|تحریر: ایس کماراسامی، ترجمہ: سرخا رام|
29 ستمبر بروز منگل دہلی ہسپتال میں ایک دلت خاتون دم توڑ گئی، جس کو اتر پردیش کے ضلع ہتھ رس میں چار مردوں نے اجتماعی زیادتی اور اذیت کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے سے ملک بھر کی عوام میں شدید غصّہ پھیل رہا ہے۔ اس بھیانک اور وحشی حملے نے ایک بار پھر اس بربریت کی نشاندہی کر دی جس کا سامنا بھارت کی غریب اور نچلی ذات کی خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے اور جس کی جڑیں اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں۔
انگریزی زبان میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
دلت خاتون 14 ستمبر کو تب زیادتی اور مار پیٹ کا نشانہ بنی جب وہ اپنے گاؤں میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کر رہی تھی۔ چار مردوں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر زبان کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اس کے جسم کی اور بھی کئی ہڈیوں کو توڑا گیا۔ عوام کی آواز بلند ہونے تک پولیس مجرموں کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتی رہی اور کیس بھی درج نہیں کیا۔ جب تک بڑھتے ہوئے احتجاجوں کی خبریں پھیل نہیں گئیں، متاثرہ خاتون کو طبی امداد بھی فراہم نہیں کی گئی اور تاخیر کی وجہ سے وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
ریاستی انتظامیہ نے خاتون اور اس کے خاندان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے اس خوفناک واقعے میں اپنا بھیانک کردار نبھایا۔ خاندان کو لاش حوالے کرنے کی بجائے اسے پولیس کی موجودگی میں جلایا گیا اور خاندان کے افراد کو چتا کے قریب بھی نہیں جانے دیاگیا۔ اس سانحے کی ویڈیوز تیزی سے پھیل چکی ہیں اور عوام میں اس کے خلاف غم و غصّہ پایا جاتا ہے۔ اس ظلم کے خلاف بشمول دہلی کے ملک بھر میں احتجاج ہو رے ہیں۔ برطانوی سامراجیوں نے نو دہائیاں قبل بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں کی لاشوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کی تھی جن کو 1931ء میں انقلابی نظریات کی پاداش میں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کچھ بھی نہیں بدلا اور ظالم ریاستی مشینری، عدالتی نظام اور حکمران طبقہ اب بھی یہاں کی عوام کو جبر کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ نظام برطانوی راج کا تسلسل ہے اور اس کو انقلاب کے ذریعے ہی نیست و نابود کیا جا سکتا ہے۔
https://twitter.com/TanushreePande/status/1311054885970821121?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1311054885970821121%7Ctwgr%5Eshare_3%2Ccontainerclick_0&ref_url=http%3A%2F%2Fwww.marxist.com%2Fwomens-oppression-india.htm
صرف ایک چیز میں بدلاؤ آیا ہے، اور وہ بھارتی ریاست کا ظلم ہے، جو پہلے کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ بھارتی خواتین پر جاری جبر، ان کے ساتھ زیادتی، مار پیٹ اور تشدد کے واقعات کی بھی مثال نہیں ملتی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں بھارت کے اندر روزانہ 87 زیادتی کے واقعات رپورٹ کیے گئے، جو 2018ء کی نسبت 7 فیصد اضافہ ہے۔ خواتین پر جبر کے 405,861 واقعات رپورٹ کیے گئے مگر اصل تعداد ممکنہ طور پر اس سے کئی گنا بڑھ کر ہے کیونکہ زیادتی کے واقعات اکثر رسوائی کے ڈر سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔
دلت خاتون کیساتھ ہونے والی زیادتی اور مار پیٹ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ ستمبر کے شروع میں اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کے اندر ایک تین سالہ بچی کو گنے کے کھیت میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ پچھلے سال دو دلت بچوں کو کھلے میں قضائے حاجت کرنے پر مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ 2019ء میں مدھیہ پردیش ریاست کے اندر ایک 13 سالہ دلت بچی کے ساتھ اس کے اپنے بھائیوں اور چچاؤں نے زیادتی کرنے کے بعد اس کا سر قلم کر دیا تھا۔
کورونا وباء نے خواتین کی حالتِ زار بدتر کر دی ہے۔ گھریلو تشدد، مار پیٹ اور جنسی زیادتی کے واقعات ایک ایسی وباء کی طرح پھیل رہے ہیں جس کا کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا۔ بھارت میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی نئی چیز نہیں ہے اور اس جبر کی ایک لمبی تاریخ ہے مگر ایک ایسے سماج میں، جو مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے بوجھ تلے دب رہا ہے، اس قسم کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور یہ مزید ظالمانہ ہو گئے ہیں۔ سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے بھارتی خواتین پر بربریت اور مایوسی کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔
بھارت میں خواتین پر ہونے والے جبر کو ثقافت، مذہب، سماجی اقدار اور ذات پات کے قدیم نظام کے پردوں کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورت پیدا ہوتے ہی غربت کی وجہ سے خاندان کے اوپر بوجھ سمجھی جاتی ہے۔ اگر بچی اسقاط حمل سے بچ جاتی ہے تو اسے اجرت پر کام، گھریلو کام اور خود سے امیر تر خاندان میں شادی کے ذریعے اپنی زندگی کے بدلے میں خاندان کو سہارا دینا پڑتا ہے۔ اپنے باپ یا بھائی کی ملکیت سے اپنے شوہر کی ملکیت بننے تک کا یہ سفر مزدور اور کسان خواتین جنم سے موت تک ماتحتی میں طے کرتی ہیں۔
Numbers continue to swell #DalitLivesMatter #JantarMantar #HathrasCase pic.twitter.com/PYqvUDAUfQ
— Neha Dixit (@nehadixit123) October 2, 2020
غلامی کی زندگی
مزدور اور کسان طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی زندگیاں سختیوں اور بہت بڑی رکاوٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔ یہ خواتین اکثر اپنے شوہر اور باپ کی غلامی میں زندگی گزارتی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق ہر تین منٹ میں خواتین پر جبر کا کوئی ایک واقعہ ریکارڈ کیا جاتا ہے، ہر گھنٹے میں کم از کم دو خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں، اور ہر چھے گھنٹوں میں ایک شادی شدہ خاتون کو مار مار کر، جلا کر یا خودکشی پر مجبور کر کے قتل کر دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کیے گئے 95 فیصد واقعات میں زیادتی کرنے والا کوئی اجنبی نہیں بلکہ خاندان کا فرد، دوست یا پڑوسی ہوتا ہے۔
بہت کم عمر سے بچیاں غذائی قلت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بالغ بھارتی خواتین کی نصف سے زیادہ آبادی خون کی کمی کا شکار ہے، جو عالمی سطح پر سب سے بڑی تعداد ہے۔ خاندان کے مردوں کے بعد کھانا کھانے جیسی قدیم روایات شدید غذائی قلت کی کچھ اضافی وجوہات میں سے ہیں۔
کورونا وباء اور لاک ڈاؤن، اس المناک صورتحال میں اضافے کا باعث بنا ہیں۔ یو-این پاپولیشن فنڈ کی 2020ء کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ”خواتین کے لیے نقصان دہ طور طریقوں کے خلاف جنگ میں ابھی تک حاصل کی گئی کامیابیوں پر کورونا وباء پانی پھیر سکتا ہے۔“ وباء اور لاک ڈاؤن کے دوران بھارت میں خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔
وباء نے طبی سہولیات تک رسائی کو بھی متاثر کیا۔ جب لاک ڈاؤن کے پیش نظر مہاجرین کو واپس گھروں تک لے جانے کے لیے ریل گاڑیوں کا اہتمام کیا گیا تو اس میں مہاجر خواتین کے بچے جنم دینے کے کئی واقعات سامنے آئے۔ ان خواتین کو طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں، جو شہروں سے نکالی جا رہی تھیں اور وہ گندی ریل گاڑیوں میں بچے جنم دینے پر مجبور تھیں۔ ایسے حالات میں ماں اور بچے دونوں کے لیے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک اور رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ وباء کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے 18 لاکھ 50 ہزار خواتین کو اسقاط حمل تک رسائی سے محروم رکھا گیا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے حاملہ خواتین کا طبی سہولیات اور حفظانِ صحت تک رسائی بھی بہت مشکل ہو چکی ہے۔
وباء نے خواتین کو مستقلاً واپس گھر جانے پر بھی مجبور کیا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کا کام سے محروم ہونے کا تناسب 1.8 فیصد زیادہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین بڑی تعداد میں گھر اور گھریلو کام تک ہی محدود ہیں۔ او ای سی ڈی (Organisation for Economic Co-operation and Development) کی رپورٹ کے مطابق خواتین دن میں اوسطاً چھے گھنٹے گھریلو کام کرتی ہیں جس میں بچوں کی دیکھ بھال بھی شامل ہے، جبکہ مرد ان کاموں پر دن میں 36 منٹ سے بھی کم وقت صرف کرتے ہیں۔ بھارتی خواتین، جنوبی افریقہ اور چین کی خواتین سے 40 فیصد زیادہ کام کرتی ہیں۔ کام کا یہ بھاری بوجھ ذہنی دباؤ، پریشانی اور دیگر ذہنی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
بی جے پی کا بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا ڈھونگ
مزدور دشمن وزیراعظم نریندرا مودی کے دور حکومت میں خواتین کے حالات مزید بگڑ چکے ہیں۔ مودی نے 2014ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ”بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ“ منصوبے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا۔ اس نے اپنی دائیں بازو کی پارٹی کے ایجنڈے میں خواتین کے مسائل کو مرکزی حیثیت دینے کا دعویٰ کیا ہے مگر ”بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ“ جیسی مہم ایک ڈرامے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس مہم کا مقصد جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنا تھا جو ماضی میں کی گئی قانون سازی کے باوجود اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ دلہے کے خاندان کے لیے جہیز کی بڑی مقدار اور زمین کا حصّہ دینے والی روایت کی وجہ سے بیٹی دیہی خاندانوں پر معاشی بوجھ بن جاتی ہے اور جنس کا پتہ چلتے ہی حمل کو گرا دیا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اسقاط حمل غیر قانونی طور پر کیے جاتے ہیں جس سے ماؤں کی صحت پر مزید برا اثر پڑتا ہے۔ پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2000ء سے 2014ء کے درمیان جنس کی بنیاد پر 1 کروڑ 27 لاکھ 43 حمل گرائے جا چکے ہیں، جس کی روزانہ اوسط 2,332 بنتی ہے۔
مودی کے دور اقتدار میں ان مسائل سے نمٹنے کے وعدوں پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اس مہم کا آغاز 2014ء میں کیا گیا تھا۔ البتہ منسٹری آف سٹیٹ فار وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کی 2018ء والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مہم کا 56 فیصد فنڈ تشہیر پر خرچ کیا گیا اور آگاہی کے پمفلٹ پر مختلف علاقوں اور ریاستوں میں محض 26 فیصد لگایا گیا۔
مودی کی قوم پرست، پدر شاہانہ، جنسی تعصب کرنے والی حکومت ساری مزدور اور کسان خواتین کی دشمن ہے۔ 2017ء میں بی جے پی نے سپریم کورٹ کو مسلمانوں پر تین طلاق کے حوالے سے پابندی لگانے پر مجبور کیا۔ اس فیصلے کو دائیں بازو والے ہندوؤں نے بہت سراہا اور کہا کہ یہ مسلمان خواتین کو پدر شاہی کی گرفت اور بنیاد پرست اسلامی طور طریقوں سے آزاد کرانے کا ایک اصلاحی طریقہ ہے۔ مگر یہ مسلمان مردوں کو بھڑکا کر فساد پر مجبور کرنے کی ایک چال تھی۔ یہ صرف مسلمان بیوی ہی کو نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو مسلمان شوہر کے خلاف شکایت کرنے کی اجازت دیتی ہے، جس کی وجہ سے تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کا مذہبی دایاں بازو اس صورتحال میں مسلمان خواتین کو مزید جبر کا شکار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح دونوں اطراف سے خواتین، ہندو اور مسلمان رہنماؤں اور سیاستدانوں کے مذہبی تعصب کا نشانہ بن رہی ہیں۔
تین طلاق کے حوالے سے قانون تب منظور کیا گیا جب مودی اور بی جے پی، ازدواجی زیادتی کو جرم قرار دینے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ہائی کورٹس نے اس قانون کو منظور کرنا چاہا مگر انہیں منع کیا گیا۔ بی جے پی ممبران کا کہنا تھا کہ بھارتی معاشرے میں اس قانون کا اطلاق غیر مناسب ہے۔
2018ء میں جب سپریم کورٹ کی جانب سے کیرالا کے سبریمالا مزار میں خواتین کو جانے کی اجازت دی گئی تو اس وقت بی جے پی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ خواتین کو مذکورہ جگہ کے ساتھ کئی دیگر مندروں سے ماہواری کی وجہ سے منع کیا گیا۔ عبادت کی جگہوں سے خواتین کو ماہواری کی وجہ سے منع کرنے کا دقیانوسی عمل ان پر جبر کو مزید تقویت بخشتا ہے۔ ماہواری کو قابلِ نفرت اور گنہگار سمجھا جاتا ہے۔ بھارت میں ایک نوجوان لڑکی کو ماہواری کے دنوں میں سماجی تعصب، سکول اور کام کی جگہ پر مشکلات اور گھر پر علیحدگی کا سامنا کرنا پڑٹا ہے۔ جب سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ سنایا تو بی جے پی نے پورا ملک بند کرنے کی دھمکی دی۔
مودی نے کشمیر میں موجود خواتین کی زندگی کو بھی بد تر بنا دیا ہے۔ جموں کشمیر کی ریاست کے الحاق کی صورت میں اس نے بھارتی فوج کو خطے میں، خصوصاً خواتین پر، مزید تشدد جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ کشمیریوں کو سزا دینے کے لیے کشمیر میں خواتین پر حملے اور جنسی زیادتیاں کی جاتی ہیں۔ بعض سپاہیوں نے دستاویزات میں اعتراف کیا ہے کہ ان کو کشمیری خواتین کے ساتھ زیادتی کے باقاعدہ طور پر احکامات دیے گئے تاکہ کشمیری مردوں کو آزادی کے لیے لڑنے کی سوچ سے بھی ڈرایا جا سکے۔ بھارتی فوج نے جنوری 2001ء سے اب تک 671 خواتین کو قتل کیا ہے اور 11,179 کے ساتھ زیادتی کی ہے۔
کشمیر کے خطے میں خواتین کو اذیت دینے کی سب سے وحشیانہ مثال 2018ء میں کٹھوعہ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ آصفہ بانو کے ساتھ زیادتی اور قتل کا واقعہ ہے۔ آصفہ بانو کا تعلق ایک خانہ بدوش خاندان سے تھا اور وہ کٹھوعہ کے قریب واقع رسانا گاؤں میں رہتی تھی۔ اسے مبینہ طور پر ہندوؤں کے علاقے میں مویشی چراتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ سات ہندو (بشمول چار پولیس اور ایک پنڈت) اس کے ساتھ مسلسل زیادتی کرتے رہے اور پھر اس کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ بی جے پی کے دو وزیروں نے ملزمان کو رہائی دینے کے حق میں احتجاجوں کی قیادت کی۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ بی جے پی کے وزیر خواتین کے خلاف گھناؤنے جرائم میں ملوث پائے گئے۔ بی جے پی کے وزیر پولیس اور دیگر ریاستی کارندوں کی مدد سے اجتماعی زیادتیوں، بچوں کے ساتھ زیادتیوں اور دیگر جرائم کے بعد بچ کر نکل جاتے ہیں۔
جب اگست 2019ء میں مودی نے بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا، ہریانہ میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کھلے عام کہہ دیا کہ اب بھارتی مردوں کے لیے کشمیری خواتین میسر ہوں گی۔
بھارتی محنت کش خواتین پر مودی حکومت کا سب سے بڑا حملہ مزدور تحریک پر حملہ ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں پر لیبر قوانین کو ختم کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ کام کے اوقاتِ کار کو آٹھ گھنٹوں سے بارہ گھنٹے کیا جا سکے۔ اتر پردیش میں انہوں نے یونینز سے منظم ہونے اور کم از کم اجرت کے قانونی حقوق بھی چھین لیے ہیں۔ کورونا وباء کے پیشِ نظر مزدوروں کے حقوق پر حالیہ حملے خواتین کو بدترین صورتحال سے دوچار کرے گا۔ کم ترین اجرت کے لیے خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے استحصال میں مزید اضافہ ہوگا اور انہیں مزید غربت اور محرومیوں میں دکھیلا جائے گا۔
خواتین پر جبر کا آغاز
خواتین پر جبر کا سبب سارے مردوں میں موجود کوئی جینیاتی رجحان نہیں ہے اور نہ ہی یہ انسانی فطرت کا حصّہ ہے، بلکہ یہ طبقاتی معاشرے کے وجود میں آنے کا نتیجہ تھا۔ فریڈرک اینگلز نے اپنی کتاب ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ میں خواتین پر جبر کے آغاز کی مادی وجوہات تلاش کیں۔ ہینری مورگن کے علم بشریات کے کام کا مطالعہ کر کے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان ہمیشہ سے ایک طبقاتی معاشرے میں نہیں رہتے تھے اور اس کے جبر اور تضادات سے آزاد تھے۔ انسانی معاشرہ ابتدائی مراحل میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے باہمی تعاون کی بنیاد پر قائم تھا اور جنس کی بنیادوں پر تقسیم اور تفریق نہیں کی جاتی تھی۔ اس معاشرے میں انسان شکار کر کے ایک ساتھ زندگی گزارتے تھے جس میں خواتین کا کردار مردوں سے کم اہم نہیں تھا۔
خواتین مردوں کے ماتحت تاریخ کے اس عرصے میں آئیں جب اس ابتدائی معاشرے میں انسانی گروہوں کیلئے ضرورت سے زائد خوراک پیدا ہوئی۔ زائد خوراک نے انسانوں کو موقعہ فراہم کیا کہ کسی ایک علاقے میں بس کر زمین کو زیادہ بڑے پیمانے پر کاشت کے لیے استعمال کر سکیں۔ مردوں نے کاشتکاری میں غالب کردار ادا کیا اور کاشتکاری کے اوزار اپنی ملکیت میں لے لیے۔ اس عمل نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کا رخ کھیتوں کی جانب سے گھروں کی طرف موڑ دیا۔ کمیونل خاندان (ایک ساتھ شکار کر کے ایک ساتھ رہنے والا معاشرہ) سے چھوٹے خاندان میں منتقل ہونے کے بعد خواتین کی سماجی حیثیت تبدیل ہو گئی اور ان کے اوپر مردوں کے لیے معاشی مقصد سر انجام دینے کا فریضہ آ گیا جب وہ اپنے اپنے خاندان کے مردوں کی ملکیت کی حفاظت کرنے لگیں۔
خاندان ہزاروں سالوں کی تبدیلیوں سے گزر کر تعلقات کی ایک اجتماعی شکل سے چھوٹی اور تنگ نظر شکل میں تبدیل ہو گیا ہے جس کا مقصد نجی ملکیت کی حفاظت تھا۔ خاندان کی معاشی حیثیت کا بھرپور اظہار سرمایہ داری میں ہوتا ہے۔ خواتین سے یہی توقع رکھی جاتی ہے کہ شادی کر کے بچوں کی پرورش کر سکیں تاکہ اپنے شوہر کی ملکیت اور جائیداد کو آگے منتقل کیا جا سکے۔
بھارت میں بھی قدیم اشتراکیت موجود تھی مگر اس قسم کی طرزِ زندگی کو زراعت کے پھیلاؤ نے اپنے اندر جذب کر لیا۔ زرعی معاشرے نے خواتین اور مردوں کے بیچ ابتدائی معاشرے والے تعلقات ختم کر دیے۔ ان تعلقات کو ہزاروں سالوں کی بدلتی ہوئی ترقی یافتہ تہذیبوں نے مزید بدل کر رکھ دیا۔
برطانوی سامراج کے تحت بھارت میں صنعتی سرمائے کی ترقی خواتین کے لیے آگے کا قدم تھا۔ دیہی علاقوں میں موجود خواتین کو قدیم قسم کے جبر اور علیحدگی سے نکال کر مردوں کے شانہ بہ شانہ شہر کے کارخانوں میں دکھیلا گیا، جس سے صنعتی محنت کش طبقے کا جنم ہوا۔ البتہ یہ عمل ناہموار طریقے سے وقوع پذیر ہوا اور آبادی کی اکثریت نے دیہی علاقوں میں اپنی زندگی اور روزگار جاری رکھا۔
صنعت میں اجرت پر کام کرنے سے مرد اور خواتین دونوں میں اجتماعی طور پر محنت کش طبقے والے شعور کا جنم ہوا جو کھیتوں میں ناممکن ہوتا۔ کارخانوں میں کام کرنے والے مرد و خواتین نے مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کا آغاز کر دیا جس میں ٹریڈ یونین کا حق اور آزادی کی جدوجہد شامل تھی۔ محنت کش طبقے کے طریقوں یعنی مظاہروں، کام کی جگہوں کو اپنے قبضے میں لینے اور عام ہڑتال کو بروئے کار لاتے ہوئے مزدوروں نے بہت سی اصلاحات کے لیے لڑائیاں لڑیں اور بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔ سرمایہ داری کے آنے سے ستی (شوہر کے مرنے پر بیوی کا اس کے چتا میں جل کر خودکشی کرنا) جیسے کئی قدیم وحشی رسم و رواج کا خاتمہ بھی ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین صنعتی پیداوار کا حصّہ بن گئیں مگر وہ گھریلو نوکری اور جسم فروشی جیسے ذلت آمیز کام کرنے پر بھی مجبور تھیں۔ برطانوی سامراج کے تحت کم عمر بچوں کے استحصال میں بھی اضافہ ہوا۔
طبقاتی سماج کی تاریخ خون آلود اور پر تشدد ہے جو انسانوں کو امیر اور غریب میں تقسیم کرتی ہے۔ مگر اس سماج نے اپنی تباہی کی راہیں بھی خود ہموار کی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا محنت کش طبقہ یعنی پرولتاریہ تاریخ کا واحد طبقہ ہے جو طبقاتی سماج کا خاتمہ کرنے کا اہل ہے۔ مارکسزم خواتین کی آزادی کو تمام محنت کش طبقے کی آزادی کی جدوجہد سے کاٹ کر نہیں دیکھتا۔ مزدور طبقہ سرمایہ داری کے خاتمے میں انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔ صنعتی پیداوار میں مزدوروں کو ایک ایسی حیثیت حاصل ہے کہ وہ تمام ملک کو مفلوج کر کے رکھ سکتے ہیں۔ ایک صحیح انقلابی قیادت کی موجودگی میں مزدور پیداوار کو منافعوں کی بجائے محنت کشوں کی ضروریات کے تحت منظم کریں گے۔
مزدور تحریک کسانوں کی جدوجہد کی قیادت بھی کرے گی کیونکہ کسان منتشر طرزِ پیداوار کے ساتھ منسلک ہیں اور ریاست کا مقابلہ کرنے میں قائدانہ کردار ادا نہیں کر سکتے۔ انقلاب روس اس کی بہترین مثال ہے جس کا آغاز خواتین مزدوروں نے کیا تھا اور جن کی تعداد کسانوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ محنت کش طبقے کی روایات کے مطابق عام ہڑتالیں اور کام کی جگہوں پر قبضے کیے گئے۔ خواتین اور مرد مزدوروں نے مل کر 300 سالہ پرانی زار بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے انقلاب میں اہم کردار ادا کیا اور اکتوبر میں ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے لیے راہ ہموار کی۔
جبر کا خاتمہ اور قانون سازی
پچھلے کچھ سالوں میں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں پر تشدد کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہوئے ہیں جن میں بنیادی مطالبہ قانون سازی کے ذریعے اصلاحات کرنے کا ہے۔ مگر خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے قوانین و ضوابط ان کے لیے مساوات لانے اور حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں، کیونکہ خواتین پر جبر کو غربت اور اجرتی استحصال کی مادی بنیادیں سہارا دیتی ہیں۔
بھارت میں کم سن بچیوں کی شادیوں کے خلاف بنائے گئے قوانین بھی ناکام رہے ہیں۔ بچیوں کی شادیاں کرانے کی اصل وجہ غربت ہے۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی اس لیے کرا دیتے ہیں کیونکہ وہ اسے مزید نہیں کھلا پاتے۔ دیہی لڑکیاں سماج کی غریب ترین پرتوں سے تعلق رکھتی ہیں اور بچیوں کی شادیاں بھی اکثر دیہی علاقوں میں کی جاتی ہیں۔
ان بچیوں کو کم از کم سکول میں کھانا تو ملتا تھا مگر کورونا وباء نے ان سے وہ بھی چھین لیا۔ سکولوں کے بند ہو جانے پر بچے والدین کے اوپر بوجھ بن گئے اور ان کی شادیاں کرانا شروع کر دیا گیا۔ اپریل 2020ء میں شائع کی گئی یو-این کی رپورٹ میں کہا گیا کہ آنے والی دہائی میں وباء کی وجہ سے 1 کروڑ 30 لاکھ بچیوں کی شادیوں کا امکان ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق آنے والے دو سالوں میں 40 لاکھ بچیوں کی شادیوں کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
اجتماعی زیادتیوں اور قتل کے واقعات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں جس میں زیادتی کرنے والوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 2019ء میں جانوروں کی ایک ڈاکٹرنی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور اسے قتل کر کے لاش سڑک کنارے پھینکی گئی۔ اس واقعے کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے کے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ایک پولیس افسر نے اس واقعے میں ملوث چار مردوں کو اپنی حراست میں لینے کے بعد ان پر گولیاں چلا کر انہیں مار دیا۔ ہزاروں افراد نے ان کے مرنے پر جشن منایا مگر پھر بھی زیادتی اور تشدد کے واقعات کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔
موجود ہیں جو معاشرے میں پائے جاتے ہیں کہ خواتین مردوں اور اپنے خاندان کی ملکیت ہے جن کو ضرورت پڑنے پر جب چاہے، جیسا چاہے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں خواتین کے اوپر تشدد میں سب سے زیادہ پایا جانے والا گھریلو تشدد ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گھروں پر خواتین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتی ہیں اور ہر تین سیکنڈ میں ایک خاتون کو شوہر کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
شادی شدہ خواتین کی حفاظت کے لیے قانون سازی کی کوششوں کو حکمران طبقے اور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا رہتا ہے جو پدر سری خاندان کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
2019ء میں سابقہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا:
”میرے خیال میں بھارت کے اندر ازدواجی زیادتی کو جرم قرار دینا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ اس سے خاندانوں میں انتشار پھیلے گا اور ہمارا ملک خاندان اور خاندانی اقدار کے ذریعے ہی قائم ہے۔“
پھر بھی تشدد سے خواتین کو بچانے کے لیے اگر قوانین کو نافذ کیا جائے اور زیادتیوں میں ملوث افراد کو سزائیں دی جائے تو اس سے حالات کس حد تک بدل پائیں گے؟ کیا خاندان کی کفالت کرنے والی اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک غریب عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں زیادتی کے خلاف عدالت جا کر انصاف مانگ سکتی ہے؟ اسے انہی پولیس افسران، ججوں اور عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو ہر صورت میں خواتین کو ہی شرم دلا کر انہیں ملزم ٹھہراتے ہیں اور خود جرائم میں بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے بازو پھر کس طرح عورتوں اور لڑکیوں کی حفاظت کریں گے؟ بغیر اجرت کے یا کم اجرت کے ساتھ اور بغیر کسی قانونی مدد کے ایک عورت کو اپنے بد سلوک شوہر کے خلاف کیس لڑنے کے لیے کتنا وقت اور پیسہ درکار ہوگا؟ اگر اتنی جرأت کرنے پر بیوی کو گھر اور محلے سے نکال دیا گیا تو وہ کس کے آسرے بیٹھی رہے گی؟ وہ کام اور رہائش کے لیے کہاں کہاں گھومتی پھرے گی؟ اس کے بچوں کا کیا ہوگا؟
ایک بنیادی وجہ جو خواتین کو پر تشدد خاندان کی قیدی بنے رہنے پر مجبور کرتی ہے وہ مالی ذرائع کا نہ ہونا ہے۔ طلاق شدہ عورت نہ صرف خاندان سے کٹ کر رہ جائے گی بلکہ اسے اپنی بقاء کے لیے کچھ نہ کچھ کام بھی کرنا پڑے گا۔ محنت کش خواتین کو اتنی کم اجرت دی جاتی ہے کہ دیکھ کر ترس آتا ہے۔ مالک مکان طلاق یافتہ اور غیر شادی شدہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتتے ہیں۔ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ایسی جگہ بھی نہیں ملتی جس کے اخراجات قابلِ برداشت ہوں۔ خواتین اور مردوں کے درمیان تقسیم کی کوئی جینیاتی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کا وجود ہمارے سماجی حالات کی وجہ سے ممکن ہے۔ سرمایہ داری میں خواتین کو اگر ایک طرف بطورِ محنت کش جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب اسے عورت ہونے کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے۔
خواتین پر جبر کے خلاف لڑائی کا ایک ہی راستہ ہے؛ ایک ایسا سماجی پروگرام جو ان کے خاندان پر انحصار کو ختم کر دے۔ منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت، جس میں قومی سطح پر رہائش کے حوالے سے اقدامات لیے جائیں گے، خواتین کو اختیار دے گی کہ چاہے تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ یا ان سے الگ ہو کر رہ سکتی ہیں۔ رہائش کے ساتھ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی پورا دن انتظام کیا جائے گا تاکہ وہ باقی مسائل سے آزاد رہ کر کام کر سکیں۔ یونین کے اندر رہ کر خواتین شائستگی اور عزت کے ساتھ کام کرسکیں گی جس کے بدلے انہیں ضروریات کے مطابق معقول رقم دی جائے گی اور وہ جنس پرست استحصالی مالکوں کے پنجوں سے محفوظ رہیں گی۔ مفت تعلیم اور مفت علاج، خواتین اور ان کے بچوں کو غربت اور پسماندگی سے نکال کر انہیں اپنی صحت کا خیال رکھنے کا موقع دے گا۔ ہر دیہی اور شہری محلے میں عوامی باورچی خانے اور لانڈریاں بنا کر خواتین کو روزمرہ کے کھانا پکانے اور کپڑے دھونے کے ذلت آمیز کام سے آزاد کرایا جائے گا۔
موجودہ دور میں سرمایہ دارانہ بھارتی ریاست جی ڈی پی کا 3 فیصد سے کم حصّہ تعلیم (2018ء-2019ء) اور تقریباً 1.28 فیصد حصّہ علاج پر خرچ کرتی ہے۔ گھروں کی تعمیر نجی کمپنیوں کے قبضے میں ہے اور عوامی سطح پر بچوں کی دیکھ بھال کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صرف مزدور راج کے تحت قومیائی گئی معیشت کے ذریعے ہی ایسی سماجی اور معاشی اصلاحات ممکن ہو پائیں گی۔ صرف سوشلزم کے ذریعے ہی مرد و خواتین کے بیچ خالص انسانی بنیادوں پر رشتے استوار کیے جا سکتے ہیں جب معاشی انحصار اور تشدد کے عناصر کو ختم کیا جائے گا اور انسانیت کو غربت اور محرومیوں سے نکالا جائے گا۔
جنس اور ذات پات کی بنیادوں پر جبر
بھارت، نیپال اور سری لنکا میں خواتین پر جبر کا ایک مختلف عنصر پایا جاتا ہے اور وہ ذات پات کا ہے۔ نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین خصوصاً دلت خواتین پر کیا جانے والا جبر بہت وحشیانہ قسم کا ہوتا ہے۔ بھارت کا ذات پات والا نظام 3000 سالہ پرانا نظام ہے جس میں آبادی کو مختلف روزگار اور شعبہ جات میں کام کرنے کے حوالے سے تقسیم کیا گیا تھا (براہمن سب سے اونچی ذات ہے جو پنڈت، مشیر اور دانشور رہنماؤں کا کام کرتے تھے۔ کشتریہ دوسرے درجے پر ہے اور وہ حکمرانوں، فوجی کمانڈروں اور بڑے زمینداروں پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد ویشیا ہے جس میں سوداگر، تاجر اور کسان شامل تھے۔ نچلے درجے پر شودر آتے ہیں جو کاریگری، مزدوری اور نوکری سے وابستہ تھے۔ دلت یا اچھوت اس کے بعد آتے ہیں)۔ اگرچہ اس کو 1950ء میں سرکاری طور پر ختم کیا گیا تھا مگر سخت سماجی درجہ بندی کا یہ قدیم نظام آج بھی زندگی کے ہر شعبے میں برقرار ہے۔ ہندوؤں کا جنم ہوتے ہی یہ نظام ان کی درجہ بندی کرتا ہے اور سماج میں ان کے مقام کا تعین کرتا ہے کہ ان کو کہاں پر رہنا ہے، کیا کام کرنا ہے یا کس کے ساتھ شادی کرنی ہے۔
