|تحریر: انعم خان|
1917ء میں روس میں برپا ہونے والا بالشویک انقلاب، نہ صرف سرمایہ داری بلکہ بادشاہت اور جاگیر داری کے خلاف محنت کش طبقے کی پہلی فتح تھی۔ بالشویکوں کی قیادت میں ہونے والے اس انقلاب کا آغاز بھلے ایک ملک سے ہوا تھا لیکن اس کا ہدف بتدریج عالمی سطح پر مزدور ریاست کا قیام کرنا تھا۔ اس انقلاب کا آغاز روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں واقع پیوٹیلو فیکٹری کی محنت کش خواتین کی ہڑتال سے ہوا تھا، جس میں پہلے مرحلے میں خواتین مزدوروں نے سڑکوں پر آ کر تشدد کے لیے بھیجے گئے فوجی جوانوں کو گولی نہ چلانے پر راضی کر لیا، جو کہ بعد میں ایک انقلابی بغاوت کی صورت اختیار کرتے ہوئے ملک بھر میں پھیل گئی اور انقلاب کا آغاز ہوگیا۔
انقلاب سے پہلے روس کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا۔ اس کے بارے میں کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ ’’ سرمایہ داری کی زنجیر اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹی ہے۔ ‘‘انقلاب سے پہلے روسی خواتین کے بدترین حالات ، پاکستان کی حالیہ کیفیت سے مماثلت رکھتے تھے۔ غربت، لاعلاجی، بھوک، جسم فروشی، خاندانی تسلط، گھریلو چار دیواری کی قید، شاہی مطلق العنانیت کا جبر اور سزائیں خواتین کی اکثریتی آبادی کی زندگی کا معمول تھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں روس کی شمولیت نے خواتین کی بہت بڑی تعداد کو گھروں سے نکال کر فیکٹریوں میں مزدوری کرنے پر مجبور کیا، کیونکہ جنگ کی وجہ سے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مرد مزدوروں کو جبراً محاذ پر بھیج دیا جاتا تھا۔ 1914ء سے 1917ء تک کے مختصر عرصے میں مزدوروں کا ایک تہائی حصہ خواتین مزدوروں پر مشتمل ہو چکا تھا۔ اس صورتحال نے عورت کو گھر کی چاردیواری کی قید سے تو باہر نکالا، جو کہ اپنی بدترین شکل کے باوجود بھی ایک اچھا عمل تھا، یوں بھی کہ اسی عمل نے ہی آگے چل کر محنت کش خواتین کو وہ طبقاتی شعور دیا اور انقلابی تحریک کی وہ چنگاری سلگائی جس نے روس سے ملکیتی نفسیات کی حامل سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور ایک ایسے نظام کی بنیاد یں استوار کرنے کے عمل کا آغاز کیا، جس نے آگے چل عورت کو محکوم بنا کر رکھنے والی سبھی وجوہات کا خاتمہ کرنا تھا۔
عمومی طور پر خواتین پر ہونے والے سبھی مظالم کا ذمہ دارمرد حضرات کو گردانا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک گھمبیر مسئلے کا سہل طلبی کی نفسیات پر مبنی آسان سا جواب معلوم ہوتا ہے۔ عورت بھی عورت پر ظلم ڈھاتی ہے، اس کاجواب بہت آسانی سے یہی دیا جاتا ہے وہ اپنی ہی جنس کی مخالف ہے، اس مشورے کے ساتھ کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ لیکن اگر ہم معاملے پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو عورت پر ہونے والے ظلم، چاہے وہ مرد کرے یا خود دوسری عورت ہی، اس کا تعلق خاندان کے اس ڈھانچے سے ہے جس کی بنیاد کسی بھی طبقاتی معاشرے کی طر ح ملکیت پر مبنی ہے۔ یہی ملکیت کی نفسیات پر مبنی خاندانی تانے بانے ہی عورت کی غلامی اور مظلومیت کی حقیقی بنیاد ہیں۔ کیونکہ ملکیت پر مبنی اس خاندانی ڈھانچے میں عورت انسان نہیں ،بلکہ ملکیت میں رکھی جا سکنے والی کسی بھی دوسری قیمتی ’’شے‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کا تحفظ بھی اُن تمام قیمتی اشیا کی طرح ہی لازم ہے۔ یہاں دیکھا جائے تو غلامی پھر بھی انسان کے زمرے آتی ہے، لیکن عورت کی حیثیت تو انسان کی بھی نہیں ہے۔ یہاں عورت کسی شے کی مانند مرد اور اس کے خاندان کی ملکیت ہے۔
