|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
13 نومبر 2021ء کو ہفتہ کے روز مہنگائی، بے روزگاری، اجرتوں میں کمی، نجکاری، آئی ایم ایف کی گماشتہ ریاست کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف، جبری برطرفیوں، اور ٹھیکیداری کے خاتمے اور مستقل روزگار کے حصول کے لیے ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کی جانب سے لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں واقع لیبر اسکوائر کے قریب ”راہِ انقلاب مزدور کنونشن“ کے نام سے ایک شاندار اور عظیم الشان مزدور جلسے کا انعقاد کیا گیا۔
کراچی کے مختلف نجی صنعتوں اور عوامی اداروں کے محنت کشوں نے مزدور کنونشن میں شرکت کی، جن میں جنرل ٹائرز، ESSITY (پاکستان)، قاسم ٹیکسٹائل، اٹلس انجینئرنگ، اوپل لیباٹریز، آئی آئی ایل، اسپن فارما، ایوینٹ فارما، یونس ٹیکسٹائل ملز، آدم جی انجینئرنگ، پورٹ قاسم کے ڈاک ورکرز، کے الیکٹرک اور وائی ڈی اے (YDA) کے محنت کش ساتھیوں کے علاوہ ریڈ ورکرز فرنٹ کی مرکزی و صوبائی قیادت اور پروگریسو یوتھ الائنس کے نوجوان ساتھیوں سمیت دیگر طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
کنونشن میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما کامریڈ صفدر جبار نے سرانجام دیے۔ کنونشن کا باقاعدہ آغاز پروگریسو یوتھ الائنس جامعہ کراچی کے نمائندہ کامریڈ راجیش میگھوار نے ایک انقلابی گیت ”ہمیں بھی اختیار دو“ گا کر کیا۔
اس کے بعد مدعو کیے گئے اہم ٹریڈ یونین رہنماؤں، ترقی پسند سیاسی کارکنان، محنت کش ساتھیوں اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے کراچی سمیت لاہور، حیدرآباد اور کوئٹہ سے آئے ہوئے ساتھیوں کی تقایر کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
سب سے پہلے ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کی پرجوش سیاسی کارکن کامریڈ انعم خان کو سٹیج پر مدعو کیا گیا۔ کامریڈ انعم نے محنت کش ساتھیوں اور طلبہ و نوجوانوں کو مزدور کنونشن کا حصہ بننے پر خوش آمدید کہا اور تشکّر کا اظہار کیا۔ مزدور جلسے کے انعقاد کے اغراض و مقاصد پر بات رکھی۔ آگے بڑھتے ہوئے، انہوں نے حالیہ مہنگائی کے تباہ کن طوفان، مارکیٹ میں ہر بنیادی ضرورت کی شے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور یہ کس طرح ہم محنت کشوں کے گھروں کو برباد کر رہا ہے، اس پر بات رکھی کہ ایک طرف قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، تو دوسری جانب مزدوروں کی اجرتوں میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم ازکم تنخواہ 25 ہزار روپے کے ردعمل میں تمام مالکان اور سرمایہ دار عدالت میں پہنچ گئے۔ لیکن عدالتی فیصلے کے بعد بھی سرمایہ دار کم از کم اجرت دینے سے انکاری ہیں۔ دوسری طرف صورتحال یہ کہ تعلیم، صحت اور بلز نکال کر ایک مزدور گھرانے کا خرچہ کم از کم 50 ہزار آتا ہے۔ اس کے علاوہ سبھی فیکٹریوں میں مزدوروں کو اوور ٹائم کی ڈبل اجرت سے بھی محروم رکھا جارہا ہے۔ جبکہ سرمایہ دار روزانہ کی بنیاد پر اپنی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں اور جگہ جگہ فیکٹریوں کے نئے یونٹس قائم کر رہے ہیں۔ آخر میں انعم نے لیبر این جی اوز اور فیڈریشنوں کے مزدور دشمن کردار پر بات کرتے ہوئے ملک گیر عام ہڑتال کی طرف بڑھنے کی اہمیت اور ضرورت پر بات رکھی۔
اس کے بعد کے الیکٹرک لیبر یونین کے سینئر وائس پریزیڈنٹ جناب شفیع صاحب نے بات کرتے ہوئے سرکاری و نجی اداروں کی مشترکہ جدوجہد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ نجکاری کے بعد کی آفت کو ابھی تک بھگت رہے ہیں، ریفرنڈم جیتنے کے باوجود بھی انتظامیہ ہمیں سی بی اے ماننے سے انکاری ہے اور ہمیں کچہریوں کے چکر میں گھمایا جارہا ہے۔
