|تحریر: انعم خان|
چینی کہاوت ہے کہ جب سوئی ہوئی عورت جاگتی ہے تو پہاڑ ہلا دیتی ہے۔کمزور، لاچار اور بے بس سمجھی جانے والی یہ مخلوق، جسے عورت کہا جاتا ہے، آج خود سے منسوب ان خیالات کو اپنے الٹ میں بدلتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک میں انقلابی تحریکوں کی قیادت کرتی نظر آ رہی ہے۔ سال 2019ء میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے جاری بحران اور محنت کش طبقے پر ہونے والے معاشی و سیاسی حملوں کے ردعمل میں ابھرنے والی تمام تر انقلابی تحریکوں میں نوجوان لڑکیاں صف اول میں لڑتی ہوئی نظر آئیں۔ مثلاً، سوڈان جیسے انتہائی مذہبی و رجعتی اور پسماندہ سمجھے جانے والے معاشرے میں ابھرنے والی انقلابی تحریک کی قیادت میں نوجوان لڑکیاں پیش پیش نظر آئیں، خاص کر 22 سالہ انجینئر نگ سٹوڈنٹ آلاء صلاح کی انقلاب کے نعرے لگاتے ہوئے ویڈیو کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ سو ڈ ا ن کی انقلابی تحریک کے دوران قیادت کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین اس تحریک میں ہر سطح پر متحرک نظر آئیں جنہوں نے ہڑتالی کمیٹیوں، دھرنوں، منظم احتجاجی راستوں اوروہاں لاگو کردہ کرفیو سے بارہا انحراف کرنے عمل میں بھرپور کردار ادا کیا اور کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض آمر عمر البشیر کا تختہ الٹ دیا۔ اسی طرح، ہانگ کانگ، لبنان اور عراق اور چلی کی عوامی تحریکوں میں خواتین اگلی صفوں میں لڑتی ہوئی نظر آئیں۔
عراق میں گزشتہ چار ماہ سے بیروزگاری، سماجی سہولیات کے فقدان اور کرپشن کے خلاف جاری حکومت مخالف مظاہروں میں بہت بڑی تعداد میں خواتین شرکت کررہی ہیں۔ اس تحریک کے دوران جب شیعہ لیڈر مقتدیٰ الصدر نے خواتین کواحتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے سے روکا اور اپنے حمایتیوں سے احتجاج میں شریک ہونے والی خواتین پر حملے کروائے تو اس کے خلاف پہلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر خواتین نے نہ صرف حکومت بلکہ خود مقتدیٰ الصدر کے خلاف احتجاجی مارچ شروع کر دیئے۔ احتجاجی خواتین کا کہنا ہے ہم بطور خواتین صرف اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کر رہی بلکہ ہم تمام عراقی عوام کے حقوق کی جدوجہد کے لیے نکلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتدیٰ الصدر ہوتا کون ہے ہمیں صنفی بنیادوں پر اس تحریک سے الگ کرنے والا۔ الصدر کی اس حرکت کے بعد احتجاج کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ کئی شہروں میں مرد ہاتھوں کی زنجیر بنا کر احتجاجی خواتین کا ان مذہبی پیشواؤں سے تحفظ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ ”آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح تحریر سکوائر (بغداد شہر میں احتجاج کا مرکز) کے اندر اور باہر ہمارے ساتھ رویوں اور ہم سے متعلق نفسیات میں فرق پایا جاتا ہے“۔ 13فروری کے دن ملک بھر میں لاکھوں خواتین نے احتجاجی تحریک پر ہونے والے حکومتی حملوں اور تشدد کے خلاف ملک بھر میں اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہرے کیے۔
اس کے علاوہ ہمسایہ ملک ہندوستان میں مودی سرکار کی جانب سے پیش کردہ شہریت کے کالے قانون کے خلاف چلنے والی تحریک نے تقسیم ہند کے بعد پہلی بار پورے ہندوستان کومشترکہ جدوجہد کے عمل میں جوڑ دیا ہے۔ دنیا میں ”ریپ کیپیٹل“ کے نام سے پہچان بنانے والے درالحکومت دہلی کے علاقے شاہین باغ میں خواتین کے احتجاجی دھرنے کو ساٹھ دن سے اوپر ہوچلے ہیں۔ دہلی کے علاوہ بھی ملک کے کئی شہروں میں شہریت کے کالے قانون کے خلاف ایک سے زائد دھرنے جاری ہیں جن میں نہ صرف اکثریت خواتین پر مشتمل ہے بلکہ اکثر علاقوں میں ان احتجاجی دھرنوں کی قیادت بھی خواتین ہی کر رہی ہیں۔ چند سال قبل، کشمیر میں سکول اور کالج کی طالبات ہندوستانی ریاست کے بدترین جبر کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں اور قابض بھارتی فوجوں پر پتھر برساتی نظر آئیں۔ اس سلسلے میں احتجاجی تحریکوں پر گہری نظر رکھنے والے سماجی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اگر آپ کوئی تحریک مسلسل اور کامیاب ہونے تک چلانا چاہتے ہیں، تو اس میں خواتین کی شرکت ناگزیر ہے کیونکہ ایک تو خواتین کی آخری حد تک لڑنے کی مستقل مزاجی اور منظم کرنے کی صلاحیت کسی بھی تحریک کی سیاسی صحت کا تعین کرتی ہے او ر دوسرا خواتین صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے سوچتی اور جدوجہد کرتی ہیں۔
خواتین کا ان احتجاجوں میں ہر اول کردار ادا کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بظاہر رجعت کے خول میں لپٹے معاشروں کا اجتماعی شعور جب انقلابی تحریکوں کے راستے پرسفرکا آغاز کرتا ہے تو سب سے پہلے یہ خود پر سے مصنوعی طور پر مسلط کردہ صنفی تفریق کے خول کو چیر دیتے ہیں۔ عام حالات میں بے شعور سمجھی جانے والی خواتین کا مقام صف اول میں یہ خود ہی بناتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے ہوتے بحران نے جہاں پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے، اور بحران کا تمام تر بوجھ جبری کٹوتیوں، نجکاری اور معاشی لبرلائزیشن کی صورت میں عام عوام پر ڈالا گیا ہے جبکہ دوسری طرف سرمایہ داروں اور بینکاروں کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، وہیں اس بحران نے محنت کش خواتین کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔ بڑھتے معاشی جبر، معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ اور اس پر سماجی و ثقافتی جبر نے نام نہاد پہلی دنیا میں بھی خواتین کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے احتجاجوں اور تحریکوں کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس سال خواتین کا عالمی دن ایک ایسے وقت میں منایا جائے گا جب پوری دنیا بے نظیر سماجی دھماکوں کی لپیٹ میں ہے جس میں محنت کش خواتین اپنے مرد محنت کش ساتھیوں کے شانہ بشانہ اس نظام کے خلاف اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں صنفی اور معاشی جبر کے خلاف لاکھوں کے احتجاجی مظاہروں نے لبرلزم کی قلعی کھول کر کھ دی ہے جو کہ بطور نظریہ کب کا اپنا جواز کھو چکا ہے۔ اس سال بھی، خواتین کے عالمی دن پر ہمیں پوری دنیا میں خواتین سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کے خلاف سڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آئیں گی۔ ایسے میں پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک میں جہاں خواتین پر جبر کے بڑھتے واقعات کے خلاف عوامی غم وغصے اور نفرت بڑھ رہی ہے وہیں حکمران طبقے کے بڑھتے معاشی حملوں کے خلاف بھی محنت کش خواتین، مرد محنت کشوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں ہیں۔
اس حوالے سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں خاص کر صنفی جبر اور امتیاز کے خلاف بڑھتے ہوئے غصے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی شعور کی تبدیلی کا عمل ذرا دھیرے ہی سہی لیکن اپنی جگہ بناتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ زینب، فرشتہ، سانحۂ ساہیوال اور اس کے علاوہ ہر دن سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے بچوں اور خواتین کے خلاف تشدد، زیادتی اور قتل کے واقعات لوگوں کے غم و غصہ کو بڑھا اور صبر کے پیمانے کو لبریز کرتے چلے جا رہے ہیں۔
