|تحریر: زلمی پاسون|
افغانستان اس وقت تاریخ کے بد ترین حالات سے گزر رہا ہے جہاں ایک طرف طالبان کی وحشت عوام پر مسلط ہے اور دوسری جانب معاشی و سماجی بربادی اس ملک کے چار کروڑ افراد کو تیزی سے موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے سامراجی یلغار کے دوران جہاں یہاں پر لاکھوں معصوم افراد کو قتل کیا گیا وہاں اس پورے سماج کے تانے بانے کو بربادی میں دھکیل دیا گیا۔ اس دوران سامراجی طاقتوں نے طالبان (جنہیں وہ اپنا دشمن کہتے ہیں) سے بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا اور انہیں عالمی سطح پر ایک قوت بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اسی تمام تر عمل میں یہ سامراجی طاقتیں جاتے ہوئے افغانستان کے عوام پر ساز باز کے ذریعے انہی وحشی ملاؤں کو مسلط کر کے چلی گئیں۔
اس سارے عمل میں افغانستان میں رہنے والی خواتین بدترین انداز میں متاثر ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سامراجی جنگ کے اختتام اور طالبان کی وحشت کے ابھار کے خلاف سب سے بڑی بغاوت گزشتہ سال خواتین کی جانب سے نظر آئی۔ کابل سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں خواتین نے تمام تر ڈر اور خوف کو جوتے کی نوک پر رکھا اور اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔ ان احتجاج کرنے والی خواتین پر بد ترین جبر اور تشدد کیا گیا اور انہیں نہ صرف احتجاج کے دوران قتل اور ریپ کی دھمکیاں دی گئیں بلکہ کچھ رپورٹوں کے مطابق احتجاج کے بعد بھی انہیں گرفتار کر کے جیلوں کے اندر بد ترین تشدد اور جنسی زیادتی کانشانہ بنایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود احتجاجوں کا یہ سلسلہ ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اور خواتین اپنے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز بلند کر رہی ہیں۔
امریکی سامراج کی مسلط کردہ سامراجی جنگ کے دوران بھی افغانستان کی اکثریتی آبادی بنیادی ضروریات سے محروم رہی اور خواتین صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات حاصل نہیں کر سکیں۔ گوکہ اس دوران دنیا کو دکھانے کے لیے کابل شہر اور کچھ دوسری جگہوں پر تعلیمی ادارے اور صحت کی کچھ سہولیات بنائیں گئیں اور یہ تاثر دیا گیا کہ یہاں ایک لبرل جمہوریت قائم کی جا رہی ہے۔ اس دوران درمیانے طبقے کی ایک چھوٹی سی پرت کی خواتین کو کچھ سہولیات حاصل ہوئیں جس کی بنیادپر فیمینزم اور لبرلزم کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ لیکن اس وقت بھی یہ واضح تھا کہ یہ سہولیات آبادی کے ایک انتہائی قلیل اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے موجود ہیں اور دیہی علاقوں میں رہنے والی لاکھوں خواتین ان سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ اسی طرح غربت اور بیروزگاری کا عفریت بھی پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے موجود رہا جس کے سماجی اثرات ناگزیر طور پر خواتین پر مرتب ہوتے رہے اور وہ سماج کی پسماندگی کا مسلسل شکار ہوتی رہیں۔
طالبان کی وحشت اور خواتین پر جبر
طالبان کی واپسی کے بعد سامراج کی مسلط کردہ ریاست منہدم ہو چکی ہے اور خواتین کی نام نہاد آزادی کا واویلا کرنے والے لبرل دمُ دبا کر بھاگ چکے ہیں۔ اس دوران امریکہ اور طالبان کے دوبارہ خوشگوار تعلقات بحال کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے اور طالبان حکومت کے ایک وفد کو ناروے میں لبرل حکمرانوں کی جانب سے خوش آمدید بھی کہا جا چکا ہے۔ اس تمام عمل میں افغانستان میں رہنے والی خواتین کی حالت زار پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ بد تر ہو چکی ہے اور وہ ایک طرف جہاں ملائیت کی وحشت اور بربریت کا شکار ہو رہی ہیں، سماجی پسماندگی کے ہاتھوں تذلیل اٹھا رہی ہیں، وہاں معاشی بربادی اور سماج کے انہدام کے باعث تیزی سے موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔ یہ تمام صورتحال واضح کرتی ہے کہ نہ تو لبرلزم اور فیمینزم خواتین کو سماجی جبر اور وحشت سے نجات دلا سکتا ہے اور نہ ہی ملائیت کی وحشت خواتین کو کسی بھی قسم کی عزت، احترام اور زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔
طالبان نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے خواتین کو جبر کا نشانہ بنانا شروع کیا اور ان پر سماجی زندگی کے تمام دروازے بند ہوتے چلے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اقتدار پر قبضے کے بعد طالبان نے فیصلہ کیا کہ قبضہ شدہ علاقوں کے تمام امام اور مُلاں 15 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں اور 45 سال سے کم عمر کی بیواؤں کو طالبان جنگجوؤں سے شادی کرنے کی فہرست فراہم کریں۔ گوکہ طالبان کی جانب سے کئی بار تردید کی گئی مگر سوشل میڈیا پر ایسی کئی رپورٹس اورویڈیوز گردش کر رہی ہیں جہاں پر لوگ طالبان کی اس گھناؤنی حرکت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ نام نہاد مجاہدین نے خواتین پر جو جبر کیاوہ بھی تاریخ کا ایک کربناک باب ہے۔ خواتین کو مسلسل امتیازی سلوک، پسماندگی، تعلیم، صحت کے حصول اور روزگار تک رسائی میں سخت پابندیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ پابندیاں کئی طریقوں سے نافذ کی جارہی ہیں۔ ان میں کم عمرلڑکیوں کی جبری شادی اور نوجوان لڑکیوں کو بنیادی تعلیم سے روکنا، غیرت کے نام پر قتل اور دیگر ایسے جرائم شامل ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں اکثر ثقافتی پسماندگی کی وجہ سے خواتین پر جبر کے بہت سے واقعات ہو رہے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے۔ خواتین کو تشدد کی مختلف اقسام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری، مار پیٹ، کوڑے مارنے، جسم فروشی، تیزابی حملے، جبری شادی، قبائلی اور جائیداد کے تنازعوں سے متعلق دشمنی کو حل کرنے کے لیے خواتین کو بیچا جاتا ہے۔ جنگجوؤں کے حملوں کے دوران خواتین کے خلاف تشدد بھی جنگ زدہ ملک میں ایک قبول شدہ طرز زندگی بن گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے مطابق صرف 2020ء میں رپورٹ شدہ 1146 خواتین پر مختلف قسم کے تشددکے واقعات رونما ہوئے جن میں 390 ہلاک اور 756 زخمی ہوئیں۔ حالانکہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ 2009ء میں منظم دستاویزات شروع ہونے کے بعد سے یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں بھی کئی خواتین ہلاک اور زخمی ہوئیں۔ افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کی خواتین کے خلاف ہونے والے شدید تشدد کی رپورٹس کے مطابق 2020ء کے پہلے 10 مہینوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے کل 3477 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ اس نے خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے 130، خواتین کے خلاف زبانی یا ذہنی تشدد کے 1120 اور معاشی تشدد کے 601 واقعات بھی درج کیے۔ معاشی تشدد میں عورتوں کو ان کی وراثت سے محروم کرنا، روزگار سے محروم کرنا، خاندانی اخراجات میں کردار کو روکنا، ان کا سامان ان کی رضامندی کے بغیر فروخت کرنا اور انہیں کام کرنے سے روکنا شامل ہے۔ تشدد کے دیگر معاملات میں گھر سے نکالنے، کم عمری کی شادی، جبری شادی، خواتین کی ادلی بدلی/وٹہ سٹہ اور خواتین اور لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنے کے 385 مختلف واقعات شامل ہیں۔
