمی لانا۔ اور پھر یقیناً2013ء میں، 2015ء کی ڈیڈلائن سے 2 سال پہلے، ورلڈ بینک نے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ وہ ابھی سے ہی اپنا ہدف عبور کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ شاید وہ سٹالن کے اس مشہور نعرے سے متاثر تھے کہ ’’پانچ سالہ منصوبہ چار سال میں مکمل کرو!‘‘، عالمی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا 15 سال کا ہدف 13 سال میں مکمل ہونے پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔
ورلڈ بینک کی طرف سے اعداد و شمار میں سب سے حالیہ ہیر پھیر 2015ء میں نظر آیا، جب IPL کو 1.90 ڈالر یومیہ مقرر کیا گیا جو حقیقی معنوں میں(حقیقی قوت خرید کے لحاظ سے) پہلے موجود ایک 1.25 ڈالر سے کم ہے۔ غالب امکان ہے کہ جیسے جیسے اقوام متحدہ کے ’’پائیدار ترقی کے ہدف‘‘ (جس کے مطابق 2030ء تک شدید غربت کا مکمل خاتمہ کیا جانا ہے) کی تاریخ قریب آئے گی، ہمیں ورلڈ بینک کی شخصیات کی جانب سے مزید خاموش معجزے دیکھنے کو ملیں گے۔
ناہموار ترقی
عالمی غربت کو لے کر تعلقات عامہ کی مہم بے دریغ مبالغہ آرائی پر مبنی رہی ہے جس کا بہت کم ہی حقائق سے تعلق ہوتا ہے۔ گو کہ غربت سے باہر آنے والے افراد کی بتائی گئی تعداد غلط ہوتی ہے، لیکن عمومی رجحان کی وضاحت کس طرح کی جا سکتی ہے؟ IPL کی سطح بہت کم رکھی جاتی ہے اور اس کے حساب کے لیے کیے جانے والے سروے ناقص اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ آئی پی ایل کی سطح سے اوپر آتا دکھائی دیتا ہے، بھلے ہی حقیقی معنوں میں وہ کسی طرح بھی غربت سے باہر نہیں آئے۔
اس رجحان کی بنیادی وجہ شہروں کی آبادی میں اضافہ ہے جو گزشتہ 30 سالوں سے پوری دنیا میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ کروڑوں لوگ اپنی مرضی سے یا بنا مرضی کے اپنے پرکھوں کے گاؤں چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں وہ دنیا کے بڑھتے ہوئے محنت کش طبقے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس کا غربت کے اعداد و شمار پر بہت بڑا اثر پڑا ہے۔ ورلڈ بینک نے خود اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ سال 2013ء میں پوری دنیا کے غریبوں کی 76 فیصد تعداد (جن کا تعین IPL کی بنیاد پر کیا جاتا ہے) دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شہری زندگی دیہی زندگی سے بہتر ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص جس نے جھونپڑ پٹی دیکھی ہو اس بات کی گواہی دے سکتا ہے، بلکہ شہروں میں رہنے والے لوگ اشیائے صرف زیادہ خریدتے ہیں اور ان پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، اور IPL کے تحت کسی کے معیار زندگی کا اندازہ لگانے کے لیے اشیائے صرف کی خریداری ہی پیمانہ ہے۔
یہ عمل بھی شدید ناہموار رہا ہے۔ ابھی تک چین کا اس میں سب سے بڑا حصہ ہے۔ 1990ء میں چین کی 74 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی تھی، لیکن 2012ء میں اعلان کیا گیا کہ چین کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ شہری مراکز کی آبادی دیہی علاقوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ تقریباً 20 کروڑ لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقل ہوئے، جو نائیجیریا کی پوری آبادی سے بھی زیادہ تعداد ہے۔ 2017ء تک شہری آبادی میں مزید 30 کروڑ کا اضافہ ہو چکا ہے۔
