|تحریر: راب سیول، ترجمہ: جویریہ ملک|
جیسے ہی سماجی سرگرمیاں ازسرنوشروع ہو رہی ہیں، حکمران طبقہ توقع کر رہا ہے کہ معاملات زندگی ”معمول“ کی طرف لوٹ جائیں گے۔ لیکن آنے والا عرصہ ماضی سے مختلف ہوگا، یہ واضح ہے۔ گہری ہوتی کساد بازاری ہمیں 1930ء کی دہائی میں واپس دھکیلنے کے درپے ہے ہمیں ناگزیر طور پرانقلاب کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے ہم کچھ سکون کے دور میں ہیں۔ لیکن یہ طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
عین ممکن ہے کہ تیزی سے رونما ہوتے ہوئے واقعات، خاص طور پر ایسے وقت میں، بہت سے لوگوں کو ششدر کر کے رکھ دیں۔ واقعات اتنی تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ مناسب طور پر غور کرنے کا موقع بھی میسر نہیں۔ لہٰذا کبھی کبھار ایک قدم پیچھے ہٹ کرپورے منظرنامے کو سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
بینک آف انگلینڈ کے مطابق گزشتہ تین سو سالوں میں ایسا سنگین بحران دیکھنے کو نہیں ملا۔ اٹلانٹا فیڈرل ریزرو کے مطابق، دنیا کے سب سے طاقتور سرمایہ دارانہ ملک، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی معیشت میں میں 2020 ء کی دوسری سہ ماہی میں 52.8 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ جبکہ سال 2020 ء کے پہلے تین مہینوں میں چین کی معیشت6.8 فیصد سکڑ گئی ہے، جو گزشتہ چالیس سال میں پہلی بار ہوا ہے۔ برطانوی معیشت میں اپریل کے مہینے میں 20.4فیصد کی گراوٹ دیکھنے میں آئی، جبکہ ایک ماہ قبل 5.8 فیصد کی ریکارڈ تنزلی دیکھی گئی۔
سرمایہ دارانہ نظام جانکنی کے عالم میں ہے۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں معیشت کو سہارا دینے کی خاطر حکومتوں اور مرکزی بینکوں نے کھربوں روپوں جھونک ڈالے ہیں۔ امریکی فیڈرل ریزرو اپنی بیلنس شیٹ میں 12 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کر رہا ہے، جو کہ 2008ء کے مقابلے سے دگنا ہے۔ دیگر ممالک نے بھی اس کی پیروی کی۔ برطانیہ کے سرکاری قرضوں اور قومی آمدن کی شرح جی ڈی پی کے سو فیصد تک پہنچ چکی ہے جو گزشتہ 57 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ صورتحال انتہائی تباہ کن ہے۔ یہ ناصرف برطانیہ بلکہ پورے دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ سرمایہ داری کے گھاگ کھلاڑی، ہنری کسینجر، نے اس ”جلتی ہوئی دنیا“ کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
وجوہات اور اثرات
وبائی مرض اس گراوٹ کا بنیادی سبب نہیں بلکہ اس اتار چڑھاؤ کا محرک تھا۔ بہر حال، بھیانک وبا نے یقینی طور پر بحران کو بڑھا دیا ہے۔ فنانشل ٹائمز (3 جون) نے بھی واضح طور پر اس بات کو تسلیم کیا کہ، ”(دنیا) پہلے ہی ایک کساد بازاری کی جانب لڑھک رہی تھی، یہ وبا محض چنگاری ثابت ہوئی ہے“۔ تاہم یہ آثار موجود ہیں کہ آنے والے عرصے میں دوسری وبائی لہر آئے گی۔ جو سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔
مارکس نے نشاندہی کی تھی کہ جیسے ہی ایک سماجی نظام پیداواری قوتوں یا دوسرے لفظوں میں معیشت، کو ترقی دینے سے قاصرہوجاتا ہے تو وہ ایک گہرے بحران میں داخل ہو جاتا ہے اورسماجی انقلاب کا عہد شروع ہوجاتا ہے۔ موجودہ عہد، جس میں ہم داخل ہوچکے ہیں، مارکس کے بیان کے عین مطابق ہے۔
یہ کوئی معمولی بحران نہیں بلکہ ایک نامیاتی بحران ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ ایک نئی عالمی کساد بازاری کا آغاز ہوچکا ہے جوکہ 1930ء کی دہائی سے بھی بدتر ہے۔ یہ برسوں جاری رہنے والی صورتحال ہے، جس کا بظاہر کوئی انجام دکھائی نہیں دے رہا۔ تجارتی جنگ کے امکانات میں اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ ہر ملک باقی ممالک کی قیمت پر اس بحران سے نکلنے کی کوششوں میں ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق، ”اگر آئی ایم ایف اور آئی اے ڈی بی (انٹرامریکن ڈویلپمنٹ بینک) جیسے اداروں نے قرضوں کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر اضافہ نہ کیا تو، قرض نادہندگان کی ایک نئی لہر میں 1930ء کی دہائی کے واقعات دوبارہ دیکھنے کومل سکتے ہیں“۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ ان کے تمام اقدامات بے نتیجہ رہیں گے۔
ورلڈ بینک گروپ کے سیلا پیزارباسیگلونے کہا کہ ”یہ ایک قابل توجہ خیال ہے، کیونکہ بحران کے اثرات طویل المدت ہیں اور ہمیں بڑے عالمی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا“۔
طبقاتی جدوجہد
1930ء کی دہائی کے ’گریٹ ڈیپریشن‘ کا’حل‘ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاری کی شکل میں نکالا گیا۔ موجودہ کسادبازاری، جس کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کا حل عالمی جنگ کے ذریعے ممکن نہیں رہا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں عالمی جنگ کرۂ ارض کو ملیا میٹ کر دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ بحران کے سارے تضادات اس کا لازمی جزو بن جائیں گے۔ لہٰذا، جنگ نہیں بلکہ افق پر ایک طبقاتی جنگ نظر آرہی ہے۔
اس معاشی ابتری کا مطلب بڑے پیمانے کی بیروزگاری ایک مستقل خاصہ بن جائے گے۔ پہلے ہی امریکہ میں، ساڑھے چار کروڑ محنت کشوں کو بے روزگار کیا جا چکا ہے، جوکہ کل افرادی قوت کا 25 فیصد بنتے ہیں۔ برطانیہ میں 90 لاکھ محنت کشوں کو روزگار سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ ہر جگہ لاکھوں افراد کو بیروزگاری اور کٹوتیوں کے ایک بھیانک خواب کا سامنا ہے۔ لیکن وہ یہ سب کچھ چپ چاپ برداشت نہیں کریں گے۔
سرمایہ داری کے اس جانکنی کے عالم میں بدترین کٹوتیاں اور گرتا معیار زندگی ناگزیر ہیں۔ جیسے جیسے وقتی طور پر رخصت پر بھیجے جانے والے محنت کشوں میں کمی آئے گے تو بھیانک صورتحال واضح ہوتی چلی جائے گی۔
یہ واقعات عوامی شعور میں تبدیلی لا رہے ہیں، خاص طور پر جب لوگوں کو یہ ادراک ہو رہا ہے کہ ’معمول‘ کے حالات کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ امریکہ میں جاری عوامی تحریک اس کا ایک ثبوت ہے۔ لاکھوں افراد ریڈیکلائز ہوں گے، اور یہاں تک کہ انقلابی نتائج بھی اخذ کر یں گے۔
چنانچہ، اس بحران نے مزدوروں اور ٹریڈ یونین کی تحریکوں کے سامنے اہم سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ ماضی کے ”معمول“ کا پلٹنا ممکن نہیں۔ ہمیں اس غیر معمولی صورتحال سے نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔
حکمران طبقہ مزدور طبقے کے خلاف بڑے پیمانے پر حملوں کی تیاری کر رہا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں، بیروزگاری اور اجرتوں اور شرائط ملازمت میں سختیاں شامل ہوں گی۔ جس کا مطلب ایک کھلی طبقاتی جنگ ہے، جو ماضی کی تمام تر حاصلات کو ملیا میٹ کر سکتی ہے۔
سرمایہ داری کی تباہی
دو ممکنات واضح ہیں: یا تو ہم سر جھکائیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کریں یا اس کا تختہ الٹنے کے لئے جدوجہد تیز کریں۔ کوئی درمیانی حل ممکن نہیں۔ ’ماضی کے اچھے دن‘ کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ ٹریڈ یونینوں اور دیگر مزدور تنظیموں کو یا تو”سرمائے کے تابعدار سپاہی“ بننا ہوگا، یا خود کو انقلابی تنظیموں میں ڈھالنا ہوگا۔
ہمیں محنت کشوں کو سچ بتانا چاہیے: سرمایہ دارانہ نظام میں، محنت کش طبقے کے لیے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ ضروری ہے کہ تحریک انقلابی نقطہ نظر کو اپنائے، یا خود مٹنے کے لیے تیار ہو جائے۔
اس سرمایہ دارانہ حملے سے دفاع کے لیے ہمیں ڈٹ کرمقابلہ کرنا ہوگا۔ بڑے پیمانے پربیروزگاری کے مقابلے میں، ہمیں اجرتوں میں کٹوتی کے بغیر کام کی تقسیم کار کے لیے لڑنا ہوگا۔ جہاں فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، وہاں کارکنوں کو اسے اپنی اجتماعی ملکیت میں لینے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں تمام اجرتوں میں کٹوتیوں کی مخالفت کرنی ہوگی اور حقیقی اجرت کے حصول کے لیے لڑنا ہوگا۔
اس غیر متوقع معاشی بحران کے سدباب کے لیے معیشت کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے نکال کر محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں دینا ہوگا۔ اس طرح ہم اپنی ضروریات کے مطابق معیشت کی تعقلی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، نہ کہ بینکوں اور اجارہ داریوں کے منافع کے لیے۔
انقلابی پیش قدمی
برطانیہ کی لیبر پارٹی سے کیرئیر اسٹوں کو نکال باہر کرنے اور جرات مندانہ سوشلسٹ پروگرام کی تشکیل و تکمیل تک جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ سرمایہ داری سے مفاہمت نہیں بلکہ اس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ بہت سے لوگوں کو غیر حقیقت پسندانہ معلوم ہو سکتا ہے، لیکن ہم غیر متوقع صورتحال میں جی رہے ہیں۔ وہ حالات جو ایک دن انوکھے دکھائی دیتے ہیں وہ اگلے دن قابل فہم ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، ہم تیز اور اچانک تبدیلیوں کے عہد میں رہ رہے ہیں۔ 1992ء میں ٹیڈ گرانٹ، جنہوں نے IMTکی بنیاد رکھی، نے سوویت یونین کے انہدام کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی مرحلہ قرار دیا تھا لیکن وضاحت کی تھی کہ آنے والے وقت میں سرمایہ داری کا خاتمہ اس سے کہیں بڑا واقعہ ہو گا۔ اس پیشگوئی کو ہم اپنی جیتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
مزدور تحریک کی مضبوطی کا مطالبہ اور برطانیہ سمیت بین الاقوامی سطح پر مارکسی قوتوں کی تعمیرایک ساتھ کرنی ہوگی۔ بطور مشعل راہ، مارکسزم کے نظریات پہلے سے زیادہ قابل قبول ہو چکے ہیں۔
دنیا دہک رہی ہے۔ ہمیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور سماج کو بدل ڈالنے کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