معاشرے میں طبقاتی نظام کے خاتمے اور سوشلزم کی تعمیر کے لیے بنیادیں رکھنے کا عمل، خواتین کے عمومی حالات سے جڑا ہوتا ہے۔ اس لیے خواتین کے حالات میں بہتری لانے کے تمام عوامل پر بالشویک قیادت کی خصوصی توجہ مبذول رہی، لینن اورٹراٹسکی کی قیادت میں پروان چڑھنے والی بالشویک پارٹی کے لیے خواتین کا کام انتہائی اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ سوشلسٹ انقلاب یعنی ملکیتی رشتوں پر مبنی طبقاتی نظام کا خاتمہ ہی عورت کی آزادی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس پر نہ صرف انقلاب کے بعد بلکہ اس سے قبل بھی خصوصی توجہ دی گئی اور خاص کر نسوانیت پرستوں کے برعکس عورت کی آزادی کے سوال پر ٹھوس نظریاتی پوزیشنز کو وضع کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک واضح طبقاتی موقف اپنایا گیا اور محنت کش خواتین میں کام کرنے کی اہمیت پر نہ صرف زور دیا گیا بلکہ ان میں کام کیا گیا۔ کامریڈ لینن نے واضح کیا کہ عورت کی حقیقی غلامی دراصل اس کی ’’گھریلو غلامی ‘‘ ہے۔ اس غلامی سے نجات ہی عورت کی حقیقی آزادی اور اس کی انسانی حیثیت کو بحال کر سکتی ہے۔
گھریلو غلامی سے نجات کا آغاز کرتے ہوئے، خاندان کے ادارے کی نئے سرے سے تشکیل نو بالشویک پارٹی کا ہدف تھے،جس پر انقلاب کے فوری بعدہی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ انقلاب کی کامیابی کے فوری بعد ہی کامریڈ الیگزنڈرا کولن تائی کو سوویت حکومت میں ایک نئے شعبے ’سماجی خدمات‘ کا کمیسار بنا یا گیا اور اس ادارے نے سب سے پہلے شادی کے قانون کو متعارف کروایا، جو اس پہلے موجود نہیں تھا۔ شوہر اوربیوی کو قانونی طور پر برابر کے حقوق دئیے گئے۔ اسی طرح ان تمام رجعتی قوانین کا بھی خا تمہ کردیا جو عورت کی آزادی کی راہ میں حائل تھے۔ مثلاً انقلاب سے قبل شوہر کا اپنی بیوی کو پیٹنا قانوناً جائز تھا، اس پر پابندی عائد کی گئی۔ قانونی اور غیر قانونی بچوں کے درمیان فرق کو ختم کیا گیا۔ اسی طر ح طلاق کے عمل کو سہل کیا گیا، کیونکہ انقلاب سے قبل طلاق کا عمل انتہائی پیچیدہ اور مہنگا تھا، جس کی وجہ سے میاں بیوی کے آپس میں بدترین حالات کے باوجود بھی انہیں مجبوراً ساتھ رہنا پڑتا تھا، یہی نہیں بلکہ طلاق کے لیے فریقین کے مابین باہمی رضا مندی ہونے تک ، بیروزگاری یا معاشی تنگ دستی کی صورت میں معاشی مدد کو بھی یقینی بنایا گیا۔ جسم فروشی کے سلسلے میں خواتین کی بجائے ان لوگوں کو سزائیں دی جاتی اور انہیں منظرِ عام پر لایاجاتا جو کہ قحبہ خانوں کے مالک تھے اور نوجو ان خواتین کو اس طرف لاتے اور ان کی تربیت کرتے تھے۔ عورت کے لیے اسقاط حمل کو جائز بنایا گیا۔ اس کے علاوہ زچگی کے دوران محنت کش خاتون کے لیے خصوصی تحفظ کے لیے اقدامات کئے گئے، جس میں بچے کی پیدائش سے 16 ہفتے پہلے اور بعد میں کام سے چھٹی دی اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جاتا کہ وہ بعد میں کوئی سخت جسمانی محنت کرے نہ ہی نائٹ شفٹ میں کام کرے گی، نہ صرف یہ بلکہ دوران زچگی کسی بھی محنت کش خاتون کو کام سے نہیں نکالا جائے گااور حاملہ خاتون یا جس نے حال ہی میں بچے کو جنم دیا ہو، ان خواتین کے لیے کام کے اداروں کے ساتھ ہی زچہ و بچہ کی تحفظ کے لیے خصوصی مراکز قائم کئے گئے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک پسماندہ معاشرے میں ، محض قانون سازی کے ذریعے عورت کی آزادی کے متعلق صدیوں پرانی روایات اور نفسیات کو بدلنا، یا محض قانوناً اسے آزاد قرار دیا جانا کافی نہیں تھا، قانونی اصلاحات پر عمل در آمد کروانے اور انہیں معاشرے کے لیے قا بل قبول بنانے کے لیے محنت کشوں، کسانوں، فوجیوں اور سماجی ماہرین پر مشتمل خصوصی کمیشن تشکیل دئیے گئے۔ اس کے علاوہ وہ سب عوامل جنہوں نے عورت کو گھرکی چار دیواری میں غلام بنائے رکھا تھا، ان کے خاتمے کا آغاز کیا گیا۔ مثال کے طور پر گھر پہ کھانا بنانا، کپڑے دھونا، بچوں کی نگہداشت وغیرہ، یہ کام جو عورت کی ازلی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں، ان سے آزادی کے لیے ان کاموں کو سماجی ذمہ داریوں میں بدلنے کا آغاز کیا گیا۔ چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لیے خصوصی ادارے جنہیں ڈے کئیر سنٹر کہا جاتا ہے، قائم کئے گئے، اس کے علاوہ کپڑے دھونے کے لیے عوامی لانڈریا ں اورکھانے کے لیے اجتماعی ریستوران بنائے گئے۔ یوں عورت کو گھر پر مقید رکھنے والے کاموں کو سماجی ذمہ داری بنا کر اس کی آزادی کی طرف سفر کے ابتدائی اقدامات کئے گئے، لیکن جیسا کہ کامریڈ لینن نے بھی واضح کیا تھا کہ مرد پر معاشی انحصار کے ہوتے عورت آزاد نہیں ہو سکتی۔ اس لیے نہ صرف گھرمیں مقید رکھنے والی ذمہ داریوں کو خاتمہ ضروری تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عورت کا مرد پر معاشی انحصار کا خاتمہ کرنا بھی لازمی تھا، اس سلسلے میں عورت کی تعلیم و تربیت کے لیے ادارے تشکیل دئیے گئے اور خواتین کو ورک فورس کا حصہ بنانے کے لیے، کسی اور ہنر کی غیر موجودگی میں، اور کچھ نہیں تو انہی سماجی اداروں جیسے عوامی ریستورانوں، لانڈریوں میں کام دیا گیا۔ یعنی عورت کی سماجی زندگی میں متحرک مداخلت میں حائل ہونے والی سبھی رکاوٹوں کا خاتمے کرتے ہوئے اسے مرد کے برابر نہ صرف قانونی طور پر بلکہ عملی طور بنیادیں استوار کی گئیں۔
سماجی کل کا حصہ ہونے کے ناطے پورے معاشرے کی معاشی آسودگی اور خاص کر ثقافتی ترقی کے بغیر عورت کی آزادی ممکن ہی نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز کے فوری بعد اکیس ممالک نے نومولود مزدور ریاست پر حملہ کر دیا، اس وجہ سے تمام اقدامات کا رخ انقلاب کے دفاع کی سمت میں موڑ دیا گیا۔ لیکن پھر یہ اس انقلاب کی ہی طاقت تھی، جس نے اس حملے کو بھی شکست دی ۔ ٹراٹسکی کی قیادت میں تشکیل پانے والی عوامی ملیشاؤں پر مبنی سرخ فوج نے نہ صرف جنگی محاذوں کے ذریعے بلکہ دشمن فوج کے عام سپاہیوں کو پمفلٹوں کے ذریعے مزدور ریاست اور انقلاب کی ضرورت اور اہمیت سمجھاتے ہوئے، اکیس ملکوں کے اس حملے کو شکست سے دو چار کیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ایک بارپھر معاشرے کی تشکیل نو کا آغاز کیا گیا، جس کے متعلق کامریڈ لینن کے بقول ’’ہم نے معاشرے کی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے محض میدان صاف کیا ہے،‘‘ اور کامریڈ ٹراٹسکی کے لفظوں میں کہ ’’ہم ابھی بادشاہت، جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ معاشی، ثقافتی اور سماجی باقیات کا خاتمہ کرتے ہوئے وہ بنیادیں تعمیر کر رہے ہیں جن پر آگے چل کر سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر ہو گی یعنی یہ سرمایہ داری کے خاتمے سے سوشلزم کی جانب ایک عبوری مرحلہ ہے۔‘‘ ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے صدیوں سے موجود پسماندہ روایات، غلامی اور غربت نئے معاشرے کی تعمیر میں حائل سب سے بڑی رکاوٹیں تھیں۔ ان حالات میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بھی، سوویت حکومت نے عورت کی آزادی کے لیے جو عملی اور قانونی اقدامات کئے، ان کا مقابلہ آج بھی، نام نہاد جدید اور ترقی پسند سرمایہ دارانہ ریاستیں نہیں کر سکتیں۔ کامریڈ ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’اکتوبر انقلاب نے اپنے جھنڈے پر آزادئ نسواں لکھا تھا۔‘‘ اور عورت کی آزادی سے مراد سب پہلے اس کی معاشی آزادی ہے۔ سوویت یونین میں خواتین پر مسلط گھریلو غلامی کے خاتمے کے اقدامات نے کچھ ہی عرصے میں بہت کامیابیاں حاصل کیں۔ مثلاً صنعتی مزدوروں کا50فیصد، انجینئرز کا 32فیصد، اساتذہ کا73فیصد، سائنسدانوں کا 42فیصد اور ڈاکٹروں کا 79 فیصد خواتین پر مشتمل ہو چکا تھا۔