ان پچاس کروڑ نئے شہریوں کی ایک پرت کے معیار زندگی میں یقیناًاضافہ ہوا ہے جس کی وجہ گزشتہ 30 سالوں میں ریاستی سرمایہ کاری اور برآمدات پر منحصر معاشی ترقی ہے۔ لیکن کامیابی کی یہ کہانی پوری تصویر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ نئی شہری آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو اکیسویں صدی کی ’’شیطانی مشینوں‘‘ نے کھینچ لیا جہاں وہ ناقابل برداشت حالات میں بہت کم اجرت پر طویل اوقات کام کرتے ہیں۔
اس کی ایک مثال شین زین میں موجود فاکسکان کا اسمبلی پلانٹ ہے جہاں 2015ء میں تقریبا 5 لاکھ محنت کش کام کرتے تھے۔ دی گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق پلانٹ پر محنت کشوں میں خودکشی کی ’’وباء‘‘ پھیل گئی تھی، بچنے والوں نے شدید ذہنی دباؤ، طویل اوقات کار اور سخت گیر مینیجرز کی شکایت کی جو غلطیوں پر محنت کشوں کو ذلیل کرنے، ان پر ناجائز جرمانے عائد کرنے اور وعدوں کے مطابق مراعات نہ دینے کے عادی تھے۔ فوکسکان کے CEO ٹیری گؤ نے ’’عمارتوں کے باہر بڑے بڑے جال لگا رکھے تھے تا کہ گرتے ہوئے لوگوں کو پکڑا جا سکے‘‘۔ آج بھی محنت کش 12 گھنٹے کی جبری شفٹ کی شکایت کرتے ہیں۔
لیکن 390 ڈالر ماہانہ کی اوسط آمدنی کے ساتھ فاکسکان کے محنت کشوں کو بآسانی ’’شدید غربت‘‘ کی صفوں سے اوپر تصورکیا جاتا ہے اور وہ خود کو ’’عالمی درمیانے طبقے‘‘ کا حصہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ باقی اتنے ’’خوش قسمت‘‘ نہیں ہیں۔ شین زین میں پورے چین میں سب سے زیادہ کم از کم ماہانہ اجرت ہے۔ جبکہ مثال کے طور پر ہیلونگ جیانگ کے محنت کش تقریبا اس سے آدھی اجرت پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 20 کروڑ لوگ چین کے بڑھتے ہوئے عظیم شہروں کے اردگرد جھونپڑ پٹیوں میں رہتے ہیں، جو زیادہ تر خراب ترین حالات میں بہت کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
انڈیا ترقی پذیر دنیا میں شہر کاری کی سب سے مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ایک منٹ میں تقریباً 30 افراد دیہی سے شہری علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں‘‘۔ مگر انڈسٹری اور انفراسٹرکچر میں کم سرمایہ کاری کی وجہ سے نئے شہر باسی نام نہاد ’’غیر رسمی شعبوں‘‘ میں جا اٹکتے ہیں جیسے کہ چھابڑی والے، رکشہ ڈرائیور وغیرہ۔ ایسے بہت سے لوگ انڈیا کے بہت بڑے لیکن بربادی کی طرف گامزن شہروں کی گلیوں میں ناقابل بیان حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انڈیا ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں انڈیا کی ترقی پر افسوس کرتے ہوئے اسے ’’شہری غریبوں کا ایک ملک‘‘ قرار دیا گیا جہاں ’’پانی، بجلی، نکاسی آب اور صفائی بہت بڑے مسائل ہیں‘‘۔ 2011ء میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق 17.4 فیصد شہری آبادی، جو تقریبا چھ کروڑ 50 لاکھ لوگ بنتے ہیں، ان علاقوں میں رہتی ہے جو ’’انسانی رہائش کے قابل ہی نہیں ہیں‘‘۔ جیسے جیسے امیر اور غریب کے درمیان خلیج میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے جھونپڑ پٹیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں، ممبئی کی ایک جھونپڑ پٹی دھاراوی میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور حقیقی پیداوار میں کم ہوتی سرمایہ کاری کے ہوتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کیوں اتنے لوگ اپنے آپ کو دیہات کی غربت سے ’’نکال کر‘‘ شہروں کی غربت میں داخل ہو رہے ہیں؟ اس معمے کا حل بڑھتے ہوئے معیار زندگی میں نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرانا طرز حیات ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ آج انڈیا میں ہزاروں کاشتکار خاندان قرضوں کے بوجھ تلے پس رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اپنی زمین بیچ کر بے گھری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جو ہجرت کر کے شہروں میں آ کر شہری غربت کا حصہ بن جاتے ہیں وہ عالمی غربت کے اعداد و شمار سے معجزانہ طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ جو خودکشی پر مائل نہیں ہوتے وہ ذرا کم معجزانہ طریقے سے اپنی غربت ختم کر لیتے ہیں۔
شہری غربت کا بڑھتا ہوا بحران صرف انڈیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی موجود ہے، کراچی کا اورنگی ٹاؤن جہاں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ رہائش پذیر ہیں (جو شمالی آئرلینڈ کی کل آبادی سے زیادہ تعداد ہے)۔ افریقہ کے سب سے بڑے شہر لاگوس کی 65 فیصد آبادی جھونپڑ پٹیوں میں رہتی ہے اور 3 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہیں۔ اس سب کے باوجود شہری غریب آبادی کی اکثریت ورلڈ بینک کے شدید غربت کے اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ جھونپڑ پٹیوں میں رہتے ہیں، مگر IPL کا پیمانہ استعمال کرتے ہوئے ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں غریبوں کی تعداد 20 کروڑ سے بھی کم ہے۔
تاریک مستقبل
میڈیا کی جانب سے دروغ گوئی کے طوفان میں سے بھی یہ صاف نظر آتا ہے کہ عالمی غربت کم ہوتا ہوا نہیں بلکہ ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ بہت سے معیشت دانوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 5 ڈالر یومیہ کے برابر غربت کی لکیر لوگوں کی حقیقی بنیادی ضرورتوں کے زیادہ قریب ہو گی۔ اس ’’غربت کی اخلاقی لکیر‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے ہکل نے اندازہ لگایا ہے کہ دنیا میں غریبوں کی تعداد’’ 4.3 ارب۔۔۔ دنیا کی پوری آبادی کے 60 فیصد حصے سے بھی زیادہ ہے‘‘۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 1990ء کے مقابلے میں غریبوں کی تعداد میں ایک ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ اس بنیاد پر سچ صاف نظر آتا ہے: دنیا کبھی بھی اتنی امیر نہیں رہی جتنی اب ہے، لیکن اس کے باوجود غربت میں زندگی گزارنے والے لوگوں کی تعداد پوری انسانی تاریخ میں اتنی کبھی نہیں رہی جتنی اب ہے۔
اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے خود یہ وارننگ دی ہے کہ اس کے ناقص پیمانے کے مطابق بھی غربت میں کمی کا معجزہ رک گیا ہے اور 2030 ء تک غربت ختم کرنے کا ہدف بھی وقت پر پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں IPL سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں دراصل اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر ان ممالک سے ’’ترقی یافتہ دنیا‘‘ کی طرف جانے والی دولت کو دیکھا جائے تو پھر یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ اور نارویجین سکول آف اکنامکس کے مطابق 2012ء میں ترقی پذیر ممالک کی کل آمدن امداد، سرمایہ کاری اور ترسیلات زر سمیت 2 ٹریلین ڈالر تھی، جبکہ اسی سال ان ممالک سے 5 ٹریلین ڈالر ترقی یافتہ ممالک کی طرف منتقل ہوئے۔ ہکل بتاتا ہے کہ یہ 3 ٹریلین ڈالر کا فرق پوری دنیاکے کل امدادی بجٹ سے 24 گنا زیادہ ہے، یعنی ’’امداد کے طور پر ملنے والے ہر ایک ڈالر کے بدلے ترقی پذیر ممالک کو 24 ڈالر ز سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں’’۔ ہر سکول بنانے پر، کنواں کھودنے پر یا کھانے کے ڈبے دینے پر مغرب کے سرمایہ دار اور بینکوں کو سود کی ادائیگی، قدرتی وسائل کے استحصال اور سیدھے سیدھے فراڈ کی مدد سے 24 گنا واپس ملتا ہے۔
حقائق پر مبنی سوچ کے پیامبر جب مغربی محنت کشوں کو یہ بتاتے ہیں کہ حالات کتنے اچھے ہیں تو وہ یہ حقائق کبھی نہیں بتاتے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ حقائق بنیادی طور پر ہمیں دہائیوں سے سنائی جانے والی دنیا کی غربت سے متعلق کہانیوں سے متضاد ہیں اور ان خوش فہمی پر مبنی عقیدوں کی حمایت نہیں کرتے کہ اگر بینکاروں اور ارب پتیوں کو ان کا کام اچھے سے کرنے دیا جائے تو دنیا کے لیے سب کچھ بہتر سے بہترین ہو گا۔
آنے والے سالوں میں حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ مختصر عرصے سے لے کر درمیانے عرصے تک معاشی ترقی کا تناظر اتنا حسین نہیں ہے جتنا ہمیں بتایا جاتا ہے۔ اسی سال اپریل میں فنانشل ٹائمز نے ایک پریشان کن آرٹیکل شائع کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ صحرائے صحارا سے نیچے موجود 40 فیصد ممالک ’’قرضوں کے ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘، 2005 ء میں افریقہ کے اربوں ڈالر کے قرضے معاف کئے جانے کے باوجود۔ شرح سود کی ادائیگی پہلے کی نسبت دگنی ہو چکی ہے اور اب کل ٹیکس آمدن کا 20 فیصد ہے۔ گھانا جیسے ممالک آئندہ 20 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے بحران کی زد میں ہیں، جو ایک پوری نسل کے برابر ہے، ایک گمشدہ نسل۔
اس معاملے میں IMF نے اپنا روایتی حل پیش کرتے ہوئے قرضے میں ڈوبے ہوئے ممالک سے کہا ہے کہ وہ ’’عوامی اخراجات کو پر اثر بنائیں، قومی اثاثوں کو نجی شعبے کے حوالے کر دیں اور مالی استحکام کے منصوبے کو پوری طرح لاگو کریں جس میں صارفین سے حاصل کردہ ٹیکسوں کی آمدن میں اضافہ بھی شامل ہے‘‘۔ اس سب سے افریقہ کے محنت کشوں کے معیار زندگی میں تباہ کن گراوٹ آئے گی اور اسے اعداد و شمار کی چال بازیوں سے بھی چھپانا مشکل ہو گا۔
انڈیا بھی خطرے سے دوچار ہے۔ لوگوں کی دیہات سے شہروں کو ہجرت جاری رکھنے کے لیے انڈیا کو اپنی معیشت میں سالانہ 8 سے 10 فیصد کا اضافہ کرنا ہو گا، اس پر بہت سے معیشت دان متفق ہیں۔ آخری بار جولائی 2016 ء میں یہ اضافہ 8 فیصد تک پہنچا تھا۔ اسی دوران ریاست نہ سنبھلنے والے مالی خسارے میں جکڑی جا رہی ہے اور ’’برے قرضے‘‘ تمام قرضوں کے 11.6 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اٹلی میں برے قرضوں کا تناسب 11.1 فیصد ہے اور اس سے پورے یورو زون کے استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔
اگر امریکہ میں بڑھتی ہوئی شرح سود انڈیا جیسی نام نہاد ترقی پذیر منڈیوں سے سرمایہ کاری کھینچ لیتی ہے، جیسا کہ تاریخی طور پر ہوتا آیا ہے، اور ساتھ ہی پوری دنیا میں تیل جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ان حالات میں قرضوں پر ترقی کرنے والی انڈیا کی معیشت الٹی سمت میں بھی سفر شروع کر سکتی ہے جس سے بے روزگاری کا دھماکہ ہو سکتا ہے، اس سے شہروں کے لوگ واپس دیہات کا رخ کرنے لگیں گے۔ ایسی صورتحال میں 1997ء کا مشرقی ایشیا کا بحران دہرایا جائے گا، لیکن اس بار اس کا شکار دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہوگی جو 2024ء تک دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی بننے جا رہا ہے۔
اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے جو ابھی سے ترقی پذیر ممالک پر شدید موسمی تبدیلیوں، پانی کی قلت اور فصلوں کی تباہی کی صورت میں اثر انداز ہو رہی ہیں، تو کسی بھی سنجیدہ تناظر میں دنیا کے غریبوں کے لیے آنے والے وقت میں کسی بھی معجزے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اگر دنیا اور اس کے لوگوں کا سرمایہ دارانہ استحصال جاری رہنے دیا گیا تو اس کا نتیجہ انسانوں کے لیے بڑے پیمانے پر ناقابلِ بیان آفت کی صورت میں نکلے گا۔
غربت کی تخلیق
یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ دنیا کے سرمایہ دار ’’دولت پیدا کرنے والے‘‘ ہیں۔ مگر یہ پوچھنا چاہیے کہ ان کی دولت کہاں سے آئی؟ سرمایہ دار اور ان کے مختلف نمائندوں کی طرف سے ہمیں جواب ملتا ہے: کاروباری مہم جوئی سے، خطرے اٹھا کر یا نئی چیزیں متعارف کروا کر، جس کا غریبوں سمیت سب کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے انہیں انتہائی ناگزیر روزگار ملتا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ سرمایہ داری کی پوری تاریخ میں سرمایہ داروں کی دولت کا ذریعہ عوام کی غربت رہی ہے۔
بل گیٹس کے اربوں ڈالر کے منافعوں کی بنیاد محنت کش طبقے کو ادا نہ کی گئی اجرت پر ہے، محنت کشوں کی محنت کی اصل قدر (چاہے وہ اشیاء ہوں یا خدمات) اور تنخواہوں کا فرق ہی ہے جو سرمایہ داروں کو منافعوں کی شکل میں ملتا ہے۔ یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا منافع بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ اس مقصد کے لیے وہ کام کے اوقات کار کو بڑھاتے ہیں اور محنت کی قیمت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی تنخواہوں میں کمی اور کام کی جگہ کے حالات کی ابتری۔
یقیناًیہ ایک یکطرفہ عمل نہیں ہے اور ماضی میں محنت کشوں نے اپنے لیے زیادہ تنخواہوں، مختصر اوقات کار، کام کی بہتر جگہ اور بہتر معیار زندگی کی صورت میں قابل ذکر حاصلات بھی جیتی ہیں۔ لیکن جہاں بھی محنت کش یہ مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، مالکان نے پوری قوت کے ساتھ ان کیخلاف لڑنے کی کوشش کی ہے۔ مغرب میں خاص طور پر صنعتی گراوٹ، کٹوتیوں اور ٹریڈ یونین کے انحطاط نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں جن میں محنت کش کسی اور کو امیر بنانے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔
لیکن سرمایہ داری ایک عالمی نظام بھی ہے، اس لیے یہ محنت کشوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر مقابلہ کریں جس سے غریب اور بے جائیداد محنت کش طبقہ بڑھتا چلا جاتا ہے، جن میں سے بڑے سرمایہ دار کچھ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس طرح ’’دولت پیدا کرنے والے‘‘ ایک ملک میں محنت کشوں کو غربت کی تنخواہیں دیتے ہیں اور دوسرے ملک میں تنخواہوں کو قابل قبول حد تک کم کر سکتے ہیں۔ اسی دوران وہ ایک دوسرے کو غربت کم کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں!
