|تحریر: آدم پال|
ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی اور بیروزگاری مسلط کرنے کے بعد مہنگائی کے ایک نئے طوفان کو ملک کی کروڑوں عوام پر نافذ کرنے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ایک دفعہ پھر 4.33 روپے کااضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ پہلے ہی ایک سال میں بجلی کی قیمت میں 84 فیصد کے قریب اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف کے احکامات پر اس ملک کی تمام تر پارلیمنٹ حکم بجا لانے کے لیے گھٹنے ٹیک چکی ہے اور منی بجٹ کے ذریعے ملک کے محنت کش عوام سے 350 ارب روپے سے زائد مالیت کے ٹیکس وصول کیے جائیں گے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح انتہائی بلند سطح 11.53 فیصد پر ہے جبکہ حقیقت میں یہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ حساس اشیاء کی قیمتوں کے اشاریے پرہفتہ وار افراط زر 19.5 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ تھوک کی قیمتوں پر افراط زر 27 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ اعدادو شمار حکومتی اداروں کے مرتب کردہ ہیں جو واضح طور پر جھوٹ اور فراڈ پر مبنی ہیں۔ ایسے میں اگر حقیقی صورتحال کو دیکھا جائے تو مہنگائی کا اژدھا محنت کشوں کی تمام تر آمدن کو کھاتا چلا جا رہا ہے اور کروڑوں محنت کش غربت اور ذلت کی چکی میں گر کر پستے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے بجائے کم ہوتے جا رہے ہیں اور سرکاری سطح پر شروع کیے گئے منصوبوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ نئے منی بجٹ میں 200 ارب روپے سے زیادہ کے ترقیاتی اخراجات کو ختم کیا جائے گا جس کے بعد سینکڑوں منصوبے بند ہو جائیں گے یا ان کی رفتار انتہائی سست ہو جائے گی جس کے بعد بیروزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ اس سے پہلے بھی ترقیاتی اخراجات کو کم کیا گیا تھا اور بڑے پیمانے پر فنڈ جاری کرنے سے روک دیا گیا تھا تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط کو اولین ترجیح پر پورا کیا جا سکے۔
نئے منی بجٹ میں اپنے آقاؤں کے حکم پر ملک میں دستیاب بہت سی اہم اشیا پر جی ایس ٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے بعد انتہائی ضروری ادویات سے لے کر کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی سینکڑوں اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا جائے گا۔ اس وقت بہت ساری اشیاء پر حکومت 17 فیصد جی ایس ٹی وصول کرتی ہے لیکن کئی دیگر ضروری اشیاء پر یہ ٹیکس 17 فیصد کے بجائے 10 فیصد یا اس سے بھی کم تناسب سے لگایا جاتا ہے۔ اب حکومت اپنے بجٹ خسارے اور دیگر خساروں کو پورا کرنے کے لیے محنت کش عوام پر مہنگائی کا ایک نیا بم پھینکنے جا رہی ہے اور ان اشیاء پر بھی جی ایس ٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے بعد مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آئے گاجو لاکھوں محنت کشوں کی رہی سہی سانسیں بھی کھینچ لے گا اور انہیں موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔
اس دوران ملک کے سرمایہ داروں، بینکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں پر ٹیکس لگانے یا ان کی آمدن سے حصہ وصول کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا حکم ہے کہ حکومت بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کے مالکان کو سینکڑوں ارب روپے کی ادائیگی بجلی کے بلوں میں اضافہ کر کے یا کسی بھی دیگر ذرائع سے درکار رقم حاصل کر کے فوری طور پر ادا کرے اور اس کام میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ اسی طرح ہزاروں ارب روپے کے دفاعی اخراجات میں بھی کسی قسم کی کمی کی کوئی تجویز زیر غور نہیں اور نہ ہی محنت کش عوام کے ٹیکسوں سے جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹوں کی جاری پر تعیش زندگیوں میں کسی بھی قسم کا کوئی خلل ڈالنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ درحقیقت کرونا وباء سے لے کر اب تک اس ملک کے سرمایہ داروں نے تاریخ کے سب سے بڑے منافع کمائے ہیں جبکہ محنت کشوں کو تاریخ کی بدترین غربت میں دھکیلا ہے۔ ایک طرف حکومت نے وباء کے دنوں میں لوٹ مار کے نئے راستے کھولے اور دوسری جانب سرمایہ داروں کو وباء کے باعث نقصانات سے بچانے کے لیے ہزاروں ارب روپے کی سبسڈیاں اور پیکجز فراہم کیے۔ یہ تمام تر پیسہ سرمایہ داروں کی جیب میں گیا جبکہ محنت کشوں کی اجرتوں میں اضافہ ہوا اور نہ ہی روزگار کے مواقع بڑھے بلکہ پہلے سے موجود محنت کشوں سے وباء کے انتہائی جان لیوا حالات میں بھی دگنے وقت کے لیے پرانی تنخواہ پر کام کروایا گیاجس کے باعث سرمایہ داروں کے منافعوں میں تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ہوا۔ اس انتہائی سستی محنت سے بنائی گئی اشیا کو وباء کا بہانہ بنا کر منڈی میں انتہائی مہنگے داموں فروخت کیا گیا جبکہ بہت ساری اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے بلیک میں فروخت کیا گیا اور ہوشرباء منافع کمائے گئے۔ یعنی ایک طرف محنت کشوں کی اجرتیں کم ہورہی تھیں اور دوسری جانب انہیں اشیاء ضرورت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ قیمت پر خریدنا پڑ رہی تھیں۔ اس سارے عمل میں ملک میں موجود امیر اور غریب کی طبقاتی خلیج کئی گنا وسیع ہو چکی ہے اوراب درمیانے طبقے کا ایک بہت بڑا حصہ بھی کچھ سال پہلے والے معیار زندگی سے بہت نیچے گر چکا ہے اور دو وقت کی روٹی کی تگ و دو میں دن رات مصروف ہے۔
اس سارے عمل میں ملک کی معیشت حکومتی دعووں کے برعکس کسی بھی طرح مضبوط نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ خستہ حال اور برباد ہو چکی ہے، اس کی بربادی کا تمام تر ملبہ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے اور آنے والے منی بجٹ کے بعد مزید مہنگائی میں اس کا ہولناک اظہار ہو گا۔ اس ملک کے اکثر معیشت دان آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کوتمام مسائل کا حل بتاتے آئے ہیں اور ان پالیسیوں کو ہی سب سے بہترین معاشی پالیسیاں ثابت کرتے آئے ہیں۔ لیکن ان پالیسیوں پر عمل درآمدسے سرمایہ دار طبقے، بینکوں اورسود خود عالمی مالیاتی اداروں کے منافعے تو بڑھتے گئے ہیں لیکن محنت کش عوام کی زندگیاں چھین لی گئی ہیں۔ حالیہ پیکج اور شرائط پر عمل درآمد سے ملکی کرنسی مضبوط ہونے کی بجائے مزید کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے اور ایک ڈالر کی قیمت تیزی سے 200 روپے کی نفسیاتی حد عبور کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ملکی معیشت کا درآمدات پر انحصار پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑھ چکا ہے اور ملک کے اندر موجود صنعت، زراعت اور سروسز کے تمام شعبے انتہائی بحران زدہ ہو کر تباہ ہورہے ہیں۔ اس وقت ملک میں گندم اور چینی جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء بھی درآمد کی جاتی ہیں اور کپاس کی پیداوار، جس پر چند دہائیاں قبل اس ملک کے حکمران فخر کیا کرتے تھے، گزشتہ تین دہائیوں کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اب یہ ملک کپاس درآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل سے لے کر چائے کی پتی، مشینری، گاڑیاں اور دیگر بہت ساری زرعی اجناس عالمی منڈی سے درآمد کی جاتی ہیں جس پر بہت بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کے ذخائر خرچ کیے جاتے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس رجحان میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوگا اور عالمی منڈی میں ان اشیاء کے مہنگا ہونے کے باعث نہ صرف درآمدی بل بہت زیادہ بڑھتا جائے گا بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے اثرات بھی ملکی معیشت پر مرتب ہوتے جائیں گے۔ دوسری جانب ایک طویل عرصے سے جاری پالیسیوں کے باعث ملکی صنعت اور زراعت میں جو بربادی ہوئی ہے، ان کے باعث برآمدات میں اتنے بڑے پیمانے پر اضافہ نہیں ہو سکا کہ وہ تجارتی خسارے کو کسی بھی طور پر کم کر سکیں اور نہ ہی ایسے کوئی امکانات اس وقت موجود ہیں۔ اس وجہ سے تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا چلا جائے گا، ملکی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی آئے گی، مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور ملکی صنعت اور زراعت مزید بحران زدہ ہونے کے باعث روزگار کے مواقع بھی تیزی سے کم ہوں گے۔
