|تحریر: انعم خان|
ہیلتھ رسک الاؤنس کی بحالی کے مطالبے کے لیے 11 نومبر کو پیپلز پارٹی کی سندھ سرکار کے بدترین جبر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی صورت کھڑی شعبہ صحت،سندھ کی محنت کش خواتین کی اس دلیری نے مستقبل قریب میں مزدور تحریک کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ ملکی لیبر فورس میں تعداد میں کم ہونے کے باوجود اور دیگر معاشی و صنفی مظالم کی طویل فہرست پر مبنی عذابوں کے باوجود بھی جب وہ مرد محنت کشوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کے میدان میں اترتی ہیں تو تحریک کو توانائی اور جرات فراہم کرتی ہیں۔ اس حالیہ واقعے کے علاوہ بھی ہمیں محنت کش خواتین کی ایسی کئی جرات مند لڑائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کرونا جیسی وباء کو شکست دینے والی محکمہ صحت کی محنت کش خواتین نے سندھ پولیس کے خوفناک جبر کو بھی شکست دی۔
یہاں ہم یہ بھی یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ حسب معمول محنت کش خواتین کی جبر کے خلاف جرات مندانہ جدوجہد پر ”خواتین کے حقوق کے چیمپئن لبرل خواتین و حضرات“ یعنی فیمینسٹوں کی خاموشی نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ طبقاتی جدوجہد اور نسوانیت پرستی کے نظریات بالکل متضاد اور ناقابلِ مصالحت ہیں اور نسوانیت پرستوں کے شور شرابے کا محور درمیانے اور اوپری طبقے کی خواتین ہوتی ہیں۔ مزدور، ورکنگ کلاس اور محنت کش جیسے الفاظ سے ان کی حقارت اور نفرت کا عالم یہ ہے کہ مزدور کی اولاد ہونے کی وضاحت بھی وہ مڈل کلاس کے طور پر کرتے ہیں۔ آج کے عہد میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کا دفاع کرنے والے ان مڈل کلاس نفسیات کے حامل لبرل خواتین و حضرات کے لئے اول تو ”ورکنگ کلاس“ یا محنت کش وجود نہیں رکھتے اور اگر رکھتے بھی ہیں تو ان کے ذہنوں میں محنت کشوں کا تصور سڑکوں چوراہوں پر موجود پھٹے پرانے بدبودار کپڑوں میں ملبوس چوری اور نشے کے عادی بھکاریوں پر مبنی ہوتا ہے، جن کے بچے کبھی سکول نہیں جاتے، جن کے گھر خاندان وجود نہیں رکھتے اور جو سچائی و جرات، سماجی و اخلاقی معیار، حس مزاح و ادب شناسی، ملکی سیاسی و معاشی معاملات کی سوجھ بوجھ سے عاری لوگ ہوتے ہیں، جو انسانی سماج پر بوجھ ہیں۔ مختصراً ان کے نزدیک محنت کش سرمایہ دارانہ ترقی کے خوبصورت وجود پر داغ کی مانند ہیں کہ جن کا کبھی وبائی بیماریوں، جنگوں، ریاستی پشت پناہی میں پیدا کردہ نسلی فسادات، بھوک اور غربت جیسے عذابوں کے ہاتھوں صفایا ہوتے رہنا ضروری عمل ہے۔ اسی سرمایہ دارانہ نفسیات کے دباؤ کے تحت ہی خاص کر سروسز سیکٹر کے سرکاری اداروں کے محنت کش خود کو مڈل کلاس کہلانے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ سب سے کم اجرت والے صنعتی مزدوروں کے حالاتِ زندگی اوپر بیان کئے گئے لبرل و فیمینسٹ خواتین و حضرات کی تصورات کے بالکل برعکس ہوتے ہیں جنہیں یہ صاحبان مزدوروں کے علاقوں میں جاکر دیکھنے کا تردد کبھی نہیں کرتے۔ ان کے بچے سڑکوں پر ننگے نہیں پھرتے بلکہ غیر معیاری ہی سہی گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے اسکولوں میں پڑھنے جاتے ہیں کیونکہ ان کے ماں باپ کو شدید شوق ہوتا ہے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں۔ محنت کش اپنے فیکٹری یونیفارم (اگر مالکان کی جانب سے مہیا کیے جاتے ہوں تو) اور روزمرہ کے پہناوے صاف ستھرے پہنتے ہیں۔ ادھار یا کمیٹیاں ڈال کر جمع ہونے والی نحیف رقم سے ہی سہی لیکن گھر میں موجود بیمار کا علاج کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ گھروں کے کرائے، بلز کی ادائیگی سمیت تمام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں تک روزانہ اور ہفتہ وار چھٹی پر بھی اوور ٹائم کام کیا جاتا ہے۔ جتنا ممکن ہو خود داری سے کسی سے بھیک مانگے بغیر زندگی گزارنے کی ہر ممکن تگ و دو کی جاتی ہے۔ ان کے گلی محلوں کا انفراسٹرکچر، سڑکیں، گٹر ٹوٹے پھوٹے سہی لیکن ان کے گھر اندر سے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ ملک کے معاشی و سیاسی حالات کو سمجھنے کے لیے میسر محدود وسائل اور وقت کی کمی کے باوجود انہیں سمجھنے اور جاننے کی نہ صرف بھرپور کوشش کی جاتی ہے بلکہ ان پر محنت کشوں کی آراء موجود ہوتی ہیں اور ان کے کسیلے جملے انہیں نام نہاد دانشوروں سے بھی بہتر شعور کا حامل بتاتے ہیں۔ لیکن یہ سب جاننے کے لیے پہلے تو ان کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا جو کہ ان لبرل خواتین و حضرات کے وارے میں نہیں ہے۔