کسی جدید ملک، جیسے جرمنی میں انقلاب کے کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پرسوویت یونین تنہا رہ گیا، 1924ء میں لینن کی وفات، ماضی کے ورثے میں ملی غربت اور پسماندگی اوراس کے ساتھ عالمی جنگ اورپھر اکیس ممالک کے حملے میں ہونے والی جنگ کی تباہ کاریوں، جن میں انقلاب کے سب سے لڑاکا عناصر کی اکثریت نے اپنی جان گنوا دی، ان سب حالات مل کر سٹالنسٹ افسرشاہانہ ابھار کو جنم دیا جس نے آگے چل کر انقلاب کی تنزلی کی بنیاد ڈالی۔ افسر شاہی کے ابھار نے سب سے پہلے ان قوانین کا خاتمہ کیا جو عورت کی مرد سے برابری اور آزادی کے علمبردار تھے، دس سالوں کے اندر ہی ان تمام اقدامات کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اسقاط حمل کے حق کا خاتمہ یہ کہہ کر کیا گیا کی اب ہم نے معاشی طور پر وہ حالات ختم کردیئے ہیں جو عورت کو ’ممتا کے حق‘ سے محروم رکھتے ہیں۔ بچوں کی نگہداشت کے لیے قائم کئے ڈے کئیر سنٹرز کے اوقات کار کو کم کر کے صرف ورکنگ آورز تک محدود کر دیا گیا۔ طلاق کے عمل کو مہنگا اور مشکل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ1943ء میں مخلوط تعلیم کا بھی خاتمہ کر دیا گیا اوریہ سب اقدامات ایک ایسے وقت میں کئے جا رہے تھے جب دوسری طرف ٹراٹسکی کی قیادت میں معاشرے کے سامنے نئی تعمیر تو درکنار بلکہ جنگ سے پہلے والے حالات کی واپسی کے لیے تگ و دو کی جارہی تھی۔ یہی نہیں بلکہ عورت کی آزادی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو روس جیسے پسماندہ ثقافتی معیار کے حامل ملک میں قابل قبول بناتے ہوئے ان پر عمل کرنے کی کاوشیں کی جارہی تھیں۔ محدود وسائل کی موجودگی میں اجتماعی کھانا گھرو ں کے معیار، لانڈریوں میں کپڑے پھٹ جانا یا چوری ہونا، ڈے کئیر سنٹرز پر ماؤں کا اعتماد استوار کرنا، یہ بنیادی سوال ٹراٹسکی کے نزدیک انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ اس صورتحال میں 1923ء سے ہی اس نے خواتین کے خلاف ہونے والے ان رجعتی اقدامات کی مخالفت شروع کر دی تھی اور سٹالنسٹ افسر شاہی کے ابھار سے سوویت انقلاب کودرپیش خطرات کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ ان تمام اقدامات کے خلاف لڑنے اور انقلاب کی حاصلات کا دفاع کرنے کے لیے ٹراٹسکی نے لیفٹ اپوزیشن بنائی اور اپنی آخری سانس تک یہ لڑائی جاری رکھی۔ ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ جیسے نظرئیے، جو کہ مارکسزم کی عالمگیر اساس کی موت کے مترادف ہے، نے سوویت یونین کی تنزلی میں رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ دوسرے ممالک میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں کو کامیابی کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کی بجائے، سٹالن نے انہیں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور اپنے سامراجی عزائم کی نظر کردیا۔ سٹالنزم اورافسرشاہی کا ابھار اور پھر مضبوط ہونا، ورثے میں ملی پسماندگی اور غربت، کسی ترقی یافتہ ملک میں انقلاب کا کامیاب نہ ہو پانا، سٹالن کے ہاتھوں تمام لڑاکا بالشویکوں کی ملک بدری اور پھر قتل، ان تمام معروضی حالات کی وجہ سے بالآخر سوویت یونین تنزلی کا شکار ہوتے ہوئے ختم ہوگیا۔ آج بھی عالمی سطح پر سرمایہ دار، حکمران اور سوشلزم مخالف لوگ سوویت یونین کی سٹالنسٹ افسر شاہانہ زوال پذیری کوسوشلزم کی ایک نظرئیے کے طور پر ناکامی سے تعبیر کرتے دکھا دیتے ہیں اوراس عمل میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کیونکہ آج بھی اگر کوئی نظریہ اور نظام ان کی حاکمیت اور دولت اور عیاشی پر مبنی سرمایہ داری کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ سوشلزم ہی ہے۔
سوویت انقلاب کو رونما ہوئے سو سال پورے ہونے والے ہیں۔ منصوبہ بند معیشت پر مبنی سوویتوں پر مشتمل مزدور حکومت نے سوسال پہلے نہ صرف عورت کی آزادی بلکہ معاشرے کی عمومی ترقی کے لیے، اُس وقت اور اُن حالات میں (اپنی تمام تر کمزوریوں اور پستیوں کے باوجود بھی) جو اقدامات کر دکھائے تھے، اس کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی۔ سوشلزم کے نظریات پر اتنا کیچڑ اچھالنے اور اسے نیست و نابود کردینے کی تمام کوششوں کے باوجود بھی عالمی حکمران طبقہ اسے شکست نہیں دے پایا۔ وقتی ٹھہراؤ کے بعد آج ایک بار پھر خود ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کا محنت طبقہ اور عوام سوشلزم کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ کیونکہ آج بھی سوائے سوشلزم کے سرمایہ دارانہ وحشت سے نجات کا اور کوئی راستہ یا نظریہ موجود نہیں۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے معاشی ماہرین خود اپنے نظام کے بحران کو سمجھنے کے لیے مارکس کی لکھتوں طرف رجوع کر رہے ہیں اورسرمایہ داری کے متعلق مارکس کے تجزئے کو بھی درست قرار دے رہے ہیں، اس بیان کے ساتھ کہ اس نے سرمایہ داری کا تجزیہ تو ٹھیک ٹھیک کیا تھا لیکن اس نے جو حل تجویز کیا (یعنی سوشلزم کا حل) وہ’ ٹھیک‘ نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ڈاکٹر کی تشخیص کو تو درست قرار دے رہے ہیں لیکن اس کے تجویز کردہ علاج اور دوائی کو غلط قراردے رہے ہیں! حل کے طور پر وہ کہتے ہیں اسی نظام کو تھوڑا بہتر کرکے چلایا جانا چاہیے۔ کیونکہ ڈاکٹر کے بتائے گئے حل کا مطلب ان عیاشیوں پر مبنی نظام، یعنی خود اِن کا خاتمہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے ناقابل اصلاح ہونے کی حقیقت اب محنت کش طبقے پر عیاں ہونا شروع ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی متبادل کی تلاش بھی۔ آج پھر عالمی افق پر مارکسزم کی قوتیں تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اس بار جو مزدورریاست بنائی جائے گی وہ سوویت یونین کے تاریخی تجربے کی روشنی میں اور ذرائع پیداوار کی ترقی کی موجودہ صورتحال میں ایک ناقابل شکست قوت بن جائے گی۔ اگر سو سال پہلے مزدورسویتوں پر مشتمل ریاست نے معاشرے کی عمومی بھلائی و ترقی اور خاص کر عورت کی آزادی میں اتنے جدید اقدامات اٹھائے گئے تو آج کی ممکنات کا تصور کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ سوویت یونین میں عورت کی آزادی کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات،اپنی تما م تر کجیوں اور کمزوریوں کے باوجود یہ ثابت کرتے ہیں کہ سوائے سوشلزم کے عورت سمیت تمام مرد و زن کی حقیقی کی آزادی کا اور کوئی حل نہیں ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستا ن میں موجود محنت کش اور نوجوان خواتین تک، سوشلزم کو انہی کے مسائل کے حل کے طور سمجھاتے ہوئے انہیں معاشرے کی مکمل تبدیلی کے انقلابی عمل کا حصہ بنایا جائے۔
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے!