|تحریر: پارس جان|
’’کسی تاریخی عہد کی تبدیلی کا تعین ہمیشہ عورت کی آزادی کی طرف ترقی سے ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ عورت کے مرد کے ساتھ تعلق میں، کمزور کے مضبوط کے ساتھ تعلق میں ہی وحشت کے اوپر انسانی فطرت کی برتری سب سے زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ عورت کی آزادی کا درجہ ہی عمومی آزادی کا فطری پیمانہ ہے۔ ‘‘(چارلس فوریئر)
انسانی شعور کی ترقی عملاً مادی حالات کے مرہونِ منت ہوتی ہے۔ چونکہ مادی حالات روز روز معیاری تبدیلی کے عمل سے نہیں گزرتے، اسی وجہ سے برسوں، عشروں، صدیوں اور بعض اوقات ہزاریوں تک سماجی بنتر اور ساخت کی یکسانیت کے باعث انسانی شعور تغیر کے خلاف مزاحمت کے معمول کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارا ماحول بظاہر ویسا ہی ہے جیسا ہمیں آباؤ اجداد کی طرف سے ورثے میں ملا۔ اور سینہ بسینہ چلنے والی کہانیوں کی شہادت کی بنا پر یہ نتیجہ بھی راسخ عقیدے کی طرح مسلمہ ہوتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو بھی یہ سب کچھ اسی طرح ورثے میں ملا ہو گا۔ خاص طور پر مذہب، اخلاقیات، ریاست، خاندان، معاشی قوانین اور انسانی فطرت کے بارے میں تو سماجی شعور ہٹ دھرمی اور بسا اوقات استبدادی ردِ عمل اختیار کر لیتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جوں جوں انسان ترقی کی منازل طے کرتا گیا، یہ ہٹ دھرمی بھی کم ہونے کی بجائے کسی نہ کسی شکل میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ ماسوائے سرمایہ دارانہ انقلابات کے ابتدائی سالوں کے یا یوں کہہ لیجئے کہ غیر معمولی حالات یعنی انقلابات کے، سماجی شعور کی عمومی حرکت کی سمت اور وطیرہ ٰٓایسا ہی رہا ہے۔ اس کے برعکس مارکسی نظریہ اپنی بنیاد ہی تغیر کے واحد ازلی اور ابدی اصول پر استوار کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ خاندان، مذہب اور ریاست سمیت کوئی بھی سماجی مظہر ازلی اور ابدی نہیں ہے۔ تاریخی عنصر ہی مارکسی سائنس کا طرہ امتیاز ہے۔ اس حوالے سے خواتین کے متعلق جو عمومی سوچ نہ صرف مردوں میں بلکہ خود خواتین میں پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ خواتین، فطری طور پر کمزور، معاشی و سماجی طور پر صنفِ مخالف کے مرہونِ منت اور ذہنی و تخلیقی سرگرمیوں سے لا تعلق محض ایک شے کی حیثیت رکھتی ہیں اوریہ حیثیت نہ تو کبھی تبدیل ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ سائنسی بنیادوں پر تاریخ کا مطالعہ مارکسی طریقہ کار کو بار بار درست ثابت کر تا ہے۔
خواتین تاریخ کے آئینے میں
انتھروپالوجی یا بشریات جیسے جدید علوم یہ ثابت کرتے ہیں کہ عور ت کی سماجی حیثیت ہمیشہ سے مغلوب یا مجہول نہیں رہی بلکہ انسانی ارتقا کے ابتدائی سالوں میں مرد اور عورت میں کسی قسم کی سماجی تفریق موجود نہیں تھی۔ انسان کا حقیقی مقابلہ فطرت سے تھا۔ موسم اور جسمانی طور پر اپنے سے زیادہ طاقتور جانوروں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے انسان اجتماعی دفاعی ردِ عمل پر انحصار کرنے کے علاوہ کچھ اور سوچنے یا کرنے کا اہل ہی نہیں تھا۔ ایسے حالات میں انسانوں کے مابین صنفی، معاشی یا کسی بھی قسم کی اونچ نیچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتاتھا۔ پہلی تفریق جو مرد اور عورت کے مابین نمودار ہوئی وہ خالصتاً حیاتیاتی تھی اور اس سے سماجی حیثیت پر کسی بھی قسم کے مثبت یا منفی اثرات خارج از امکان تھے۔ عورتیں بچوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے الگ سے وقت صرف کرنے پر مجبور تھیں اور مردوں کا زیادہ تر وقت شکار اور دفاعی نوعیت کے امور سر انجام دینے پر وقف ہوتا تھا۔ یہ شاید انسانوں کے مابین پہلی طرز کی تقسیمِ کار تھی مگر اس کی بنا پر مرد کی بجائے عورت کی سماجی برتری کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ انہی بنیادوں پر آگے چل کر مدرسری سماج کی مضبوط عمارت تعمیر ہوئی جو ہزاروں سال تک قائم رہی۔ خاندانی نظام بہت بعد کے پیداواری تعلقات کا نتیجہ ہے۔ خاص طور پر نیو لیتھک انقلاب کے بعد جب آلات کی ترقی نے انسانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے سے زیادہ طاقتور جانوروں کا با آسانی شکار کر لیتے تھے، ان کو پالتے تھے اور یوں گلہ بانی سے دودھ اور گوشت کی وافر مقدار پہلی دفعہ انسانوں کے تصرف میں آنا شروع ہوئی۔ ضرورت سے اضافی قدرِ زائد سے یہ انسان کا پہلا تعارف تھا۔ اگرچہ یہ فطرت پر انسانی غلبے کے حوالے سے ایک انقلابی جست تھی مگر ساتھ ہی اس کا منفی پہلو بھی یہی تھایعنی اضافی پیداواریا قدرِ زائد۔ اسی قدرِ زائد نے انسانوں کے مابین ہر قسم کی سماجی تفریق کے بیج بوئے۔ اس ترقی کی قیمت ذہنی اور جسمانی محنت کی تقسیم کی شکل میں سماج کی ایک وسیع آبادی کو ادا کرنی پڑی جو ایک محکوم طبقے کی شکل اختیار کر گئے۔ اسی سے قبائلی طرزِ معاشرت سے غلامی کا نظام نمودار ہوا۔ ذہنی اور جسمانی محنت کی تقسیم نے عورت کے بھی سماجی مرتبے کو کمتر کرنے کے لیے موافق حالات پیدا کیے۔ اور حیاتیاتی تفریق کی بنا پر قائم ہونے والی محنت کی تقسیم اب ایک سماجی اصول کی شکل اختیار کرنا شروع کر گئی۔ یاد رہے کہ کھیتی باڑی کا آغاز خود خواتین نے ہی کیا تھا جس سے انسان بربریت سے نکل کر تہذیب کے مرحلے تک پہنچا۔ مگر بعد ازاں غلاموں کے ذریعے پیداوار کے عمل نے عورتوں کو معاشی سرگرمی سے آہستہ آہستہ لیکن تقریباً مکمل طور پر ہی بیدخل کر دیا۔ اب بچے پالنا اور کھانا پکانا یا دیگر گھریلو کاموں تک عورت محدود ہو کر رہ گئی۔ اس کے متوازی زائد پیداوار سے حاصل ہونے والی مراعات کی وراثت کے سوال نے سر اٹھانا شروع کیا۔ آزادانہ جنسی تعلقات میں وراثت کی منتقلی کا عمل پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے جنسی تعلقات میں سماجی بندشوں کا آغاز ہونا شروع ہوا تاکہ مراعات کی منتقلی کے لیے بچوں کو سماجی شناخت عطا کی جا سکے۔ یہ خاندان کی ابتدا تھی۔ یہ عمل سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھا۔ اس میں پہلے پہل کافی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ سینکڑوں سال کی داخلی کشمکش کے بعد ہی سماجی تعلقات کا توازن نئی سماجی تشکیلات کا باعث بنا۔ مدرسری سماج کا خاتمہ ہوا اور پدرسری سماج معرضِ وجود میں آیا۔
بورژوا مورخین ہمیشہ تاریخ کے اوپر بیان کردہ دور کی پردہ پوشی کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے فلسفے اور سوچ کے مطابق طبقاتی تضادات عین فطری اور ابدی ہیں اور عورت کی سماجی طور پر کمزور حیثیت اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یوں پدرسری اور نجی ملکیت کو ایک دوسرے کو فطری اور لازمی ثابت کرنے کے لیے بطور دلیل استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں ایک کے خلاف طرزِ فکر دوسرے کے اوپر بھی سوالات اٹھانے کا باعث بنتا ہے۔ جدید سائنس کی تمام تر دریافتیں مدرسری سماج کے ارتقائی مرحلے کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرتی جا رہی ہیں۔ یوں بورژوا رشتے خود سائنس کی ترقی کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ اسی لیے ان سائنسی ایجادات کو بھی غلط فلسفیانہ توضیحات کے ذریعے مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ عورت کے سماجی کردار کی طرف بورژوا دانشوروں اور نقادوں کا رویہ عموی طور پر نہ صرف تاریخ بلکہ تمام علوم اور خود سائنس کی طرف بورژوا طبقے کی بیہودگی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ نہ صرف یہ کہ نیو لیتھک انقلاب کے بیج خواتین نے بوئے تھے بلکہ تمام تر تاریخی انقلابات میں خواتین نے مثبت اور بعض اوقات قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ خواہ روم اور عرب کے غلاموں کی بغاوتیں ہوں، مشرق اور مغرب کے کسانوں کی شورشیں ہوں یا جدید صنعتی مزدوروں کی سیاسی جدوجہد ہو عورتوں نے ہمیشہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں۔ خاص طور پر انسانی تاریخ کے دو عظیم ترین انقلابات یعنی انقلابِ فرانس 1789 ء اور بالشویک انقلاب 1917ء کا تو آغاز ہی خواتین نے کیا تھا۔ بلکہ اگر ان انقلابات میں خواتین کے کردار کو نکال دیا جائے تو ان انقلابات کے کردار کا تعین ہی نہیں کیا جا سکتا اور ظاہر ہے کہ ان کے وقوع پذیر ہونے کا بھی جواز باقی نہیں رہتا۔ یوں جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ تمام انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے اور انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے بورژوا مورخین کی خواتین کو تاریخِ انسانی میں محض مجمول عنصر یا شے کے طور پر ثابت کرنے کی تمام تر کوششوں کے بر عکس خواتین تاریخ کے انجن کی ڈرائیونگ سیٹ پر اپنے محنت کش بھائیوں کے شانہ بشانہ سرگرمِ عمل نظر آتی ہیں۔
مارکسی فلسفہ اور خواتین کی سماجی حیثیت
کارل مارکس بھی خواتین کے بارے میں فوریئر کے نقطہ نظر کا بہت بڑا وکیل ہے لیکن وہ اس بات کی وسعت اور اثر پذیری میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے کیونکہ کارل مارکس کے خیال میں سماجی ترقی کے پیمانے کے طور پر خواتین کی سماجی حیثیت کے اصول کے اطلاق کا مقصد محض یہ نہیں کہ عورتوں کو اپنی بہتری کی جدوجہد کے لیے اکسایا جائے بلکہ اس کے خیال میں یہ عمل تاریخی ارتقا میں نہ صرف پہلے ہی جاری و ساری ہے بلکہ اس کو آگے بڑھانے کی اہم قوتِ محرکہ ہے اور نہ ہی محض مردوں کے ضمیر کو جگا کر ان کو عورتوں کے ساتھ خوش اسلوبی کی طرف مائل کرنا مقصود ہے بلکہ کارل مارکس اس اصول کو اپنے جدلیاتی طریقہ کار کی بنیاد پر سماج کے مطالعے اور اس کی تبدیلی کی لازمی شرط کے طور پر دیکھتا ہے۔ مارکس کے خیال میں جدلیاتی مادیت کے اصولوں کا سماج پر اطلاق ہر صورت میں اسی نتیجے کو جنم دے گا کہ ترقی کا پیمانہ عورت کی سماجی حیثیت سے بہتر اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد قدر کے قانون پر ہے جوآج تک کی تمام تر ترقی کا نقطہ معراج ہے۔ سماجی بیگانگی اس کی ناگزیر بائی پروڈکٹ ہے۔ وہ وضاحت کرتا ہے کہ سرمایہ داری سے سماج کو مزید آگے لے جانے کے لیے ایسے نئے سماجی تعلقات کی ضرورت ہے جو محض قدر کی خام اور مغائرت پر مبنی پیداوار کے مرہونِ منت نہ ہوں۔ یعنی تمام انسان ایک دوسرے کو ان کی پیدا کردہ یا ان کے ذریعے پیدا کردہ اقدار کے پیمانے کے تحت نہ پرکھیں بلکہ خود انسان کی قدر اور افادیت کی بنیاد پر پیداوار اور سماجی نظم و نسق کے اصول وضع کیے جا سکیں۔ اس حوالے سے خواتین سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہیں کیونکہ زائد پیداوار کی ہوس پر مبنی نظام کی وجہ سے عورتوں کی طرف حقارت سرمایہ داری کے معمول کا بنیادی خاصہ بن چکی ہے۔ گویا سرمایہ داری سے آگے جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ خواتین و حضرات کو سماجی تعلقات کے اس پیمانے پر پہنچنا ہو گا جہاں انسان کی قدر ان کے مرد یا عورت ہونے یا کسی بھی دیگرمجرد تشریحات (مزدور، کسان، سرمایہ دار، وکیل، ڈاکٹروغیرہ) کی بنیاد پر ہونے کی بجائے ان کے ٹھوس کردار اور تخلیقی افعال کی بنیاد پر ہو سکے۔ اور ان تمام تر تجریدات میں مرد اور عورت کا باہمی تعلق ہی بہترین بنیادی پیمانہ ہے۔ ’ذاتی ملکیت اور کمیونزم ‘ (1844ء) میں مارکس لکھتا ہے کہ ’’ایک فرد کا دوسرے فرد سے براہِ راست، فطری اور ضروری تعلق مرد اور عورت کا تعلق ہے۔ مرد اور عورت کا تعلق ہی انسانی تعلقات کی مختلف شکلوں میں سب سے زیادہ شفاف( Genuine)ہے۔ اسی تعلق کی نوعیت سے پتہ چلتا ہے مرد وزن کی فطرت کس حد تک انسانی ہو چکی ہے یا اس کے اندر انسانی جوہر یا خاصہ کس حد تک اس کا فطری جوہر بن چکا ہے۔ اسی تعلق سے پتہ چلتا ہے کہ مردو زن کی ضرورت کس حد تک انسانی ہو چکی ہے یا پھر کس حد تک دوسرا فرد اس کے لیے ایک انسان کے طور پر ضرورت بن چکا ہے۔ ‘‘
اسی طرح مارکس تمام سماجی مظاہر کی طرح مرد اور عور ت کے تعلقات کو بھی جامد کی بجائے متحرک شکل میں دیکھتا ہے۔ وہ عمومی طور پر فطرت اور سماج کی ثنویت کی سوچ کو رد کرتا ہے۔ اس کے خیال میں یہ دونوں الگ الگ وجود نہیں ہے بلکہ ان کے مابین تعلق جدلیاتی ہے۔ انسان بھی فطرت کا ہی حصہ ہیں اور سماج کی بہتری کی جدوجہد میں انسان فطرت کے خلاف کام کرتے ہوئے فطرت کے اور خود اپنے جوہر کویعنی اپنے آپ کو تبدیل کرتا ہے۔ یوں فطرت کا کوئی تاریخ سے ماورا(transhistorical) تصور بن ہی نہیں سکتا۔ فطرت خود مخصوص تاریخی حالات کے مرہونِ منت ہوتی ہے۔ یوں مارکسی نقطہ نظر سے ابتدائی تاریخ میں مرد اور عورت کے مابین ہونے والی کام کی تقسیم جس کی بنیاد حیاتیاتی تفریق پر تھی، وہ مکمل طور پر فطری نہیں تھی بلکہ اس کا فطری پن پیداواری تعلقات کی انتہائی غیر ترقی یافتہ یا خام ترقی کے مخصوص مرحلے کی وجہ سے تھا۔ یعنی اس وقت زیادہ جسمانی مشقت کی ضرورت کے باعث حیاتیاتی مخصوصیت کی وجہ سے عورت کا کردار محدود ہوامگر عورت کی یہ نام نہاد ’فطری ‘ کمزوری حالات اور پیداواری تعلقات میں تبدیلی کے ساتھ ناگزیر طور پر تبدیل ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب صنعتی انقلاب کے بعد فوری طور پر گھریلو دستکاری کا پرانا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تو خواتین کو وہاں چھوڑ کر مرد محنت کش فیکٹریوں کا ایندھن بننے کے لیے بھاگے مگر جوں جوں صنعت اور مشین میں ترقی نے انسانی (خاص طور پر جسمانی) مشقت پر انحصار کو کم کرنا شروع کیا تو خواتین اور بچے بھی لیبر فورس کا حصہ بننے لگے۔ اس سے عورت کی سماجی حیثیت میں بڑی تبدیلی آئی۔ کیونکہ اب وہ خاندان کی فلاح و بہبود میں برابر کی حصہ دار بن گئی تھی اور اس کی غیر پیداواری گھریلو محنت سے اس کی صنعتی محنت کی قدر کئی گنا زیادہ تھی یعنی اس کی اپنی قدر میں اضافہ ہوا۔ نیزوہ اپنے مالکان کی براہِ راست تحویل سے نکل کر مشین کی تحویل میں آ گئی تھی جس کے ساتھ اس کا تعلق یکطرفہ نہیں بلکہ اس کے اپنے فعال کردار پر منحصر تھا۔ اس سے عورت کے شعور میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ اس تاریخی مرحلے کا کردار بھی دوغلا تھا ایک طرف عورتوں کی سستی محنت نے سرمایہ داروں کے استحصال میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا جبکہ عورتیں کم اجرت پر کام پر مجبور تھیں مگر ساتھ ہی اس نے عورت کی سماجی حیثیت کی تبدیلی میں ایک ترقی پسندانہ کردار بھی ادا کیا۔ نامور انقلابی دانشور الیگزنڈراکولنتائی نے اس عمل کو ایک جملے میں ایسے سمویا ہے۔ ’وہی قوتیں جنہوں نے ہزاروں سال تک عورتوں کو غلام بنائے رکھا، ترقی کے نئے مرحلے میں ان کی آزادی اور خود انحصاری کی راہ ہموار کر رہی ہیں‘۔ لیکن مارکس نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ پیداواری قوتوں کی ترقی کا عورتوں کی سماجی تبدیلی سے میکانکی تعلق نہیں ہے یعنی یہ عورتوں کی آزادی کا پوٹینشل محض تیکنیکی ترقی کے ذریعے ہی حقیقت کا روپ نہیں دھار لے گا بلکہ یہ سماج کی انقلابی تبدیلی کی عمومی جدوجہد کا ہی ایک حصہ ہے جس میں خود عورتوں کو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہو گا۔
مارکسی اساتذہ نے اس سے بھی آگے بڑھ کر مظلوم قومیتوں کی جدوجہد کی طرح خواتین کے حالات کی بہتری کی جدوجہد کو مزدور تحریک کا اٹوٹ انگ قرار دیا تھا۔ مگر جس طرح قومی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کا بنیادی اصول بھی قومی بنیادوں پر محنت کشوں کو تقسیم کرنے کی بجائے ان کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہوتا ہے ایسے ہی خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا مقصد بھی مرد اور عورتوں کو طبقاتی بنیادوں پر ایک کل میں جوڑنا ہی ہو سکتا ہے۔ اس بات کی جذباتی نہیں بلکہ معروضی توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر پیداواری عمل میں جسمانی محنت کی بجائے مشین پر بڑھتے ہوئے انحصار کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ عورتیں صنعت کی تمام برانچوں کے لیے محنت کی منڈی میں آ رہی ہیں۔ یوں ان کی آمد جہاں محنت کش طبقے کے مقداری اور معیاری توازن کو بھی تبدیل کر رہی ہے۔ ایسے میں محنت کشوں کے بیچ قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تمام تر تعصبات کی طرز پر عورت اور مرد کا صنفی تعصب بھی سرمایہ داروں کے لیے استحصال کو مزید بڑھانے اور مزاحمت کو کم سے کم کرنے کا موجب بنتا ہے۔ اس حوالے سے خواتین کی قوتِ محنت کی قیمت یعنی اجرت میں اضافہ بحیثیتِ مجموعی محنت کش طبقے کے مفاد میں ہے۔ اور اس ضمن میں جیتی گئی ہر مراعت قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ لیکن ان اصلاحات کے لیے کی گئی اجتماعی کوششیں ہر مرحلے پر کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ پیداواری تعلقات، نجی ملکیت اورآئنی ڈھانچے کی طبقاتی نوعیت کو ایکسپوز کر کے نظام کے خلاف بغاوت کے انقلابی جذبے کو تقویت دینے کا باعث بنے گی۔ یوں جیسے خواتین محنت کشوں کا فریضہ ہے کہ وہ تمام معاشی اور سیاسی مطالبات میں اپنے محنت کش مرد ساتھیوں کا ہاتھ بٹائیں، ایسے ہی مرد محنت کشوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواتین کے حالات میں بہتری کی ہر لڑائی کو اگلی صفوں میں جا کر لڑیں۔ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کی قائد اور بالشویک پارٹی کی لیڈ ر الیگزینڈراکولنتائی نے 1917ء کی پہلی آ ل رشین ٹریڈ یونین کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اس کی ان الفاظ میں وضاحت کی تھی۔ ’’باشعور محنت کشوں کو یہ ادراک ہونا چاہیئے کہ مردوں کی محنت کی قدر، عورتوں کی محنت کی قدر پر منحصر ہے اور مردوں کی محنت کو عورتوں کی سستی محنت سے بدل دینے کی دھمکی کے ذریعے سرمایہ دار مردوں کی اجرتوں پر دباؤ کو بڑھا سکتے ہیں۔ صرف کوئی کم فہم ہی اس سوال کی نزاکت کو نہ سمجھتے ہوئے اسے محض عورتوں کے مسئلے تک محدود کر سکتا ہے‘‘۔