سرمایہ داری کے زوال نے اپنا اظہار محض معاشی زوال میں نہیں بلکہ فلسفے، سیاست، آرٹ، ثقافت کے ساتھ ساتھ، انسانی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ کا اظہار انسانی نفسیات کے اندر، سماجی اور رشتوں کی گراوٹ کی صورت میں بھی کیا ہے۔ جہاں پہلے سے موجود ہر چیز اور رشتہ اپنے وجود کا جواز کھو رہا ہے لیکن ان سب کا کوئی واضح متبادل بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہاں پاکستان میں نظام کی زوال پذیری معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ ثقافتی، سماجی اور نفسیاتی بیماریوں اور الجھنوں کی بڑھوتری کے علاوہ صنفی جبر میں ہونے والے ہولناک اضافے کی صورت میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ ایک طرف تو صنفی جبر معاشرے کی تہوں میں معمول کی صورت میں نظر آتا ہے تو دوسری جانب حکمرانوں اورریاست کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائیوں میں ایک دوسرے کی عیاشیوں کی کہانیاں زبان زد عام کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آئے روز کئی دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آتے ہیں جنہیں بعد میں دبانے اور جھٹلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں میں خواتین کے حق میں تقریریں اور کبھی کبھار قانون سازی کرنے والے بر سر اقتدار صاحبان کی یہاں کے لبرل اور فیمینسٹ خواتین و حضرات تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، حال ہی میں ان ”حاکم شرفاء “ کا حقیقی چہرہ ایک خاتون نے بے نقاب کیا، جس پر ان خواتین و حضرات نے ابھی تک چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ لاہور میں دارالامان کاشانہ میں رکھی جانے والی بے سہارا بچیوں کوپنجاب اسمبلی کے ایوانوں کے درندہ حکمرانوں کو عیاشی کے سامان کے طور پہنچانے کے خلاف، آواز اٹھانے والی افشاں کو پہلے دھمکیاں دی گئی، پھرغائب کیا اور پھر ان سفاک حکمرانو ں نے اسے قتل کروادیا ہے۔ حکمران طبقے کی درندگیوں کے کارنامے کے حوالے سے حال ہی میں ایک اور بڑا واقعہ سامنے آیا جس میں نوجوان لڑکیوں کے والدین کو شادی کا جھانسہ دے کر پاکستان سے چین میں جسم فروشی کے لیے فروخت کیا جارہا تھا، نجی ٹی وی چینلز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکمرانوں نے چینی حکمرانوں سے دوستی خراب ہونے کے خدشے کے سبب پاکستان میں اس کی ہونے والی تحقیقات کو رکوادیا گیا۔ اسی طرح، بلوچستان یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹلز میں پوشیدہ کیمرے لگے ہونے کا انکشاف ہوا، اس گھناؤنے عمل میں نہ صرف وائس چانسلر بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی کی سیکورٹی پر معمور ادارے اور پوری صوبائی انتظامیہ کی معاونت اوربراہ راست سرپرستی کے بغیر اتنی بڑی بیہودگی کر نے کا کوئی عام اہلکا ر اپنے تئیں سوچنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ مگر بلوچستان جیسے علاقے، جس میں نام نہاد قبائلی روایات اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کی بہت باتیں سننے کو ملتی ہیں، میں اس گھناؤنے فعل کے خلاف نا صرف طلبہ بلکہ سماج کی کم وبیش تمام تر پرتوں کی جانب سے غم و غصے کے اظہار اور احتجاج، عوامی شعور میں تبدیلی کی واضح غمازی ہے۔ بد ترین ریاستی و قومی جبر اور رجعتی قبائلی روایات میں جکڑے اس سماج میں ایسے واقعے کے خلاف طالبات کا سامنے آکر نفرت کا اظہار کرنا ایک غیر معمولی امر ہے جو یہ واضح کرتا ہے کہ جہاں سرمایہ داری کی غلاظتیں پسماندہ سے پسماندہ ترین علاقوں میں رچ بس چکی ہیں وہیں ان غلاظتوں کے خلاف عوامی نفرت بھی پنپ رہی ہے۔ منظم ہراسانی کے اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی ابھی تک مجرموں کو سزائیں دینا تو درکنار بلکہ ان کی نشاندہی کا عمل ہی مکمل نہیں کیا گیا۔ اس کے خلاف ہونے والے بے تحاشا احتجاج بھی چیخ چیخ کر حقیقی طلبہ نمائندوں کی عدم موجوگی کا اظہار کرکے بالآخر ختم ہو گئے۔ کیونکہ خاندانی خاص کر قبائلی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھنے کے خوف کے سبب متاثرہ طالبات میں سے کسی نے بھی آگے آکریہ قبول کرنے کی کہ ان کی بھی ویڈیوز بنائی گئی ہیں، ہمت نہیں جتا ئی، کیونکہ اگر وہ اسے قبول کرتی تو انہیں والدین سمیت خاندان اور معاشرے نے قبول ہی نہیں کرنا تھا، خاص کر پاکستان جیسے پسماندہ معاشرے میں جہاں عورت کی زندگی کا حتمی مقصد، یعنی شادی کے لیے اس لڑکی کو کسی نے قبول نہیں کرنا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یونیورسٹی ہاسٹلز تیزی سے ویران ہوتے جا رہے ہیں۔جبکہ مجرمان پہلے سے زیادہ طاقت کے احساس کے ساتھ کھلے گھوم رہے ہیں۔