سامراجی جنگوں پر انحصار کی معیشت
گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے حکمران طبقے کا انحصار امریکی یا سعودی امداد پر رہا ہے اور اس کے لیے ان سامراجی طاقتوں کی جنگوں میں آلہ کار بننے کا معاوضہ وصول کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس عمل میں کئی گنا شدت آئی اور ملکی آمدن کا ایک بڑا حصہ امریکہ کی افغانستان میں جاری جنگ کے ساتھ جڑتا چلا گیا۔ امریکی سامراج بھی اس خونریز جنگ میں جہاں لاکھوں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا وہاں دنیا پر اپنی حاکمیت مسلط رکھنے کے جنون میں ہزاروں ارب ڈالر اس جنگ میں انڈیلتا رہا جس کا ایک بڑا حصہ اس کی اسلحہ ساز اور دیگر متعلقہ کمپنیوں کے ہوشرباء منافعوں کا باعث بھی بنتا رہا۔ اس عمل میں پاکستان کی نحیف و نزار معیشت کا اس ہولناک مگر انتہائی منافع بخش کاروبار پرانحصار بڑھتا گیا اور ان دو دہائیوں میں نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ لیکن اس سال امریکی سامراج نے اپنے مالیاتی و ریاستی بحران کے باعث اس جنگ سے انتہائی عجلت میں انخلاء کیا جس کے بعد اس ملک کے حکمرانوں پر ہونے والی ڈالروں کی بارش بھی تھم چکی ہے۔ اب یہ حکمران سامراجی آقاؤں کے سامنے ایڑیا رگڑ رہے ہیں، اپنے کردہ اور ناکردہ جرائم کی معافیاں مانگ رہے ہیں، ہر قسم کے ڈھکوسلے اور بہانے بنا رہے ہیں جس میں افغان عوام کی بربادی کا رونا بھی رو رہے ہیں لیکن آقاؤں کے کان اپنے بحران کے باعث بند ہیں اور وہ ان کی گڑاگڑتی اپیلوں اور اُٹھک بیٹھک کو بالکل بھی گھاس نہیں ڈال رہے بلکہ ان حکمرانوں کے سامراجی آقا اپنی تمام تر شکست کا ملبہ ان پر ڈالتے ہوئے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیے ہوئے ہیں اور ان پر پابندیاں لگانے کا اشارہ بھی دیتے رہتے ہیں تاکہ ان غلاموں کو ان کی اوقات یاد کروائی جا سکے۔
امریکی انخلاء کے بعداس وقت افغانستان کی عوام تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے جہاں ایک طرف وہ بھوک اور بیماری کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے تو دوسری جانب ان پر طالبان کی وحشت اور خونریزی مسلط ہے اور ملک کی تقریباً 97 فیصد آبادی موت کے منہ میں تیزی سے سرک رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس پورے خطے کے حکمران اپنی سامراجی پالیسیوں کے جال بُن رہے ہیں اور اس صورتحال کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے حالیہ اجلاس کا بھی یہی مقصد تھا اورامریکہ سمیت دیگر سامراجی طاقتیں اپنے خونی پنجے کسی طرح افغانستان کے عوام پر گاڑے رکھنا چاہتی ہیں۔ اس کے لیے منافقانہ سفارتکاری میں لپٹی ”امدادی کاروائیوں“، ”شدید غم اور دکھ“ اور دیگر ایسی اصطلاحات سے اب بہت سے لوگ خون کی بو سونگھ لیتے ہیں جن کے ذریعے مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑی منافقت کیا ہوگی کہ بھوک سے مرنے والوں کے غم پر بحث کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات کیے جاتے ہیں اور کانفرنس کے دوران عالیشان محل نما عمارتوں میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ دوسری جانب عالمی سطح پر سامراجی پالیسیوں سے واضح ہو چکا ہے کہ اب افغانستان پر پہلے جتنی رقم خرچ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں اور نہ ہی کوئی بھی حکمران طبقہ وہاں کی عوام کو اس خونی دلدل سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان کے حکمران طبقات کو بھی مایوسی میں دھکیل رہی ہے جنہیں جنگوں کی بربادیوں اور قتل و غارت سے منافع کمانے کی لت پڑ چکی ہے اور انہیں کوئی بھی دوسراکاروباراتنا منافع بخش نہیں دکھائی دیتا۔ ایسے میں غلاموں اور آقاؤں کے درمیان کشمکش جاری ہے جہاں آقا غلاموں کے لیے نئی پالیسیاں تشکیل دے کر ان کا کردار پہلے کی نسبت کہیں زیادہ محدود کر چکے ہیں اور 73 سالوں سے جس غلام کو انہوں نے خطے میں جنگیں مسلط کرنے، خونریزیاں کرنے اور اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار کیا تھا اب اسے کوئی نیا کردار سونپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غلام اس نئے کردار کو ادا کرنے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی اس میں اب اتنی صلاحیت بچی ہے کہ وہ یہ کردار ادا کر سکے اور پہلے والے کردار کو ہی جاری رکھنے کے لیے ضد کر رہا ہے۔
اسی تمام تر عمل میں عالمی مالیاتی اداروں سے لے کر ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے نئی سامراجی پالیسیوں کو اختیار کر رہے ہیں جس کے ذریعے یہاں کے حکمرانوں کا ناطقہ بندکیا جارہا ہے اور انہیں امریکی سامراج کی نئی پالیسیوں کا پابند بنایا جا رہاہے۔ اس نئی پالیسی میں چین کے خلاف واضح طور پر ایک مخاصمانہ رویہ اپنانے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ انڈیا کے ساتھ دوستانہ بڑھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس میں بھی پہلے کی طرح نئی جنگیں اور ہولناکیاں مسلط کرنے کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔
امریکی سامراج کا زوال اور سرمایہ داری کا بحران
درحقیقت امریکی سامراج عالمی سطح پر اپنی پرانی حیثیت سے پسپائی اختیار کر چکا ہے، گوکہ وہ ابھی بھی دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری قوت ہے، لیکن اس کے باوجود دو دہائیاں قبل جس طرح وہ اپنی مرضی کی جنگیں اور ہولناکیاں مسلط کر سکتا تھا اب اس سے مسلسل کترا رہا ہے۔ اس وقت یوکرائن کے مسئلے پر روس کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کا شدید تصادم جاری ہے اور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اس میں بھی روس کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں امریکہ زیادہ عرصے تک اس کو جاری نہیں رکھ سکے گا اور یوکرائن سمیت مشرقی یورپ کا بڑا حصہ روس کی عملداری میں چلا جائے گا۔ اس لیے بات چیت اور گفت و شنید کا راستہ اختیا ر کیا جا رہا ہے یا پھر طاقت کے اظہار کے لیے روس پر پابندیوں کا آپشن استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ سے لے کر تائیوان کے قومی مسئلے تک ہر موضوع پر جارحیت کی بجائے سفارتکاری یا پابندیوں کی دھمکیاں لگائی جا رہی ہیں۔ یہی صورتحال ایران اور مشرق وسطیٰ سے لے کر افریقہ تک کی خانہ جنگیوں میں موجود ہے اور امریکی سامراج پہلے کی نسبت ہر جگہ کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے آنے والے وقت میں ایک بڑی جنگ اور اس میں پاکستان کو پہلے جیسے گماشتہ کردار کے لیے فوجی اور مالی امداد ملنے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ ایسے میں یہاں کا معاشی بحران شدت اختیار کرتا ہوا بے قابو بھی ہوسکتا ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر جاری مالیاتی بحران بھی پوری دنیا کی معیشتوں کو بربادی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔ ترکی جو پاکستان سے تین گنا بڑی اور کہیں زیادہ مضبوط معیشت ہے اس وقت تباہی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اس کی کرنسی کی قدر میں ایک سال میں پچاس فیصد گراوٹ آئی ہے اورپورا مالیاتی شعبہ اس وقت دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ ماہ مہنگائی کی بربادی کے خلاف پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے جس کے بعد اردگان اجرتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوا۔ لیکن آنے والے عرصے میں اس بحران میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ اگر جنوبی ایشیاء پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی حالات دگرگوں ہی نظر آتے ہیں اور حکمران طبقات ہر طرف بحران کا ملبہ عوام پر ڈال رہے ہیں جس کے خلاف شدید مزاحمت بھی موجود ہے۔ انڈیا میں مودی کی عوام دشمن پالیسیوں کو لاکھوں کسانوں نے مل کرتاریخی شکست دی ہے جس کے اثرات آنے والے ایک طویل عرسے تک محسوس کیے جائیں گے۔ لیکن پاکستان کے معیشت دانوں کے لیے سری لنکا کی حالت زیادہ قابل غور ہے جو اس وقت دیوالیہ پن کا شکار ہو چکا ہے۔ جنوری اور فروری میں اس ملک نے عالمی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی جو قسطیں واپس کرنی ہیں اس کے ذخائر اس کے پاس موجود نہیں جس کے بعد وہ تکنیکی طور پر بھی دیوالیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس وقت سری لنکا کے ملکی خزانے میں ڈیڑ ھ ارب ڈالر کے قریب ذخائر موجود ہیں جبکہ آنے والے سال 2022ء میں اس ملک نے 6.9 ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں جس کی صلاحیت اس کے پاس موجود نہیں۔ ملکی زر مبادلہ کو بچانے کے لیے حکومت پہلے ہی بہت ساری اہم اور بنیادی اشیاء ضرورت کی درآمد پر پابندی لگا چکی ہے جس کے باعث ملک میں ان تمام اشیاء کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں چین کی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری بھی معیشت کو ترقی دینے اور روزگار پیدا کرنے کے بجائے بربادی کا باعث ہی بنی ہے اور چین کے سامراجی قرضوں نے معیشت کو ڈبونے میں اپنا کردار اداکیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان پر ایک اہم سوالیہ نشا ن ہے کہ اس کی معیشت کا مستقبل کس جانب گامزن ہے۔ سری لنکا جیسی صورتحال سے بچنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ بنایا جا رہا ہے اوراسی مقصد کے لیے اسٹیٹ بینک کو براہِ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دیا جا رہا ہے اورمقامی حکمرانوں کا نام نہاد کنٹرول بھی آئینی اصلاحات کر کے ختم کیا جا رہا ہے۔
اس پالیسی کی قیمت بھی محنت کش عوام سے وصول کی جا رہی ہے جو کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی کا عذاب برداشت کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب سرمایہ دار اس بحران زدہ کیفیت کو اپنے منافعوں کے لیے بھرپور استعمال کرتے ہوئے اشیا ء کی مصنوعی قلت، کرنسی کی گراوٹ، درآمدات میں ٹیکس بچانے اور دیگر بہت سے ذرائع سے دونوں ہاتھوں سے منافع لوٹتے چلے جا رہے ہیں۔ حکمران طبقے کے بہت سے اہم افراد ملک کے دیوالیہ ہونے کا شور مچا رہے ہیں لیکن اس ملک کے امیر ترین علاقوں کی رونقیں اور حکمرانوں کے قہقہوں سے کہیں بھی اس بحران کی رمق دکھائی نہیں دیتی جبکہ دوسری جانب عوام کی اکثریت ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتی جا رہی ہے اور دو وقت کی روٹی پوری کرنا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کی گراوٹ بھی شدت اختیار کر رہی ہے جس کے باعث اموات میں اضافہ ہو رہاہے۔ سڑکوں، ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کے حادثات سے لے کر کراچی میں شیر شاہ کے علاقے میں نالے کی گیس کے باعث ہونے والے دھماکے اور ہلاکتوں کو اگر دیکھیں تو واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اس ملک کی معیشت کی طرح پورا انفرااسٹرکچر بھی زمین بوس ہو رہا ہے اور ان حکمرانوں کے پاس اس کی مرمت کرنے یا بہتر ی کا کوئی منصوبہ نہیں۔
واحد حل۔۔۔سوشلسٹ انقلاب