نسوانیت پرستی کی ابتدا اور ارتقا
’صرف اسی حقیقت کی وجہ سے کہ عورتوں کی محنت کو عالمی منڈی میں شناخت میسر آئی، بورژوا خواتین نے اپنی سماجی پوزیشن میں نسبتی آزادی حاصل کی جو نسوانیت پرستوں کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔‘ (کولنتائی)
نسوانیت پرستی کی اصطلاح فرانسیسی زبان کے لفظ Feminisme سے ماخوذ ہے۔ اسے سب سے پہلے ایک یوٹوپیائی سوشلسٹ چارلس فوریئر نے استعمال کیا تھا مگر انگریزی زبان میں یہ 1890ء کی دہائی میں رائج ہوئی۔ عام طور پر اسی دور کو ہی نسوانیت پرستی کی ابتدا کا دور سمجھا جاتا ہے گویا خواتین اس سے پہلے اپنے حالاتِ زندگی میں بہتری کے لیے سرگرم ہی نہیں تھی۔ یہ درست ہے کہ ایک سیاسی رجحان کے طور پر نسوانیت پرستی اسی دور میں پروان چڑھنا شروع ہوئی مگر اس رجحان نے خواتین کی جدوجہد کو مہمیز نہیں دی بلکہ یہ خواتین کی مسلسل جدوجہد ہی تھی جس نے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اس سیاسی رجحان کی بنیادیں استوار کیں۔ اور اگر سرمایہ داری نظام کے آغاز سے خواتین کی جدوجہد کو دیکھا جائے تو پھر اس میں طبقاتی عنصر صاف طور پر دکھائی دے گا۔ انقلابِ فرانس میں ہم خواتین کے کردار کا پہلے حوالہ دے چکے ہیں مگر وہاں بھی محنت کش طبقے کی خواتین کی جدوجہد کے طریقہ کار اور مقاصد درمیانے طبقے یا نو آموز بورژوا طبقے کی خواتین سے یکسر مختلف تھے۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی خواتین محنت کش طبقے کی عمومی جدوجہد میں سرگرمِ عمل تھیں اور انکے الگ سے ایسے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے جنہیں محنت کشوں کے عمومی سیاسی مقاصد سے الگ کیا جا سکتا ہو۔ ٹریڈ یونین بنانے کا حق بھی محنت کشوں نے لڑ کر حاصل کیا تھا۔ اسی طرح صنعت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث خواتین کے لیے ووٹ کا حق بھی محنت کش طبقے کے سیاسی مفاد میں تھا۔
جوں جوں صنعتی پیداوار اور پیداواری قوتوں کی ترقی میں اضافہ ہوتا گیا تو خواتین کے لیے صنعت کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ پرانے خاندانی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث درمیانے طبقے کی بہت ساری خواتین بھی اپنے سماجی مرتبے اور ضرورتوں کی تکمیل کے لیے صنعتوں کا رخ کرنے لگیں۔ اپنی بقا کے لیے اب ان کا انحصار بھی نئے پیداواری تعلقات پر تھا۔ گویا اب پیٹی بورژوا یا سابقہ جاگیردارانہ خاندان سے پچھڑی ہوئی خواتین بھی محنت کی منڈی کی طرف راغب ہو رہی تھیں۔ اس سے قبل محنت کی منڈی میں مرد محنت کش بھاری اکثریت میں تھے۔ یوں جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے عورتوں کی سستی محنت کی فراوانی نے عمومی طور پر محنت کی منڈی میں کھلبلی پیدا کردی تھی۔ ایسے میں جہاں محنت کش نئی آنے والی مشینوں کو بھی بیروزگاری کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے اور بسا اوقات ان کو توڑ پھوڑ بھی دیتے تھے۔ یہ اس وقت پرولتاریہ کے شعور کی مخصوص کیفیت کی غمازی تھی۔ ایسے ہی وہ محنت کی منڈی میں آنے والی خواتین سے بھی نالاں رہتے تھے اور ان خواتین کا ایک حصہ بھی بالخصوص پیٹی بورژوا پسِ منظر کی خواتین ان مرد محنت کشوں کو اپنے رستے کی رکاوٹ سمجھنے لگیں۔ سرمایہ داروں کے لیے بھی یہ ضروری تھا کہ وہ اس تناؤ کو مزید تقویت دیں تاکہ محنت کشوں کی مقدار میں اضافے کے تناسب سے انکی سیاسی قوت میں اضافہ نہ ہو سکے۔ یہی وہ مخصوص حالات تھے جن کے بطن سے نسوانیت پرستی نے ایک سیاسی رجحان کے طور پر جنم لیا۔ تب سے لے کر آج تک خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں طبقاتی کشمکش کی سیاسی شکلوں کو واضح طور پر دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر کولنتائی کے الفاظ دہرانا چاہیں گے۔ ’پرولتاری خواتین کی اکثریت کے لیے مردوں کے مساوی حقوق کا مطلب بھی عدم مساوات میں برابر حصہ داری ہی ہے۔ لیکن بورژوا خواتین کے مٹھی بھر حصے کے لیے اس کے ذریعے نئی اور کبھی نہ دیکھی گئی مراعات اور حقو ق کی راہ ہموار ہو گی جو ابھی تک صرف ان کے طبقے کے مردوں کو ہی حاصل ہیں۔ لیکن ان بنیادوں پر بورژوا خواتین کی جیتی گئی ہر ایک مراعت ان کو اپنی بہنوں (محنت کش خواتین ) کا استحصال کرنے کا نیا آلہ فراہم کرے گی اور دو مخالف کیمپوں کی خواتین کے مابین تفاوت میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ان کے مفادات کا ٹکراؤ اور شدید ہو گا اور ان کی خواہشات کے مابین تضادمزید بڑھے گا‘۔
اپنے آغاز میں نسوانیت پرستوں نے خود کو محنت کش خواتین کی جدوجہد سے ممتاز کرنے کے لیے کام کی جگہوں پر بہتر حالات کی جدوجہد سے الگ تھلگ خواتین کے لیے ووٹ کے حق کی جدوجہد کو اپنا مرکزی مطالبہ بنایا۔ کمیونسٹوں نے ہر مرحلے پر ووٹ کے حق سمیت خواتین کے تمام بورژوا سیاسی مطالبات کی حمایت کی ہے مگر ساتھ ہی ہمیشہ واپس اسے محنت کش طبقے کی سیاسی جدوجہد کے اٹوٹ انگ کے طور پر منظم اور فعال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی جدوجہد 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے تہوار کی بنیاد بنی۔
خواتین کے عالمی دن کی ابتدا کا سوشلسٹ پسِ منظر
8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جا تا ہے۔ مگر جیسا کہ یکم مئی یعنی مزدوروں کے عالمی دن کی ابتدا اور پسِ منظر کے بارے میں بہت کم ٹریڈ یونین کارکن یا عام لوگ آگاہ ہیں، ایسے ہی خواتین کے عالمی دن کی تاریخ بھی خود خواتین کے حقوق کی جدوجہد کے نام نہاد علمبرداروں اور اس عالمی دن کو کاروباری سرگرمی میں تبدیل کر کے مظلوم و محکوم خواتین کے ساتھ بھونڈا مذاق کرنے والوں کی اکثریت کے لیے بالکل بیگانی ہے۔ 1908ء میں انٹرنیشنل لیڈیز گارمنٹس ورکرز یونین کے زیرِ اہتمام ایک ہڑتال منظم کی گئی تھی۔ اس ہڑتال کی یاد میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے 28 فروری 1909 ء کونیویارک میں ایک تقریب منعقد کی تھی۔ اگست 1910 ء میں کوپن ہیگن میں دوسری انٹرنیشنل کی طرف سے منعقد کی جانے والی انٹرنیشنل ویمن کانگریس میں جرمن سوشلسٹ لوئس زیٹز نے محنت کش خواتین کے عالمی دن کا تصور پیش کیا تھا۔ اور معروف انقلابی خاتون کلارا زیٹکن نے اس کی تائید کر دی۔ اس کانفرنس میں 17 ممالک سے تعلق رکھنے والی 100 سے زائد خواتین مندوبین موجود تھیں۔ تمام مندوبین نے اس تجویز کی حمایت کی۔ اگرچہ اس میٹنگ میں اس حوالے سے کسی مخصوص دن کا انتخاب نہیں کیا جا سکا۔ اس میٹنگ کا اہم ایجنڈا کام کرنے کی جگہوں پر خواتین کے لیے سازگار حالات کے حصول کی جدوجہد کو بحیثیتِ مجموعی سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد سے منسلک کرتے ہوئے ہر طرح کے جنسی امتیاز کو مسترد کرنا تھا۔ اس کانگریس میں منظور کی گئی قرارداد کی روشنی میں 1911ء میں پہلی مرتبہ محنت کش خواتین کا عالمی دن (IWWD)آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں 19 مارچ کو منایا گیا۔ اس موقع پر لاکھوں لوگ جن میں خواتین کی اکثریت تھی سڑکوں پر نکل آئے۔ صرف آسٹرو ہنگری ریاست میں300 سے زیادہ احتجاج ریکارڈ کیئے گئے۔ ان مظاہرین نے پیرس کمیون کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ پیرس کمیون میں خواتین نے، تعلیم، ووٹ کے حق، اپنے دفاع میں اسلحے کے استعمال کے حق، طلاق کے حق اور ریاست کی مذہب سے علیحدگی جیسے نعروں کے اوپر تاریخ ساز جدوجہد کی تھی۔
1913 ء میں روس میں پہلی دفعہ فروری کے آخری ہفتے والے دن خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ امریکہ میں عام طور پر فروری کی آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا تھا۔ ان دنوں مزدور تحریک عروج پر تھی۔ اور اس کے زیرِ اثر خواتین بھی اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج تھیں۔ 1914 ء میں پہلی مرتبہ 8 مارچ کو یہ دن منایا گیا۔ شاید اس کی وجہ اتوار کا دن تھا۔ مگر اس کے بعد 8 مارچ کو ہی محنت کش خواتین کا عالمی دن قرار دے دیا گیا۔ 1917ء کے روس میں برپا ہونے والے فروری انقلاب کا آغاز بھی خواتین کے عالمی دن سے ہی ہوا تھا۔ پیٹرو گراڈ میں خواتین نے عالمی جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے غذائی قلت کے بحران کے خلاف احتجاج کیا۔ ٹیکسٹائل کے مزدوروں نے ان خواتین سے یکجہتی کے لیے اپنے نمائندے بھیجے اور کہا کہ اس ضمن میں وہ یکجہتی ہڑتال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی سے انقلاب کو مہمیز ملی اور عوامی ہڑتال کا آغاز ہوا۔ اکتوبر میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد بالشویکوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد جب 1949 ء میں چین میں انقلاب برپا ہوا تو وہاں بھی 8 مارچ کو تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ غرضیکہ سوشلسٹ تحریک نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کواپنے اہم ترین مطالبات میں جگہ دی ہے۔ آجکل کی این جی اوز زدہ سول سوسائٹی کی خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی خواتین کو مزدوروں اور خواتین کے مسائل میں شاید ہی کوئی چیز مشترک نظر آتی ہو مگر ایک بات تو طے ہے جب جب محنت کش سرگرمِ عمل ہوئے خواتین محنت کشوں نے ہمیشہ ان معرکوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
مارکسی نسوانیت پرستی
’’خواتین کی اپنی محنت کے حالات میں بہتری اور بہتر زندگی کی جدوجہد کی تاریخ دراصل محنت کش طبقے کی اپنی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔‘‘ (کولنتائی)
بالشویک انقلاب کے بعد دنیا بھر کے محنت کشوں، مظلوموں اور محکوموں کو نئی شکتی اور توانائی ملی۔ پھر 1949ء کے انقلابِ چین نے بھی عالمی قوتوں کے توازن کو محنت کشوں کے حق میں جھکا دیا۔ تحریکوں کے خوف سے حکمران طبقات نے بہت ساری اصلاحات کیں اور عوامی معیارِ زندگی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نو آبادیاتی انقلابات نے دنیا بھر کی مظلوم قومیتوں کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں بھی نئے باب کا اضافہ کیا۔ محنت کش طبقے کی جدوجہد کے زیرِ اثر نسوانیت پرستوں کو بھی سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا پڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک میں سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث انقلابی تحریکوں کی پسپائی نے ماضی کے تعصبات کو ایک بار پھر بائیں بازو کی تحریکوں میں سرایت کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایسے میں بائیں بازو کی تنظیموں میں بیک وقت محنت کش طبقے کی نجات کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے کے رجحان نے تقویت پکڑنا شروع کی جس کے لیے مارکسی نسوانیت پرستی کی اصطلاح ایجاد کرنا پڑی۔ اس رجحان کو 60ء کی دہائی میں گلوریا مارٹن اور سوزن سٹرن کی قیادت میں امریکہ میں ویمن ریڈیکل آرگنائزیشن کی وساطت فروغ حاصل ہوا۔
اس رجحان کی قیادت کو شاید یہ زعم تھا کہ انہوں نے مارکسی نظریات میں غالباً کوئی بہت بڑا اضافہ کر دیا ہے۔ حقیقتاً یہ مارکسی نظریات سے مکمل طور پر بے بہروی تھی۔ کیونکہ مارکسی فلسفے کی سمجھ بوجھ رکھنے والے سیاسی کارکنان بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ قومی، صنفی یا کسی بھی قسم کے جبر کے خلاف جدوجہد کیے بغیر کوئی بھی شخص خود کو مارکسی کہلوانے کا حق حاصل نہیں کر سکتا۔
اگر مارکسی نسوانیت پرستی کے کلیے کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو جب بھی ایک مارکسسٹ نسل پرستی کے خلاف کسی تحریک میں مداخلت کرے گا تو اسے نسل پرستی مخالف (Anti-racist) مارکسی کہا جائے گا۔ ایسے ہی کسی مظلوم قومیت کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم مارکسی کو مارکسی قوم پرست کہا جائے گا۔ اور بیک وقت خواتین پر ہونے والے استحصال، نسلی امتیاز اور قومی جبر کے خلاف متحرک مارکسی کارکنان کو مارکسی نسوانیت پرست قوم پرست وغیرہ وغیرہ کہا جانا چاہیئے۔ ان الفاظ سے ہی ان ’’عظیم نظریہ دانوں‘‘ کے ذہنی خبط کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں نسوانیت پرستی مردانہ شاونزم کے خلاف ایک پیٹی بورژوا ردِ عمل ہے بالکل ویسے ہی جیسے قوم پرستی قومی جبر کے خلاف مڈل کلاس کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ ان دونوں نظریات کا مارکسزم سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے الٹ ہیں اورجیسا کہ پیٹی بورژوا زی ایک طبقے کی حیثیت میں ہمیشہ بورژوازی کے لیے معاشی، سماجی و سیاسی خدمات ہی سر انجام دیتی ہے، ایسے ہی پیٹی بورژوازی کے یہ نظریات بھی حکمران طبقے کے ہاتھ میں محنت کش طبقے پر جبر کے ایک آلے کے طور پر ہی استعمال ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر نسوانیت پرستی کی بہت زیادہ ترقی پسندانہ اقسام کے طور پر ہم’مثبت امتیاز‘ اور انٹر سیکشنیلٹی کے اصولوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اول الذکر میں حقائق کی ظاہریت کو اس کے جوہر سے مکمل طور پر کاٹ کر دیکھا جاتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ چونکہ ٹریڈ یونینوں اور طلبہ یونینوں کی قیادتوں کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے۔ اسی لیے یہ تنظیمیں پدرشاہی نظام کی نمائندہ اور خواتین پر جبر کے اوزار ہیں۔ اسی بنا پر بحیثیتِ مجموعی مزدور تحریک کی طرف ان کا رویہ انتہائی مخاصمانہ ہو جاتا ہے۔ یوں یہ رجحان واضح طور پر اپنے طبقاتی جوہر (پیٹی بورژوا) کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطالبات میں نمایاں مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ ٹریڈ یونینوں اور طلبہ یونینوں میں خواتین کو برابری کی سطح (کوٹہ سسٹم کی طرز) پر نمائندگی دی جائے۔ ایک طرف جہاں ٹریڈ یونین قیادت کو بیورو کریٹ کہا جا رہا ہوتا ہے، جو کہ درست بھی ہے، وہیں زیادہ سے زیادہ خواتین کو بیوروکریٹ بنانے کے مطالبے کو مفاد پرستی کی غلیظ ترین شکل ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق کے یہ علمبردار سماجی دولت پر محنت کش طبقے کی دسترس پر محض عورتوں اور مردوں کی برابر تنخواہوں کے نعرے کو فوقیت دیتے ہیں۔ ہڑتالوں کی مخالفت کرتے ہیں اور مزدورتحریک کو تباہ کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ طلبا تنظیموں، سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں میں مردوں کی اجارہ داری ہے مگر یہ عورتوں کے استحصال کی وجہ نہیں ہے بلکہ سماج میں موجود جنسی تعصب اس مردانہ اجارہ داری کی وجہ ہے اس لیے مکمل سماجی تبدیلی کی جدوجہدکے بغیر عورتوں کے حقوق کی جدوجہد ادھوری ہی رہے گی۔ انٹر سیکشنیلٹی کے علمبردار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر جبر دوسرے جبر سے مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی قسم کے جبر کے شکار شخص کا تجربہ دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں کوئی کسی کا دکھ محسوس ہی نہیں کر سکتا، سب کی اپنی اپنی لڑائی ہے تو یوں ایک نظام کے خلاف اجتماعی جدوجہد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مٹھی بھر سرمایہ دار طفیلیوں کی بغیر تنخواہ کے نوکری نہیں ہے تو اور کیا ہے؟یا شاید تنخواہ بھی ملتی ہو۔
سرمایہ داری کا زوال اور خواتین کی بقا
تاریخ گواہ ہے کہ حکمران طبقے نے محنت کشوں کوکوئی ایک بھی مراعت جدوجہد کے بغیر نہیں نوازی۔ کچھ بھولے ذہنوں کی اختراع کے مطابق جب نظام ترقی کر رہا ہوتا ہے تووہ ترقی ٹریکل ڈاؤن ہوتی ہے اور محنت کشوں، مظلوم قوموں اور خواتین کے حصے میں زیادہ سے زیادہ مراعات آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محنت کشوں کے زیادہ سے زیادہ استحصال سے ہی نظام ترقی کرتا ہے اور اس نظام کی ترقی سے اپنا حصہ کشید کرنے کے لیے محنت کشوں میں باغیانہ جذبات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ مراعات کے حصول کا دارومدار ترقی کی شرح پر نہیں بلکہ اپنے حقوق کی جدوجہد کی شدت اور نوعیت پر ہوتا ہے۔ بہت سے خوش فہم لبرل یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ’نظام کو ترقی کرنے دو‘ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے، ایسا نہیں ہے۔ جنگ کے بعد کے عروج کے دور میں انقلاب کے خوف سے جہاں محنت کشوں کو مراعات ملی تھیں وہیں 60ء اور70ء کی دہائی میں تحریکوں کے بلبوتے پر خواتین کو بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں طلاق اور اسقاطِ حمل جیسے فیصلوں کا حق حاصل ہوا تھا۔ مگر سب سے بڑھ کر ’برابر قدر کی پیداوار پر برابر اجرت‘ کے نعرے کے تحت خواتین اور مرد محنت کشوں کی محنت کی قیمت میں فرق بھی کچھ بہتر ہوا تھا۔ مثال کے طور پر امریکہ میں 70ء کی دہائی سے لے کر 2011ء تک یہ فرق 40 فیصد سے کم ہو کر 20 فیصد تک آ گیا تھا۔ اگرچہ طبقاتی نظام میں مکمل طور پر کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ 2008 ء میں عالمی سطح پر سرمایہ داری ایک دفعہ پھر شدید ترین بحران کا شکار ہو گئی تو سماجی بنتر کی طبقاتی تقسیم کے باعث خواتین محنت کش اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔
برطانیہ کی مثال لیتے ہیں۔ 2014 ء کے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر ماہرین معاشیات نے 2006 ء سے 2013 ء تک مرد وں اورخواتین محنت کشوں کی اجرتوں میں فرق کی بنا پر دنیا کو 136 ممالک کی فہرست جاری کی تھی۔ ان سات سالوں میں برطانیہ نویں نمبر سے اٹھارویں نمبر پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن اگلے برس صرف ایک سال یعنی 2014 ء میں برطانیہ 18ویں نمبر سے 26 ویں نمبر پر پہنچ گیا۔ اسی سال کام کی جگہوں میں خواتین کی اوسط اجرت 2700 پاؤنڈ تک گر گئی۔ یعنی 18000 پاؤنڈ سے گر کر 15400 پاؤنڈ سالانہ تک آ گئی تھی جبکہ اسی دورانیے میں مرد محنت کشوں کی اوسط اجرت 24800 پر جامد تھی۔ یوں مرد اور خواتین محنت کشوں کی اجرت کاسالانہ فرق بڑھ کر 6800 پاؤنڈ سے 9400 پاؤنڈ تک پہنچ گیا۔ اگر باقی دنیا کے اور بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کے اعدادو شمار کو کھنگالا جائے تو ملتی جلتی سی صورتحال ہی نظر آئے گی۔ جوں جوں سرمایہ داری کا جبر بڑھتا جائے گا خواتین کو اس کی کئی گنا زیادہ قیمت ادا کرنا ہو گی۔ اس حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا سوال مرد محنت کشوں کی نسبت خواتین محنت کشوں کے لیے زیادہ زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے۔
تیسری دنیا اور خواتین کا استحصال
اگرچہ سرمایہ داری کے تحت ہونے والی ترقی نے ایڈوانس ممالک میں بھی خواتین کے استحصال میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں کی مگر پسماندہ ممالک میں صورتحال نا قابلِ یقین حد تک تشویشناک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر ورلڈ نیوز ڈیلی رپورٹ ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ منظرِ عام پر آئی جس کے مطابق سعودی عرب کے سائنسدانوں کے ایک پینل نے تحقیق کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ خواتین اگرچہ 100فیصد انسان تو نہیں ہیں لیکن بہرحال ان کا تعلق دودھ پلانے والے جانوروں کی نوع سے ہے۔ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے خواتین کی آزادی کی طرف ایک اہم سنگِ میل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ گزشتہ 100 سالوں کی جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ اب سعودی عرب جیسے ملک میں بھی خواتین کو ایک شے یا گھر کا سامان نہیں بلکہ دودھ پلانے والا جانور سمجھا جائے گا۔ کیونکہ دودھ پلانے والے جانوروں کے بھی پانی، خوراک، دیکھ بھال اور توجہ سمیت کچھ حقوق ہوتے ہیں اس لیے اب سعودی خواتین کو بھی یہ حقوق مل سکیں گے۔ یہ خبر ظاہر ہے کہ مضحکہ خیز تھی اور اس پر یقین نہیں کیا جانا چاہیئے تھا۔ سوشل ایکٹواسٹوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے بغیر کسی تصدیق کے اس خبر کو بہت زیادہ شیئر کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے لوگوں کے لیے یہ معمول اور روزمرہ تجربے کے عین مطابق تھی اور کسی کو بھی اس خبر کی صحت پر رتی برابر شک کرنے کی زحمت گوارا نہیں ہوئی۔ زیادہ تر امکانات یہی ہیں کہ یہ ایک جعلی خبر ہے مگر پھر بھی یہ تیسری دنیا کے عوام کی خواتین کی طرف نفسیات کی درست ترجمانی کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ ابھی حال ہی میں عورتوں کے ڈرائیونگ کرنے کی آزادی پر سعودی عرب میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے حالیہ بحران نے انسانی تہذیب کو مکمل طور پر خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں خاص طور پر بربریت کے واضح آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ القاعدہ اور داعش جیسی قوتوں کا ابھار بورژوا ثقافت کے زوال کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے۔ عراق اور شام میں نام نہاد ترقی یافتہ دنیا کے پالیسی سازوں کے بنائے گئے یہ جلاد خواتین کی خرید و فرخت اور ان کو زندہ جلانے جیسے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب بھی تفاخرانہ انداز سے اپنی دھونس بٹھانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث سیلاب اور زلزلوں وغیرہ کی شکل میں قدرتی آفات بھی ان خطوں کا معمول بنتے جا رہے ہیں جہاں لاکھوں لوگوں کو گھروں سے بے گھر ہو کر خیرات پر زندہ رہنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ان گھرانوں کی خواتین جہاں پر محنت کی منڈی میں سستی ترین لیبر کے طور پر مہیا ہو جاتی ہیں وہاں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ان خواتین کی اکثریت کے پاس جسم فروشی کے علاوہ بھی کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ نائیجیریا، عراق اور پاکستان جیسے ممالک میں ریاست کی پالتو مذہبی تنظیمیں امدادی کارروائیوں میں سرگرم ہو کر ایک طرف تو معاشرے کی وسیع تر پرتوں تک اپنی سماجی شناخت اور تسلط میں اضافہ کرتی ہیں تو دوسری طرف جنت سے منسوب تمام تر عیاشیوں سے بھی اسی کرۂ ارض پر بآسانی لطف اندوز ہوتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی حالتِ زار
پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں خواتین کی اکثریت جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والی محنت کش خواتین کی اوسط اجرت سرکاری سطح پر اعلان کردہ اجرتوں کے نصف سے بھی کم ہے۔ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس وغیرہ میں مائیں اپنے تین چار بچوں سمیت کام کرتی ہیں تو تب کہیں جا کے ان کا چولہا جلتا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی خواتین کے ساتھ بھی بے رحمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اوربعض سکولوں میں2000روپے ماہانہ یا اس بھی کم پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پبلک سیکٹر میں اگرچہ صورتحال نسبتاً بہتر ہے مگر پھر بھی عالمی پیمانوں کے مطابق پاکستانی خواتین کو غیر انسانی ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات روزمرہ معمول کا حصہ ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو خواتین محنت کشوں کی اکثریت نے اس کی شکایت کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ مزاحمت کرنے پر خواتین کو فوری طور پر کام کی جگہ سے بیدخل کر دیا جاتا ہے۔ تمام تر صنعتی مراکز میں ٹھیکیداری نظام ہی رائج ہے جہاں نہ صرف خود ٹھیکیدار جنسی کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ زیادہ تر کام کی جگہوں کو باقاعدہ جسم فروشی کے سستے اڈوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹے میں ایک عورت کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے جبکہ روزانہ اوسطاًایک عورت کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ ہوتا ہے۔ کام کی جگہوں کے ساتھ ساتھ گھروں میں معاشی و ثقافتی جبر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں خواتین کی تعداد کی شرح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ کل آبادی کا 47 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ صرف دس سال قبل تک یہ شرح 52 فیصد تک تھی۔ اس حوالے سے شاید یہ دنیا کی تیز ترین گراوٹ ہے۔ اسکی بڑی وجہ غربت اور ثقافتی پسماندگی ہے۔ الٹراساؤنڈ کی وجہ سے ابتدائی مرحلے پر ہی بچے کی جنس کی شناخت ہو جانے کے باعث پیدائش سے قبل ہی عورتوں کا قتلِ عام کیا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی خواتین کے لیے عذابِ زندگی کو کم کرنے کی بجائے اس کو بڑھاوا ہی دے رہی ہے۔ ایک طرف تو خواتین کا گھر سے باہر جا کر کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ محنت کی منڈی میں خواتین کا حصہ بہت ہی کم ہونے کی وجہ سے انہیں گھر کی معیشت پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ سکول سے باہر بچوں کی اکثریت بھی خواتین پر مشتمل ہے۔ صحت کے شعبے میں انفراسٹرکچر کی مجموعی طور پر زوال پذیری سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہو رہی ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ خواتین زنک اور آئرن کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سالانہ پانچ لاکھ سے زائد خواتین زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ زیادہ تر جگہ پر عورتوں کو نجی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔ لینن کے الفاظ میں ’گھریلو غلام داری‘ کی یہ شکل نہ صرف دیہات بلکہ شہروں میں بھی رائج ہے۔ سالانہ ایک ہزار کے لگ بھگ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ 2015ء میں 1100 خواتین کو اس ضمن میں ہلاک کیا گیا۔ تقریباً 70 فیصد خواتین کی بلوغت سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے سرمایہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ اجرتی غلام پیدا کر سکیں۔ اس کے علاوہ ونی جیسی خوفناک رسوم و رواج بھی موجود ہیں جہاں کسی بھی مرد (باپ، بھائی، خاوند) وغیرہ کے جرم کی پاداش میں عورت کو اس کی بلی چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں این جی اوز آگاہی مہم اور تربیتی کیمپوں کے ذریعے دور دراز کے علاقوں میں خواتین کے زخموں، دکھوں اور محرومیوں کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ثقافتی درندگی کا عالم یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد مختاراں مائی کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں۔ ان کے خیال میں یہ کسی بھی عورت کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا ریپ یا ونی کیا جائے تاکہ این جی اوز کے ذریعے ان کو اس کے بدلے اتنا معاوضہ مل سکے جس سے انکی اور ان کے خاندان کی زندگیوں میں کوئی بہتری آ سکے۔
مشترکہ اور نا ہموار ترقی
قبائلی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظاموں کے ملغوبے نے پاکستانی سماج کو تضادات، تعصبات اور توہمات کے عجیب و غریب کارخانے میں تبدیل کر دیا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 60 فیصد سے زائد آبادی آج بھی دیہات میں رہائش پذیر ہے۔ سندھ، بلوچستان، فاٹا، پشتونخواہ، کشمیر، گلگت اور جنوبی پنجاب میں آج بھی بڑی تعداد میں قدیم قبائلی روایات رائج ہیں۔ کچھ علاقوں میں آج بھی خواتین کو بیچنے کا رواج موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود دیکھا جائے تو کلاسیکل قبائلیت میں خواتین کو کسی حد تک آ زادی حاصل ہوتی تھی۔ خواتین لکڑیاں لانے، کھیتی باڑی، گلہ بانی سمیت دیگر بہت سارے کاموں میں حصہ لیتی تھیں۔ پردہ زیادہ تر قبائل میں رائج نہیں تھا۔ عورت اور مرد فطرت کے زیادہ قریب ہونے کے باعث ایک دوسرے کے بھی زیادہ قریب تھے۔ مگر مذہبی قوتوں کی بیرونی یلغار اور بعد ازاں انگریزوں کی طرف سے مصنوعی طور پر مسلط کردہ سماجی رشتوں اور خاندانی نظام کے باعث ایک طرف تو قبائلیت کے سارے مثبت رجحانات کا گلہ گھونٹ دیا گیا تو دوسری طرف اس کے تمام منفی پہلوؤں کو اور بھی زیادہ بہیمانہ انداز میں مسلط کر دیا گیا۔ ایشیائی طرزِ پیداوار کی ٹوٹ پھوٹ نے مشترکہ خاندانی نظام کو تو توڑا مگر اس کی جگہ کوئی نیا ثقافتی ڈھانچہ تعمیر نہیں کیا جا سکا جسکی بنیادی وجہ صنعتکاری اور بورژوا سرمایہ کاری کا لاغرپن اور ضعف ہی ہے۔ سارا معاشرہ تشخص کے بحران کا شکار ہو گیامگر اس کی سب سے زیادہ قیمت خواتین کو چکانی پڑی۔ عورتوں کی ایک شے کے طور پر نجی ملکیت کا تصور بھی زمین کی ملکیت کے تصور کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو صدیوں میں بھر پور تقویت پکڑ گیا جس کی وجہ سے پردہ سماجی روایات میں شامل ہوتا گیا اور آج خواتین کی اکثریت باقاعدہ طور پر جانوروں کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
کمپیوٹر اور ٹیلی کمیونیکیشن کی ترقی نے بھی خواتین کے اوپر ہونے والے ثقافتی جبر کو کم کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں آج بھی گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے زیادہ طالبات برقعہ پہنتی ہیں۔ اس سے بہت سارے قنوطی تجزیہ نگار یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خواتین میں رجعتیت بڑھتی جا رہی ہے حالانکہ یہ برقعہ خواتین پر سماجی طور پر مسلط کیا جا رہا ہے اور اس کے خلاف ان کے اندر نفرت بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری نے جو حسد اور مقابلے بازی کی نفسیات پیدا کی ہے اس نے بھی تعلیمی اداروں میں طالبات کے اندر احساسِ محرومی کو بڑے پیمانے پر بڑھا دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں علم اور گیان کے حصول سے زیادہ قیمتی اور خوبصورت ملبوسات کی نمائش کے ذریعے اپنی دھاک بٹھانے کی روش گزشتہ عشرے میں تیزی سے پروان چڑھی ہے۔ ایسے میں غریب طالبات کے پاس جب نمائش کا سامان نہیں ہوتا تو وہ اپنے بریدہ ملبوسات کو برقعے کے اندر چھپا لیتی ہیں۔ بعض چہرے کو بھی چھپا کر خفت مٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا اور ٹیلی کمیونیکیشن نے ماضی کی فرسودگی کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ مذہبی جنونی نفسیات کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بہت جلد اس کا اظہار طلبہ کی بغاوتوں کی شکل میں ہو گا جن میں یہی محروم اور لاچار نوجوان خواتین اگلی صفوں میں لڑتی ہوئی نظر آئیں گی۔
خواتین اور اربنائزیشن
جنوبی ایشیا میں دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کی مناسبت سے پانی، بجلی، سڑکوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، سیوریج اور رہائش وغیرہ کے لیے درکار انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بجائے پہلے سے موجود انفراسٹرکچر بھی بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں شہری خواتین کی اکثریت بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت جیسی مشکلات سے دوچار ہیں۔ رئیل اسٹیٹ مافیا نے رہائش کے مکانوں کے کرایوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ جہاں پر مٹھی بھر سرمایہ دار اور پیٹی بورژوا مالکان اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں وہیں محنت کش گھرانوں کی اکثریت ڈربے نما گھروں میں رہنے پر مجبور ہے۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں دکھائے جانے والے پر آرائش فلیٹس کی کشش میں کھچ کر دیہات میں اپنے کھلے آنگنوں کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کرنے والے خاندانوں کی خواتین کی اکثریت ان ڈربے نما گھروں میں رہنے کے باعث ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر سخت گرمی کے دنوں میں پانی اور بجلی سے محروم یہ خواتین ثقافتی جبر کے باعث گھر سے باہر آ کر کھلی فضا میں سانس بھی نہیں لے سکتیں۔ ایسے میں بزرگ اور بیمار خواتین کے پاس موت کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی اور آ پشن بچتا ہی نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ہمیں گیس اور پانی کے مسائل کے باعث ان خواتین کی طرف سے بھی احتجاج اور سرکاری دفاتر کا گھیراؤ جیسے اقدامات دیکھنے میں آئے تھے مگر عوامی تحریک کے فقدان کے باعث یہ اقدامات کسی سیاسی دھارے کا حصہ نہیں بن سکے مگر آئندہ برسوں میں ہم دیکھیں گے کہ فرانس اور روس کی محنت کش خواتین کی شاندار انقلابی روایات کی پیروی کرتے ہوئے یہاں کی خواتین بھی انقلابی کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں گی۔
خواتین اورٹریڈ یونین ازم
