|تحریر: آفتاب اشرف|
پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں یہاں کے محنت کش طبقے پر اتنا کٹھن وقت شاید کبھی نہیں آیا جتنا کہ آج ہے۔ مزدور کی زندگی ہمیشہ سے ہی مشکل تھی لیکن اب تو یہ ایک دہکتا ہوا جہنم بن چکی ہے جس میں اسے دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے روز جلنا پڑتا ہے۔ سرمائے کو خدا ماننے والے اس سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور کو عزت تو کبھی بھی نہ ملی تھی لیکن اب تو اسے ذلت اور رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ مہنگائی، غربت، بے کسی، بھوک و ننگ، لاعلاجی، بے گھری اور بیروز گاری پہلے کبھی نہ دیکھی گئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ نجکاری پالیسی کے تحت عوامی اداروں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر جبری برطرفیوں کے وار کیے جا رہے ہیں۔ ڈاؤن سائزنگ پہلے کبھی نہ دیکھی گئی سفاکی کے ساتھ جاری ہے۔ نجی صنعتیں جیل خانوں میں بدل چکی ہیں جہاں محنت کشوں کو قیدیوں کے برابر حقوق بھی حاصل نہیں۔ انتہائی کم اجرتوں پر سولہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ نام نہاد کم از کم اجرت اور دیگر لیبر قوانین صرف کاغذوں کی حد تک ہیں اور ان کا عملی اطلاق ندارد ہے۔ انڈسٹریل سیفٹی قوانین کو تو مالکان اور انتظامیہ خاص طورپر جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ نتیجتاً فیکٹریاں اور ادارے ایسی قتل گاہیں بن چکے ہیں جہاں اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے جانے والے بہت سے محنت کش کبھی گھر واپس نہیں آتے۔ ”روٹی بندہ کھا جاندی اے۔۔“ کسی شاعر کی کہی یہ بات جتنی آج درست ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ یونین سازی پر عملاً پابندی ہے۔ اپنے بنیادی حقوق کے لئے اکٹھا ہونا تو دور کی بات، مالکان یا انتظامیہ دو مزدوروں کو اکٹھا کھڑے دیکھ بھی لیں تو ان کا گیٹ بند کر دیا جاتا ہے۔ مستقل روزگار ماضی کی بھولی بسری یاد بن چکا ہے۔ آج ٹھیکیداری نظام کا عفریت نجی صنعت سے نکل کر عوامی اداروں کو بھی تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ معاشی صورتحال اتنی دگرگوں ہے کہ محنت کش طبقہ تو ایک طرف رہا، ماضی میں ”پڑھی لکھی مڈل کلاس“ کہلانے والے ینگ ڈاکٹرز، انجینئرز اور اساتذہ جیسے پیشہ وارانہ گروپ بھی اب آئے روزاپنے بنیادی حقوق کی خاطر سڑکوں پر احتجاج کرتے اور پولیس کے ڈنڈے کھاتے نظر آتے ہیں۔
اس سارے جبر واستحصال میں ریاست اور عدلیہ، فوج، پولیس، افسر شاہی اور پارلیمنٹ سمیت اس کے ہر ایک ادارے کا مزدور دشمن کردار بھی واضح ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کی ہر سرمایہ دارانہ ریاست کی طرح ریاستِ پاکستان بھی یہاں کے ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں اور عالمی مالیاتی اداروں کے جبر کا ایک اوزارہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے مختلف وفاقی محکموں میں کام کرنے والے 16 ہزار ملازمین کو بیروزگارکر دینے کے عدالتی فیصلے نے اس ادارے کی نام نہاد غیر جانبداری کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی عدلیہ ہے جو پچھلے 74 سالوں میں کرپشن، لوٹ مار اور ننگی قانون شکنی پر کسی ایک بھی سرمایہ دار کو معمولی سی سزا بھی نہیں دے سکی۔ اسی طرح عوامی ٹیکسوں پر پلنے والی پولیس تو اب کھل کھلا کر سرمایہ داروں کی پرائیویٹ غنڈہ فورس بن چکی ہے۔ کسی فیکٹری ایریا میں دہائیوں تک ہر قسم کے لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوتی رہے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مگر جیسے ہی وہاں کے محنت کش اپنے حقوق کے لئے منظم ہونے کی کوشش کریں تو سرمایہ داروں کی ایک کال پر پورے علاقے کی پولیس دندناتی ہوئی نجی ملکیت اور منافعوں کے دفاع کے لئے وہاں آدھمکتی ہے اور پھر محنت کشوں پر جھوٹے مقدموں، گرفتاریوں اور دیگر ریاستی ہتھکنڈوں کے ساتھ ایسا حملہ کیا جاتا ہے کہ وہ سالوں تک عدالتوں کے چکر ہی کاٹتے رہ جاتے ہیں۔ جرنیل شاہی کا مزدور دشمن کردار بھی اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا۔ یہ وہی وردی پوش فرعون ہیں جنہوں نے کبھی ایوب خان، کبھی ضیا ء الباطل، کبھی جنرل مشرف کی شکل میں محنت کشوں کو خون میں نہلایا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان کے سینوں پر سجے تمغے کسی بہادری یا وطن دوستی کا صلہ نہیں بلکہ اس ملک کے محنت کش عوام پر کیے جانے والے جبر کی علامت ہیں۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں کے چھوٹے موٹے احتجاجوں کو دبانے کے لئے بھی بلادریغ ”نمبر ون“ خفیہ ایجنسی کا استعمال کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سول افسر شاہی کے اختیارات جرنیل شاہی کے مقابلے میں کچھ کم ضرور ہوئے ہیں لیکن اپنی مزدور دشمنی میں انگریز سامراج کے چھوڑے ہوئے یہ طفیلیے شاید جرنیلوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ اور اگر پارلیمنٹ کی بات کی جائے تو یہ سرمایہ دار طبقے کے سیاسی نمائندوں پر مشتمل وہ قابلِ نفرت چکلہ ہے جہاں دن رات مزدور دشمن قانون سازی کی جاتی ہے اور سرمایہ دار طبقے کو نوازنے کے لئے روز نت نئے بل پاس کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں، ریاستی جبر کے بالا اداروں سے ہٹ کر اگر ہم نچلے درجے کے اداروں کی بھی بات کریں تو وہ بھی مزدور دشمنی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال محکمہ لیبر اور لیبر کورٹس ہیں جو سرمایہ داروں کے گھر کی رکھیل ہیں جن سے آج تک محنت کشوں کو کبھی کوئی ریلیف نہیں ملا۔ ریاست کا نام نہاد چوتھا ستون یعنی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تو بذات خود ایک بہت بڑا کاروبار ہے جس میں مالکان صحافتی محنت کشوں کے دن رات استحصال کے ذریعے کھربوں کماتے ہیں۔ میڈیا کی مزدور دشمنی کا یہ عالم ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے خلاف کسی بھی خبر کی اشاعت پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کبھی کسی ”بڑے“ واقعے جیسے کسی فیکٹری میں ہونے والے حادثے کی خبر دینی بھی پڑے تو پوری کوشش کی جاتی ہے کہ فیکٹری اور اس کے مالک کا نام میڈیا میں نہ آئے۔
