’’سرمایہ دارانہ نظام میں عورت مرد کے تو کُجا، عورت کے برابر بھی نہیں ہو سکتی‘‘
[تحریر: صبغت وائیں]
آج ٹی وی پر پتہ چلا کہ عورتوں کی برابری کا دن ہے۔ دل کو اچانک ایک خوشی کا احساس ہوا کہ چلو عورتوں کی بھی سنی گئی۔ اب عورتیں برابر ہو جائیں گی۔ کچھ دیر اس خوشی میں مگن رہنے کے بعد ایک سوچ نے دل میں سر اُٹھایا کہ۔۔۔برابر۔۔۔ مگر کس کے؟
مزید کچھ دیکھ سن کر احساس ہوا کہ یہ لوگ مرد اور عوت کی برابری کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پدر سری معاشرے میں عورت، مرد کے برابر آ جائے۔ عورت کا وہ مقام جو کہ گزشتہ چھ ہزار برس سے اس سے چھن چکا ہے، دوبارہ اسے مل جائے۔
عورت کے چھن جانے والے مقام پر مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ نجی ملکیت کے آغاز کے ساتھ ہی (جو کہ زراعت کی دریافت کے ساتھ ہی زرعی پیداوار کے ذخیرہ کئے جانے کی خاصیت کی بنا پر شروع ہو گئی تھی) اس پر قبضے کی جدوجہد شروع ہوگئی تھی اور یہ کہ اس کے ساتھ ہی جنگ اور جنگ میں پکڑے گئے مردوں کو غلام بنائے جانے سے دورِ غلامی کا آغاز ہو گیا تھاجس کے دیگر نتائج کے ساتھ ساتھ ایک نتیجہ یہ بھی نکلا تھا کہ عورتیں اور بچے بھی نجی ملکیت ہی کی ایک شکل اختیار کر گئے تھے۔
آج عورت کی برابری کی بات ہو رہی ہے۔ برابری۔۔۔ مگر کیسے؟
ہم سنتے ہیں کہ بھارت میں شاید عورت سب سے زیادہ ظلم کا شکار ہے۔ جہیز کی لعنت سے لے کر جنم سے پہلے ہی لڑکی کے جنین کے ضائع کر دئے جانے تک۔ لیکن دوسری طرف، بھارت کی فلمی صنعت، وہاں کی پولیس اور فوج میں عورتوں کی تعداد، وہاں کے بزنس اور کارپوریٹ سیکٹر، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیامیں عورتوں کی تعداد، اس کے علاوہ وہاں کی فیشن اور حسن کی انڈسٹری میں عورتوں کی بالا دستی! بھارت کی سب سے بڑی اور موجودہ حکمران جماعت کی سربراہ سونیا گاندھی، ( پہلے اندرا گاندھی بھی رہی ہے) دہلی کی موجودہ مکھ منتری شیلا ڈکشت، تامل ناڈو کی جے للیتا، مغربی بنگال کی ممتا بینر جی، (ویسے مشرقی بنگال یعنی بنگلہ دیش میں بھی شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء بھی باریاں لگائے بیٹھی ہیں) اُتر پردیش کی سابقہ مکھ منتری مایا وتی اور بہار کی رابڑی دیوی۔۔۔وغیرہ سب عورتیں ہیں۔ تو کیا وہاں عورت برابر ہے؟
عورت کی برابری کی بات کرنے والے یورپ اور امریکہ کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں عورت کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں عورت کو برابری کے نام پر جس ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس پر مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں عورت کو شئے یعنی کموڈیٹی (بکنے اور استعمال ہونے والی چیز)کے درجے تک گِرا دیا گیا ہے۔ اس مظہر کو دیکھنے کے لئے وہاں کے کسی فیشن شو میں کیٹ واک کرتی ہوئی عورتوں کو دیکھیں، جانوروں کی طرح جن کی نمائش کی جارہی ہوتی ہے۔ ان میں کسی نامیاتی عنصر کا شائبہ تک نہیں جھلکتا۔ یوں لگتا ہے گویا روبوٹ چل رہے ہوں۔ کیا یہ وہ برابری ہے جس کے لئے ہمارے آزاد خیال حضرات اُچھل پھاند کر رہے ہیں؟
