|تحریر: زلمی پاسون|
ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں پوری دنیا میں معاشی، سیاسی اور سماجی حوالے سے عدم استحکام اور تذبذب کا ماحول بنا ہوا ہے۔ عالمی بورژوازی کے سنجیدہ جریدے عالمی معیشت کے کساد بازاری میں داخل ہونے کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ درحقیقت معیشت کبھی پوری طرح 2008ء کے بحران سے باہر ہی نہیں نکل پائی تھی۔ معیشت حتمی تجزئیے میں سماج کے ہر مظہر کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سیاست کے حوالے سے بھی اتھل پتھل ہے اور سیاست کے ہر مظہر میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ پوری عالمی معیشت اور اس کے عالمی سیاست پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے یہ تحریر کم پڑ جائے گی۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی جنم بھومی یعنی برطانیہ میں ہی محض ایک سال کے اندر تین وزیر اعظم تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ اور مختلف رپورٹس اور تحقیقات کے مطابق برطانوی سامراج اب ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس سے ہم اس عالمی نظام کی زوال پذیری اور خصی پن کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سماج کے اندر خوب اُتھل پتھل دیکھنے کو ملتی ہے جہاں طبقاتی تفاوت میں ایک طرف اگر تیزی آرہی ہے تو دوسری طرف ان طبقات کے مابین ٹکراؤ میں بھی شدت آ رہی ہے۔ ان تمام تر مظاہر کا پوری دنیا میں گو کہ پیمانہ مختلف ہو سکتا ہے مگر معیاری اعتبار سے یہ سب ایک ہی عمل ہے۔
اس ضمن میں پاکستان بھی ان تمام تضادات کا ایک عجیب و غریب شاہکار نظر آ رہا ہے جہاں بند کمروں کی لڑائی اب سڑکوں پر ببانگ دہل لڑی جارہی ہے۔ حکمران طبقے کے تمام تر سٹیک ہولڈرز اس لڑائی میں ایک دوسرے کو یہاں تک ننگا کر چکے ہیں کہ اب مزید ننگا کرنے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔ اس لڑائی کی بنیاد بھی حتمی تجزئیے میں معاشی بحران میں ہی پیوست ہے جو اب حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے مابین حصول اقتدار کی کھلی لڑائی کی صورت میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ لیکن یہ لڑائی محض حکمران طبقے کی ہے اور محنت کش عوام میں اس لڑائی کے خلاف شدید نفرت آمیز بیگانگی موجود ہے۔ حکمران طبقے کی اس لڑائی میں محنت کش عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ پچھلے کچھ مہینوں سے لگے اس سیاسی سرکس میں پاکستان بھر کے 22 کروڑ محنت کش عوام کے مسائل پر کوئی بات تک نہیں کی گئی جبکہ حکمران طبقے کے ان تمام دھڑوں کی جانب سے محنت کش طبقے پر ڈھائے جانے والے مظالم وجبر میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی کسی بھی تحریک کے خلاف یہ تمام لٹیرے حکمران سب ایک پیج پر ہو جاتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی طاقت سے حکمران طبقے کے تمام سٹیک ہولڈرز بخوبی آگاہی رکھتے ہیں کہ اگر 22 کروڑ محنت کش عوام جاگ گئے تو ان کی یہ تمام لوٹ مار مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔
پاکستان بھر میں حالیہ عرصے میں محنت کش طبقے کی تحریک میں انتہائی وقتی طور پر تھوڑا سا ٹھہراؤ آیا ہے اگرچہ اس دوران بھی بکھری ہوئی کئی ایک لڑائیاں لڑی جا رہی ہیں جیسا کہ پنجاب میں ٹیوٹا محنت کشوں کی جدوجہد اور سندھ میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کی شاندار تحریک۔ پچھلے چند سالوں کے مقابلے میں رواں سال میں مزدور تحریک کی اس نسبتی سست روی کی اہم ترین معروضی وجہ معاشی و صنعتی بحران کی انتہائی شدت ہے جسے پھر سیلاب کی تباہ کاریوں نے مزید بڑھاوا دیا ہے۔ مہنگائی کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے اور صنعتوں کی ریکارڈ بندش کے باعث بیروزگاری کا ایک طوفان آیا ہو ا ہے۔ مزید برآں رواں سال کے آغاز سے ملک میں جاری سیاسی بے یقینی بھی معاشی بحران میں اضافہ کر رہی ہے اور حکمران طبقہ اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر منتقل کر رہا ہے جس نے محنت کش عوام کی پہلے ہی سے بے تحاشہ مسائل سے گھری زندگیوں کو بالکل اجیرن کر کے رکھ دیا ہے اور وہ اس وقت محض زندہ رہنے کی تگ ودو میں غرق ہیں۔ لیکن یہ کیفیت انتہائی وقتی ہے اور سطح کے نیچے حکمران طبقے اور ان کے نظام کے خلاف غصہ پہلے کبھی نہ دیکھی گئی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور مستقبل قریب میں یہ ناگزیر طور پر سطح کے اوپر بھی اپنا اظہار کرے گا۔
ایسی صورتحال میں محنت کش طبقے کی جدوجہد کے حوالے سے مزدور تحریک کی موضوعی کمزوریوں، خصوصاً ٹریڈ یونین قیادت کے کردار پر بحث کرنا انتہائی ضروری ہے، جہاں ایک طرف عام محنت کش جدوجہد کرتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں لیکن ان پر مسلط ٹریڈ یونین اشرافیہ سودے بازی کرتے ہوئے اپنی جیبوں کو گرم کرنے کی خاطر محنت کش طبقے کی جدوجہد کو زائل کردیتی ہے۔ یہ بات ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ محنت کش طبقے کو پاکستان بھر میں اپنی جدوجہد کے دوران دو طرفہ لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ جہاں ایک طرف وہ بیرونی محاذ پر حکمران طبقے، ریاست اور مالکان سے برسرپیکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف وہ ٹریڈ یونین اشرافیہ کی مفاد پرستی اور سمجھوتے بازی کے خلاف مسلسل ایک داخلی لڑائی بھی لڑ رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ محنت کش طبقے کی اندر ہونے والی ارتعاش کو ہمیشہ ٹریڈ یونین اشرافیہ اپنے منافقانہ رویے اور سمجھوتے بازی کے ذریعے ٹھنڈا کر نے کی کوشش کرتی ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں محنت کش طبقے کے اندر ایک ہیجان کی سی کیفیت کا موجود ہونا بھی ایک ناگزیر مظہر بنتا جا رہا ہے۔ اس ہیجانی کیفیت کا اظہار ہم روایتی ٹریڈ یونینز اور مختلف مزدور ایسوسی ایشنز میں مسلط شدہ قیادتوں کے خلاف لڑائی لڑنے اور اس حوالے سے کھل کر بات کرنے کے عمل میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں محنت کش طبقے کی بہت چھوٹی سی اقلیت یونینز میں منظم ہے اور ان پر بھی ٹریڈ یونین اشرافیہ کا کنٹرول ہے۔ مگر اب اس کنٹرول میں کافی حد تک دراڑیں پڑچکی ہیں جس کا اندازہ ہمیں پاکستان بھر کے اندر ہونے والی مزدور جدوجہد میں محنت کش طبقے کی لڑاکا پرتوں کے اپنی نام نہاد قیادتوں کے حوالے سے نفرت کے کھلے اظہار سے ہوتا ہے جوبالکل جائز اور درست ہے۔ اگر ٹریڈ یونین اشرافیہ اور عام محنت کشوں کے معیار زندگی میں تفاوت کو ہی دیکھا جائے تو ہر مزدور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ٹریڈ یونین لیڈر کے پاس اتنی آسائش بھری زندگی ہے جبکہ دوسری جانب عام محنت کش کو ہمیشہ دو وقت کی روٹی کی فکر لاحق ہوتی ہے، تو کیا یہ ایک کُھلا تضاد نہیں ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ ٹریڈیونین اشرفیہ اور عام محنت کشوں کے درمیان یہ خلیج یا تفاوت آخر اُبھرا کیوں؟ ٹریڈ یونین اشرافیہ پیدا کیسے ہوئی ہے؟ ان تمام تر سوالات کے جوابات کے لیے ہمیں مزدور تحریک کو سمجھنا ہو گا اور اس کے نظریات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ سوویت یونین کے انہدام سے پہلے مزدور تحریک کے اندر ایک حد تک سٹالنزم کی صورت میں مسخ شدہ مزدور نظریات موجود ہوتے تھے اور کافی حد تک ٹریڈ یونین قیادتیں ان نظریات کے تحت جدوجہد کرتی تھیں۔ اس کی وجہ سے ٹریڈ یونین قیادت اور عام محنت کشوں کے درمیان مسخ شدہ ہی سہی لیکن ایک سیاسی اور نظریاتی تعلق موجود ہوتا تھا۔ مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں بازو اور مزدور تحریک کی عمومی پسپائی کے طویل عرصے میں مزدور تحریک کے اندر نظریات کی بات کرنا ایک شجر ممنوع بن گیا، جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پرلے درجے کی موقع پرست اور سمجھوتے باز ٹریڈ یونین اشرافیہ کا ابھار ہوا۔