مگر جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی عالمی بحران اور اس کے تھپیڑوں میں ہچکولے کھاتی پاکستان کی پسماندہ سرمایہ دارنہ معیشت یہاں کے محنت کشوں کے لئے ایک عذاب مسلسل بن چکی ہے وہیں یہاں کا حکمران سرمایہ دار طبقہ اور ریاستی اشرافیہ اس بحران کا سارا بوجھ بھاری بالواسطہ ٹیکسوں، نجکاری، کٹوتیوں، افراطِ زر، ڈاؤن سائزنگ اور دیگر معاشی حملوں کے ذریعے محنت کش طبقے کے کندھوں پر لاد کر خود رات دن دولت کے انبار لگا رہا ہے۔ اگر ہم ان کی زندگیوں پر ایک نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ لوگ کسی اور ہی سیارے پر بستے ہیں۔ آج پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی طبقاتی تفاوت یعنی امارت اور غربت کے بیچ تقسیم پہلے کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ جہاں محنت کشوں کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے وہیں اس استحصال کی بدولت سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ غریبوں کے لئے ڈائن بن جانے والی سرمایہ دارانہ ریاست بھی کھل کر ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کو معاشی پیکجز، ٹیکس چھوٹ، سبسڈیوں اور دیگر مراعات کے ذریعے نواز رہی ہے اور اس کے بدلے میں فوجی، سول اور عدالتی افسر شاہی اپنی تجوریاں بھی خوب بھر رہی ہے۔ اس بے تحاشا منافع خوری اور لوٹ مار کی ایک جھلک ہمیں شہر کے پوش علاقوں میں بننے والے نت نئے ڈیزائن کے محلات، مہنگی گاڑیوں اور دیگر سامان تعیش کی درآمد میں ہونے والے زبردست اضافے اور رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک ایکسچینج میں صبح شام زور پکڑتی سٹے بازی میں نظر آتی ہے۔ ایک طرف محنت کش عوام بھوک، غربت اور بیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں تو دوسری طرف امراء اپنی شادی بیاہ کی تقریبات پر اربوں روپے خرچ رہے ہیں۔ غریب کے بچے روز شام کو روٹی پر لڑ تے ہیں جبکہ خون چوس سرمایہ داروں کی حرام خور اولادیں لگژری گاڑی پر اپنا من پسند نمبر لگوانے کے لئے کروڑوں خرچنے کو تیار ہوتی ہیں۔
اس ساری صورتحال میں اگر ہم سیاسی افق پر موجود پارٹیوں پر ایک نظر دوڑائیں تو حکومتی پارٹی پی ٹی آئی سے لے کر پیپلز پارٹی، انواع و اقسام کی مسلم لیگوں، جماعت اسلامی و دیگر مذہبی پارٹیوں اور قوم پرست پارٹیوں تک سب کی سب سرمائے کے دیوتا کے قدموں میں سجدہ زن ہیں۔ ان سب پارٹیوں کے بیچ جتنے بھی سطحی قسم کے اختلافات ہوں اور لوٹ کے مال کی بندر بانٹ پر جتنے بھی تضادات ہوں، مگر یہ سب سرمایہ دارانہ نظام پراندھا یقین رکھتی ہیں اور سرمایہ دار طبقے، اس کی نجی ملکیت اور منافعوں کی ہی نمائندہ و محافظ ہیں۔ لہٰذا ان میں کسی سے بھی بہتری کی معمولی سی امید بھی رکھنا محض پرلے درجے کی بیوقوفی ہے اور یہ امر نہایت ہی خوش آئند ہے کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ اپنے تلخ تجربات سے سیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں محنت کشوں میں رائج الوقت سیاست کے حوالے سے شدید بیگانگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی طرح گنے چنے نسبتاً بہتر ٹریڈ یونین لیڈروں کو چھوڑ کر یونین قیادتوں کی ایک بھاری ترین اکثریت اس وقت مزدور تحریک میں محنت کشوں کی بجائے سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کے معاشی و سیاسی مفادات کی نگرانی کرتی ہے اور ان کا واحد مقصد مالکان اور انتظامیہ کے حکم پر مزدور تحریک کے راستے میں روڑے اٹکانا ہے۔ کچھ مختلف طریقہ واردات کے ساتھ یہی کردار لیبر این جی اوز کا بھی ہے جو ”مزدور دوستی“ کا لبادہ اوڑھ کر درحقیقت سرمایہ دار طبقے کے ہی ایما پر مزدور تحریک میں نقب زن ہیں اور اسے نظریاتی و سیاسی حوالے سے گمراہ کرنے میں اپنا غلیظ کردار ادا کر رہی ہیں اور بدلے میں مالکان اور ریاست سے بھاری مالی مفادات لے رہی ہیں۔