اس ساری صورتحال میں واحد حل صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہے جو اس تمام تر اذیت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔ انقلاب کے بعد سودی قرضوں سمیت عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے مکمل طور پر آزادی حاصل ہو گی اور تمام سامراجی قرضوں کو ادا کرنے سے انکار کر دیا جائے گا۔ ملک کی معیشت کے تمام کلیدی شعبے مزدوروں کے جمہوی کنٹرول میں آ جائیں گے۔ کلیدی صنعتوں، بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور تمام بڑی جاگیروں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے گا اور منڈی کی معیشت کا مکمل طور پر خاتمہ کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا جائے گا۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور امیر اور غریب پر مبنی اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا جائے گا اور انقلاب کے بعد بننے والی مزدور ریاست ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، علا ج اور تعلیم دینے کی پابند ہوگی۔ زرعی اجناس کی پیداوار اور کاروبار میں موجودہ تمام ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، مصنوعی قلت اور لوٹ مار کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور منصوبہ بند معیشت کے تحت خوراک اور کپڑے کی ضروریات ملک کے اندر موجود وسائل سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے ساتھ مکانوں کی قلت کو دور کرنے کے لیے جہاں نئے منصوبے شروع کیے جائیں گے اور ہر بالغ شہری کو مفت مکان مہیا کیا جائے گا وہاں پہلے سے موجود عالیشان محلوں اور حاکمیت کے نشانوں کو مزدوروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ علاج اور تعلیم کی خرید و فروخت مکمل طور پر ختم ہو جائے گی اور نئے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر کے ساتھ یہ سہولیات تمام تر جدت کے ساتھ ہر شخص کو مفت مہیا کی جائیں گی۔
منصوبہ بند معیشت کے باعث عالمی سطح پر جاری سرمایہ دارانہ نظام کے بحرانوں اور مہنگائی کے اثرات بھی عوام پر مرتب نہیں ہوتے اور نہ ہی ملک کی معیشت عروج و زوال کے چکر میں دھنستی ہے اور کروڑوں افراد کو بیروزگار کرنے کا باعث بنتی ہے۔ تمام تر بیرونی تجارت مزدو ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے اور اس میں منافع خوری کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ سوشلسٹ معیشت میں بیروزگاری ایک جرم ہوتا ہے اور ریاست ہر شخص کو روزگار فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ سامراجی جنگوں سے بھی چھٹکارا ملے گا اور دفاعی اخراجات کے نام پر ہونے والی لوٹ مار، کرپشن اور اسلحے کی خرید و فروخت پر ہونے والی بد عنوانی کا خاتمہ ہوگا۔ ایک انقلاب کے بعد ہی اس ملک کی محنت کش عوام کو ریاستی پشت پناہی کی حامل دہشت گرد تنظیموں سے چھٹکارا ملے گا اور محنت کش خود مل کر اس عفریت سے جان چھڑوائیں گے جنہیں سرمایہ دارانہ ریاست عوام کو دہشت زدہ رکھنے کے لیے پالتی رہتی ہے اور ضرورت پڑنے پر معصوم بچوں کا بھی خون کرنے سے نہیں کتراتی۔ سوشلسٹ ریاست میں تھانہ کچہری کے جبر کا بھی مکمل خاتمہ ہو گا اور برطانوی راج کے بنائے گئے نوآبادیاتی عدالتی نظام کا بھی مکمل خاتمہ ہوگا۔ موجودہ نظام کی بنیاد سرمایہ د ار طبقے کے مفادات کو تحفظ دینا ہے اور اس کے لیے نجی ملکیت کو مقدس ترین شے بنا دیا گیا ہے جبکہ سوشلسٹ نظام میں اجتماعی ملکیت کو فروغ ملے گا، مزدور طبقے کی حاکمیت ہوگی اور اسی کے اجتماعی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے تمام تر آئین اور قوانین از سر نو ترتیب دیے جائیں گے۔ اسی انقلاب کے ذریعے قومی جبر کا خاتمہ ہوگا اور خواتین کو دوہرے جبر واستحصا ل سے نجات ملے گی۔ ہر قسم کے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوگا۔ اس انقلاب کی روشنی تمام مصنوعی سرحدوں کو چیرتی ہوئی پورے خطے اور پھرپوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا آغاز کرے گی اور پوری دنیا کو امن اور آشتی کا گہوارہ بنانے کی سعی کاحقیقی معنوں میں آغاز ہوگا۔ اس سے قبل یہ نظام اپنی بربریت پھیلاتا رہے گا اس لیے اس کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا آج کے ہر ذی شعور شخص کا اولین فریضہ ہے۔