افغانستان کی معیشت مکمل طور پر منہدم ہو چکی ہے اوررہی سہی کسر عالمی پابندیوں نے پوری کر دی ہے۔ اس وقت کسی بھی ایشو کے حوالے سے جو بھی اطلاعات میڈیا پر زیرِ گردش ہیں وہ کابل یا چند بڑے شہروں تک موجود ہے۔ مطلب یہ کہ افغانستان کی آبادی کی اکثریت جو دیہی علاقوں میں رہتی ہے، کے حوالے سے میڈیا پر زیرِ گردش مواد کا کوئی تعلق نہیں۔ طالبان کے قبضے کے فوراً بعد ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 93 فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ طالبان سے پہلے اس کی تعداد 80 فیصد تھی۔ اسی ادارے کی ایک اور رپورٹ ہے کہ رواں سال کے خاتمے تک 97 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گرجائینگے۔ ابھی تک اطلاعات یہی گردش کر رہی ہیں کہ لوگ ایک یا دو وقت کھانے کے لیے گھریلو اشیاء بیچنے پر مجبور ہیں۔ ایسے حالات میں خواتین مزید استحصال اور جبر کا شکار ہورہی ہیں۔ اکثریت کی صحت جواب دینے لگتی ہیں اور بہت سی ذہنی مریض بن جاتی ہیں۔ افغانستان میں ایسی کئی رپورٹیں وائرل ہو چکی ہیں کہ جہاں پر والدین میں سے خواتین ایک طرف اگر بھیک مانگتی ہیں تو دوسری طرف وہ اپنے جسمانی اعضاء اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کیلئے بیچتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو چکی تھی جہاں پر ایک والد اپنی تین سالہ بچی کو آواز لگا کر بیچ رہا تھا مگر اس کو کوئی خریدار نہیں ملا تو بچی اور والد دونوں مایوس ہوکر گھر لوٹے، جہاں فاقہ کشی ان کے انتظار میں تھی۔
دوسری جانب خواتین کو روزگار سے منع کرنے کے باوجود ایسے ہزاروں کی تعداد میں خاندان موجود ہیں جن کی کفالت اب تک خواتین مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دینے سے کر رہی تھیں، لیکن اب وہ روزگار ختم ہو چکے ہیں۔ لاکھوں کے قریب افغان عوام طالبان سے نفرت کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر دربدر کی زندگیاں گزار رہے ہیں، صرف کابل میں لاکھوں کی تعداد لوگ IDP’s کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پاکستان، ایران، تاجکستان سمیت یورپ کے لیے خطروں سے بھرپور راستوں سے ہوکر افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ مگر اب کی بار کوئی بھی ہمسایہ سامراجی ملک افغان مہاجرین کو قبول نہیں کر رہا، کیونکہ اس بار ڈالروں کی مقدار کم مل رہی ہے۔ جو لوگ پاکستان، ایران یا کہیں اور جاچکے ہیں، ان کی زندگی انتہائی اذیت ناک ہے، اور یہاں پر بھی خواتین کی حالت ابتر سے بھی بدترہے۔
ثور انقلاب اور خواتین کے حقوق
افغانستان میں خواتین کو تاریخ میں اگر کبھی کچھ حاصلات ملی ہیں تو وہ 1978ء میں ثور انقلاب کے فوری بعد ہونے والے اقدامات کے بعد ملی تھیں۔ اس انقلاب کے فوری بعد خواتین کی خرید و فروخت پر مکمل طور پر پابندی لگا دی گئی تھی اور جہیز سمیت تمام لعنتوں کا خاتمہ ہوا تھا۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کی سہولیات کی مفت فراہمی کا آغاز ہوا تھا اور ساتھ ہی سماجی زندگی میں خواتین کی شمولیت کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات بھی کیے گئے تھے۔ سماج میں رسم و رواج اور ثقافت کے نام پر خواتین پر جبر کی جو پسماندہ روایات موجود تھیں ان کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور مرد و عورت کی برابر ی کا کھل کر اعلان کیا گیا۔ اس انقلاب کے خلاف سازش کرنے کے لیے امریکی سامراج کی قیادت میں تمام طاقتوں نے سماج کے پسماندہ حصوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اسی تاریخی پسماندگی کو دوبارہ مسلط کرنے کے ایجنڈے پر سماج کے پچھڑے ہوئے عوام دشمن حصوں کو ڈالر جہاد کے لیے اکٹھا کیا۔ دوسری جانب ثور انقلاب کے بعد خواتین بڑے شہروں میں سماجی زندگی کا اہم حصہ بن گئی تھیں۔ نئی حکومت نے اپنی خواتین کی تنظیموں کے ذریعے خواندگی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا اور تقریبا 18 ہزار بھرتی ہونے والے اساتذہ کے ساتھ انہوں نے ایک سال کے اندر ناخواندگی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اسی طرح فوج سمیت تمام اداروں میں خواتین کی شمولیت میں تیز ترین اضافہ ہوا تھا اور ان کے لیے صحت اور تعلیم کی سہولیات تاریخ میں سب سے بلند سطح پر پہنچ گئی تھیں۔