لیکن حالات کی ان تمام تر سختیوں اور رکاوٹوں کے باوجود محنت کش طبقہ مسلسل اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کر رہا ہے۔ مختلف عوامی اداروں سے لے کر نجی صنعتی علاقوں تک ہمیں ملک کے طول و عرض میں محنت کشوں کی بے شمار چھوٹے اور درمیانے درجے کی بکھری ہوئی تحریکیں، ہڑتالیں، احتجاج اور لڑائیاں ملتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں مختلف عوامی اداروں اور سرکاری محکموں کے محنت کشوں کی نمائندہ یونینز اور ایسوسی ایشنز کے مابین مزدور اتحاد بھی تشکیل پائے ہیں اور مشترکہ مطالبات کے گرد متحد ہو کر جدوجہد بھی ہوئی ہے جس میں جزوی کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ یہ سب نہایت خوش آئند ہے اور ملک کی مزدور تحریک میں رونما ہوتی ایک معیاری تبدیلی کا عکاس ہے۔ لیکن اس مزدور اتحاد کی بڑھوتری کوئی سیدھی لکیر کا عمل نہیں ہو گا اور اس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ ایسے میں یہ مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ مختلف عوامی اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں کے بیچ ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے اس پنپتے ہوئے مزدور اتحاد کو مزید تقویت بخشیں۔ اسی طرح مزدور تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے ایک ملک گیر عام ہڑتال جیسے ریڈیکل لائحہ عمل کی بحث کو محنت کشوں میں اتارنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن سب سے اہم کام یہ ہے کہ مزدور تحریک میں ابھرنے والی لڑاکا محنت کشوں کی پرت کے ساتھ عملی طور پر جڑت بناتے ہوئے انہیں مارکسزم لینن ازم کے انقلابی نظریات سے مسلح کیا جائے کیونکہ سوشلزم کے مزدور نظریات کے بغیر آج کے بحرانی عہد میں مزدور تحریک آگے بڑھنا تو دور کی بات اپنا زیرِ تشکیل اتحاد برقرار رکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ منظم مارکس وادیوں کی انہیں سب شعوری کوششوں سے مزدور تحریک میں مستقبل کی ایک عظیم الشان انقلابی پارٹی کی بنیادیں پڑیں گی۔
پاکستان کا محنت کش طبقہ شاندار انقلابی روایات کا امین ہے۔ اس کی تاریخ 1968-69ء کے انقلابی ابھار سے لے کر بے شمار انتہائی جرات مندانہ لڑائیوں اور جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ تلخ حالات کی کٹھالی سے گزر کر یہ ایک مرتبہ پھر ایک تیز و تند انقلابی تحریک کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ سطح پر موجود نسبتاً سکوت سے دھوکہ کھانا انقلابیوں کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہو گاکیونکہ سطح کے نیچے طبقاتی غصے اور نفرت کا ایک لاوا دہک رہا ہے اور کوئی بھی چنگاری اس بارود کے ڈھیر کو ایک دھماکے سے پھاڑ سکتی ہے۔ اس خطے کے محنت کش عوام کے تمام تر مسائل کا حل صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں یہاں کا محنت کش طبقہ تمام تر ذرائع پیداوار کو اپنی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کرے گاجو انسانی ضروریات کے لئے پیداوار کو منظم کر کے اس دھرتی کو یہاں کے عوام کے لئے ایک جنت ارضی میں بدل دے گی۔ محنت کش ساتھیو! آگے بڑھو، فتح تمہاری ہو گی!