مزدور تحریک اور کمیونسٹ سیاست

میں، مظہر علی، انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہوں۔ اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا طالبعلم ہوں۔

جب سے میں اس پارٹی کا ممبر بنا ہوں ہم نے پاکستان بھر میں ابھرنے والی تحریکوں میں اپنے کردار کے حوالے سے پارٹی کے اجلاسوں اور اسٹڈی سرکلز میں کافی گفتگو کی ہے۔ اور ان تحریکوں کی عملی طور پر بھرپور حمایت کی ہے، ان میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور ملک گیر سطح پر یکجہتی قائم کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔

مگر ایک بات ہمیشہ میرے ذہن میں رہتی تھی کہ پنجاب کے لوگ کب احتجاج کریں گے، کیونکہ جب بھی میں ’دانشوروں‘ یایونیورسٹی کے ’پروفیسر صاحبان‘ سے بات کرتا تو وہ یہ ضرور کہتے کہ پنجاب کی مٹی میں مزاحمت کا خمیر ہی نہیں! مگر پنشن اصلاحات، لیو انکیشمنٹ کے خاتمے اور دیگر مزدور دشمن پالیسیوں نے بالآخر سرکاری ملازمین کو بھی سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ہم نے بہاولپور میں ہونے والے آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے احتجاجوں میں بھرپور شرکت کی ہے۔ جس کی تیاری کے لیے ہم سب پہلے میٹنگ کرتے اور احتجاج میں اپنی شرکت کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دیتے تاکہ پارٹی کی شناخت واضح ہو سکے۔ ہم نے ایک لیف لیٹ بھی بنایا تاکہ ملازمین تک اپنا پیغام پہنچا سکیں۔ ساتھ میں محنت کشوں کا ملک گیر اخبار ’کمیونسٹ‘ بھی فروخت کیا۔

ان احتجاجوں میں جانے سے مجھے ایک نیا ولولہ اور جذبہ ملا ہے کہ ایک ایسے سماج میں جہاں ظلم و بربریت ہے، لوگوں سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے، ایسے میں محنت کش اپنے حق کے لیے بول رہے ہیں اور سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔میں نے اس احتجاج میں محنت کشوں سے تحریک کے لائحہ عمل کے حوالے سے سوالات کیے، اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ہماری پارٹی کے مؤقف ”ملک گیر عام ہڑتال“ کے حوالے سے گفتگو کی۔

میں یہ دیکھ کر بہت حیرا ن ہوا کہ اکثر محنت کش ملک گیر عام ہڑتال کی بات سے متفق تھے۔ مجھے پہلے یقین نہیں ہوتا تھا، کہ مزدور اس نتیجے تک پہنچ چکے ہوں گے۔

لیکن ایسے محنت کشوں سے بھی میری بات ہوئی جو موجودہ قیادتوں سے نالاں تھے، ان کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال ہم نے شاندار تحریک چلا کر پورے پنجاب کے سکولوں اور کالجوں کو بند کردیا تھا، مگر اس قیادت نے اس پوری تحریک کو مریم نواز کے جھوٹے وعدوں کے تحت ختم کر دیاتھا۔ ورنہ آج ہم جن مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں وہ اس وقت ہی منوا لیتے۔

شاید قیادت بھی اس غداری سے آگاہ ہے، اور اسی کو چھپانے کے لئے احتجاج میں ہونے والی تقریروں میں یہ کہا جا رہا تھا کہ ”یہ سب سے لڑاکا اور بہترین قیادت ہے“۔ ”قیادت اپنا کام کر چکی ہے اب ملازمین کی باری ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اس احتجاج میں یونین کے اکثر قائدین اور عام محنت کشوں کے رویے اور سنجیدگی میں دن رات کا فرق دیکھا۔

محنت کشوں کو جمہوری طور پر منتخب شدہ قیادت چاہیے جو آگے بڑھ کر جدوجد کو کامیاب کروا سکے۔ جو قائد یا رہنما دھوکہ دہی کریں یا دو نمبری کریں ان کو یونین سے نکال باہر پھینکا جائے۔

وہیں پر جب میں نے خواتین ملازمین کو دیکھتا ہوں، تو وہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود احتجاج کے بعد آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کے متعلق پوچھتی نظر آتی ہیں۔ وہ زیادہ لڑاکا ہیں اس طرح لیبر ڈیپارٹمنٹس کے محنت کش بھی زیادہ لڑاکا رویے اور باتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ ان احتجاجوں کے اثرات تو مرتب ہو رہے ہیں لیکن یہ اثرات دیرپا نہیں لگ رہے۔

ایسے احتجاج جہاں صرف لیڈران تقریریں کر کے اپنی بہادری کے گن گارہے ہوں، میں انہیں ٹوکن احتجاج ہی کہوں گا۔

محنت کشوں کو نئی اور بہادر قیادت تراش لانی ہوگی۔ ایسے میں، میں بطور کمیونسٹ سمجھتا ہوں کہ محنت کشوں کو کشمیر و گلگت طرز کی’عوامی ایکشن کمیٹیاں‘بناتے ہوئے عام ہڑتال کی کال دینا ہوگی۔

ریلوے، واپڈا، پوسٹ آفس اور ہیلتھ سمیت تمام ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کو اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ تب ہی کامیابی مل سکتی ہے۔

میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگلے احتجاجوں میں بھی بھرپور شرکت کرونگا۔ اور اپنے دوستوں کو بھی احتجاج میں لے کر جاؤں گا۔

انقلاب کے تین نشان، طلبہ، مزدور اور کسان!

Comments are closed.