شفیع صاحب کے بعد آئی آئی ایل سے سی بے اے ڈیموکریٹک یونین کے جنرل سیکرٹری ضیاء صاحب نے بات کرتے ہوئے کہا کہ مزدور ساتھیوں کو رنگ نسل مذہب فرقے سمیت تمام تر تعصبات سے بلند ہو کر متحد ہونے اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
نوجوانوں اور طلبہ کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کے کراچی کے آرگنائزر کامریڈ عادل عزیز نے طلبہ اور مزدوروں کے تاریخی اتحاد اور آج کی مزدور تحریک میں نوجوانوں کے کلیدی کردار پر بات رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے کارخانوں اور مختلف اداروں میں محنت کشوں کو شدید استحصال کا سامنا ہے اسی طرح طلبہ بھی تعلیم کے بیوپار کے ہاتھوں مار کھا رہے ہیں۔ محنت کشوں اور نوجوانوں نے کئی حملوں کا ڈٹ کر سامنا کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ آج تاریخ کی کسی بھی دوسری نسل سے زیادہ، ایک متبادل کا سوال، ایک ایسے معاشرے کا سوال جو انسانی بھلائی کے مقصد کے لیے بنایا گیا ہو، ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ یہ نظام جو نوجوانوں کو برباد کررہا ہے اور منافع کے لیے محنت کش طبقے کا خون پسینہ نچوڑتا ہے، اس کے متبادل کے طور پر ہم ایک ایسے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہماری تمام ضروریات کو پورا کر سکے۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے اور اس کے لیے لڑنا چاہیے جو نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کر سکے، مفت تعلیم، عوامی خدمات، باوقار کام کا حق، ایک اچھی اجرت کے ساتھ، جو چھٹیاں اور مناسب اوقات فراہم کرتا ہو اور جو ہمیں زندگی کے دیگر اہم پہلوؤں پر توجہ دینے کا موقع فراہم کرتا ہو۔ آخر میں انہوں نے طلبہ کی جدوجہد کو مزدور تحریک سے جوڑنے کی اور اس انسان دشمن منافع خور نظام کو طلبہ اور محنت کشوں کے اتحاد کے ذریعے اکھاڑ کر پھینکنے کی بات کی۔
مزدور جلسے کے اگلے مقرر یونس ٹیکسٹائل ملز سے فیضان تھے جنہوں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے محنت کشوں کی ابتر صورتحال پر بات رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پلیٹ فارم سے ہی اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اگلے مقرر کا تعلق آدم جی انجینئرنگ کی ٹریڈ ورکرز یونین سے تھا جو کہ اس یونین کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے ریڈ ورکرز فرنٹ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم پہلی بار محنت کشوں کے ایسے دھارے کا حصہ بن رہے ہیں، ہم محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھ چلیں گے۔
پروگرام کے اگلے مقرر غیر معمولی حوصلے کے حامل انسان جناب فرمان علی تھے، ان کا تعلق اسپین فارما (سابقہ جانسن اینڈ جانسن) سے تھا۔ 14 اگست کو ایک بزدلانہ دہشتگرد حملے میں انہوں نے اپنے گھر کے 13 باشندوں کو کھو دیا۔ اس صدمے کے سبب کچھ دن بعد انہیں برین ہیمرج بھی ہوا۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی انہوں نے راہ انقلاب مزدور کنونشن کی تیاری میں متحرک کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں حادثاتی طور پر مزدور یکجہتی کمیٹی اور ریڈ ورکرز فرنٹ سے متعارف ہوا لیکن پھر میں نے یہ دیکھا کہ آپ لوگ محنت کشوں کے حقوق لیے وہ کام کر رہے ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے ناپید ہوچکا تھا تو میں بھی اس کا حصہ بن گیا۔ اس جدوجہد کو ہم نے ازسرنو شروع کیا ہے اور اس کے اثرات مالکان کی بوکھلاہٹ کی صورت میں ابھی سے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