معاشرے میں موجود صنفی تفریق کو جب مذہبی قدروں کا تڑکا لگتا ہے تو ایسا سماجی معمول جنم لیتا ہے جہاں مرد و زن کوایک طرف تو ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف اسی فاصلے کی بنیاد پر یہ ایک دوسرے کے لیے جادوئی طلسم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسے میں خواتین کو تو روز اول سے ہی اپنی خواہشات کو چھپانے، دبانے اور کچلنے کی تربیت دی جاتی ہے وہیں پرمردوں کی اس طرز کی کوئی تربیت نہیں ہوتی، بلکہ اپنی خواہشات کا اظہار اور تکمیل نہ کرنا ان کے لیے باعث شرم گردانا جاتا ہے۔فیمینسٹ حضرات یہ کہتے ہیں کہ ماؤں کو اپنے بیٹوں کی تربیت پر خاص توجہ دینا چاہیے، انہیں خواتین کا احترام کرنا سکھانا چاہیے، یہ حل بظاہر درست لگتے ہوئے بھی کوئی کارگر صورتحال نہیں پیدا کر سکتا کیونکہ خاندان بطور ادارہ ایک طبقاتی نظام کا اہم ستون ہے۔ جس کا ڈھانچہ پدر شا ہی، یعنی مرد کے عورت پر معاشی، ثقافتی واخلاقی غلبے پر مبنی ہے اوراس ڈھانچے کے تحت خاندانی بندھنوں کے تانے بانے مرد کی عورت پرمعاشی سبقت اس لیے یقینی بناتے ہیں کیونکہ خا ند ا ن جس نظام کا ماتحت ادارہ ہے، اِس نظام کی بنیاد ہی سرمائے کی طاقت و تسلط و ترویج کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ معاشی طور پر پسماندہ ممالک میں اس غیر فطری صنفی تقسیم کی اخلاقیات کے تحت جنم لینے والا ماحول خوفناک نفسیاتی بیماریوں اور رویوں کے جنم کا باعث بنتا ہے جس میں چھوٹے بچوں کے ساتھ بد فعلی کرنے والے درندے جنم لیتے رہتے ہیں جو کہ اکثر اوقات انہی کے قریبی عزیز و اقارب ہونے کی وجہ سے پکڑے جانے کے خوف کے تحت بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بد فعلی کرنے والے حضرات کی بڑی تعداد کا تعلق ہمارے ہاں موجود دینی تعلیم و تربیت یا براہ راست مدارس سے ہے کیونکہ یہ غربت اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ سماجی گھٹن کے تعفن کی انتہاوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
پدرشاہی طبقاتی نظام کی پیداراوار ہے جس کا اظہار صنفی جبر کی صورت میں ہوتا ہے، جنسی اور صنفی تشدد کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹابدترین ملک ہے۔ معاشی جبر کا اظہار صنفی بنیادوں پر بھی ہوتا ہے، خواتین کے معیارِ زندگی کے حوالے سے دنیا کے 167 ممالک کی فہرست میں پاکستان 164 ویں نمبر موجود ہے، اس سے بد تر تین ممالک میں یمن، شام اور افغانستان شامل ہیں جو کئی سالوں سے سامراجی جنگوں کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے اس بد ترین معیارِ زندگی کا تعلق محنت کش طبقے کی خواتین سے ہے، ویسے تو یہاں کے مرد محنت کشوں کے حالات بھی ابتر ہیں۔ اگر صنفی بنیاد پر یہاں کے مرد محنت کشوں کے معیارِ زندگی(اگر کوئی ہے تو!)پر سروے کروایا جائے تب بھی پاکستان کی رینکنگ میں زیادہ بہتری نہیں آنے والی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں جہیز کے نام پر دو ہزار خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے، یہ تعداد ہندوستان، ایران اوربنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے اور اس حوالے سے پاکستان دنیا کا سب سے بد ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ یعنی غریب والدین بچپن سے بیٹی کی شادی کے لیے صنفی تعلیم و تربیت جسے درست طور پر کموڈی فیکیشن کہنا چاہیے، کے ساتھ ساتھ اس کی مالیاتی قدرمیں درکار اضافہ نہیں کرپاتے جس کے سبب انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لڑکیوں کو خاص کر یہ تربیت دی جاتی ہو کہ آپ کو دکھاوے، بناؤ سنگھار، شکل و صورت، جسمانی ساخت پر توجہ دینی ہے کیونکہ یہی آپ کے کام آنا ہے، یہی کموڈی فیکیشن کا عمل خود لڑکیوں میں بھی ایسی بھیا نک نفسیات کو جنم دیتا ہے جہاں وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کی بجائے، انہیں ثانوی چیزوں کو استعمال میں لاتے ہوئے جینے کا ہنر سیکھتی ہیں۔ اس کے باوجود بھی، خاص کر یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کا جائزہ لیا جائے تو یہاں لڑکوں کی نسبت لڑکیاں ہی بڑی تعداد میں زیر تعلیم نظر آتی ہیں جو لڑکیوں سے متعلق پائی جانے والی بیوٹی فیکیشن کی ضرورت کو غلط ثابت کرتا ہے۔ لیکن آگے جا کر یہ المیہ بن جاتا ہے کہ شادی کے بعد پچاس فیصد لیڈی ڈاکٹر ز کو ڈگری لینے کے بعد میڈیکل پریکٹس سے روک کر گھر داری میں جھونک دیا جاتا ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، ”عورت کی عزت، وقار اور تحفظ تو چاردیواری میں ہے“ یہ اعداد و شمار اس ’ضرب المثل‘ بن چکی نفسیات کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ درست ہے کہ گھروں کے باہر بھی عدم تحفظ بدرجہ اتم موجود ہے لیکن اس کا رخ گھر وں سے باہر کی جانب پھوٹتا ہے کیونکہ ایک طبقاتی معاشرے میں خاندان کے ڈھانچے کی بنیاد جس نفسیات پر کھڑی ہوئی ہے، اس جبر کا آغاز گھر کی چار دیواری میں ہوتا ہے۔
جب ان مسائل کے سد باب کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو لبرلزا ور لگ بھگ ہر طرح کے نسوانیت پرست (دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے! لیکن اس پر ہم ذراسا آگے چل کر بات کریں گے) موجودہ نظام اور حالات میں رہتے ہوئے ہی اسے ”ٹھیک“ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، مثلاً قوانین سازی، قانون پر عمل در آمد، انفرادی اصلاح، مردوں کی سوچ کو بدلنا اور اسی طرح کے حل پیش کیے جاتے ہیں۔ قانون سازیاں کرنے والوں کے خواتین سے متعلق کردار پر تو ہم اوپر بات کر چکے ہیں، لیکن خواتین پر صنفی جبر کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اعداد وشمار، موجودہ قوانین کی بے وقعتی کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں جو یہ واضح کررہے ہیں کہ یہ قوانین خواتین کا تحفظ کرنے میں بالکل ناکام ہیں۔ اس سے اگلی بات کہ ان قوانین پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر رپورٹ نشر ہوئی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ خود پولیس کی جانب سے تنازعوں کوحل کرنے کے لیے مقامی جرگوں اور پنچائیتوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ عمل در آمد کرنے والے ادارے کے اپنے حالات ہیں۔ لیکن ان قانونی چکروں سے نکل کر پاکستان میں بحیثیت مجموعی نظام کو دیکھا جائے تو اس کی معیشت جو اس وقت صرف اور صرف عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی طاقتوں کی بھیک پر انحصار کرتے ہوئے چل رہی ہے، اس میں کسی بڑی سنجیدہ اصلاح تو دور کسی چھوٹی موٹی اصلاح کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں کی موجودگی اور مقامی حکمران طبقات کی تاریخی داخلی کمزوریوں کے سبب اصلاحات کے ذریعے پاکستان کو ایک ”جدید“ ترقی پسند سرمایہ دارانہ ریاست بنانا ممکن نہیں اور پچھلے ستر سال اس امر کا واضح ثبوت ہیں! اور ایسے وقت میں جب سرمایہ داری کے تاریخی بحران نے خود پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی تقسیم کو ختم کر دیا ہے، ایسے میں ان پہلی اور دوسری دنیا کے سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی خواتین پر صنفی جبر میں اضافہ ہوا ہے جو خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ کم از کم سرمایہ دارانہ حدود و قیود میں پدر شاہی اورصنفی جبر کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ یہ خود اسی طبقاتی نظام کی ہی پیداوار ہیں، نہ کہ اس میں ہونے والی کسی عارضی گڑبڑ کا نتیجہ!