امریکی سامراج اور عوام دشمن قوتوں کا گٹھ جوڑ
90ء کی دہائی میں اس انقلاب کی پسپائی کے بعد خواتین کے لیے ایک تاریک دور کا آغاز ہوا جو تین دہائیاں بعد آج بھی جاری ہے۔ امریکی سامراج کی یلغار کے دوران بھی لاکھوں خواتین علاج اور تعلیم کی سہولیات سے محروم رہیں اور ان پر سماجی گھٹن میں بھی عمومی طور پر اضافہ ہوا۔ صرف شہروں میں حکمران طبقے اور مڈل کلاس کے کچھ حصوں میں خواتین کو چند مراعات ملیں جو اب ختم ہو چکی ہیں۔ امریکی سامراج نے اپنی دو دہائی کی براہ راست مداخلت کے دوران پراپیگنڈے کی حد تک تو طالبان کو اپنا دشمن قرار دیا لیکن عملی طور پر نہ صرف ان سے مذاکرات جاری رکھے بلکہ سماج کے بہت سے پسماندہ حصوں کو اپنی مسلط کردہ کٹھ پتلی حکومت کا حصہ بنایا۔ شمالی اتحاد سے لے کر جنوبی حصوں کے وار لارڈز، قبائلی سردار اور دیگر ایسی رجعتی طاقتوں کو اقتدار میں حصے دار بنایا گیا جو خواتین کے حقوق کے نہ صرف شدید مخالف تھے بلکہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے خواتین سمیت سماج کے مظلوم حصوں کے قتل عام سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ ایک طرف امریکی پراپیگنڈہ مشین اور دیگر مغربی ممالک کے فنڈ سے چلنے والی این جی اوز خواتین کے حقوق سمیت دیگر بہت سے ایشوز پر اپنی کارکردگی دکھانے میں مصروف تھیں اور ترقی اور خوشحالی کی جھوٹی تصویریں پیش کر رہی تھیں جبکہ دوسری جانب امریکہ کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت میں سماج پر پسماندگی مسلط کرنے اور قتل و غارت کرنے والے افراد شامل تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباًوہی تمام لوگ اب موجودہ طالبان حکومت کا بھی حصہ ہیں اور نئے حکمرانوں کے ساتھ مل کر سماج پر وہی پسماندگی، جہالت اور خونریزی مسلط کررہے ہیں جس کا مقصد اپنے اقتدار اور لوٹ مار کے عمل کو جاری رکھنا ہے۔
خواتین کی حقیقی آزادی سے طالبان سمیت ایسے تمام افراد اور طاقتیں خوفزدہ ہیں جو افغانستان کو کسی بھی انقلابی تبدیلی سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور موجودہ نظام کے تحت اس خطے کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ایران اور پاکستان سے لے کر روس اور چین تک تمام سامراجی طاقتیں یہاں عوامی بغاوت کو ابھرنے سے روکنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لیے پہلے سے موجود ظالم حکمرانوں اور علاقائی سرداروں سے گٹھ جوڑ کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے رستہ نکالنا چاہتی ہیں۔ اسی لیے یہ کسی بھی ایسی کوشش کی حمایت نہیں کریں گے جس سے پرانا سٹیٹس کو ٹوٹے اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے کسی بھی عمل کا آغاز ہو۔ خواتین کے حقوق کی جدوجہد درحقیقت ماضی کی تمام پسماندگی اور جبر کے خلاف بغاوت کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتی ہے اور اس کے لیے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ملکیتی رشتوں کو توڑنا ہوگا۔ نجی ملکیت اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کیے بغیر خواتین کی آزادی کی جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس مقصد کے لیے خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو مقامی حکمرانوں سمیت خطے کی تمام سامراجی طاقتوں کے خلاف لڑائی سے جوڑنا پڑے گا اور اس کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے محنت کش طبقے سے یکجہتی کی اپیل کرنا ہوگی۔
