|تحریر: خدیجہ ارسلان|
گزشتہ ماہ کے دوران قریباً 50 خواتین نے ہالی ووڈ کے مشہور ڈائر یکٹر ہاروے وائینسٹائن کے خلاف جنسی بد اخلاقی اور تشدد کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں نیویارک ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق میرامیکس نامی فلموں کی مشہور کمپنی کے پروڈیوسر اپنی دولت اور اثرورسوخ کی وجہ سے بے شمار سٹاف ممبران، عہدیداران اور اداکاراؤں کو اپنی ہوس کا نشانہ کے باوجود کبھی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکے۔
وایئنسٹائن کا کردار ایک علامت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح خواتین کے خلاف جنسی تشددکونہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ اپنی چھتر چھایہ میں ان تمام جرائم کو پنپنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ سنسنی خیزی پر مبنی مشہور کرداروں کی یہ کہانیاں کچھ لمحوں کے لیے حیران تو کرتی ہیں لیکن ایک ایسا سماج جہاں آنگنوں میں بھوک ناچتی ہو، پینے کا صاف پانی ملنا محال ہو، ہسپتال بیماروں سے بھرے پڑے ہوں، زندگی بچانے والی ادویات کا فقدان ہو، مزدور کی مزدوری اتنی ہو کہ دو وقت کا چولہا جلنا محال ہو، سماجی شعور غربت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں پنپ رہا ہو وہاں ایک محنت کش خاتون کے لیے جنسی بد اخلاقی اور تشدد بے تحاشا مصائب میں سے ایک ہے جس سے وہ ہر روز مقابلہ کرتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ طبقۂ اشرافیہ کی خواتین اپنے حقوق کی جدوجہد کو تمام خواتین کی جدوجہد کہہ کرایسا گڈمڈ کرتی ہیں کہ طبقاتی تقسیم کے سوال کو مرد اور خواتین کی جنگ میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ ایک ایسی جنگ جس سے محنت کش طبقہ صنف کی بنیاد پر تقسیم ہو کر اپنے دشمن طبقے کے مفادات کے لیے ہی لڑتا رہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ’Me Too‘ یعنی ’میں بھی‘ نامی کمپین نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔ یہ کمپین کوئی دس سال قبل ترانا برک نے شروع کی تھی لیکن کچھ ہفتے قبل مشہور ہالی ووڈ اداکارہ الیسا میلانو نے تمام خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ہیش ٹیگ ٹویٹر پر شروع کیا کہ جو خواتین کبھی بھی جنسی بد اخلاقی اور تشدد کا نشانہ بنی ہوں ’Me Too‘ یعنی ’میں بھی‘ لکھ کر اس کمپین کا حصہ بنیں تاکہ اس مسئلے کی شدت کا اندازہ ہو سکے۔ تب سے یہ ہیش ٹیگ قریباً1.7 ملین مرتبہ استعمال کیا گیاہے اور4.7 ملین لوگوں نے اس پر قریباًبارہ ملین پوسٹ اور تبصرے کیے ہیں۔ ہاروی وائینسٹائن پر الزامات کے بعد یہ بات واضح ہے کہ صرف ہالی ووڈ جیسی فلم نگری میں ہی نہیں جہاں خواتین کو کموڈٹی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر رنگ، نسل اور ملک کی خواتین جنسی بداخلاقی اور تشدد کا شکار ہیں۔ وائینسٹائن کو اس کمپین کی وجہ سے نہ صرف اکیڈمی آف موشن پکچرز کی ممبر شپ سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں بلکہ فلم پروڈکشن کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ بظاہر ایک مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا کر انصاف حاصل کر لیا گیا ہے لیکن یہ انفرادی انصاف کی مثالیں معاشرے میں موجود خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور استحصال کا عشر عشیر بھی نہیں کہ یہ سوچا جا سکے کہ اس مسئلے کا کوئی حل بھی اس نظام میں موجود ہے۔ وائینسٹائن سالہا سال اپنی ملازم خواتین کے خلاف اپنے عہدے کی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر ان جرائم میں ملوث رہا لیکن کوئی اس کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکا۔ بالکل یہی رویہ دنیا بھر میں مالکان کا مزدوروں کے ساتھ ہے جس میں وہ نہ صرف مزدوروں کی زندگی کے مالک بن جاتے ہیں بلکہ خواتین مزدور تو دوہرے استحصال کا سامنا کرتی ہیں یعنی معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد اور جبر کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔
شماریاتی تجزیوں پر نظر دوڑائیں تو حالات کی تلخی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ یونائٹیڈ نیشنز کی ورلڈ ویمن 2015ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ ان میں سے 40 فیصد سے بھی کم کو کسی قسم کی مدد دستیاب ہوتی ہے اور 10 فیصد سے بھی کم پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں۔ اگر معاشی استحصال کی بات کریں تو ورلڈ اکنامک فورم کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق مردوں اور خواتین کے ایک ہی کام کے عوض اجرت پانے کی تفریق کو ختم کرنے میں 170 سال درکار ہیں۔ اسی معاشی تفریق جس میں ابھی گھر کے کام یعنی صفائی، کھانا پکانا اور بچوں کی دیکھ بھال شامل نہیں ہے دراصل خواتین کم اجرت پر مردوں کے مقابلے میں کئی گھنٹے ز یادہ کام کرتی ہیں۔
گلوبل جینڈر انڈیکس 2016ء کے مطابق بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں معاشی، تعلیمی، صحت اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت جیسی ضروریات اور سہولیات میسر ہونے میں 144ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 143واں نمبر ہے۔ مختصراً یہ کہ کسی بھی رپورٹ پر نظر ڈالیں دنیا بھر میں خواتین کے مساوی حقوق صرف کتابی باتوں تک ہی محدود ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں خواتین گھروں میں مفت مزدوری اور گھر سے باہر مردوں کے مقابلے میں سستی اجرت پر کام کرتی ہیں۔ اس دوہرے استحصال کی وجہ سے ہی سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے قابل ہوتا ہے۔ اس نظام میں خواتین کی کمتر حیثیت ہی دراصل سرمایہ دار کے لیے فائدہ مند ہے اور اسی لیے اس معاشی تقسیم کو قائم رکھنے کے لیے ایک طرف تو خواتین کے خلاف جبر کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور دوسری طرف محنت کش طبقے کو کبھی صنف تو کبھی لسانی، نسلی، علاقائی اور قومی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ کبھی بھی جڑت کے ساتھ اس استحصالی نظام کے خلاف ایک طاقت بن کر نہ ابھر سکیں۔
محنت کش تنظیمیں، نوجوان، ٹریڈ یونین اور طلبہ تنظیمیں خواتین کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عوامی تحریک سے عدالتوں، اداروں کے سربراہان اور سرمایہ داروں کو یہ پیغام تو پہنچایا جا سکتا ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی بد اخلاقی اور تشدد کسی بھی ادارے اور کام کی جگہ پر برداشت نہیں کیا جائے گالیکن صد حیف کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان تنظیموں کے مفادات بھی عوام کے مفاد سے یکسر الٹ ہوتے ہیں اسی لیے ضروری ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف آواز کو محنت کش خواتین کی فلاح و بہبود کی مانگوں جس میں رہائش کی سہولتیں، بچوں کی پرورش کا الاؤنس، بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز ، معیاری سکول اور اجرت میں برابری کی تحریک سے جوڑا جائے تاکہ معاشی بہبود سے خواتین کے خلاف جبر میں کوئی سماجی پیش رفت ہو سکے۔
طبقاتی نظام اور عورتوں کے خلاف ہزاروں سال کے جبر اور استحصال کی تاریخ کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی بدل سکتا ہے لیکن مارکس وادی کسی بھی طور اس واہمے میں مبتلا نہیں کہ سوشلسٹ انقلاب کے فوراً بعد ہی وہ جبر سے پاک معاشرہ قائم کر لیں گے بلکہ پرانی روایات کی ایک بھاری سل کو ہٹا کر ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھی جائے گی۔ معاشرتی ناہمواریوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے بعد ہی ان بوسیدہ روایات اور بدبو دار تعصبات سے چھٹکارا پانا ممکن ہو گا۔ اسی لیے اس جبر کے خلاف ہی ہماری جنگ ہے جس میں محنت کش خواتین کا استحصال در اصل پورے محنت کش طبقے کے معاشی اور سماجی حالات کو بد سے بدترین مقام تک لے گیا ہے۔ صرف مساوی اجرت، بچوں کے سنبھالنے کے مراکز اور پرورش الاؤنس، معیاری صحت اور تعلیم کی سہولیات اور روزگار سب کے لیے جیسے مطالبات کو ایک متحد طبقاتی جدوجہد سے جوڑ کر ہی ہم جبر اور امتیازی رویوں کے خلاف اس جنگ میں اتر سکتے ہیں۔ حقیقی سماجی اور معاشی مساوات ہی ایک نئی صبح کی پیامبر ہے جس میں محنت کش صنف، نسل، لسانی، علاقائی اور قومی تعصب سے مبرا ایک نیا نظام تشکیل دیں گے۔
(اس آرٹیکل کو لکھنے کیلئے آئی ایم ٹی کینیڈا کے مضمون ’me too‘ سے مدد لی گئی ہے)