مگر ایک طبقاتی سماج میں صنفی جبر بھی طبقاتی نوعیت رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ محنت کش خواتین سب سے بڑھ کر اس کا نشانہ بنتی ہیں۔ اور بلاشبہ اس جبر کے خلاف لڑائی بھی ایک طبقاتی لڑائی ہے جس میں محنت کش خواتین کے مفادات، حکمران طبقے کی خواتین کے مفادات سے نا صرف مختلف بلکہ یکسر الٹ ہیں۔ ایسے میں ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کے علمبردار صنفی جبر و تفریق کے خلاف تمام طبقوں کی خواتین کو ایک جھنڈے تلے اکٹھے کرنے کے درپے ہیں۔ حال ہی میں سندھ میں ایک خاتون ایم پی اے کو اس کے اپنے خاندان نے جائیداد کے جھگڑے کے سبب قتل کر ڈالا، ظاہر ہے کہ ہم مارکسسٹوں نے بھی اس ظلم کی شدید مذمت کی لیکن سوشل میڈیا پر ایک فیمینسٹ نے ہم مارکس وادیوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ”پدر شاہی میں عورت کا کوئی طبقہ نہیں ہوتا“ یعنی ایک ایم پی اے خاتون کا قتل ان نام نہاد پڑھے لکھے فیمینسٹوں کے لیے سماج میں موجود طبقاتی تفریق کی موجوگی کی حقیقت سے انکار کروا دیتا ہے۔ مگر انہی لوگوں کو سندھ ہی کی ایک اور ”خاتون“ فریال تالپور کا کردار ہرگز نظر نہیں آتا جو کسی طور معصوم نہیں بلکہ اپنے طبقے کے مردوں کی ہی طرح محنت کشوں کی طبقاتی دشمن ہے۔ جبکہ اس خاتون ممبر پارلیمان کا افسوس ناک قتل کے پیچھے بھی نجی ملکیت کارفرما تھی جس کا محنت کش طبقے کی خواتین صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہیں۔
ہم ان فیمینسٹوں کو محنت کش طبقے کی عظیم قائد روزا لکسمبرگ کی زبان میں جواب دیتے ہیں:
”اگر یہ حکمران طبقے کی خواتین کے ووٹ کا معاملہ ہوتا تو سرمایہ دار ریاست کو اس سے کوئی مسئلہ نہ ہوتا کیونکہ ان کی مدد سے وہ رجعت کی موثر حمایت حاصل کر سکتے تھے۔ بہت سی بورژوا خواتین جو ”مردانہ استحقاق“ کے خلاف شیرنیوں کی طرح دھاڑتی نظر آتی ہیں، انھیں اگر ووٹ کا حق مل جائے تو وہ بھاگ کر فرمانبردار بھیڑوں کی طرح قدامت پرست اور مذہبی رجعتی کیمپوں میں جاتی ہوئی نظر آتیں۔بلاشبہ وہ اپنے طبقے کے مردوں سے زیادہ رجعتی ثابت ہوتیں۔ سوائے چند ایک کہ جو کسی کام یا پیشے سے منسلک ہیں، بورژوا طبقے کی خواتین سماجی پیداوار میں حصہ نہیں لیتی۔ وہ اپنے مردوں کی محنت کشوں سے کشید کردہ قدر زائد کی صارف کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ وہ سماج کے طفیلیوں کی بھی طفیلیاں ہیں۔ اور صارف عام طور پر بطور طفیلیہ اپنے ”حق“ کے دفاع میں، طبقاتی حکمرانی اور استحصال کے بلاواسطہ اداکاروں سے زیادہ خطرناک اور ظالم ثابت ہوتے ہیں۔ تمام عظیم انقلابی جدوجہدوں کی تاریخ نہایت خوفناک انداز میں اس امر کی تصدیق کرتی ہے۔ عظیم فرانسیسی انقلاب کی ہی مثال لے لیں۔ جیکوبنز کی ہار کے بعد جب روبسپئیر کو زنجیروں میں جکڑے پھانسی گھاٹ کی طرف لیجایا جا رہا تھا تو فتح کے نشے میں دھت ننگی ویشیا بورژوا خواتین گلیوں میں ناچ رہی تھیں اور انقلاب کے ہیرو کی نعش کے گرد بے شرم ناچ جاری تھا۔ اور 1871ء میں پیرس میں جب عظیم پیرس کمیون کو مشین گنوں سے شکست دے دی گئی تو محنت کش طبقے سے خونی بدلہ لینے کی دوڑ میں پاگل بورژوا خواتین اپنے پاگل ترین مردوں سے بھی آگے نکل گئیں۔ ملکیت رکھنے والے طبقے کی خواتیں ہمیشہ پاگل پن کی حد تک استحصال اور غلامی کا دفاع ہی کریں گی کیونکہ اس میں ہی وہ اپنے بیکار سماجی وجود کی بقا کے ذرائع تلاش کرتی آئی ہیں۔“(روزا لکسمبرگ، خواتین کا حقِ رائے دہی اور طبقاتی جدوجہد 1912ء)
ہم مارکس وادی حکمران طبقے کی خواتین پر صنفی جبر سے انکار نہیں کرتے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس جبر کے خلاف لڑائی، جوکہ ایک طبقاتی لڑائی ہے اور خواتین و مرد محنت کشوں کا طبقاتی فریضہ ہے، حکمران طبقے کی خواتین کے طبقاتی مفادات کے عین متضاد ہے اور وہ کبھی بھی اپنے طبقے کے مردوں کی طرح آسانی سے ان مراعات اور دولت کو ترک نہیں کریں گی۔ لیکن یہاں جب کسی اپر مڈل کلاس یا اپر کلاس کی خاتون کے ساتھ کوئی حادثہ ہوتا ہے تو خاص کر ہماری فیمینسٹوں کو صرف اسی کی تکلیف محسوس ہو پاتی ہے، میڈیا اور معلومات اور رائے عامہ بنانے والے سبھی ادارے بھی ایسے واقعات کو زیادہ اٹھاتے ہیں کیونکہ یہاں غریبوں اور محنت کشوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہونا ایک ایسا معمول بنا دیا گیا جس پر زیادہ حیرت نہیں ہوتی لیکن جب امیروں کے ساتھ کچھ حادثہ پیش آئے تو یہ بڑی دکھ کی بات اور بکنے والی کہانی بن جاتی ہے۔ پختونخوا میں جب محنت کش پولیو ورکرز کا قتل ہوتا ہے تب یہ عورتوں کے حقوق کے علمبردار اپنے محبوب مشغلے یعنی مولویوں کو گالیاں دیتے ہرگز دکھائی نہیں دیتے۔ مارکس وادی کبھی یہ نہیں کہتے کہ سماج میں موجود ہر جبر براہ راست طبقاتی تقسیم کا نتیجہ ہے لیکن ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ بالواسطہ طورپر ایسا ہی ہے۔ کنڈولیزا رائس، ہیلری کلنٹن اور اینجلا مرکل سے لے کر پاکستان کے ایوانوں کی پرتعیش زندگیوں سے محظوظ ہونے والی خواتین اور فیکٹریوں اور کھلیانوں میں زندگی کے ہاتھوں ہی روز و شب ہلاک ہونے والی خواتین کے جب حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو پھر ان کے مفادات کیسے ایک ہو سکتے ہیں۔یہ وہ سادہ سی ٹھوس حقیقت ہے جو واضح اور آشکارہونے کے باوجود ان فیمینسٹوں کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل ہی رہے گی مگر ہمیشہ ان کا منہ بھی چڑاتی رہے گی۔
اگرچہ ہم مارکس وادیوں کی یہ بات ہمارے فیمینسٹ دوستوں کو سب سے زیادہ بری لگتی یا پھر چبھتی ہے کہ پدر شاہی، صنفی جبرسمیت جبر کی تمام اقسام کا حتمی خاتمہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی جڑا ہے۔ حتیٰ کہ نام نہاد مارکسسٹ فیمینسٹ بھی اس بات پر ہم پر یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ ہم ہر مدعے کو اس نظام کے خاتمے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اوریعنی ہم موجودہ صورتحال میں اگر خواتین کے حالات میں کوئی بہتری آتی ہے تو اس کے لیے جدوجہد کرنے سے انکاری ہیں۔ پہلی بات تو ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس نظام کی موجودہ کیفیت میں کسی ایسی اصلاح کی گنجائش بھی ہے جوعورت کے حالات بہتر کرے؟ آج تک جو قانون سازی ہوئی بھی ہیں انہوں نے حالات بہتر کرنے میں کیا کوئی کردار ادا کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے، اس کے باوجود بھی اگر ایسا کچھ ہو تو ہم اس کی قطعاً مخالفت نہیں کرتے کیونکہ محنت کشوں کی زندگیوں میں ہونے والی چھوٹی موٹی آسانی بھی ان کے شعور کو بہتر کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ دوسرا ہم اس نظام کے ہمہ جہتی سائنسی تجزیے کی بنیاد پر یہ کہتے ہیں جس کی سچائی ہر دن خود حالات ثابت کر رہے ہیں کہ ا س نظام میں کسی چھوٹی سی اصلاح یا بہتری کی گنجائش ختم ہو چکی ہے، اسی لیے اس کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے جس کے لیے درست نظریات اور شعوری جدوجہد درکار ہے۔ انقلاب روس کے لیڈر لیننؔ نے کہا تھا کہ انقلابی نظریے کے بغیر انقلابی جدوجہد نہیں کی جا سکتی!نقلابی نظریے سے مراد اس سماج کو لاحق سرطان کی تشخیص اور علاج کے لیے درست آلے کا چناؤ ہے ورنہ آپ کی تمام تر دیانتداری اور محنت رائیگاں جائے گی! دوسروں سے منفرد نظر آنے لیے اپنے ساتھ شاید جبراً’سوشلسٹ‘ یا ’مارکسسٹ‘ کا سابقہ لگانے والے فیمینسٹ خواتین حضرات ”عورت آزاد،تو سماج آزاد“ جیسے نعرے لگا کر موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ’پدرشاہی‘ کے خاتمے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ میرؔ کا یہ شعر ان کے حالات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!
پدر شاہی طبقاتی نظام کی پیداوار ہے جس کی آخری کڑی سرمایہ داری ہے۔ طبقاتی نظام کے رہتے ہوئے پدرشاہی کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ یہ اسی کے خاندانی و سماجی ڈھانچے کو چلانے کا بنیادی طریقہ کار ہے،دوسرا عورت کو سماج سے کاٹ کر دیکھنا اپنے اندر انتہائی غیر فطری و غیر سائنسی عمل ہے کیونکہ عورت اس سماج کا جزو ہے جو سماج کے باقی ماندہ حصے سے ناقابل علیحدگی انداز میں جڑی ہوئی ہے۔ عملًا تو درکنار اسے تجریدی طور پر سماج سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسی لیے جب تک انسانی سماج مجموعی طور پر سرمائے کی زنجیروں، نجی ملکیت اور طبقاتی تفریق سے آزادی حاصل نہیں کر لیتا تب تک، عورت کو معاشرے کے کُل سے کاٹ کر الگ سے کوئی آزادی نہیں دلوائی جا سکتی۔ کیونکہ خود ”آزادی“ بھی محض کوئی تجریدی لفظ نہیں ہے بلکہ اس کے حصول کے لیے انسانی معاشرے کومادی بنیادیں فراہم کرنا ہوں گی، یعنی انسانی معاشرے کو منافع اور قلت سے آزاد کرواتے ہوئے ہی حقیقی آزادی اور اس کے ساتھ ہی جڑی عورت کی آزادی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔اوراس آزادی کے حصول کا اوزار مارکسزم کے نظریات ہیں نہ کہ فیمینزم!کیونکہ فیمینزم سرمایہ داری کے دفاع کا نظریہ ہے، جو کہ سرمایہ داری کو قائم رکھتے ہوئے ایسی تبدیلی کی مانگ کرتا ہے جو کہ سرمایہ داری کے بس میں ہی نہیں ہے۔ اسی لیے خود پدرشاہی کے خاتمے کا ہتھیار بھی سوائے مارکسزم کے اور کچھ بھی نہیں ہے! محنت کش خواتین کاعالمی دن بھی ہم سے یہی تقاضا کر رہا ہے کہ یہ نظام اور اس کی حولناکیاں اب خود چیخ چیخ کر اس کے خاتمے کا تقاضہ کر رہی ہیں۔مارکسزم کے واضح نظریات کی روشنی میں ایک انسان دوست سوشلسٹ سماج کی تعمیر کا فریضہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی مکمل کریں گے!