بلوچستان میں مزدور تحریک: تمام دکھوں کا ایک علاج؛ مزدور راج!

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کوئٹہ|

اس وقت پورے پاکستان میں محنت کش طبقے کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کا اظہار ہم مختلف احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، دھرنوں اور جلسوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ بالخصوص نجکاری کے خلاف اس وقت پورے پاکستان میں محنت کش طبقہ سراپا احتجاج ہے۔

اس ضمن میں اگر ہم بلوچستان کے حوالے سے مختصراً بات کریں تو اس وقت بلوچستان میں بھی ملتی جلتی صورتحال ہے جس میں خاص کر محکمہ صحت کے ملازمین نجکاری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جہاں بلوچستان میں باقاعدہ طور پر مضافاتی علاقوں میں 10 ہسپتال اور کوئٹہ شہر میں موجود مختلف ہسپتالوں کے کچھ شعبہ جات کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے۔ جس کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی شکل میں اب تک سطح پر احتجاج جاری ہے۔ جس میں 15، 16 نومبر کو سروسز سے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واسا، بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی، بیوٹمز، جامعہ بلوچستان، میونسپل کارپوریشن، ریسکیو 1122، پی ڈی ایم اے، ایریگیشن، واپڈا، محکمہ تعلیم اور صوبے کے دیگر محکمہ جات میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی تو درکنار انہیں ملازمت سے جبری طور پر نکالا جا رہا ہے جس میں خاص کر میونسپل کارپوریشن کے 1400 محنت کشوں کو بیک جنبش قلم نکالا گیا تھا۔ جن کو اب تک بحال نہیں کیا گیا ہے۔

جبکہ دوسری جانب میونسپل کارپوریشن کے چند اہم شعبہ جات کو آؤٹ سورس کیا جا چکا ہے۔ جس پر میونسپل کارپوریشن میں موجود ٹریڈ یونینز کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی ہے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کے لیے لازمی سروس ایکٹ اور بیڈا ایکٹ کے تحت تادیبی کاروائی کرنے کی بھی دھمکی دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اس پورے گورکھ دھندے میں عدلیہ بھرپور ساتھ دیتی ہے جہاں پر بیوروکریسی کی جانب سے ہمیشہ خطوط بازی کی بنیاد پر محنت کشوں کو ان کی بنیادی حقوق کی جدوجہد سے دستبردار کرانے کے لیے عدلیہ اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ بارڈر ٹریڈ سے منسلک محنت کشوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں بالخصوص بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں احتجاجی دھرنا چل رہا ہے جو کہ دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہے مگر تا حال ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایران بارڈر کے ساتھ منسلک محنت کشوں کو بھی انہی تکالیف کا سامنا ہے۔ حالانکہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بارڈر ٹریڈ اب بھی بدستور جاری ہے جس میں ریاستی دلال اور بڑے بڑے مگرمچھوں کی عید ہے جبکہ دوسری جانب عام محنت کش مسلسل پس رہے ہیں۔

اسی طرح بلوچستان کی ساحلی پٹی پر ماہی گیروں کے روزگار پر بھی لات ماری جا رہی ہے۔ جس میں ٹرالر مافیا بدستور ٹرالنگ کے ذریعے نہ صرف محنت کش ماہیگیروں کی روزی روٹی چھین رہے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی نسل کشی بھی کر رہے ہیں۔ حالانکہ ماہی گیروں کی ایک زبردست تحریک اب بھی موجود ہے مگر تحریک کی قیادت موقع پرستی کی شکار ہو کر گوادر اور دیگر ساحلی پٹی کے ماہی گیروں کو یکسر بھول چکی ہے۔

کان کنی سے منسلک محنت کشوں کی بھی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے جس پر مفصل رپورٹ اس اخبار میں موجود ہے۔

اس تمام تر صورت ِحال پر انقلابی کمیونسٹ پارٹی واضح موقف رکھتی ہے کہ ان تمام تر مسائل اور مشکلات سے محنت کش طبقے کو نکالنے کے لیے سب سے اہم محنت کش طبقے کی آپسی جڑت، اتحاد اور اتفاق ہے، جس کی بنیاد پر حکمران طبقے کو للکارا جا سکتا ہے اور حکمران طبقے کو للکارنے کے لیے محنت کش طبقے کے پاس سب سے اہم اور طاقتور اوزار عام ہڑتال ہے، جس کی بنیاد پر محنت کشوں کو اپنی طاقت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

مگر یہ سب کچھ موجودہ ٹریڈ یونین اشرافیہ کے ہوتے ہوئے مشکل ہے، لہٰذا محنت کش طبقے کو اپنی صفوں میں نظم و ضبط اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لیے نئی قیادت کو تراشنا ہو گا جو کہ ان کی صفوں میں موجود ہے۔

اس کے علاوہ محنت کش طبقے کو اپنی قوت اور طاقت سے آشنا ہونے کے لیے معاشی جدوجہد کے ساتھ سیاسی جدوجہد بھی شروع کرنی ہو گی۔ کیونکہ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی کوئی بھی نمائندہ سیاسی پارٹی نہیں ہے، لہٰذا ہم ان تمام محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنیں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی اس وقت بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں محنت کش طبقے کی جدوجہد کے لیے واحد ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے پاس محنت کشوں کے معاشی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر کا متبادل پروگرام بھی موجود ہے۔ جہاں صرف محنت کش طبقے کو حق حکمرانی حاصل ہو گا۔

Comments are closed.