|تحریر: انعم خان|
کورونا وائرس نے دنیا بھر میں معمولاتِ زندگی کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ 2008ء میں جنم لینے والا عالمی معاشی بحران جو خود ایک ’بحرانی سٹیٹس کو‘ بن چکا تھا، کورونا وباء نے اس کے بھی پرخچے اڑا کر رکھ دیئے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ تو پہلے ہی موجود نہیں تھا کیونکہ اس کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی پھر کورونا بحران نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا اور اب اس نظام کے وجود کے تمام جواز ختم ہو چکے ہیں۔ کورونا سے جنم لینے والے عالمی سماجی بحران نے اس نظام کی ماضی کی ترجیحات کا بڑی بے رحمی سے پردہ چاک کیا ہے۔ صحت، خوراک، تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی انسانی ضروریات کے متعلق تو عالمی حاکموں نے کئی دہائیوں سے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ بلکہ انہیں ملکی معیشتوں پر ”بوجھ“ گردان کر انہیں درندہ صفت نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا تاکہ وہ انسانی آبادی کی کبھی نہ ختم ہونے والی ان بنیادی ضروریات پر لا متناہی شرح منافع حاصل کرتے رہیں۔ کچھ عقل کے اندھے جو خود کو کہتے تو بایاں بازو ہیں لیکن در حقیقت سرمایہ داری کے طرفدار اوراس کے معذر ت خو اہان ہیں، تاریخ کا دھاراموڑ کر سرمایہ داری کے اچھے مرحلے یعنی ریاستی سرمایہ داری کی جانب واپس جانے کو تمام مشکلات کا حل بتا رہے ہیں۔ ان کے حساب سے قصور سرمایہ داری کا نہیں ہے بلکہ اس کے موجودہ طرز یعنی آزادمنڈی کی معیشت کی موجودہ شکل جسے نیو لبرل ازم کہا جاتا ہے، کا ہے اور اگر نظام کو ماضی کی طرزپر چلا یا جائے تو”سب ٹھیک“ ہو جائے گا۔ لیکن ایسی نیک خواہشات کا دورِ جدید کے حقائق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ ریاستیں معاشی مداخلت کرنے کی اپنی صلاحیت بحران آنے سے پہلے ہی استعمال کر کے بے تحاشا قرضوں کا بوجھ اپنے سر پر چڑھا چکی تھیں۔ دوسراطریقہ یعنی پیسے چھاپنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہونا بلکہ اور بگڑنا ہے کیونکہ پیسہ بذات خود پیداوار کی قدر کا اظہار ہوتا ہے۔ بغیر قدر پیدا کئے یہ افراط زر تو پیدا کر سکتا ہے لیکن معاشی استحکام نہیں لا سکتا۔ اس کے باوجود بھی یہ خواتین و حضرات بڑھ چڑھ کر نیو لبرل ازم کے خلاف مہم چلا رہے ہیں تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کا کسی طرح دفاع کیا جا سکے۔ لیکن موجودہ صحت و سماجی بحران نے جو بظاہر ایک حادثاتی مظہر ہے، اس مہم کو خاصا دھچکا دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ منافع کی حوس نے کائنات کے وسائل کو تیزی سے استعمال میں لا کر اس کو انسانوں کے لیے پر خطر جگہ بنا دیا ہے جس کے باعث کورونا وائرس زیاہ خطرناک ہو کر انسانی جانوں کونگل رہا ہے۔ اب یہ صاحبان فرمائیں گے کہ یہ وباء تو قدرتی مظہر ہے لیکن سرمایہ دارانہ منافعوں کی حوس نے خود قدرت کو انسان کیلئے خطرناک بنا دیا ہے۔ ایک غیر طبقاتی معاشرے میں بھی یقینا وباؤں کے پھوٹنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن اُس نظام میں قدرتی وسائل اورتکنیکی وسائل کو ملا کر ہر ایک متاثرہ انسان کو بچانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ انسان کو وباؤں کے آگے بے بس ہو کر مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جائے گا۔
کورونا بحران اور خواتین