پچھلے چند سالوں میں ملک کے طول وعرض میں مختلف پبلک اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کش اپنے حقوق کی جدوجہد میں بر سر پیکار رہے ہیں اور ان احتجاجوں و جدوجہد میں محنت کشوں نے کچھ قابل ذکر کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں۔ لیکن یہ تمام تر احتجاج ٹریڈیونین اشرافیہ کی دلی خواہشات کے برخلاف برپا ہوئے اور انہیں نیچے سے پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے اپنی ”لیڈری“ بچانے کی خاطر مجبوراً ان کی قیادت کرنا پڑی۔ ان نام نہاد مزدور قیادتوں نے جدوجہد کے ہر موڑ پر عام محنت کشوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی پوری کوشش کی اور جو چند ایک کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ محنت کشوں کی جرات و ہمت کا نتیجہ ہیں اور ان میں اس یونین اشرافیہ کا کوئی کمال نہیں ہے۔ ایسے ہی اجرتوں میں اضافہ، نجکاری کی روک تھام اور مستقل روزگار جیسے مطالبات تو ایک طرف رہے، پاکستان میں انڈسٹریل سیفٹی جیسی انتہائی بنیادی چیز کی صورتحال اتنی دگر گوں ہے کہ کے پی کے اور بلوچستان کے کان کنوں سے لے کر واپڈا کے لائن مینوں تک روزانہ بے شمار مزدور دو وقت کی روٹی کمانے کی تگ ودو میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ مگر کوئی نام نہاد یونین قیادت اس قتل عام پر جھوٹے منہ بھی آواز نہیں اٹھاتی بلکہ الٹا مالکان اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر محنت کشوں کو ہی ”غفلت“ کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں مزدور تحریک سے باہر بھی محنت کش عوام اپنے حقوق کی خاطر متحرک ہوئے ہیں جیسا کہ گزشتہ سال گوادر میں محنت کش عوام کی ایک بہت بڑی تحریک ابھری جو کہ اب تک موجود ہے مگر اس تحریک کی قیادت نے تحریک کو اپنے تنگ نظر سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کوئی متبادل سیاسی ونظریاتی پروگرام اور واضح لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے تحریک کمزور ہوئی ہے۔ مگر تحریک اور قیادت کے درمیان ایک خلیج جنم لے رہی ہے جو کہ مروجہ قیادت کے خلاف نئی زیادہ لڑاکا قیادت کو ابھار کر سامنے لا سکتی ہے۔
پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں عوامی اداروں اور سرکاری محکموں کے ملازمین و محنت کشوں کے اندر جو تحریک چلی ہے اس نے پاکستان میں مزدور تحریک کے دوبارہ احیاء کے حوالے سے پورے سماج میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اس سے نہ صرف حکمران طبقہ لرز اُٹھا، بلکہ ایسے بہت سارے لبرل دانشور جو کہ پاکستان میں مزدور تحریک کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے، ان کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی رسید ہوا۔ ڈی آر اے کے حصول، اجرتوں میں اضافے، روزگار کی مستقلی اور دیگر مطالبات کے حوالے سے پورے پاکستان میں اگیگا کے پلیٹ فارم سے ایک پرجوش اور ولولہ انگیز تحریک چلی جس نے کافی سارے مطالبات بھی منوا لیے۔ اس احتجاجی تحریک نے کافی عرصے کے بعد پاکستان بھر کے محنت کشوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جس نے مزدور تحریک میں طبقاتی جڑت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر، اگر ہم اس مظہر کو بھی ٹھوس طریقے سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس میں اسلام آباد کے وفاقی ملازمین اور محنت کشوں نے ایک کلیدی کردار ادا کیا جنہوں نے روایتی ٹریڈ یونین اور ایسو سی ایشن قیادتوں کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک نئی قیادت کو تراشا جس نے پھر ملک گیر سطح کے الائنسز کو تشکیل دیا۔ اسی کارن وفاقی ملازمین کو بہت سی کامیابیاں بھی ملیں۔ جبکہ صوبوں کے اندر یہ تحریک روایتی ٹریڈ یونین اشرافیہ کی مفاد پرستی اور موقع پرستی کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی۔ خیبرپختونخوا، پنجاب یا بلوچستان ان تمام صوبوں میں گرینڈ الائنسز تو بنے مگر وہ جلد ہی ٹریڈ یونینز اشرافیہ کے ذاتی مفادات، سمجھوتے بازی اور انا پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے محنت کشوں و ملازمین کی تمام تر جدوجہد کو صرف ڈی آر اے تک محدود کردیا گیا جبکہ دیگر چھوٹے موٹے مطالبات کو اپنی کامیابی جتانے کے لئے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ان تمام الائنسز کی اشرافیہ قیادت محنت کش طبقے کو مزدور نظریات اور سیاست سے دور رکھنے کی بات کرتے ہیں تاکہ ٹریڈ یونینز پر اُن کی گرفت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہاں تک کہ کوئی نظریاتی پوزیشن نہ ہونے کے سبب اسلام آباد میں ابھرنے والی لڑاکا قیادت بھی مختصر عرصے میں ہی ریاست کی بھرپور پشت پناہی رکھنے والی انتہائی دائیں بازو کی ٹریڈ یونین اشرافیہ کے زیر اثر آ چکی ہے۔ اسی طرح حال ہی میں ملک میں آنے والے سیلاب سے بہت تباہی ہوئی ہے اور ریاست نے اس حوالے سے انتہائی ظالمانہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں ٹریڈ یونینز کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنے بینر تلے ریلیف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے جس کے ذریعے انہیں محنت کش عوام کی وسیع تر پرتوں سے جڑنے اور ان کی ہمدردیاں جیتنے کا موقع ملتا۔ اسی طرح پچھلے چند ماہ میں بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف ملک بھر میں خودرو عوامی احتجاج ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں تو یہ احتجاج ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ یہاں پر ٹریڈیونینز اور خاص کر واپڈا کی یونینز کا فریضہ تھا کہ وہ آگے بڑھ کر ان احتجاجوں کی حمایت کرتیں بلکہ انہیں منظم کرنے اور ان کی قیادت کرنے کا فریضہ سر انجام دیتیں۔ یقینی طور پر عام محنت کش ایسا کرنا بھی چاہتے تھے لیکن یہ مفاد پرست ٹریڈ یونین قیادتیں تھیں جنہوں نے عوامی قیادت حاصل کرنے کے ایسے سنہری مواقع گنوا دیے۔ درحقیقت وہ ایسا کر کے اپنے آقاؤں یعنی حکمران طبقے کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے تا کہ ان کے مفادات اور مراعات محفوظ رہیں۔
اسی طرح پاکستان میں اس وقت محنت کش طبقے کو درپیش بے شمار بڑے مسائل میں سے دو اہم مسئلے یونین سرگرمیوں پر پابندی اور نجکاری ہیں۔ صنعتی شعبے میں تو ایک طرح سے یونین سازی پر ویسے ہی غیر اعلانیہ پابندی ہے جبکہ عوامی اداروں میں بھی اعلانیہ و غیر اعلانیہ طور پر یونینز کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ لیکن اس پر بھی ٹریڈ یونین اشرافیہ کی خاموشی برقرار ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ نجکاری کا ہے۔ منافع بخش عوامی اداروں کی عالمی سامراجی مالیاتی اداروں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات پر کھلم کھلا نجکاری کی جارہی ہے۔ ان اداروں کے محنت کشوں میں نجکاری مخالف لڑائی لڑنے کی نہ صرف خواہش موجود ہے بلکہ وہ جدوجہد کے لیے کئی بار میدان میں اترے بھی ہیں۔ لیکن مفاد پرست اور سمجھوتے باز ٹریڈ یونینز اشرافیہ نے ہر بار حکمرانوں اور بیوروکریسی کی نمائندگی کرتے ہوئے محنت کشوں کو ورغلاکر، تھکا کر اُن کے غم و غصے کو ٹھنڈا کیا اور تحریکوں کو زائل کیا۔ اس مقصد کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں جس کے کارن انہیں کافی کامیابی بھی ملی ہے مگر اس وقت نجکاری کے خلاف محنت کش طبقے کے اندر ایک لاوا جنم لے رہا ہے جوکہ جلد یا بدیر ایک آتش فشاں کی صورت میں پھٹے گا۔
اس پوری بحث کے نتیجے میں ہم ایک اہم نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں مزدور تحریک پر مسلط ٹریڈ یونین اشرافیہ کی پرت کے خلاف جدوجہد کئے بغیر مزدور تحریک کو آگے بڑھانا ناممکن ہے۔ ان کی موجودگی مزدور تحریک کے اندر ایک مکمل رکاوٹ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور یہ مزدور تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اسے پیچھے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے جہاں ایک طرف یہ یونین اشرافیہ ہر جدوجہد کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے گھٹیا سمجھوتے بازی کرتی ہے وہیں محنت کش طبقے کو شعوری طور پر نسلی، مذہبی اور قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بارہا ذکر کیا ہے کہ ان تمام مسائل کی حتمی وجہ مزدور تحریک سے سوشلزم کے مزدور نظریات کا خاتمہ ہے۔