دلت اور کئی دیگر قبائل کو ذات پات کے نظام کا حصّہ نہیں گردانا جاتا۔ اس لیے ان کو سماج سے علیحدہ کر کے اچھوت (جن کو چھونا بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے) بنایا گیا۔ موجودہ آبادی میں دلت 16 فیصد پائے جاتے ہیں۔
ذات اور مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کر کے حکومت کرنا برطانوی سامراج کا کامیاب طریقہ کار ثابت ہوا۔ ذات پات کے نظام نے انگریزوں کو موقع فراہم کیا کہ نچلی ذاتوں سے کم اجرت پر کام لیا جا سکے۔ البتہ بی آر امبیڈکر جیسی شخصیات نے محنت کشوں کو ذات کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کو مزید سہارا دیا کیونکہ نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کو سامراجیت اور سرمایہ داری کے خلاف مشترکہ طبقاتی جدوجہد میں منظم کرنے کی بجائے ان کو اپنی مخصوص ذات کی سیاسی آزادی کے لیے لڑایا۔
آج بھارت کا حکمران طبقہ سرمائے کے مفاد میں ذات پات کے نظام کو دوبارہ تقویت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ دولت اونچی ذات کے خاندانوں میں ہی رہتی ہے اور ان کو سماجی اور معاشی لحاظ سے بہتر مقام دیتی ہے جبکہ نچلی ذاتوں کے خاندان مستقل غربت اور استحصالی کام میں گھرے رہتے ہیں۔ اگرچہ مذکورہ امتیازی حیثیت کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے مگر اس سے بہت کم دلت اور قبائلی لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے اور ایک بڑی اکثریت غربت اور تشدد کے بیچ تڑپ رہی ہے۔
امبیڈکر سرمایہ داری کا کٹر حمایتی تھا اور 1917ء میں ہونے والے انقلاب روس اور مارکسزم کے نظریے سے نفرت کرتا تھا۔ اس کے انگریزوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیرِ قانون کا عہدہ بخوشی قبول کیا۔ آج کی سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹیاں امبیڈکر کی ماضی اور ذات پات کی بنیاد پر سیاست کرنے کے زہر کو بھلا کر مارکسزم اور امبیڈکر کے خیالات میں ملاپ کرانا چاہ رہی ہیں جو ان کی مکمل پستی کا ثبوت ہے۔
نیشنل کرائم بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2007ء سے 2017ء کے درمیان دلتوں کے خلاف وارداتوں میں 66 فیصد اضافہ ہوا ہے اور دلت خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ روزانہ چھے دلت خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ یہ خواتین محض اونچی ذات کے مردوں کے تشدد کا شکار ہی نہیں بنتیں بلکہ اس میں ان کے اپنی ذات کے مرد بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اونچی ذات کے مردوں کے جوان دلت خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں اور جنسی تشدد کے بے شمار واقعات رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ان مردوں کا دفاع ان کی اپنی برادری کے لوگ اور پولیس کرتے ہیں جو اکثر زیادتی کے واقعات میں خود بھی ملوث ہوتے ہیں۔
ذات پات کا نظام اور خواتین کے اوپر جبر کی تاریخ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار سے پرانی ہے مگر سرمایہ داری میں دونوں کو محنت کشوں سے مزید منافعے نچوڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نچلی ذات کی خواتین انتہائی کم اجرت پر کام کرتی ہیں۔ یہ خواتین اکثر رسمی شعبوں کے باہر کام کرتی ہیں جن میں گلیوں کی دھلائی اور صفائی، مردہ جانوروں کی لاشیں اکٹھی کرنا اور گھریلو نوکری وغیرہ شامل ہیں۔
دلتوں اور دیگر نچلی ذاتوں کی نمائندہ سیاسی پارٹیاں کبھی بھی سرمایہ داری کے خلاف کوئی پروگرام نہیں پیش کرتیں اور ہمیشہ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے دلت علاقوں میں اصلاحات کے وعدے کرتی ہیں۔ چھوٹے پیمانے کی اصلاحات سے ان ذاتوں کی اوپری مراعات یافتہ پرت ہی مستفید ہو پاتی ہے جو بالآخر بھارتی حکمران طبقے کا حصّہ بن جاتی ہے۔ بی ایس پی (دلتوں کی نمائندہ پارٹی) اور ایس پی (غریبوں اور دیگر نچلی ذاتوں کی نمائندہ پارٹی) کے تجربے نے سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اصلاحات کرنے کی حدود کو واضح کر دیا ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم انقلابی جدوجہد ہی ذات پات کے نظام سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا دلا سکتی ہے۔ اس جدوجہد میں تمام ذاتوں کے مزدوروں اور کسانوں کو حکمران طبقے کے خلاف اکٹھا ہونا پڑے گا جس میں ہر ذات کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ مودی خود بھی ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتا ہے مگر اس کے اقتدار میں آنے سے نچلی ذاتوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے بلکہ ان کا استحصال اور جبر اپنی حدوں کو چھو رہا ہے۔
یہی صورتحال خواتین کے معاملے میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جب وہ اقتدار حاصل کر لیتی ہیں مگر کروڑوں بھارتی خواتین کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ملک کی مشہور ترین وزیر اعظم اندرا گاندھی اور دیگر وزارتِ اعلیٰ پر فائز دیگر خواتین سیاسی رہنما جیسے مایاوتی، جیالالیتا، سونیا گاندھی، شیلا دکشت وغیرہ کے باوجود محنت کش طبقے کی خواتین کے جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بھارت کو ذات پات کے نظام اور خواتین کے اوپر کیے جانے والے جبر سے آزاد کرانے کا واحد راستہ مصنوعی قلت کی مادی بنیادوں کا خاتمہ ہے۔ اگر ذات، مذہب، جنس اور زبان کو بالائے طاق رکھ کر سب کو اچھی تعلیم، قابلِ برداشت رہائش، مفت علاج اور بچوں کی دیکھ بھال تک رسائی دی جائے تو تفریق اور تقسیم کی بنیادیں ہی ختم ہو جائیں گی۔ اشیاء کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ہی تفریق کا وجود ہے۔ اس کو ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ معیشت کو مکمل طور پر بروئے کار لاتے ہوئے محنت کش طبقے کے قبضے میں دیا جائے تاکہ بلا تفریق سب کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔
کمیونسٹ پارٹی کا غلط نقطہ نظر
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کا 2017ء میں لکھے گئے مضمون کے مطابق پارٹی کی مجموعی تعداد 11 لاکھ ہے جس میں خواتین 16 فیصد (1 لاکھ، 50 ہزار سے زائد) ہیں۔ انقلاب روس کے وقت بالشویک ممبران کی تعداد مذکورہ تعداد سے کم تھی اور خواتین ممبران کی تعداد تو اس سے بہت زیادہ کم تھی۔ المیہ یہ ہے کہ بھارتی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی تاریخ میں سرمایہ داری کو ختم کرنے کے بہت سارے انقلابی مواقع گنوائے ہیں۔
بھارت اور جنوبی ایشیا کی کمیونسٹ پارٹیاں سٹالن کے مرحلہ وار انقلاب (Two stage theory) والے نظریے پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے مزدوروں اور کسانوں کی جمہوری حکومت قائم کر کے بورژوا جمہوری اصلاحات کرنی پڑیں گی، جیسا کہ کسانوں کے لیے زمینی اصلاحات۔ ایسا کرنے کے بعد ہی سوشلزم کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔
اس حکمتِ عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹیاں اور بھارت اور نیپال میں ان سے الگ ہونے والے گروہ حماقت کا شکار ہو چکے ہیں اور ہر ریاست اور پارلیمنٹ میں سیٹیں جیتنا ان کا اولین مقصد بن چکا ہے۔ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی کے دورِ حکومت میں محنت کشوں کے حالات میں بنیادی تبدیلیاں نہیں آئیں اور وہ سرمایہ دار پارٹیوں کے ساتھ اتحاد میں بھی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بھی پارٹی کی حمایت میں کمی آئی ہے جو ان کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ جبر کا حقیقی خاتمہ کرنے کے لیے یونینز اور مزدوروں کو منظم کر کے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔
بھارتی کمیونسٹ پارٹی نے ٹریڈ یونینز کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے بڑی عام ہڑتالیں منظم کی ہیں۔ پھر بھی اس قوت کو سرمایہ داری کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی بجائے چند ہی دن میں وہ ہڑتال ختم کرنے لگتے ہیں۔ پارٹی کی سٹالنسٹ بیوروکریسی محنت کشوں سے ڈرتی ہے اور ان کی جدوجہد کا رخ ایوانوں کی جانب موڑ کر ذاتی مفاد کے لیے سودے بازی کرتی ہے۔ البتہ اگر وہ پختہ جدوجہد کا آغاز کر کے یونینز اور اپنے ممبران کو ایک انقلابی پروگرام کے تحت متحرک کریں تو وہ بھارت کے بوسیدہ نظام کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں جس طرح لینن، ٹراٹسکی اور دیگر بالشویکوں نے 1917ء میں ہونے والے انقلاب روس میں کیا تھا۔
انقلابی مارکس وادیوں کے لیے پارلیمانی سیاست، سرمایہ داری کو ختم کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ آج کمیونسٹ پارٹیاں اپنے ممبران اور ٹریڈ یونین کی اکثریت کو عام ہڑتال کے لیے منظم کر کے مودی حکومت اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی انقلاب کی قیادت کرتی ہوئے معیشت کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہے اور مزدور آمریت قائم کر کے دیگر ممالک کے محنت کشوں سے انقلاب کو پھیلانے کے لیے اپیل کر سکتی ہے۔ پھر بھی ان کا اور دیگر سٹالنسٹ پارٹیوں کا ایسا کوئی بھی ارادہ نہیں ہے۔ وہ پارلیمانی سیاست کو اپنی حیثیت اور مراعات برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور طبقاتی بنیادوں پر سوشلزم کے لیے جدوجہد کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی اور خواتین کی یونین کے قائدانہ کردار کی عدم موجودگی میں اس خلا کو بورژوا فیمینسٹ اور این جی اوز پر کرتی ہیں۔ بورژوا فیمینسٹ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں خواتین کی آزادی اور حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے موجودہ نظام کے اندر مساوی حقوق کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
البتہ امریکہ، فرانس، سپین اور دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں خواتین کے حقوق کے لیے حالیہ تحریکوں نے اس نظام کا گھناؤنا چہرہ دکھا دیا ہے جو برابری کا دعویٰ کرتا رہتا ہے۔ فلاحی ریاستوں کا بحران اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری خواتین کو ماضی کی تاریکیوں میں لے جا رہی ہے۔
بالشویکوں اور سٹالن کے دور میں خواتین کا مقام
روس میں اکتوبر انقلاب سے پہلے مزدور اور کسان عورتوں کی زندگی بہت ہی خستہ حال تھی۔ ان کی حیثیت مردوں کے لیے کسی پالتو جانور سے بڑھ کر نہیں تھی اور وہ ان کی ایک قسم کی ملکیت ہی تھی جو انہیں جیسا چاہتے، استعمال کرتے۔ خواتین کو تعلیم، طلاق اور اسقاط حمل کے حقوق میسر نہیں تھے۔ یہاں تک کہ ریاست کی جانب سے اپنی بیویوں کی مار پیٹ کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔
اپنی کتاب ’روس میں سرمایہ داری کا ارتقاء‘ میں لینن روس میں تیزی کے ساتھ ترقی کرتی سرمایہ دارانہ صنعت پر روشنی ڈالتا ہے۔ لینن وضاحت کرتا ہے کہ سرمایہ داری نے پرانے جاگیردارانہ پدر سری رشتوں کو تبدیل کر دیا جو خواتین کو گھروں تک ہی محدود رکھتے تھے۔ روسی سرمایہ داری کو خواتین کی ضرورت اس لیے آن پڑی کیونکہ وہ مردوں سے بہت کم اجرت پر کام کرتی تھیں۔ خواتین کارخانوں میں کام کرتے ہوئے مرد ساتھیوں کے شانہ بہ شانہ پیداوار کے عمل سے گزرنے لگیں اور ان کے ساتھ بہتر اجرتوں اور سہولیات کے لیے منظم ہوئیں۔
اکتوبر 1917ء کے انقلاب نے سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کا خاتمہ کرتے ہوئے خواتین پر ہونے والے جبر کے پرانے طور طریقوں کی بنیادیں بھی ختم کر دیں۔ 1918ء میں بڑی صنعتوں کو قومیا کر مزدوروں کے قبضے میں دیا گیا۔ اس عمل کے لیے خواتین اور دیگر مظلوم پرتوں کی سرگرم شرکت درکار تھی۔ بالشویک پارٹی نے شعوری طور پر خواتین کو انقلابی کام میں شریک کروایا۔ 1917ء سے دہائیاں قبل روس کی مزدور تحریک اور بالشویک پارٹی نے کارخانوں اور مظاہروں میں خواتین کو منظم کرنے کے لیے تسلسل سے کام کیا۔
