|انٹرویو: نمائندہ ورکرنامہ|
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ غربت کا سب سے بڑا جہنم بھی ہے جہاں ملک بھر سے بے روزگاری کے ستائے ہوئے غریب لوگ اپنی قسمت آزمانے آتے ہیں۔ میڈیا کی جانب سے کراچی کی جو شکل دکھائی جاتی ہے وہ اپنی دونوں شکلوں میں اصل کراچی کی شکل نہیں ہے کیونکہ نہ تو کراچی مکمل طور پر دہشت گردی کا گہوارہ ہے اور نہ ہی کوئی روشنیوں بھرا خوشحال شہر بلکہ کراچی ایک ایسا جہنم ہے جہاں بے روزگاری غربت اور طبقاتی تقسیم روزانہ سینکڑوں نوجوانوں کو سیاہ معیشت کی منڈی میں دھکیل دیتی ہے۔ مگر ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جن کا مقدر کراچی کی سڑکوں پر اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے روٹی تلاش کرتے کرتے بوڑھا ہو جانا ہے۔ عدیل عباس بھی ایک ایسا ہی نو جوان ہے جو کراچی کے مختلف دفاتر میں جا کر کام تلاش کرتا ہے۔ اس نوجوان سے ہم نے اس کے حالات زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انٹر ویو لیا۔
سوال: آپ کا نام کیا ہے اور آپ کہاں رہتے ہیں؟
جواب: میرا نام عدیل عباس ہے اور میں بھینس کالونی میں کرائے کے مکان میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتا ہوں ۔
سوال: آپ کی عمر کیا ہے اور کتنے عرصے سے کام کر رہے ہیں ؟
جواب: میری عمر 18سال ہے جبکہ میں پچھلے دو سال سے کام کر رہا ہوں۔
سوال: آپ نے بڑھئی کے کام کی بجائے تعلیم کیوں حاصل نہیں کی ؟
جواب: گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ میری تعلیم جاری رکھی جا سکتی۔
سوال : آپ کی ماہوار کل آمدنی کتنی ہے ؟
جواب: میری یومیہ آمدنی مستقل نہیں ہے پھر بھی ایک اندازے کے مطابق 500کما لیتا ہوں جس کا مطلب کے میں ماہوار 15000کماتا ہوں۔ 2017ء میں میری شادی متوقع ہے جس کے بعد میرے لیے مسائل بڑھ جائیں گے ۔
سوال: آپ کا آبائی علاقہ کون سا ہے اور کراچی رہائش پذیر ہونے کی کیا وجوہات تھیں ؟
جواب: میرا آبائی گاؤں لاڑکانہ ہے میرے والدین نے دس سال قبل وہاں سے کراچی آنے کا فیصلہ غربت سے تنگ آکر کیا تھا۔ لاڑکانہ میں معاشی طور پر بہت کم مواقع ہیں میرے والدین کو لگا کہ کراچی میں جانے کے بعد ان کے مجموعی طور پر حالات بہتر ہو جائیں گے۔ مگر حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور مجھے لگتا ہے اس نظام میں رہتے ہوئے میری آئندہ نسل بھی میری طرح غربت کی زندگی گزارے گی۔
سوال: آپ کو جو مسائل لاحق ہیں ان کا حل کیا ہے اور کیا موجودہ سیاسی پارٹیاں ان مسائل کو حل کر سکتی ہیں ؟
جواب: میرے خیال میں اگر محنت کشوں کے حقیقی اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے اجرت دی جائے تو ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا ہوانظر نہیں آتا کیونکہ ہمارے حکمران ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔
سوال : اگر کوئی ایسی سیاسی پارٹی بن جائے جو صرف محنت کشوں اور غریب مزدوروں کی سیاسی پارٹی ہواور ان کے حقوق کے لیے سیاست کرے تو کیا آپ اس سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے؟
جواب: جی بالکل اگر مزدوروں کی اپنی پارٹی بنے گی تو نہ صرف میں بلکہ میرے باقی رشتہ دار بھی اس پارٹی کا حصہ بنیں گے۔ ایسی پارٹی کی اس وقت سخت ضرورت ہے۔