خواتین کے احتجاج اور آگے کی لڑائی
طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب خواتین کے احتجاجوں کا آغاز ہوا تو اس کی حمایت میں ایران سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں محنت کشوں کی جانب سے اسے یکجہتی بھی ملی جس کے دباؤ کے بعد مختلف ممالک کے حکمرانوں نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ لیکن محنت کشوں پر یہ واضح ہے کہ حکمرانوں کی تمام تر پالیسیاں اپنے اپنے ممالک کے سرمایہ دار طبقات کے مفادات کے لیے ہوتی ہیں اور انہیں افغانستان کے عوام اور بالخصوص خواتین کے حقوق میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آنے والے وقت میں انہی سامراجی ممالک کے حکمران طالبان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہو ں گے اور خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس جدوجہد کو درست نظریاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی عمومی تحریک سے جوڑا جائے اور اسے خطے میں موجود محنت کش طبقے کی اُبھرنے والی ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں سے منسلک کیا جائے۔
گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے خواتین کے احتجاجوں کو افغان سماج کے اندر بھی بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ نام نہاد اسلامی امارت کے نمائندگان اور ان کے ہمدردوں کی جانب سے افغانستان میں جاری خواتین کے اِکادُ کا مزاحمتی احتجاجی مظاہروں کو مغرب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان پر مغرب نواز ہونے کا لیبل لگا کر ان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجودافغانستان کے اندر احتجاج کرنے والی خواتین اپنے بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے لیے برسرپیکار ہیں۔ طالبان کی جانب سے ایک اور حربہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے جس میں خواتین کے خود ساختہ احتجاجی مظاہروں کو مغربی ممالک سے ڈالروں کی بھیک مانگنے کے لیے اپنے مفادات کے تحت استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ گو کہ اس دوران خواتین پر تمام تر جبر پہلے سے زیادہ شدت سے مسلط رہتا ہے۔ اس دوران خواتین پر مزید جبر کرنے کی دھمکیاں دے کر مغربی ممالک سے امداد کی بھیک بھی مانگی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے کپڑے کی دکانوں میں موجود پلاسٹک کے مجسموں کو ذبح کرنے کی ویڈیوز بھی جاری کر دی جاتی ہیں۔ درحقیقت مغربی سامراجی طاقتوں اور طالبان کی اس رسہ کشی کے دوران خواتین کے جبر کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور دونوں فریق حتمی طور پر اس جبر میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس اہم ترین موضوع پر درست نظریات کا پرچار وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور سماج کی باشعور پرتوں تک دونوں فریقین کی منافقت اور عوام دشمنی کھل کر واضح کرنی چاہیے۔
آنے والے عرصے میں افغانستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد وسعت اختیار کر سکتی ہے اور سماج کے دیگر سلگتے ہوئے ایشوز کو ساتھ جوڑتے ہوئے تمام تر وحشت اور بربریت کے خلاف ایک حقیقی آواز بھی بن سکتی ہے۔ اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اسے سوشلسٹ نظریات سے لیس کرنا ہوگا اور سرمایہ دارانہ نظام کے ظالمانہ کردار سے روشناس کرواتے ہوئے اسے سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔ ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے بغیر باقی تمام حل جھوٹ اور مکاری کے سوا کچھ نہیں۔ صرف خطے کا ایک سوشلسٹ انقلاب ہی خواتین کو حقیقی آزادی دلا سکتا ہے اور انہیں اس جبر اور ذلت کی دلدل سے نجات دلا سکتا ہے۔