مگر یہاں پر ایک اہم اور بنیادی یہ سوال ہے کہ کیا محنت کش طبقہ ہمیشہ ٹریڈ یونین اشرافیہ کے زیر عتاب رہے گا؟ اس سوال کا جواب ہم نے ورکرز کی مختلف احتجاجی تحریکوں کے حوالے سے جو بحث کی ہے اس میں بھی موجود ہے مگر یہاں پر اگر ٹھوس طریقے سے بات کی جائے تو اس کا جواب ”ناں“ میں ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان بھر کا محنت کش طبقہ جن حالات سے گزر رہا ہے، اس کی ملکی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، بھوک، ننگ، افلاس، بے گھری اور لاعلاجی جیسے بنیادی مسائل اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ زندگی ایک دہکتی ہوئی جہنم بن چکی ہے۔ جبکہ حکمران طبقے کو ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان تمام تر مسائل کی موجودگی کے باعث محنت کش طبقے کے ہر اول دستے مجبور ہو رہے ہیں کہ خود پر مسلط یونین اشرافیہ کی قیادت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ایک نئی لڑاکا قیادت کو تراش لائیں۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھر میں ٹریڈ یونینز پر مسلط اشرافیہ قیادت کو اپنے جرائم اور دھوکے بازی کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ویسے بھی پاکستان جیسے ملک میں جہاں روایتی سیاسی رجحانات اور پارٹیاں متروک ہو رہی ہیں تو یہی عمل ٹریڈ یونین تحریک میں بھی ہو رہا ہے۔ لیکن یہ سب خود بخود نہیں ہو گا اور اسے عملی شکل دینے کے لیے محنت کش طبقے کی ریڈیکل پرتوں کو ایک لڑائی لڑنی پڑے گی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کی اکثریتی آبادی اس وقت سرمایہ داری کے زوال کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہے اور ان مسائل کے خلاف مزاحمت کرنے کے لئے بیتاب ہے۔ کئی بار دنیا بھر میں محنت کش عوام میدان عمل میں نکلے ہیں، مگر انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے تمام تر جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود حتمی طور پر انہیں پسپا ہو نا پڑا۔ ایسے میں پاکستان جیسی پسماندہ اور عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں پر چلنے والی معیشت میں گوکہ ایک بھرپور انقلابی عوامی تحریک اب تک تاخیر زدگی کا شکار ہے، مگر جتنی یہ تحریک تاخیر زدگی کا شکار ہو گی اتنی ہی شدت سے ابھرتے ہوئے اپنے سامنے آنے والی رکاوٹوں کو بہا لے جائے گی۔ اگر اس تحریک کی انقلابی راہنمائی کرنے کے لئے درست نظریات، پروگرام اور لائحہ عمل سے مسلح ایک انقلابی قیادت موجود نہ ہوئی تو یہ تحریک بھی زائل ہو جائے گی۔ اس ضمن میں ہم محنت کش طبقے کی تمام ریڈیکل پرتوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ انہیں محنت کش طبقے کے اجتماعی طبقاتی مفادات کی لڑائی کیلئے محنت کش طبقے کو تیار کرنے کے لئے خود کو سوشلزم کے مزدور نظریات سے مسلح کرنا ہوگا۔ اس اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں محنت کش طبقے کی سیاست کرنے والے انقلابیوں پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی تمام پرتوں تک سوشلزم یا مارکسزم لینن ازم کے انقلابی نظریات کی ترویج کو ممکن بنائیں۔ کیونکہ بقول لینن ”انقلابی نظریات کے بغیر کوئی انقلابی تحریک نہیں ہوسکتی“۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اب مزید سکت نہیں رہی کہ وہ محنت کش عوام کو، بالعموم پورے سماج کو اور پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دے۔ جس نظام کے اندر پیداواری قوتوں کی ترقی رُک جاتی ہے اس نظام کے خلاف بغاوت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن نظام کی انقلابی تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ سوشلزم کے مزدور نظریات پر مبنی ایک انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے جو کہ ان انقلابی تحریکوں کو درست سائنسی بنیادوں پر استوار کر تے ہوئے ایک غیر طبقاتی سماج کے قیامِ کو ممکن بنا ئے۔ یہی آج مارکس وادیوں اور محنت کش طبقے کی ہر اول لڑاکا پرتوں کا تاریخی فریضہ ہے۔