یہ سچ ہے کہ مزدور ریاست راتوں رات جنس اور ذات پات کی بنیادوں پر ہونے والے جبر کا خاتمہ نہیں کرے گی مگر مزدور ریاست فطرتاً محنت کشوں کے بیچ قائم نفرتوں کی جڑیں جلد ہی اکھاڑ پھینکے گی۔
مثلاً ایک قومیائے گئے کارخانے میں جن پر مزدوروں کا قبضہ ہو، جنس، نسل اور ذات پات کی بنیادوں پر تفریق کرنے والے مالکان سے محفوظ رہے گی۔ مزدوروں کو کام دینا اور ان کی تربیت کرنا مزدور خود کریں گے۔ وہ معاشرے اور خطے میں موجود سب لوگوں پر انحصار کریں گے کہ اپنا کام بلا تفریق کیا کریں۔ کام کی جگہوں پر مردوں کے ساتھ خواتین اور دیگر مظلوم پرتیں کام کریں گی جس سے ان کے بیچ بھائی چارے کے نئے تعلقات بنیں گے۔ ہر شعبے میں تمام مزدوروں کو بلا تفریق مساوی اور معقول اجرت دی جائے گی جہاں پر مفت خوراک کی سہولت موجود ہو گی اور محنت کشوں کے بیچ یکجہتی اور اتحاد کا باعث بنے گی۔
اکتوبر انقلاب نے خواتین پر جبر کی بنیادیں ختم کر دیں۔ سرمایہ داری میں خواتین گھروں میں قید رہتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر کم اجرت دے کر ان سے کام لیا جاتا ہے۔ انقلاب روس کے بعد بڑے پیمانے پر سماجی پروگراموں کے ذریعے خواتین کو باورچی خانوں اور گھروں کی قید سے رہا کر کے سیاسی اور پیداواری کام میں شامل کیا گیا۔ بچوں کی دیکھ بھال کی جگہوں نے انہیں موقع فراہم کیے کہ سیاسی عمل میں بھی حصہّ لیں۔ عوامی باورچی خانوں نے انہیں روزمرہ کے کھانا پکانے کی ذلت سے نکال دیا۔ تعلیمی اصلاحات کے ذریعے سب خواتین کو تعلیم تک رسائی حاصل ہو گئی۔ طلاق لینے اور اسقاط حمل کی آزادی تھی۔
اگرچہ سوویت یونین کو لینن اور بالشویکوں کے دور میں محنت کشوں، خواتین اور مظلوموں کے لیے آزاد ترین ریاست بنانے کی کوشش کی گئی مگر اس عمل میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انقلاب روس کے تنہا رہ جانے سے خواتین کی آزادی کو صحیح معنوں میں حاصل نہیں کیا جا سکا۔
سوشلزم کے بعد پیداواری قوتوں کو اس حد تک بڑھانا ہوتا ہے کہ سب کی ضروریات پوری کی جا سکیں مگر یہ عالمی سطح پر ہی ممکن ہے کیونکہ دنیا کی منڈی عالمی سطح پر چلتی ہے۔ یورپ میں انقلابات کی ناکامیوں سے سوویت یونین تنہا رہ گیا۔ سوویت یونین نے نہایت پسماندہ حالات میں خود کو تعمیر کیا۔ اوپر سے 21 ممالک کی سامراجی افواج نے سوویت یونین پر ہلہ بول دیا اور اپنی آزادی کی خاطر لڑنے کے جرم میں وہاں کے لوگوں کی خوراک تک رسائی میں رکاوٹیں ڈال دیں اور انہیں فاقوں پر مجبور کر دیا (پہلی جنگ عظیم کا واقعہ اس کے علاوہ ہے جس نے روسی محنت کش طبقے کو نہایت کمزور کر دیا)۔ ایسے حالات میں ممکن نہیں تھا کہ خواتین کو طبقاتی جبر سے آزاد کرایا جاسکتا۔ ان حالات میں محنت کشوں اور بالشویک پارٹی کے اوپر بیوروکریسی کی ایک تہہ جم گئی جس نے پیداوار کو اور بعد ازاں انقلاب کی ساری حاصلات کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس عمل کو ٹراٹسکی کی کتاب ’انقلاب سے غداری‘ میں شاندار طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ سٹالن اس بیوروکریسی کی قیادت کرتا رہا اور محنت کشوں کے سامنے ”ایک ملک میں سوشلزم“ کا نظریہ رکھ دیا۔
سٹالنسٹ بیوروکریسی کو عالمی محنت کش طبقے اور مظلوموں کی آزادی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ سوویت یونین کی منصوبہ بند معیشت آگے کا قدم تھا مگر اس نے خواتین اور دیگر مظلوموں کو مکمل آزادی نہیں دی۔ سیاسی رد انقلاب کو خواتین کی سماجی حیثیت میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ بیوروکریسی کو رد انقلاب کے لیے پرانے طرز کے بورژوا خاندان کی سماجی بنیاد کی ضرورت تھی۔ سٹالن کے دور میں پرانے طرز خاندان کو دوبارہ رائج کیا گیا، طلاق اور اسقاط حمل کو مشکل بنا دیا گیا اور جنسی آزادی کو ختم کیا گیا۔
عورت کو مرد سے اور دونوں کو سرمائے سے آزاد کراؤ
آج محنت کش طبقے کو سرمایہ داری سے چھٹکارا دلانے کے لیے خواتین اور تمام مظلوم پرتوں کو جدوجہد کا حصّہ بنانا لازمی ہے۔ انقلابی بالشویکوں کو یہ نعرہ بلند کرنا پڑے گا کہ عورت کو مرد سے آزادی دلانے کے لیے دونوں کو سرمائے سے آزاد کرنا ضروری ہے۔ سرمایہ داری نے مرد اور عورت کے بیچ بیہودہ اور غیر فطری تعلقات قائم کیے ہیں جو مرد کو حاکم اور عورت کو غلام بناتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا حصّہ نہیں بلکہ اس کی وجہ استحصالی نظام ہے۔
بھارت میں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو این جی اوز، بورژوا فیمینزم اور اصلاحات آزاد نہیں کرا سکتے بلکہ ان سے تع مٹھی بھر کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ مردوں اور خواتین کے بیچ مساوات اور ان کی آزادی تب ہی ممکن ہے جب رہائش، کام اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی تک سب کی رسائی ہو۔ ان اقدامات کے بغیر سرمایہ داری میں رہتے ہوئے بورژوا جمہوریت کے مساوات کے نعرے کھوکھلے ہی رہیں گے۔ محض منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کے ذریعے خواتین کی آزادی کے لیے پہلا قدم لیا جا سکتا ہے۔
سرمایہ داری 1929ء کے بعد اب تک کے سب سے بڑے بحران کے دور سے گزر رہی ہے جو سب سے پہلے خواتین کو اذیت اور بربریت میں دکھیل رہی ہیں۔ جس کے جواب میں سپین، میکسیکو، پولینڈ، بھارت اور امریکی ریاست کے اندر خواتین پر جبر کے خلاف دیوہیکل تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ خواتین اور مظلوم پرتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ جابرانہ نظام اور اس کی دیگر تمام خرابیوں سے لڑ رہی ہیں۔ جبر سرمایہ داری کا ایک لازمی جزو ہے اورسرمایہ داری کو ختم کیے بغیر یہ چلتا رہے گا۔ وقت آ چکا ہے کہ اس کی جڑیں مکمل طور پر اکھاڑنے کی جانب بڑھا جائے۔