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹریڈ یونینوں کی زیادہ تر قیادت ٹریڈ یونین اشرافیہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ان کے مفادات اور محنت کش طبقے کی اکثریت کے مفادات میں اب شاید ہی کوئی چیز ہو جو مشترکہ ہو۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد خاص طور پر یہ کہا جانے لگا تھا کہ مزدور تحریک کو کسی قسم کے نظریات کی ضرورت نہیں۔ اس صورتحال میں ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں کاصرف اکا دکا معاشی مطالبات اور مراعات کے حصول کے مطالبات تک محدود ہو جانا ناگزیر تھا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو 99 فیصد محنت کش کسی ٹریڈ یونین میں منظم ہی نہیں ہیں مگر پبلک سیکٹر کی ٹریڈ یونین اشرافیہ بھی محنت کشوں کو کوئی راستہ دکھانے کی بجائے انکے رستے کی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال گزشتہ برس PIA کے محنت کشوں کی شاندار ہڑتال تھی جس میں خواتین محنت کش بھی اپنے مزدور بھائیوں کے شانہ بشانہ میدانِ عمل میں کود پڑی تھیں۔ دیگر اداروں کے محنت کشوں میں بھی انکی حمایت اور یکجہتی موجود تھی لیکن قیادت کے متذبذب کردار اور دیگر اداروں کی قیادتوں کی تنگ نظری کے باعث اس تحریک کو بھی خون میں ڈبو دیا گیا۔ KESC کے محنت کشوں نے بھی 2011 ء میں قابلِ تقلید تحریک کا آغاز کیا مگر دیگر اداروں کی قیادتیں محض تماشائی بنی رہیں۔ اور انکی اپنی قیادت بھی اپنے مذہبی توہمات اور نظریاتی دیوالیہ پن کے باعث تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس قیادت کی رجعتیت کا سب سے بھیانک پہلو یہ تھا کہ جبری طور پر برطرف کیے گئے محنت کشوں کی ایک واضح تعداد خواتین محنت کشوں پر مشتمل تھی لیکن خواتین کی اس تحریک میں شرکت نہ ہونے کے برابرتھی۔ جب اس تحریک کے قائدین میں سے کسی ایک سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ ان خواتین محنت کشوں کو بھی اس تحریک میں شامل کیوں نہیں کر رہے تو موصوف نے کہا کہ ہم ابھی اتنے بے غیرت نہیں ہوئے کہ اپنی عورتوں کو بھی سڑکوں پر لے آئیں۔ ایک نے کہا کہ پھر ہمیں چوڑیاں پہن لینی چاہئیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ عہد کے زوال اور گراوٹ کی علامات ہیں جبکہ اسی کراچی شہر میں ہم جانتے ہیں کہ 68-69 ء کی انقلابی تحریک کی قیادت میں خواتین کا اہم ترین کردار تھا۔ فیصل آباد کی مزدور تحریک میں بھی خواتین محنت کش اپنے مزدور بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑی تھیں۔
یہ ٹریڈ یونین افسر شاہی جہاں بحیثیتِ مجموعی مزدور تحریک کا گلہ گھونٹ رہی ہے وہیں بالخصوص خواتین محنت کشوں کے لیے یہ سب سے زیادہ قابلِ نفرت ہے۔ یہ لوگ جہاں اپنی دولت کو بڑھانے اور عیاشیوں کے لیے اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہیں وہیں یہ سماجی اور ثقافتی بنتر انہیں یہ حق بھی دیتی ہے کہ وہ خواتین محنت کشوں کا بھی جنسی استحصال کر سکیں۔ بہت ساری ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں ملتی ہیں جہاں خود ٹریڈ یونین لیڈر یا CBA عہدیداران متعلقہ ادارے کے اندر ٹھیکیدار بھی ہیں۔ اس ضمن میں مختلف سیاسی پارٹیاں بھی ٹریڈ یونین پوزیشنوں کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ لیکن یہ عمل اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ زیادہ تر قیادتیں محنت کشوں کے سامنے ننگی ہو گئی ہیں۔ مزدور تحریک کے پہلے جھونکے ہی ایک نئی اور تازہ دم لڑاکا مزدور قیادت کو سیاسی افق پر روشناس کرانے کا تاریخی فریضہ سر انجام دیں گے جس میں خواتین پیش پیش ہونگی۔
بایاں بازو اور مردانہ شاونزم
سٹالنسٹ زوال پذیری نے دنیا بھر کی بائیں بازو کی تحریک پر محض سیاسی اثرات ہی مرتب نہیں کیے تھے بلکہ ثقافتی اور نفسیاتی عوامل بھی شدید خلفشار کا شکار ہوئے تھے۔ بائیں بازو کی زیادہ تر تنظیمیں اگرچہ پرچار تو سوشلزم اور بہترین انسانی معاشرے کا کرتی تھیں مگر ان کے اپنے تنظیمی ڈھانچوں اور انسانی رویوں میں کسی نہ کسی شکل میں سماج کی انتہائی مکروہ اخلاقیات اور طرزِ فکر کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔ مقابلہ بازی اور لیڈری کے بھرم تو اپنی جگہ مگر قومی، نسلی، لسانی و صنفی ہر طرح کے امتیازات خاص طور پر سوویت یونین کے انہدام کے بعد در آئے تھے۔ عورتوں کے ساتھ لفظوں کی حد تک تو بہت ’سوشلسٹ‘ رویہ اپنایا جاتا تھا مگر عملاً تمام تر سیاسی و تنظیمی اتھارٹی کو خواتین کو مرعوب اور متاثر کر کے ان سے جنسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جانے لگا تھا۔ اگرچہ سچے، مخلص اور سرفروش سیاسی کارکنوں کی کمی نہیں تھی مگر قیادت کی سطح پر یہ رجحان کافی جڑیں پکڑ چکا تھا۔ خاص طور پر تنظیمی بحران کے دنوں میں اس کا کھل کر اظہار ہوتا تھا۔ پسماندہ اخلاقیات کو رد کرنے کے نام پر بڑے فخر سے جنسی تعلقات کی بے ہنگم بورژواآزادی کی کھلم کھلا وکالت کی جاتی تھی۔ مختصراً یہ کہ زیادہ تر تنظیمیں اپنے قائدین کی ملکیت میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ اور ملکیت کی ثقافت جب تک اور جہاں بھی موجود ہو گی عورتوں کی آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس قسم کے رویوں کے ردِ عمل میں جہاں سینکڑوں یا ہزاروں خواتین اکتا کر واپس سماجی اخلاقیات کا ایندھن بن گئیں وہیں دائیں بازو اور بالخصوص مذہبی جماعتوں اور گروہوں کی طرف سے کمیونسٹ مخالف پروپیگنڈے میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ اس کی تمام تر معروضی وجوہات کے باوجود اس قسم کے رویوں کا کوئی بھی جواز قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہ ثقافتی زوال پذیری درحقیقت سیاسی و نظریاتی زوال پذیری کا ہی اظہار ہوتی ہے جوجلد یا بدیر اپنا اظہار ضرور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ بایاں بازو ہی معدوم ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اب ہمارے سامنے بائیں بازو کا ایک نیا جنم ہو رہا ہے اور انقلابیوں کی اس نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ سے اہم اسباق سیکھتے ہوئے ایک بلند ثقافتی معیار کی حامل تنظیم کی بنیاد رکھیں۔
خواتین اور مارکسی اخلاقیات
مارکس وادیوں پر سب سے زیادہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی اخلاقیات کو نہیں مانتے اور خواتین کو اجتماعی ملکیت میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز اس سوال کا خاطر خواہ جواب دے چکے ہیں۔ اس قسم کے ناقدین چونکہ بورژوا نکتہ نظر کے حامل ہوتے ہیں اس لیے وہ خواتین کو بھی ایک شئے یا ذریعۂ پیداوار ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے جب کمیونسٹ ذرائع پیداوار اور سماجی دولت کی نجی ملکیت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو یہ خواتین و حضرات یہ واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ خاندانی نظام کا خاتمہ کرکے مادر پرد آزاد معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، ایسا معاشرہ جس میں بچے کے باپ کی شناخت ہی نہ کی جا سکے وغیرہ وغیرہ حقیقت میں کمیونسٹ نکتہ نظر کا اس مبالغہ آرائی پر مبنی اور حقارت آمیز طرزِ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ضمن میں کہا یہ جاتا ہے کہ کمیونسٹوں کے لیے جنسی تعلقات اتنے ہی سادہ ہیں جیسے پانی کا گلاس پینا۔ اسے ’گلاس آف واٹر‘ تھیوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لینن اس تھیوری پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس میں محبت اور جنسی تعلقات کے سماجی پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پانی کا گلاس پینا ایک خالصتاً انفرادی معاملہ ہے جبکہ جنسی تعلق دو انسانوں کے مابین ہی بن سکتا ہے۔ اور وہ دو انسان ایک زندہ معاشرے اور ثقافت کے زندہ اور متحرک اجزا ہوتے ہیں۔ انکی مخصوص سوچیں اور نظریات ہوتے ہیں اور انکے ہر سماجی تعلق میں انہی سوچوں اور رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ ایسے میں ہم مارکس وادی ایک ایسے معاشرے کی بنیادیں تعمیر کر رہے ہیں جہاں ہر طرح کے لالچ، تعصب اور تفریق سے آزاد حقیقی محبت کا وجود ممکن ہو سکے۔ انیسا آرمنڈ کو لکھے گئے اپنے خطوط میں لینن نے اپنے مؤقف کو کھل کر واضح کیا ہے۔ ایک پروپیگنڈا پمفلٹ کے لیے جب انیسا نے ’محبت کی آزادی ‘ کے مطالبے کو شامل کیا تو لینن نے ان الفاظ میں اس کوہدفِ تنقید بنایا۔ ’’کیا ’آزاد محبت ‘ کی اصطلاح پرولتاریہ کے مفادات کی غمازی کرتی ہے ؟ یعنی محبت میں مالیاتی اور مادی تحفظات سے آزادی۔ ۔ اور مادی دیکھ بھال سے آزادی؟جواب ہے نہیں۔ پھر اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے ؟جدید معاشرے میں سب سے زیادہ باتونی اور شورو غوغا کرنے والی سماج کی پرت کے نزدیک محبت کی آزادی سے مراد ہے، محبت میں سنجیدگی سے آزادی، بچے کی پیدائش سے آزادی اور مادر پدر آزاد جنسی تعلقات کی آزادی۔ اس لیے محبت کی آزادی کا مطالبہ محض بورژوا خواتین کا ہی مطالبہ ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی منافع کی ہوس نے عورت کو نام نہاد آزادی کے نام پر پہلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر ایک بکاؤ چیز میں تبدیل کر دیا ہے۔ جنسی تعلقات کے مواقع کو شعوری طور پر دبا کر اور جنسی ہوس میں اضافہ کر کے عورت کو محض ایک اشتہاربازی کی چیز بنا دیا گیا ہے۔ بڑی بڑی شاہراہوں پر نیم عریاں عورتوں کی تصاویر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات کی زینت بنا دی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ ٹریکٹر، شیو کے لیے بلیڈ اور موٹرسائیکل وغیرہ کے اشتہارات بھی مبینہ نسوانی حسن کے نمائش کے بغیر نہیں بن پاتے۔ اس قسم کی ثقافت اور اخلاقیات کے پروردہ مبلغین اور دانشور مارکس وادیوں پر غیر اخلاقی ہونے کے الزامات لگاتے ہوئے لمحے بھر کے لیے بھی نہیں ہچکچاتے۔ کمیونسٹوں کا خواتین پر نکتہِ نظر دو ٹوک اور واضح ہے۔ خواتین بھی انسان ہیں شے یا ذریعۂ پیداوار نہیں۔ بلکہ خواتین بھی مردوں کے برابر تخلیقی و جمالیاتی صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا بندوبست محض خواتین کی نہیں بلکہ بحیثیتِ مجموعی ایک معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ مرد اور عورت کے مابین تعلقات انکی باہمی کشش اور ذہنی و جسمانی تشفی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں نہ کہ انکے سٹیٹس اور مالیاتی حیثیت کے حوالے سے۔ بالشویک انقلاب سے لے کر افغانستان کے ثور انقلاب کے نتیجے میں خواتین کے لیے کیے گئے اقدامات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
نیا عہد
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد شروع ہونے والا تاریک عہد اب ختم ہو چکا ہے۔ اس عہد میں جہاں پر محنت کشوں پر بھیانک ترین معاشی حملے کیے گئے وہیں مظلوم قومیتوں، اقلیتوں اور خواتین پر استحصال میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ عملیت پسندی کی سوچ بحیثیت مجموعی پھر غالب آ گئی۔ مصالحت اور برداشت کو عقلمندی، مفاد پرستی کو ذہانت اور جدوجہد یا قربانی کو پاگل پن سے تعبیر کیا جانے لگا۔ سرمائے کے جبر کے ساتھ ساتھ خواتین پر جبر کو بھی پھر سے فطری اور ضروری قرار دیا جانے لگا۔ اس عہد میں انسانی تہذیب اور ثقافت کی گراوٹ اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی، ڈونلڈ ٹرمپ اس گراوٹ کا تشخص بن کر سامنے آیا ہے اور اس کے خلاف ہونے والے لاکھوں اور ہزاروں کے احتجاج اور ان احتجاجوں میں لاکھوں خواتین کی سرگرم شمولیت اس عہد کے خاتمے اور نئے عہد کے آغاز کا واضح اعلان ہیں۔ یہ طبقاتی جنگ کی تازہ دم صف بندی کا عہد ہے۔ آنے والے عشرے محنت کش طبقے کی عظیم روایات کے نئے جنم کا باعث بنیں گے۔
پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی گزشتہ کچھ برسوں سے نئی انگڑائیاں لے رہا ہے۔ خاص طور پر محنت کش طبقے اور لوئر مڈل کلاس کی خواتین میں بھی نظام کے خلاف نفرت کئی بار سطح پر اپنا اظہار کر چکی ہے۔ اس وقت بھی خواتین اساتذہ، نرسیں، ہیلتھ ورکرز، ینگ لیڈی ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف کی خواتین بھی اپنے محنت کش بھائیوں کے ساتھ سرمائے کے جبر کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ یہ ابھی شروعات کی بھی شروعات ہے۔ فی الحال محنت کش طبقے کے زیادہ تر تحرک کا کردار جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی نوعیت کا ہے اور انکے مطالبات بھی معاشی ہی ہیں۔ کہیں کہیں ان میں کوئی سیاسی رمق ضرور نظر آتی ہے مگر بحیثیتِ مجموعی ان تمام چھوٹی چھوٹی تحریکوں کے مطالبات معاشی نوعیت کے ہیں۔ ایک دیانتدار، سائنسی نظریات سے مسلح مزدور قیادت کی عدم موجودگی میں یہ عمل بہت زیادہ طوالت اختیار کر سکتا ہے۔ مگر اس عمل کا بھی کوئی نہ کوئی انت ضرور ہو گا۔ اگر یہ احتجاج آگے بڑھتے ہیں تو یہ ناگزیر طور پر سیاسی مطالبات کی طرف بڑھیں گے جو پہلے سے موجود تمام سیاسی پارٹیوں طلبہ تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کی فیصلہ کن آزمائش کے بعد نئی سیاسی تشکیلات کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ حکمران طبقات اور ریاستی مشینری اس سارے عمل سے خوفزدہ ہیں اور دہشت گردی کی نئی لہر کا سہارا لے کر محنت کشوں سے انکا احتجاج کرنے کا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ اس سے وقتی خوف تو غالب آ سکتا ہے لیکن آگے چل کر یہ عمل ریاستی اداروں کو ایکسپوز کرتے ہوئے طبقاتی شعور میں تیز ترین اضافے کا باعث بنے گا۔
سوشلسٹ پاکستان میں خواتین
اگر 68-69 ء کے برعکس اب کی بار ایک مارکسی انقلابی قیادت موجود ہوئی تو سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے اس خطے میں ایک سوشلسٹ ریاست قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ سوشلسٹ ریاست محض لفظی جگالی یا نظریاتی استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ عملی اقدامات کی شکل میں ان نام نہاد اخلاقیات کے مبلغین کی تنقید کا جواب دے گی۔ یہاں پر دیو ہیکل بیرونی قرضوں کو ضبط کر کے اور سود کی ادائیگی سے انکار کر کے بجٹ کا زیادہ تر حصہ صحت کے انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کیا جائے گا تاکہ عوام کو ہر چھوٹی بڑی بیماری کا علاج مکمل طور پر مفت دستیاب ہو سکے۔ خاص طور پر بچوں اور عورتوں کی صحت کو اس پالیسی کا مرکزی نقطہ بنا دیا جائے گا تاکہ ایک صحتمند انسانی نسل پروان چڑھ سکے۔ صرف دو نسلوں میں شرحِ اموات اور خاص طور پر زچہ و بچہ کی شرحِ اموات میں کمی کے ذریعے اوسط عمر کو ستر سے اسی سال تک لایا جائے گا۔ دفاعی اخراجات میں کمی کر کے تعلیم ہر سطح پر مفت اور ایک ہی جیسی مہیا کی جائے گی۔ چائلڈ لیبر پر مکمل طور پر پابندی لگا کر تمام بچوں کو فوری طور پر سکولوں میں داخل کروا دیا جائے گا۔ نصاب کو انقلابی بنیادوں پر تبدیل کرتے ہوئے مرد اور عورتوں کے مابین ہر قسم کا تعصب کا خاتمہ کر کے مخلوط نظامِ تعلیم رائج کیا جائے۔ عورتوں کی گھریلو غلامی کی معاشی بنیادوں کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے۔ بیروزگاری ایک جرم ہو گی اور مردوں کی طرح ہر عورت بھی سماجی پیداوار میں برابر کی حصہ دار ہو گی۔ بچوں کی نگہداشت کے حکومتی مراکز تشکیل دیئے جائیں گے۔ انقلاب کے بعد پہلے اقدام کے طور پر بینکوں میں موجود تمام سرمائے کو ضبط کرتے ہوئے، فیکٹریوں اور زمینوں کو قومی تحویل میں لے کرہر محلے کی سطح پر اجتماعی لنگر خانوں اور لانڈریوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ عورتوں پر تشدد کی ہر شکل کو ختم کرتے ہوئے عورتوں کو مکمل سماجی و سیاسی آزادی عطا کی جائے گی۔ جسم فروشی کی ہر شکل ختم کر دی جائے گی۔ عورتوں کو طلاق اور اسقاطِ حمل سمیت ہر طرح کے سماجی حقوق حاصل ہوں گے۔
یہ وہ ممکنہ اقدامات ہیں جو سوشلسٹ انقلاب کے بعد اسی ملک کے عوام کے لیے کیے جا سکتے ہیں اور یہاں کے دو فیصد سرمایہ دار، نیم جاگیردار، بیوروکریٹ اور دیگر حکمران طبقات اور انکے آلہ کار انہی اقدامات سے خوفزدہ ہیں اور یہی خوف انہی سوشلزم اور مارکسزم کے خلاف غلیظ اور مکروہ پراپیگنڈا کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ عورت جو کہ آج تک ’فطری طور پر کمزور‘ ہے۔ تبدیل شدہ معاشی و سماجی ڈھانچے میں وہ فطرت پر انسانی عبور کی لڑائی میں اپنے مرد ساتھیوں کے ہم پلہ کارہائے نمایاں سر انجام دے گی۔ یہ سوچ کر ہی ان بیمار ذہنیت کے مردانہ شاونزم کا شکار خواتین و حضرات کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ سوشلسٹ سماج میں خواتین محکوم سماجی پرت سے حاکم سماجی پرت میں تبدیل نہیں بلکہ ایک ایسی سماجی نظام کی تشکیل کی جدوجہد میں فعال اور سرگرم ہونگی جس کا منطقی انت یہ ہے کہ حاکم اور محکوم کا تصور ہی ختم کر دیا جائے۔