تحریر: |جیسیکا کاسل|
ترجمہ:|انعم خان|
ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے حصول کی خاطر، ہیلری کلنٹن اپنی حالیہ مہم کے دوران خود کو حقوقِ نسواں کی محافظ اور’’بہن چارے ‘‘ کا پرچار کرتی نظر آتی ہے اور ممکنہ طور پر پہلی خاتون صدرکے گرد حمایت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
To read this article in English, click here
یقیناًمعاشرے میں ایک ایسی پرت موجود ہے جو ہیلری کو محض جنس کی بنیاد پر سب سے ترقی پسند امیدوار سمجھ رہی ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ میں بہت سے نوجوان خواتین و حضرات ،اس فریب کے پار حقیقت دیکھ سکتے ہیں اور کلنٹن کو قابل نفرت اسٹیبلشمنٹ کے رکن کے طور پر پہنچانتے ہیں۔
کلنٹن کی حمایتی مشہور شخصیات سے حال ہی میں سرزد ہونے والی حماقتوں کی وجہ سے یہ پہچان مزید واضح ہو کر سامنے آئی، جیسا کہ گلوریا سٹینم اور میڈ لائین البرائٹ۔ سٹینم ، جو1960ء کی دہائی کے اختتام اور 1970ء کی دہائی کے ابتدا میں چلنے والی حقوقِ نسواں کی ’’دوسری لہر‘‘ کی تحریک کی لیڈر اور ترجمان کے طور پر پہچانی جاتی ہے، کے اس بیان کی وجہ سے غصے کی لہر دوڑ گئی، جس میں اس نے کہا کہ خواتین، مردوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے برنی سینڈرز کی حمایت کر رہی تھیں۔ اس نے جنسی تعصب پر مبنی اپنے بیان پر معافی تو مانگ لی لیکن اس سے جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا، اور لبرل نسوانیت پرستی کی مکاری بھی عیاں ہو گئی۔ اسی ہفتے کلنٹن کی ایک اور ریلی میں، میڈلائین البرائٹ، جو امریکی ریاست کی سابقہ سیکرٹری ہے، نے کہا کہ ’’ اُن خواتین کے لیے دوزخ میں خاص مقام ہے جو دوسری خواتین کی مدد نہیں کرتیں‘‘۔ اس سے کئی لوگوں میں سوالات پیدا ہوئے کہ کیا دوزخ میں اُس عورت کے لیے بھی خاص مقام ہو گا کہ جس نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ امریکی سامراج کے مقاصد کی تکمیل میں صرف کیا ہواورجو ماضی میں یہ کہتی رہی ہو کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہونے والی پانچ لاکھ عراقی بچوں کی اموات ’’ لازمی ‘‘ تھیں۔ ایک بار پھر، کلنٹن کی خو دکو خواتین کی چیمپئن طور پر پیش کرنے کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آگئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہیلری کلنٹن امریکی سرمایہ داری اور سامراج کی نمائندہ ہے اور بیس سال سے بھی زائد عرصہ طاقت ور عہدوں پررہتے ہوئے اس نے پُر جوش انداز میں ان پالیسیوں اور جنگوں کی حمایت کی کہ جن کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں خواتین بدترین محرومی اور غربت کے حالات کا شکار ہوئیں۔ وال سٹریٹ کے ساتھ اس کی وفا داری اس کی انتخابی مہم کو مالی امداد فراہم کرنے والوں کی فہرست سے واضح ہو جاتی ہے کہ جس میں انتہائی مالدار حضرات، بنکار اور سیاسی و معاشی جوڑ توڑ کے ماہرین شامل ہیں۔ کلنٹن 2013ء سے2015ء کے درمیان وال سٹریٹ کے بنکوں اور مورگن سٹنلے(Morgan Stanley)، گولڈ مین ساکس(Goldman Sachs) اور Deutsche Bank جیسی سرمایہ کار کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے خفیہ مذاکرات کے سلسلے میں بھی زیر تفتیش رہ چکی ہے۔ وال سٹریٹ جریدے کے مطابق کلنٹن نے تقریر کرنے کے معاوضوں کے طور پر 4.1 ملین ڈالر وصول کئے ہیں۔ کہاوت ہے کہ آپ ایک وقت میں دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ حکمران سرمایہ دار طبقے سے فنڈز لے کر اور اسی بنا پر انہی کے زیرِ سایہ ہونے کی وجہ سے کلنٹن، اکثریتی محنت کش طبقے کی خواتین کے مفادات میں کچھ نہیں کر سکتی۔ ایک صدر کی حیثیت سے، وہ کٹوتیاں اور محنت کشوں پر حملے کرے گی، جس کے نتیجے میں خواتین اور محنت کش طبقے کی دیگر پسی ہوئی پرتوں کو نقصان ہوگا۔