جلسے کے اگلے مقرر جنرل ٹائر ورکرز یونین کے صدر اور مزدور یکجہتی کمیٹی کے روحِ رواں جناب عزیز خان صاحب تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو ہم نے کام کا آغاز ہی کیا ہے کہ دشمنوں کے سانس سوکھنے لگ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا وقت لاہور سے خصوصی طور پر کنونشن کے لیے آئے ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے بانی رکن ڈاکٹر آفتاب اشرف کے لیے وقف کیا۔
اس کے بعد وائی ڈی اے جناح ہسپتال کے رہنما ڈاکٹر کلیم کھوسو نے بات کرتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ کی کاوشوں کو سراہا اور ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی اپنی محنت بیچ کر گزر بسر کرتے ہیں اور مزدور ہی ہیں۔ اس لیے ہم اس جنگ میں آپ کا حصہ ہیں۔ ہم پر بھی حکمران طبقہ حملہ آور ہے اور ہمیں اس لڑائی میں آپ کا ساتھ درکار ہے۔
سٹال، ممبر شپ، کابینہ
اس کے بعد کوئٹہ سے ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے صوبائی رہنما کریم پرہار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان میں مزدوروں کے حالات زندگی پر بات رکھی۔ کریم کا کہنا تھا بلوچستان میں مزدوروں کی جدوجہد نے گزشتہ چند سالوں میں ڈرامائی طور پر نیا موڑ لیا ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت روز اول سے ہی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور اپنی لوٹ مار جاری رکھنے اور سول و ملٹری اشرافیہ کی عیاشیوں کو برقرار رکھنے کے لیے پے در پے مزدور دشمن اقدامات لاگو کر رہی ہے۔ ملک بھر کے محنت کشوں کی طرح بلوچستان کے محنت کشوں نے بھی جدوجہد کے ذریعے اپنے مطالبات صوبائی حکومت سے تسلیم کروائے ہیں۔ کراچی سے کوئٹہ تک کے محنت کش طبقے کو اپنی لڑائی متحد ہوکر لڑنی ہوگی اور اس مقصد کے لیے ایک ملک گیر عام ہڑتال کا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ صرف اسی طرح ہی ملک بھر کا محنت کش طبقہ یہاں کے سامراجی گماشتہ سرمایہ داروں اور حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔
مزدور جلسے کے آخری مقرر ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر آفتاب اشرف نے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے محنت کش اور سرمایہ دار کے تضاد پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سے سب سے بڑا جھوٹ یہ بولا جاتا ہے کہ سرمایہ دار کا منافع منڈی میں اشیاء بکنے کے بعد پیدا ہوتا ہے، یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ منافع منڈی میں نہیں بلکہ فیکٹری کے اندر اس وقت ہی بن جاتا ہے جب سرمایہ دار مزدور کی محنت کا معاوضہ اس کی قدر سے کم ادا کرتا ہے۔ اسی محنت کی لوٹ ہی تو اصل میں ان سرمایہ داروں کا منافع ہوتا ہے جس سے یہ سرمایہ دار امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہر چیز مزدور کی محنت سے بنتی ہے اسی لیے اس معاشرے کو بدلنے کی حقیقی سکت اور طاقت بھی مزدور طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے سرمایہ داری کے بحران، اصلاح پسندی کی ناکامی، روسی انقلاب کی تاریخ اور سوشلزم کی ضرورت پر تفصیلی بات رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نظام میں ایک طرف مزدور طبقہ ہے، اور دوسری جانب سرمایہ دار طبقہ جو اس کی محنت لوٹ کر زندہ رہتا ہے اور عیاشیاں کرتا ہے۔ سرمایہ دار دعویٰ کرتے ہیں کہ محلات کی تعمیر اور کارخانے پیسے سے چلتے ہیں نہ کہ مزدور کی محنت سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سرمایہ دار بینک جائے اور اپنی دولت کی بوری نکالے اور ان پیسوں کے نوٹوں کو زمین پر پھینک دے تو محل کھڑا ہوجائے گا۔ یعنی پیداوار وہ اپنے کارخانوں اور اپنے پیسوں کی بدولت کر سکتا ہے اور اس کو مزدوروں کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر پیداوار سرمایہ کاری سے ہوتی ہے اور مزدوروں کی محنت کا اس میں کوئی کردار نہیں، تو سرمایہ دار مزدوروں کے اتحاد سے کیوں ڈرتا ہے۔ وہ مزدوروں کی یونینوں سے ڈرتا ہے، وہ ان کے ہڑتال پر جانے سے ڈرتا ہے، وہ ان کے احتجاج کرنے سے ڈرتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھی کارخانے کھلے رکھے گئے اور مزدوروں کو روز کام پر بلایا جاتا تھا۔ تمام کارخانے، خام مال، پیسہ، حتیٰ کہ وہاں کی مشینری بھی زنگ سے ختم ہوجائیں گی اور اس کو کیڑے کھا جائیں گے، اگر مزدور ان کو حرکت میں نہ لائے اور پیداوار نہ کرے۔ یہاں تک کہ سرمایہ کاری مزدوروں کی طرف سے تشکیل دی جاتی ہے، یہ مزدور کی محنت کا نتیجہ ہے۔ یہاں تک کہ مشینیں بھی مزدور بناتے ہیں، خام مال بھی مزدور ہی بناتے ہیں۔ یہ سارا دیس، یہ روشنی، یہ محلات، یہ عمارتیں، یہ سڑکیں اور یہ ساری دولت محنت کشوں کی محنت کا ثمر ہے۔ لیکن اس کے باوجود محنت کش طبقہ برباد سے برباد ہوتا جارہا ہے اور سرمایہ دار منافعے میں اضافہ کرتے ہوئے امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے رہتے ہوئے کسی بھی حکومت یا سیاسی پارٹیوں سے مزدوروں کے حالات میں بہتری لانے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ کیونکہ اس نظام میں جو بھی اقتدار میں آئے گا، وہ سرمائے کا غلام ہوگا، سرمایہ داروں کا نمائندہ ہوگا، وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا غلام ہوگا۔ اس نظام کے رہتے کوئی بھی محنت کش طبقے کا نمائندہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ایک ملک گیر عام ہڑتال کرتے ہوئے ہمیں اپنے روزمرہ کے معاشی مطالبات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ آخر میں بات سمیٹتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بحث صرف فوری مسائل پر ہی نہیں کھولی ہے، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا کردار کیا ہے، یہ ہمارے مسائل کو کیسے جنم دیتا ہے اور ہم انہیں کیسے ختم کر سکتے ہیں، ان سب سلگتے ہوئے سوالات کو سمجھے اور محنت کش طبقے کی انقلابی تاریخ سے سبق حاصل کیے بغیر مزدور تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اسی تسلسل میں ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی سے گلگت تک مزدور کنونشنز کا انعقاد کررہا ہے اور ان کے آخر میں 4 دسمبر 2021ء کو لاہور میں ایک مرکزی مزدور کنونشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے تمام محنت کشوں کو جوڑتے ہوئے ایک سیاسی پروگرام کا اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے تمام شرکاء کو اس سفاک اور ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو حتمی منزل تک پہنچانے لیے مرکزی مزدور کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔
پروگرام میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھیوں نے مزدور نظریات پر مشتمل بک سٹال اور ممبر شپ کے لیے ڈیسک بھی لگایا، جسے محنت کشوں کی جانب سے بھرپور توجہ اور پذیرائی حاصل رہی۔
شرکاء نے کنونشن میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی کراچی کابینہ اور محنت کشوں کے مطالبات پر مشتمل قراردادوں کی بھی منظوری دی۔