اس کا مجموعی نتیجہ انسانیت کے غربت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے کی صورت میں نہیں بلکہ ایک جبری انتظام کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے ایک وسیع اکثریت غلام بن جاتی ہے، وہ اتنی غریب ہوتی ہے کہ استحصال سے باہر نہیں آ سکتی لیکن اتنی غریب بھی نہیں ہوتی کہ بھوکوں ہی مر جائے۔ لیکن آج سرمایہ داری کروڑوں لوگوں کو ’’اپنے غلاموں کو غلامی میں زندہ رکھنے‘‘ کی بھی ضمانت نہیں دیتی، جیسا کہ مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق جنوبی سوڈان، نائیجریا، صومالیہ اور یمن میں 2 کروڑ لوگ دوسری جنگ عظیم کے بعد آنے والے سب سے بڑے قحط کے نتیجے میں بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسی دوران پوری دنیا میں خودکشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اس سے گزشتہ 30 سال کے دوران سرمایہ داری کی خوشگوار ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سرمایہ داری دنیا میں جہاں بھی پھیلی ہے (اور آج یہ پوری دنیا میں موجود ہے) وہاں یہ دولت اور مصائب کا تیز ترین ارتکاز لے کر آئی ہے۔ غربت تخلیق کرنے والا یہ نظام اور استحصال کرنے والوں کا ایک چھوٹا سا گروہ، جو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، غربت ختم کرنے کے اتنے ہی اہل ہیں جتنا ایک شیر خود اپنے پنجے کاٹنے کا اہل ہوسکتا ہے۔
رجائیت کے دفاع میں
اس سب کے باوجود آج بھی رجائیت کی ضرورت اور وجہ موجود ہے، بل گیٹس جیسے لوگوں کی طرف سے ’’بے صبر رجائیت‘‘ کے جھوٹے وعدے نہیں، بلکہ ایک انقلابی رجائیت جس کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ دنیا کے مظلوم اور استحصال زدہ عوام اپنی پیدا کی گئی بے شمار دولت کا اختیار حاصل کر سکتے ہیں اور وہ ایسا کریں گے بھی، تا کہ انسانیت کے لیے ایک سازگار مستقبل تشکیل دیا جا سکے۔
آج ہم اتنی خوراک پیدا کرتے ہیں جو 10 ارب لوگوں کے لیے کافی ہے لیکن لاکھوں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں اور ٹیکس ہیونز کھربوں ڈالر لے کر بیٹھی ہیں جو کسی کام نہیں آ رہا۔ ان کا استعمال کرتے ہوئے پیداوار میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑا جا سکتا ہے اور سب کو ایک اچھا اور مستحکم معیار زندگی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام برائیاں ضروری یا نہ ٹالی جا سکنے والی نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی پیداوار ہیں جو بہت سے لوگوں کی غربت سے چند لوگوں کا منافع کشید کرتا ہے۔ لیکن یہ سب روکا جا سکتا ہے۔
پوری دنیا میں ہمیں غربت اور استحصال کے خلاف ہلچل نظر آرہی ہے۔ اسی بات سے ’’فیاض ارب پتی‘‘ سب سے زیادہ خوف زدہ ہیں۔ جدوجہد کرتی عوام کے ساتھ مل کر ایک نئی سوشلسٹ دنیا اور حقیقی معنوں میں غربت کی تمام اقسام سے پاک معاشرے کی خاطر لڑنا ہی سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سے مسلط کی گئی بربریت سے باہر آنے کا واحد راستہ ہے۔ ہمارے پاس اس لڑائی میں رجائیت پسند ہونے کی تمام وجوہات موجود ہیں۔ ہمارے پاس جیتنے کے لیے ایک پوری دنیا ہے۔