پچھلے دنوں اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے پاکستان میں آکر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ یہاں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں 30فی صد عورتیں موجود ہیں۔ توحکمران طبقے کی ان بہنوں، بیٹیوں، بھتیجیوں اور بھانجیوں کے اسمبلی میں پہنچ جانے سے غربت، افلاس اور استحصال کی چکی میں پس رہی عورتوں کو کوئی خوشگوار اُمید رکھنی چاہئے؟
قدرت نے عورت اور مرد میں حیاتیاتی تقسیم رکھی ہے یعنی عورت، مرد کے اور مرد، عورت کے حیاتیاتی اعتبار سے برابر نہیں آسکتے۔ پس برابری کے لئے ہمیں کسی نہ کسی معیار کو تو مدِ نظر رکھنا پڑے گا۔وہ کون سا معیار ہو گا؟ سماجی، سیاسی یا کوئی اور؟
سچ بات تو یہ ہے کہ بظاہر اس قدر پیچیدہ نظر آنے والا مسئلہ اتنا پیچیدہ بھی نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی برابری کی عدم موجودگی میں کسی بھی دوسری برابری کا ہونا ناممکن ہے۔اور سرمایہ داری نظام میں معاشی برابری ناممکن ہے۔ اس لئے اس سرمایہ دارانہ نظام میں عورت مرد کے تو کُجا، عورت کے برابر بھی نہیں ہو سکتی! برابری کرنے کے لئے سب سے پہلے معاشی برابری کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ صرف سوشلزم ہی میں ممکن ہے۔
ورنہ یہ اسمبلیوں میں بیٹھی ہوئی’ معزز‘ خواتین کیا عوام کی بھکاری عورتوں سے کسی بھی طور برابر ہو سکتی ہیں؟ اس نظام میں تو 99فی صد عورتوں اور مردوں کے پاس صرف ووٹ دینے کا ’’حق‘‘ ہے، اور معاشی برابری نہ ہونے کے باعث ووٹ لینے کا حق صرف ایک فیصد یا اس سے بھی کم مردوں اور عورتوں کے پاس ہے۔
ایک اور سوال ذہن میں آتا ہے۔ پچھلے دنوں حکمران پارٹی کی ایک خاتون سیاستدان کے بس ہوسٹس کو تھپڑ مارنے کی خبر سامنے آئی تھی، کیا یہ دونوں عورتیں برابر تھیں؟ اور کیا وہ عورت جس نے بیکری ملازم کو پہلے خود مارا پھر اپنے گارڈز سے پٹوایا، اس بیکری کے اسفل ملازم مرد سے کروڑہا گُنا زیادہ طاقتور نہیں تھی؟ سرمایہ داری میں طاقت کا پیمانہ سرمایہ ہوتا ہے۔اس لڑکی کے پاس جتنے گنا زیادہ سرمایہ تھا اس کی طاقت بھی اتنے ہی گنازیادہ تھی۔ یہ سرمایہ داری نظام کا بنیادی خاصہ ہے۔اس نظام میں نہ تو مردایک دوسرے کے برابر ہیں، نہ ہی عورتیں۔ چنانچہ ’’جنسی برابری‘‘ کی بات مڈل کلاس اور حکمران طبقے کے چونچلوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ نظام معاشرے کی اکثریت کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر اقلیت کا غلام بناتا ہے۔ اس اکثریت اور اقلیت میں مرد و خواتین سب شامل ہیں۔ جب تک استحصال پر مبنی اس طبقاتی سماج اور اسے جنم دینے والے نظام کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، نہ تو سماجی برابری نصیب ہوسکتی ہے اور نہ انسان بحیثیت مجموعی سرمائے کی غلامی سے آزاد ہوسکتا ہے!
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – وجود زن ہے آھن!