Intersectional Feminism کی ماننے والی بہت سی نوجوان لڑکیوں نے درست تجزیہ کیا ہے کہ ہم ایک ہی کیٹگری، مثال کے طور پر خواتین، میں شمار ہونے والے تمام افراد کو یکساں تصورنہیں کر سکتے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ خاتون ہونے کے باوجود، ہیلری کلنٹن کے طبقاتی مفادات اور سیاست اکثریتی خواتین کے مفاد میں نہیں ہے۔ Intersectionality کانقطہ نظر درست طور پر یہ واضح کرتا ہے کہ لوگوں کو مختلف طرز کے مگر باہم متصل جبر کاسامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ جبر کو انفرادی موضوع کی سطح پر ہی دیکھتاہے اور یہ حل تجویز کرتا ہے کہ وہ لوگ جو ایک مخصوص جبر کے شکار گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، محض وہی لوگ ہی جبر کی اُس مخصوص کیفیت کا درست ادراک کر سکتے ہیں اور اس کے خلاف لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم اس نقطہ نظر کا منطقی نتیجہ نکالیں تو اس کے مطابق کلنٹن، خواتین پر ہونے والے جبر کے خلاف لڑنے کے لیے سب سے قابل امیدوار ہے۔ بہت سے نوجوان لوگ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے اور وہ برنی سینڈرز کے گرد متحرک ہو ئے ہیں کیونکہ اس کے نظریات امریکی معاشرے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اورسوشلزم کے حق میں بڑھتے ہوئے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ Intersectionality کے نقطہ نظرسے، جبر کی تمام اقسام یکساں نوعیت کی ہیں، جبکہ کلنٹن کی اپنی جنس کی بنیاد پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش عملاََ دکھا رہی ہے کہ طبقاتی جبر باقی ہر قسم کے جبر کو کاٹ کے رکھ دیتا ہے، یعنی اس کا طبقاتی کردار اس کی جنس پر حاوی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کس طرح معاشرے کے طبقوں میں تقسیم ہونے سے خواتین پر جبر کا آغاز ہوا اورآج کس طرح سے سرمایہ داری کو خواتین پر ہونے والے جبر کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
خواتین پر جبر کی ابتداء
خواتین ہمیشہ ہی مردوں کے زیرِ دست نہیں رہیں۔ بلکہ زمین پر انسانی وجود کی موجودگی کے زیادہ تر عرصے میں محنت کی جنسی بنیادوں پرتقسیم نے سماجی اور معاشی نابرابری کو جنم نہیں دیا تھا۔ ابتدائی اشتراکی نظام میں جب انسانی خوراک شکار اور پھل اکٹھا کر کے حاصل کی جاتی تھی،اُس معاشرے میں ہر انسان کی محنت، اس کے گروہ کی بقاء کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہوتی تھی اور اجتماعی محنت کے ثمرات سے گروہ کے تمام لوگ یکساں طور پر مستفید ہوتے تھے۔ قریباََدس ہزار سال پہلے جب انسان زرعی پیداوار کی طرف منتقل ہوا تو پہلی مرتبہ اضافی خوراک (فوری طور پر استعمال کئے جانے سے ذیادہ) کی پیداوار ممکن ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں نے اتنی اضافی پیداوار شروع کر دی کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے کام کرنے ضرورت نہیں پڑتی تھی اور و ہ اپنی اضافی پیداوار سے دوسروں کو معاوضہ ادا کر کے (یا کم از کم انھیں زندہ رکھنے کے لئے) اپنے لیے کام کرواتے یا دوسری خاص اجناس کی تجارت کرواتے تھے۔ اس نے معاشرے کو دو طبقوں حاکم اور محکوم میں تقسیم کر دیا۔ خواتین پر جبر کی ابتداء پیداوار اور اس کے تبادلے کے طریقہ کار میں ہو نے والی اس تاریخی تبدیلی کے نتیجے کے طور پرہوئی۔ دولت پیدا کرنیوا لی محنت پر مردوں کا غلبہ ہو نے کی وجہ سے عورت کے کام نے اپنا عوامی کردار کھو دیا۔ شادی کا ادارہ عورت کی تولیدی صلاحیت کو کنٹرول کرنے اور بچوں کی پیدائش پر مرد کی پدرسرانہ حاکمیت کو یقینی بنانے کے لئے ابھرا تاکہ مرد اپنی دولت کو اپنی اگلی نسل تک منتقل کر سکے۔ ذاتی ملکیت کی ترویج کے ساتھ، خواتین کو اپنے شوہر کی ہزاروں سالوں پر محیط ملکیت کے طور گھر یلو امور تک محدودکر دیا گیا، جب تک کہ سرمایہ داری کا آغاز نہ ہوا۔
سرمایہ داری نے خواتین کو ایک بار پھر عوامی دائرے میں دھکیل دیا جو کچھ حوالوں سے آگے کا قدم تھا۔ محنت کش طبقے کا حصہ ہونے کا مطلب ہے کہ خواتین منظم ہو سکتی ہیں اور ماضی کی نسبت زیادہ آزادی اور حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ یقیناًمختلف ممالک میں؛ ترقی کی مختلف سطح ، سامراجیت اور نوآبادیت کے اثرات کے حوالے اس میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے تحت عورتیں، گھرمیں غیر ادا شدہ اجرتی مزدور اورکام کی جگہوں پر استحصال زدہ اجرتی مزدوروں کے طور پر، دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ سرمایہ داری کو خواتین کی گھریلو کاموں میں صرف ہونے والی مفت محنت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ محنت کشوں کی اگلی نسل کو استحصال کروانے کے لیے تیار کر سکیں۔ مزید برآں ، مرد وں اور خواتین کی تنخواہوں میں فرق کرنے سے ہر کسی کی اجرتیں کم ہوتی ہیں اور اس کا نتیجہ مالکان کے منافعوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ حکمران طبقہ ، محنت کش طبقے کی جنسی ، نسلی و دیگر تفریق کی بِنا پر اپنے استحصالی نظام کو چلاتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ میڈیا پر اپنے تسلط اور دیگر ثقافتی اداروں کو استعمال میں لاکر تفریق اور تقسیم کرنے والے رویوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ جب ان کے مفادات کو زیب دیتا ہے تو وہ محنت کشوں کی کچھ پرتوں کو مصنوئی رعایتیں دے کر اپنے لیے حمایت بناتے ہیں اور انہیں محنت کشوں کے دوسرے حصوں کے مقابل لا کھڑا کرتے ہیں۔ بالکل یہی انہوں نے براک اوبامہ کے ساتھ کیا اور اسے سیاہ فام امریکیوں کا دفاع کرنے والے رہنما ء کے طور پر پیش کیا اور یہی وہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ کر رہے ہیں، اسے خواتین اور بچوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی رہنما ء کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
ہم مارکس وادی جب یہ کہتے ہیں کہ طبقاتی جبر باقی تمام جبر کو کاٹ دیتا ہے تو اس کا قطعاََ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بھگتنے کے حوالے یہ سب سے خوفناک جبر ہے یا یہ کہ محنت کش طبقہ کسی حوالے سے باقی جبر کا شکار گروہوں سے بالاتر ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تک ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں کہ جہاں ایک اقلیتی طبقہ اکثریت کااستحصال کرتا ہو، جبر کا شکار کوئی ایک گروہ بھی کسی طور حقیقی آزادی حاصل نہیں کر سکتا اور معاشرے میں منظم جبر کا نظام ہمیشہ موجود رہے گا۔ اقلیتی حکمران طبقے کا کوئی بھی نمائندہ اپنی جنس ،نسل یا جنسی ترجیح سے مبرا ہو کر ہمیشہ اپنے طبقاتی مفادات کی نگہبانی ہی کرے گا۔ سرمایہ داری کے تحت، جبر کی بنیادی صورت اجرتی محنت کا استحصال ہے، کیونکہ مزدوروں کو ان کی محنت کی قدر سے کم اجرت دے کر ہی سرمایہ دار منافعوں کا ارتکاز کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ محنت کش طبقہ جو زیادہ تر ممالک میں اکثریت میں ہے، سرمایہ دارانہ پیداوار میں اپنے کردار کی بِنا پر اس نظام کومفلوج کر دینے کے حوالے سے منفرد صلاحیت کا حامل ہے۔
اصلاحات کی جدوجہد
تو کیا اس سب کا یہ مطلب ہے کہ ہم مارکس وادی یہ کہتے ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب سے پہلے خواتین پر جبر کے سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا؟ یقیناً، نہیں۔ ہم مارکس وادی، جنسیت، صنفی تشدد اور عورت کے ساتھ امتیازی سلوک؛ جوکہ، نسل پرستی اور امتیازی تفریق کی دیگر اشکال کی طرح ہی ،محنت کش طبقے کو ہی تقسیم کرتا ہے اور ہمیں ہمارے سانجھے جابر کے خلاف متحد ہونے سے روکتا ہے؛ کی شدید مخالفت کرتے ہیں، اسی وجہ سے تحریک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم نیچے سے ابھرنے والے ہر اُس اجتماعی عمل کے ساتھ ہیں جو ہماری گلیوں، کام کی جگہوں، تعلیمی اداروں میں جنسیت کی روک تھام اور اس کے ردعمل میں سامنے آتے ہیں، ہم ان مظاہروں کے حق میں بھی جن میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اور محنت کش شریک ہوں اور ہماری آبادیوں کے تحفظ کی خاطر بنائی جانے والے ان جمہوری طور پر جوابدہ ڈھانچوں کے بھی مکمل ساتھ ہیں۔ ان کاوشوں کی قیادت محنت کش طبقے کی تنظیموں کو ہی کرنی چاہیے جیسا کہ طلبہ اور ٹریڈیونینز۔ ہم مارکس وادی ان تمام اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں، جو خواتین پر مسلط بندشوں کو ہٹاتی ہوں، جیسا کہ بچوں کی نگہداشت کا عالمگیر نظام، جنسی صحت کی سہولیات تک رسائی اور یکساں تنخواہ۔ ہم محنت کش طبقے کی تنظیموں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ مجتمع ہوتے ہوئے ان مطالبات کے حق میں اور کٹوتیوں سمیت مزدوروں پر ہونے والے سبھی حملوں کے خلاف ایک متحد طبقاتی جدوجہد کا آغاز کریں، جو غیر متوازی طور پر خواتین کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے ہم سرمایہ داری کے تحت ہونے والی عبوری اصلاحات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام گراوٹ کے عہد میں اور بحران میں یہ کٹوتیوں کا طلبگار ہوتا ہے۔ہمیں اصلاحات کے لیے لازماََ لڑنا چاہیے، لیکن اس لڑائی کو سوشلزم کی ضرورت کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔
بد قسمتی سے محنت کش طبقے کی تنظیموں کی افسر شاہی جدوجہد کو پیچھے رکھنے کی ذمہ دار ہے، جو کھلے تصادم کو روکنے یا اپنی موجودہ مراعات کے تحفظ کی خاطر اکثر اوقات انتظامیہ یا ریاست سے سمجھوتے کرتی ہیں۔ یہ ایک اہم وجہ ہے کہ صنفی برابری جیسی افسرشاہانہ پالیسیاں خواتین کی حالات بہتر کرنے کاموثر آلہ کیوں نہیں بن پارہیں۔ اس کا اکثر یہ مطلب ہوتا ہے کہ خواتین کی اقلیت اعلیٰ عہدے حاصل کر لیتی ہے اور محنت کش طبقے کی اکثریت، جس کا نصف خواتین پر مشتمل ہے، کے حالات زندگی بہتر کرنے کی لڑائی کے لیے بہت ہی کم کاوش کی جاتی ہے۔ کم نمائندگی رکھنے والے گروہوں سے زیادہ شرکت خوش آئند بات ہے، لیکن ہماری قیادت کا چناؤ ان کی سیاست اور حقیقی لڑائی کی قیادت کرسکنے کی صلاحیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ یہ بات سمجھنا بہت اہم ہے کہ خواتین اور جبر کے شکار دیگر گروہوں کا جبر اس وجہ سے نہیں ہوتا ہے کہ ان کی نمائندگی کم ہے بلکہ ان کی کم نمائندگی کی وجہ معاشرے میں موجود منظم جبر کا نظام ہے۔ اسی طرح خواتین کے متعلق جنسیت پر مبنی ثقافتی آراء، در اصل سرمایہ دارانہ نظام میں خواتین کے اس معاشی اور معاشرتی کردار کی عکاس ہیں جو وہ ادا کرتیں ہیں، اس لیے معاشرے کے مادی حالات کو بدلے بغیر اس کی معاشرتی آراء کو نشانہ بنانا اپنے آپ میں جنسیت کا خاتمہ نہیں کر سکتا۔ ہماری توجہ کا محور محنت کش طبقے کی تنظیموں کو اُن لڑاکا ڈھانچوں میں تبدیل کر دینے پر ہونا چاہیے، جو سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور اُن حالات کے لیے لڑائی لڑ سکیں جو خواتین سمیت تمام استحصال زدہ اور جبر کا شکار لوگوں کی حقیقی طور پر نجات کا باعث بنیں۔
یہ حالات ہیں کیا؟ سب سے پہلے ہمیں خواتین کے کاندھوں سے گھریلو محنت کا بوجھ اتارنا ہو گا۔ ایسا گھریلو کام کو سماجی ذمہ داری بنا کر کیا جا سکتا ہے یعنی صفائی،کپڑوں کی دھلائی اور خوراک کی فراہمی کی عوامی سہولیات، بچوں کی پرورش کے لیے ماں باپ دونوں کو بہت زیادہ تنخواہ سمیت چھٹی اور بچوں کی نگہداشت کا عالمگیر نظام مہیا کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں سرمایہ دارانہ کٹوتیوں کی پیدا کردہ قلت کا خاتمہ کرنا ہوگا جو امتیازی سلوک کو پروان چڑھاتی ہے۔ ہر کسی کو بہترین اجرت پر مبنی روزگار، اعلیٰ تعلیم تک مفت رسائی، رہائش، علاج معالجے کا وسیع نظام جیسی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ وہ حالات ہیں کہ جن سے مرد اور عورت مادی بنیادوں پر برابر ہو جائیں گے اور جو خواتین کی سماجی زندگی اور معاشرے کی انتظامی سرگرمیوں میں شمولیت کا باعث بنیں گے۔ اور آخر میں میڈیا، فنون اور ثقافتی سہولیات کی سما جی ملکیت اور جمہوری کنٹرول اور نظامِ تعلیم وہ ثقافتی مواد فراہم کریں گے جو خواتین سے متعلق منفی رویوں سے نمٹے گا۔
یہ پالیسیاں سرمایہ داری کے منافع کے مقصد سے براہ راست متصادم ہیں اوریہ صرف اسی صورت حاصل کی جا سکتی ہیں جب معیشت کے کلیدی شعبوں کو قومی تحویل میں لیا جائے اور جمہوری طور پر طے کیا جائے کہ اکثریت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کس طرح دولت کے موجودہ انباروں کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اس معاشرے میں اتنے ذرائع موجود ہیں کہ جس سے ہر کوئی اعلیٰ معیار زندگی حاصل کر سکتا ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں کسی خاتون کو صدر یا وزیر اعظم منتخب کرنے سے یہ کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا! اسے لازماََ نیچے سے سوشلزم کے لیے متحد طبقاتی جدوجہد کے ذریعے آنا ہوگا۔ متحد جدوجہد کے ذریعے ہی تعصبات اور امتیازی رویے ٹوٹیں گے کیونکہ اس سے لوگوں کو اپنے مشترکہ مفادات کا ادراک حاصل ہوگا۔ ہم لوگوں کی وسیع اکثریت، سرمایہ دارانہ استحصال اور جبر کا شکار ہے۔ یہ ہم سب کے مفاد میں ہے کہ ہم متحد ہوکر نہ صرف خواتین پر ہونے والے جبر کے خلاف بلکہ ہر طرح کے جبر کے خلاف لڑائی لڑیں۔ صرف اسی بنیاد پر ہی خواتین کی حقیقی نجات اور استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ ہمیشہ کے لئے ممکن ہو سکتاہے۔