|رپورٹ: PYAکراچی|
مورخہ 12 مارچ 2017ء بروز اتوارکو ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) اور ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کی جانب سے محنت کش خواتین کے عالمی دن کے سلسلے میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں50 سے زائد طلبہ، نرسز، محنت کشوں اور سیاسی کارکن شریک ہوئے۔ تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض انعم پتافی نے ادا کیے۔
انعم پتافی نے تمام شرکاء کو خوش آمدید کیا اور تقریب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خواتین کی آزادی کا معاملہ جنسی نہیں بلکہ سماجی اور طبقاتی مسئلہ ہے، اس کے حل کے لیے محنت کش مر د و خواتین کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ گزشتہ کچھ سالوں سے خواتین کے دن کے موقع پر بورژوا میڈیا بہت وایلا کرتا نظر آتا ہے جس میں مدعا یہ ہوتا ہے کہ کم از کم اس ایک دن خواتین کا احترام واجب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مارکس وادیوں کے لیے یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے ،لیکن خواتین کے نام پر محض ایک دن منا لینے یا اس پر بات کر لینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ مخصوص دن ہمیں محض ایک بہانا میسر کرتا ہے جس سے ہم معاشرے میں موجود خواتین کے مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں جدوجہد کا آغاز کر تے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس دن کا آغاز بھی ’’محنت کش ‘‘ خواتین کے عالمی دن کے طور پر کیا گیا تھا، جبکہ آج کل اسے مجوعی طور پر سبھی خواتین کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے، کیونکہ خواتین میں دو طبقات ہیں اور دونوں کے مسائل اور مفادات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد ہیں، جس میں ایک طبقے(سرمایہ دار) کی آزادی جو کہ اپنی بنیا دمیں معاشی آزادی ہوتی ہے، دوسرے(اکثریتی محنت کش ) طبقے کی غلامی کا باعث ہے اور محنت کش خواتین کی آزادی کا مطلب سب سے پہلے ان کی معاشی آزادی ہے جو انہیں گھریلو غلامی سے نکالنے کی بنیاد فراہم کرے گی۔
پروگرام کے مقررین میں PYA کراچی کے آرگنائزر فارس راج، PYA کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور بی ایس او پجار کے مرکزی آرگنائزر ظریف رند، بینظیر بھٹو لاء کالج میں پی وائی کے آرگنائزر عدنان، ڈی ایس ایف کراچی کی صدر نغمہ پروین، ینگ نرسنگ ایسوسی ایشن سے الفت، طفیل ابرو، طالبعلم رہنما جینی علی، سماجی و سیاسی رہنما ہانی بلوچ اور پارس جان نے خطاب کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے خواتین کے استحصال اور ان کی غلامی کے آغاز اور اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت سے زائد پیداوار اور اس کی ملکیت کے سوال کے ابھرنے کے ساتھ ہی طبقاتی معاشرے کا آغاز ہوا جس نے عورت کو محکوم بنانے کی بنیادیں میسر کی۔ غلام داری، جاگیرداری اور پھر سرمایہ داری ملکیتی رشتوں پر مبنی نظام ہیں اور انہوں نے عورت پر استحصال کی بدترین شکلوں کو جنم دیا ہے۔ اس لیے ملکیتی رشتوں پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ عورت کی آزادی کی پہلی شرط ہے اور اس کے لیے محنت کش خواتین کواپنے مردمحنت کش ساتھیوں کے ہمراہ منظم ہو کر اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی، کیونکہ عورت کی آزادی کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد ہی ہے، خواتین کو اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاسی عمل میں شریک ہونا پڑے گا۔
کراچی میں حالیہ عرصے میں چلنے والی نرسز کی شاندار تحریک پر بات کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ اس جدوجہد نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اپنے بنیادی حقوق پر جائز مطالبات کے حصول کے لیے بھی سڑکوں پر آ کر جدوجہد کرنے کے سوائے اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ہمارے مطالبات انتہائی بنیادی نوعیت کے تھے مثلاً رسک الاؤنس دیا جائے، جو کہ اس وقت باقی صوبائی حکومتیں فراہم کر رہی ہیں۔ سڑکوں پر آنے سے پہلے ہم کافی عرصہ ان حکمرانوں اور افسران کے دفاتر کا چکر کاٹ کر ان سے استدعا کرتے رہے لیکن کسی نے ہماری ایک بھی نہیں سنی،بالآخر ہمیں سڑکوں پر آنا پڑا۔نرسز کی نمائندہ کا کہنا تھا ہم بھی اپنے حقوق کے لیے سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں لیکن جس قسم کی سیاست اس ملک میں ہوتی ہے وہ قابل نفرت ہے۔
مزید برآں مقررین کا کہنا تھاعورت کو اپنی عزت سمجھنے کی نفسیات در اصل اسے ملکیت میں رکھی جا سکنے والی کسی شے کی حیثیت کی وجہ سے ہے جوعورت کو کمزور اور کمتر ثابت کرنے کی کاوش ہوتی ہے اور یہ عمل سراسر دوغلے پن پر مبنی ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اس معاشرے میں عورت اور مرد کی ذہنی صلاحیتوں میں بھی فرق روارکھ کر اسے کمتر ثابت کیا جاتا ہے جو حقیقت کے متضاد ہے۔ مقررین کا کہنا تھا محنت خواتین کی معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف تو ان سے کم اجرت پر زیادہ کام لیا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں کام کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ خواتین کو سیاسی دھارے میں شریک کرتے ہوئے اس طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے لیے منظم کرنا ہوگا، کیونکہ خواتین کے استحصال اور غلامی کی بنیادیں فراہم کرکے انہیں پروان چڑھانے والے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کئے بغیر خواتین کی آزادی نا ممکن ہے۔ آخر میں محنت کشوں کا عالمی ترانہ ’’انٹر نیشنل‘‘ گا کر پروگرام کااختتام کیا گیا۔