حقیقت میں ان محنت کشوں کی پیدا کردہ قدر زائد کی منافعوں کی صورت میں سرمایہ دارانہ لوٹ پر ہی نہ صرف سرمایہ دار اور ان کی نسلیں، سیاسی و عسکری حکمرانوں سمیت اوپری درمیانے طبقے کی تمام پرتیں چلتی اور عیاشی کرتی پھرتی ہیں۔ انسانی سماج میں اجناس کی پیداوار کے عمل میں جنم لینے والی تمام تر دولت محنت کشوں کی غیر ادا شدہ اجرت ہوتی ہے۔ جس کے اوپر معاشرے کے دیگر طفیلی طبقات کی عیاشی اور زندگی کی رونقیں قائم ہوتی ہیں۔ یعنی انسانی سماج پر بوجھ اور داغ ورکنگ کلاس نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ سمیت وہ دیگر طفیلی طبقات اور سماجی پرتیں ہیں جن کی عیاشیوں کا بوجھ ورکنگ کلاس کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اسی لئے محنت کش طبقے کی سرمایہ دارانہ نظام کے پیداوار کے عمل کو چلانے کی صلاحیت کے سبب، سماج میں ابھرنے والی کوئی بھی عوامی انقلابی تحریک اس طبقے کی بھرپور شرکت اور قائدانہ کردار کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل نہیں کر سکتی۔محنت کش خواتین کا بڑے پیمانے پر معاشی پیداواری عمل میں آنا دوسری عالمی جنگ کے سبب ہوا جہاں مرد محنت کشوں کو جنگی محاذوں پر بھیج دیا گیا اور ان کی جگہ خواتین کو رکھا گیا۔ گھریلو چار دیواری سے نجات کے اس سفر نے محنت کش خواتین کو گھریلو اور معاشی محنت کے دوہرے دباؤ کا شکار بنا ڈالا۔ لیکن محنت کش طبقے کا براہ راست حصہ بننے کے سبب ان کی محنت کی افادیت اور کردار میں ایک معیاری اضافہ ہوا۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد بھی محنت کش خواتین کو گھروں کی چار دیواری میں بھیجنے کی بجائے سرمایہ داروں نے محنت کی منڈی میں مزدوروں کی لامحدود موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے انہیں کام پر رکھنے کا عمل جاری رکھا تاکہ ایک طرف ان محنت کش خواتین کی مرد محنت کشوں کے مقابلے میں سستی محنت کا استحصال جاری رکھا جائے تو دوسری طرف محنت کی منڈی میں مزدوروں کی بڑی تعداد کی موجودگی کے دباؤ کے سبب تمام محنت کشوں کی اجرتوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔ یعنی اب محنت کی اس منڈی میں صرف مرد محنت کش کی بجائے بچوں اور خواتین سمیت اس کا پورا خاندان اپنی قوت محنت فروخت کرنے کے لیے میسر ہے اور زائد مزدوروں کی موجودگی کے سبب قوت محنت کی قیمت یعنی اجرت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی بڑے پیمانے پر جاری و ساری ہے جہاں کام پر موجود محنت کشوں کو بیروزگار محنت کشوں بشمول خواتین کی بڑی فوج کی موجودگی کے دباؤ کے سبب کم اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ خاص کر کم از کم اجرت 25000 ہونے کے اعلان کے بعد محنت کشوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ اگر آپ اس سے کم اجرت پر کام نہیں کریں گے تو آپ کی جگہ سستے مزدور کام کرنے کو تیار ہیں۔
پاکستان کی لیبر فورس کے ”سرکاری اعداد و شمار“ کے مطابق سال 2021 ء میں اس کا 21.67 فیصد محنت کش خواتین پر مشتمل تھا جو کہ گزشتہ چند سالوں میں 24 فیصد سے کم ہوا ہے۔ اس عرصے میں خاص کر کرونا وباء کے دوران کم از کم ساڑھے تین کروڑ محنت کش روزگار سے ہاتھ دھونے پر مجبور ہوئے تھے۔ لیکن کرونا وباء کے علاوہ بھی ان سرکاری اعداد و شمار میں فیکٹری محنت کشوں کی اس بڑی تعداد کا ذکر نہیں ہوتا جنہیں مالکان سوشل سیکورٹی، EOBI جیسے اخراجات سے بچنے کے لیے ٹھیکیداری نظام کے تحت بھرتی کرتے ہیں، اس نظام کے تحت کام کرنے والے اکثریتی محنت کشوں کے پاس فیکٹری کارڈ سمیت کوئی ایسا قانونی ثبوت تک موجود نہیں ہوتا جس سے معلوم ہوسکے کہ وہ اس فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ اس طرح محنت کشوں کی بھاری تعداد کبھی سرکاری کھاتوں اور ان کی بنیاد پر لیبر قوانین کے تحت حاصل ہونے والی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔
فیکٹری مالکان کی جانب سے لیبر افسران کو ملنے والی”منتھلی“ اور حکومت کی سرمایہ داروں کی ہر طرز کی سہولت کاری کی عمومی پالیسی کے سبب یہاں لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ویسے ہی جیسے غریب اور کمزور کے تحفظ کے لیے موجود کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ خاص کر معاشی طاقت کے دفاع میں بنے اس نظام میں اور پاکستان جیسی ناکارہ ریاست کے ہوتے ایسا ہونا بھی ممکن نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کا گھروں سے نکل کر پڑھنا یا کام پر جانا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، ایسے ماحول میں محنت کش خواتین کو درپیش مسائل میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔
شدید معاشی دباؤ کے تحت گھروں سے نکلنے والی محنت کش خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ سے لے کر نائٹ شفٹس اور مینیجرز/سپروائزرز کی بلیک میلنگ سے لے کر ہراسمنٹ تک عذابوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے، جس کی وہ شدید معاشی دباؤ کے سبب زیادہ تر گھر یا متعلقہ اداروں میں شکایت تک نہیں کر پاتی ہیں کیونکہ ان کی اجرت کے وہ پیسے گھر کے معاشی سرکل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ویسے تو ان مشکلات کے حوالے سے بھی نام نہاد قوانین موجود ہیں، جیسا کہ شام 7 بجے کے بعد خواتین محنت کشوں سے اوور ٹائم نہیں کروایا جا سکتا لیکن ان قوانین کی وقعت بھی دیگر لیبر قوانین کی طرح ہی ہے جن پر پہلے بات کی گئی ہے۔ محنت کش خواتین کے ان معاشی حالات کے سبب ایک طرف تو مالکان ان سے سستے مزدور کے طور پر کام کرواتے ہیں جوکہ مالکان کی زیادہ تر سختیاں برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ان کی اجرت مرد محنت کشوں کے مقابلے میں ہمیشہ کم رکھی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر مرد محنت کشوں پر بھی کم اجرت پر کام کرنے اور ”حالات“ برداشت کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اسی لیے جب کہیں محنت کش خواتین کی اجرتیں برابر کرنے کی بات کی بھی جاتی ہے تو مالکان اسے مرد محنت کشوں کی اجرتیں کم کرکے ”برابر“ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام تر مسائل کے باوجود بھی ہم نے دیکھا ہے کہ جب کسی بھی فیکٹری میں ہڑتال یا احتجاج شروع ہوتا ہے تو محنت کش خواتین اسے اپنی زندگی کے شاذ و نادر موقع کے طور پر برتتے ہوئے اپنی آواز اٹھانے کے لیے بھرپور استعمال کرتی ہیں اور مرد محنت کشوں سے بھی آگے بڑھ کر زیادہ جرات مندی اور ناقابل مصالحت انداز میں احتجاج یا ہڑتال کا حصہ بنتی ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے ہوتے چلے آرہے ہر طرح کے جبر کے خلاف جب آواز بلند ہوتی ہے تو وہ چیخ کی صورت میں کان پھاڑتی ہوئی پرزور انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ یہی عمل ہی ہمیں ایرانی معاشرے میں بھی نظر آرہا ہے جہاں میشا کے قتل کے خلاف بننے والی تحریک عمومی سماج اور خاص کر خواتین کی جانب سے سامنے آنے والا غصے اور نفرت کا لاوا دراصل صرف نام نہاد اخلاقی پابندیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ اب تک ہونے والے ہر جبر و استحصال کے خلاف نفرت اور بغاوت کا اظہار ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی معاشرہ بھی اس پریشر ککر کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے اندر لسانی، صنفی، قومی اور طبقاتی سمیت تمام تر جبرمعاشی استحصال کی تیز ترین ہوتی آنچ پر ابل رہے ہیں۔ مروجہ سیاسی، ثقافتی، نفسیاتی اور معاشی اقدار سب پر سوالیہ نشان کھڑے ہوچکے ہیں۔ جھوٹ تو تیزی سے بے نقاب ہورہے ہیں لیکن سچائیاں بھی اس پریشر ککر کے پھٹنے کی صورت میں جوابات کی شکل میں سامنے آنے کو بے قرار ہیں۔ اس تمام تر توانائی کو درست سائنسی سمت دیتے ہوئے اسے انسانی معاشرے کی انقلابی تعمیر و ترقی کے عمل میں برو ئے کار لانا ہوگا۔ فیکٹریوں میں ہونے والی ہڑتالوں اور اب تک کے احتجاجوں میں تو یہی سامنے آیا ہے کہ محنت کشوں کا تحرک یونینز کی موجودگی کا محتاج نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں جہاں یونینز موجود نہیں،زیادہ تر انہی فیکٹریوں میں یہ احتجاج و ہڑتالیں ہوئیں۔ اس کی ایک وجہ تو جہاں یونین سازی پر غیر اعلانیہ پابندی ہے، جہاں محنت کش یونین بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں مالکان انہیں برطرفیوں کی صورت میں نشان عبرت بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف قائم شدہ زیادہ تر یونینز پر انتہائی مزدور دشمن قیادتوں کا قبضہ بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایسی بھی فیکٹریاں ہیں جہاں حالیہ عرصے میں یونین کے تسلط کو توڑتے ہوئے محنت کشوں نے احتجاج کئے کیونکہ یونین قیادت مالکان و انتظامیہ کی جیبوں میں پڑی تھی۔ ان میں جہاں یونین قیادت نے محنت کشوں کا دباؤ قبول کرتے ہوئے مالکان پر زور دیا وہاں مطالبات مانے گئے۔ جہاں یونین قیادتوں نے مزدور دشمنی کی وہاں تحریک کو اندر سے توڑ کر ناکام بنا دیا گیا۔ لیکن یونینز کے ان تمام پہلوؤں کے باوجود بھی یہ محنت کشوں کی قوت کا اہم اوزار ہیں اگر انہیں درست نظریات، قیادت اور تربیت دی جائے اور ساتھ ساتھ یونین سازی کے آغاز پر ہی احتیاط برتی جائے۔ یہ تربیت یافتہ درست قیادت صرف اور صرف سوشلزم کے مزدور نظریات پر تعمیر کی جاسکتی ہے جوکہ سرمایہ دارانہ نظام کا واحد سائنسی متبادل ہیں۔ ان ہی کی بنیاد پر ناقابل مصالحت اور جرات مند رویے اپناتے ہوئے محنت کشوں کے موجودہ مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ ان یونینز میں لڑاکا محنت کش خواتین کی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے انہیں مزید پختہ بنیادیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ پبلک اداروں میں بھی غیر منتخب قیادت پر مبنی ایسوسی ایشنز کی جگہ منتخب یونین سازی کی جانب بڑھنا ہوگا، ورنہ حال ہی میں گرینڈ ہیلتھ الائنس سندھ کی طرح نیچے کے محنت کشوں کی شاندار جدوجہد اور قربانیوں کو غیر منتخب شدہ قیادت اونے پونے داموں میں ذاتی مفادات اور ترقیوں کے حصول کے لیے بیچنے پر ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔
ایسی جرات مند یونینز کو پھر ایک ملک گیر انقلابی پارٹی کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں پرونا ہوگا۔ کیونکہ سرمایہ دار اور محنت کش کے مفادات ناقابلِ مصالحت ہیں۔ جس طرح سرمایہ داروں کی ترقی محنت کشوں کے استحصال کے بغیر ممکن نہیں اسی طرح محنت کشوں کی ترقی اور خوشحالی سرمایہ داروں کے نظام کا خاتمہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اس مقصد کے لیے محنت کشوں کی منظم قوت کے طور پر ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر اس وقت کی سب اہم ذمہ داری ہے، جوکہ مرد و خواتین محنت کشوں کی قیادت میں ایک انقلابی جدوجہد کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسے غیر طبقاتی معاشرے کی بنیاد رکھے گی جہاں محنت کا استحصال، خواتین و ٹرانس لوگوں پر صنفی جبر، بچوں پر جنسی جبر، قومی جبر سمیت ہر طرح کے جبر و استحصال کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ اس کے لیے مارکسی نظریات کی روشنی میں مزدور جدوجہد کا لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے انقلابی تحریک کی تیاری کا آغاز کرنا ہوگا۔یہی آج کے دور میں مارکس وادیوں اور محنت کشوں کی شعور یافتہ پرتوں کا اولین فریضہ ہے۔