|تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ |
گلگت بلتستان میں بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچی چکی ہے۔ پچھلے دنوں جی بی پولیس میں کانسٹیبل کی 60 کے قریب پوسٹوں کیلئے ٹیسٹ منعقد کیا گیا۔ اس معمولی پوسٹ کے لیے پورے گلگت بلتستان سے 20 ہزار سے زیادہ امیدوار ٹیسٹ میں شریک ہوئے جن میں زیادہ تر بے روز گار گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ تھے۔ اکثر محکموں اور اداروں میں خالی ہونے والی آسامیوں پر درپردہ ان محکموں کے اعلیٰ افسران اپنے منظور نظر افراد کو ہی لگاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جی بی میں بے روزگار افراد کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے جن میں زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔ معاشی تنگ دستی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ان نوجوانوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
جی بی کے سرکاری محکموں میں مختلف اوقات میں ضرورت کے مطابق کنٹنجنٹ، کنٹریکٹ اور مختلف پراجیکٹس کی بنیاد پر 6 ہزار سے زیادہ ملازم بھرتی کیے گئے ہیں۔ یہ عارضی ملازمین اپنی ملازمت کی مستقلی کے لیے گزشتہ پانچ، چھ سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں، انہوں نے دو تین دفعہ دھرنے بھی دیئے مگر ان کے ساتھ جھوٹے وعدے کرکے انہیں جدوجہد سے باز رکھا گیا۔ اس ماہ ایک دفعہ پھر 12 اپریل سے دوبارہ چیف سیکرٹری آفس و رہائش گاہ کے باہر سینکڑوں عارضی ملازمین نے پورے جی بی سے جمع ہو کر دھرنا دیا اور سات دنوں تک انتظامیہ کا سخت دباؤ برداشت کرتے رہے۔ آخرکار جی بی حکومت کے چار وزراء نے دو دن تک مذاکرات کے ذریعے ایک تحریری معاہدہ کرکے انہیں مستقل کرنے کے وعدے پر دھرنے کو ختم کروایا۔ عارضی ملازمین نے دھمکی دی ہے کہ حکومت نے اگر معاہدے کے مطابق انہیں مستقل نہ کیا تو عید کے بعد وہ دوبارہ دھرنا دیں گے۔
اس کے علاوہ گزشتہ دنوں لائین ڈیپارٹمنٹس کے 16 ہزار سے زیادہ ملازموں نے بھی پھر سے احتجاج کی کال دی ہے۔ ان کا بنیادی مطالبہ ہے کہ جی بی سیکرٹریٹ ملازمین اور لائین ڈپارٹمنٹ کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں فرق کو ختم کیا جائے۔ اس وقت سیکرٹریٹ کے ملازمین لائین ڈپارٹمنٹ کے ملازمین سے دوگنا تنخواہ لے رہے ہیں جس کا انتظامیہ کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں۔ ان ملازموں کے بار بار احتجاج کے باوجود تنخواہوں میں اس ظالمانہ فرق کو ختم نہیں کیا گیا جس کے خلاف لائین ڈپارٹمنٹ کے ہزاروں ملازمین بھی فیصلہ کن جدوجہد کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو) کے ایک ہزار سے زیادہ محنت کشوں کی تنخواہیں بھی مالی بحران کے بہانے سے پچھلے تین چار مہینوں سے ادا نہیں کی گئی ہیں۔ اس وجہ سے نیٹکو کے محنت کش بھی ہڑتال کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اسی طرح، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے ہزاروں پیرامیڈیکل اسٹاف، نرسیں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی پچھلے کئی سالوں سے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں نیز پرائیویٹ سکولوں کے ہزاروں ٹیچرز بھی پچھلے سال سے کرونا بحران کی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہیں۔ یہ پرائیویٹ ٹیچرز بھی اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نجی اداروں کے یہ پرائیویٹ ٹیچرز شدید استحصال کا شکار ہیں، انہیں پانچ ہزار سے لے کر پندرہ ہزار روپے ماہانہ تک کی معمولی تنخواہیں دی جاتی ہیں مگر ان نجی سکولوں اور کالجوں کے مالکان خود طلبہ سے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں۔
گلگت سکردو میں ورکشاپوں سے وابستہ سینکڑوں کارکن بھی سردیوں میں بجلی کی پندرہ سے بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بیکاری کا شکار ہیں، ان میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ جی بی میں بجلی اور پانی کے محکمہ کے ہزاروں ملازمین بھی اپنے دیرینہ مطالبات کے لئے بار بار انتظامیہ کے سامنے مطالبات پیش کرتے رہے ہیں مگر جی بی حکومت ان کے جائز مطالبات ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آتی جس باعث اس محکمے کے ملازمین میں بھی بے چینی اور غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ جی بی میں محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہے، جن کا ایک بڑا حصہ اب کرونا وبا کی وجہ سے سست روی کا شکار تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے بے روزگاری کا شکارہو چکاہے اور وہ فاقہ کشی کاشکار ہیں۔ اس کے علاوہ سوست ڈرائی پورٹ پر کام کرنے والے سینکڑوں محنت کش بھی کرونا کی وجہ سے چین بارڈر بندہونے کے باعث بیکاری کا شکار ہیں۔ گلگت بلتستان کے ہزاروں محنت کش یہاں حکومت کی طرف سے صنعتیں نہ لگانے اور روزگار فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ملک کے دوسرے شہروں میں تلاش روزگار میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر پچھلے سال سے پورے ملک میں کرونا بحران کی وجہ سے پاکستان بھر میں بے روزگاری کا طوفان آیا جس کی زد میں جی بی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں محنت کش جو ملک کے مختلف شہروں میں کام کررہے تھے، کو بھی گھر واپس آنا پڑا۔
اس ساری صورت حال میں جی بی کے ان تمام محنت کشوں کو اس حقیقت کا ادراک حاصل کرنا ہوگا کہ ان کے روزگار کا براہ راست تعلق موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی مزدور دشمن پالیسیوں سے ہے۔ اس لئے جی بی کے محنت کشوں کو اس نظام سے مزید امیدیں لگانے کی بجائے ملک کے دوسرے علاقوں کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی یکجہتی کی بنیاد پربے روزگاری، مہنگائی اور بیماری کا اصل ذمہ دار، سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور مزدور راج پر مبنی سوشلزم کے قیام کے لیے مشترکہ جدوجہد تیز کرنی ہو گی۔