کورونا بحران نے بھی ہر بحران کی طرح سب سے زیادہ محنت کش طبقے کو ہی متاثر کیا ہے جو پہلے ہی کسمپرسی کی زندگی جی رہے تھے۔ بیروزگاری، بھوک، بے گھری، لاعلاجی اور اس جیسے ہزاروں سلگتے مسائل کی شدت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ صرف پاکستان میں اس صحت عامہ کے بحران کے سبب 1 کروڑ سے زائد لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور 1.5 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے گر گئے ہیں۔ جو محنت کش بیروزگار ہونے سے بچ گئے ان کے ورک لوڈ یعنی محنت کے استحصال اور لوٹ میں اضافہ کرکے سرمایہ داروں نے اپنے منافعوں میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ کمی تو دور کی بات بلکہ اسی بحران کے عرصے میں مٹھی بھر عالمی سرمایہ داروں کے منافعوں میں ہو شربا اضافہ ہواہے۔ آکسفیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 32 بڑی کمپنیاں اس سال 109 ارب ڈالر کمائیں گی! جبکہ 2021ء تک مزید 15 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا گریں گے! ظاہرہے ان کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ پہلے سے ہی گرتے ہوئے معیار زندگی، وبا ء اور پھر لاک ڈاون نے سماج کی اکثریت کے لیے محض معاشی عذاب ہی نازل نہیں کیے بلکہ ان کے لیے سماجی، ثقافتی، نفسیاتی اور صنفی جبر کی شدت میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اور اس عمل میں معاشرے کی پہلے سے ہی کمزور ترین پرت یعنی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
ان میں محنت کش خواتین، گھریلو خواتین اور نوجوان لڑکیاں سب شامل ہیں۔ محنت کش خواتین بیروزگاری اور اجرتوں میں کٹوتیوں یا پھراپنے کام کے اداروں میں مالکان کی جانب سے افرادی قوت گرائے جانے کے سبب کم اجرت اور زیادہ کام ہونے کے سبب شدید متاثر ہوئی ہیں۔ آمدن کم، مہنگائی بڑھنے اور گھر کے افراد کے زیادہ تر وقت گھر پر ہونے کی وجہ سے اخراجات اور گھریلو کام کاج میں اضافے کے سبب گھریلو خواتین شدید دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ پہلے کی طرح گھر چلانا ممکن ہی نہیں رہا۔ نوجوان لڑکیاں و بچیاں، جن کی اکثریت آج بھی مالی اور ثقافتی مسائل کی بنیاد پر تعلیم سے محروم رکھی جاتی ہے، ان کی کم عمری میں شادیاں یا پھر گھریلو کام میں اضافے کے تحت استحصال میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان جہاں پہلے مرحلے میں ہی 75 فیصد لڑکیوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں وہاں اعلیٰ تعلیم یا یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کرپانے والی طالبات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ وباء کے سبب گھرانوں کی آمدن میں واضح کمی آنے کی وجہ سے اس بار یونیورسٹیوں میں ہونے والے سالانہ داخلوں کی تعداد میں لگ بھگ 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس محرومی کا زیادہ شکار طالبات ہوئی ہیں۔ وبا ء اور لاک ڈاؤن کے سبب معمولاتِ زندگی میں آنے والی تبدیلیاں دنیا بھر میں انسانوں کے ذہنی دباؤ میں اضافے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ خواتین کے لیے اس کا اظہار بھی بھیانک انداز میں ہوا ہے۔ DW جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وبا ء کے سبب صرف پنجاب کے علاقے میں گھریلو تشدد کے رپورٹ کردہ واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے! اس حوالے سے باقی ملک میں صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کورونا وائرس کے خواتین کے حالاتِ زندگی پر پڑنے والے اثرات پر شائع کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وباء کے دوران 90 فیصد خواتین اپنے خاوند یا خاندان کے ہاتھوں گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ اسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 47 فیصد شادی شدہ خواتین کو جنسی تشدد اور خاص کر خانگی ریپ (Domestic Rape) کا سامنا رہا۔ گھریلو تشدد کی عامیانہ اشکال جن کا خواتین شکار بنتی ہیں میں 76 فیصد چیخنا چلانا، 52 فیصد تھپڑ مارنا، 49 فیصد دھمکیاں، 47فیصد دھکے مارنا، 40 فیصد مکے مارنا (Punching) اور 40 فیصد ٹانگوں سے مارنا شامل ہیں! اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ محض 0.4 فیصد خواتین ہی اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی رپورٹ کے معاملے کو عدالتوں تک لے کر جاتی ہیں! 50 فیصد سے زیادہ خواتین اس طرح کے تشدد پر کسی طرح کی بات ہی نہیں کرتیں اورخاموشی سے سہتی رہتی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں جنسی تشدد، ریپ، ہراسانی، ونی، کاروکاری سمیت خواتین پر تشدد کی ہر شکل بہت بڑے پیمانے پر موجود ہونے کے سبب معمول سمجھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ خود اس کا شکارہونے والی کئی خواتین بھی معاشرتی معمول کی نفسیات کے تحت اسے جبر نہیں سمجھتیں اور اسی سبب اسے رپورٹ بھی نہیں کرتیں۔ اس کے علاوہ معاشرے اور خود خاندان میں مناسب حمایت نہ ہونے کے سبب بھی بہت زیادہ واقعات بلکہ سانحات بھی رپورٹ نہیں ہو پاتے۔ اسی معمول بنا دی گئی فضا میں نہ صرف سانحہئ موٹر وے کے خلاف ابھرنے والے غم و غصے اور احتجاجوں کو بلکہ خود اس سانحے کو ہی ایک سازش قرار دیا گیا! میڈیا رپورٹنگ میں بھی زیادہ تر یہ موقف اپنایا گیا کہ درندہ صفت سی سی پی او لاہور کے بیان کی وجہ سے لوگ زیادہ غصہ ہوئے ہیں جس میں اس نے گینگ ریپ کا شکار بننے والی اس خاتون پر ہی اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے تحفظ کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بدترین ملک ہے۔ ایسے معاشرے میں جب لوگ اپنے ہی خوفناک معاشرتی مظاہر کے خلاف بڑے پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں تو یہاں کے نام نہاد دانشور جنہیں غلطی سے بھی تخلیق کبھی چھو کر نہیں گزری، جن کی اکثریت کا تعلق بھی برائے نام ترقی پسند حلقوں سے ہوتا ہے، اسے سازش سمیت ہر بلا کا نام دینے کو تیار ہوتے ہیں، سوائے اس حقیقت کو قبول کرنے کے کہ انسانی معاشرہ عالمی سطح پر تیز ترین تبدیلیوں کے عہد سے گزر رہا ہے۔ یہ وہی معاشرہ ہے جو ایک وقت میں بچوں کے جنسی تشدد کے حادثات کو چھپاتا تھا لیکن اب اس کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرتا ہوا اور سراپا احتجاج نظر آتا ہے، خاص کر سوشل میڈیا پر رپورٹ ہونے والے زیادہ تر واقعات شدید غصے کے جذبات کے ساتھ گھنٹوں میں وائرل ہو جاتے ہیں۔ سانحہئ قصور سے شروع ہونے والا غم و غصہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہاہے۔ اسی طرح سانحہئ ساہیوال پر امڈنے والا غم و غصہ اور احتجاج بھی محض اس سانحے کے خلاف ہی نہیں بلکہ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ماضی کے تمام تر بدترین واقعات کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ اور یہ کوئی انہونا مظہر بھی نہیں ہے، امریکہ میں ٹرمپ کے خلاف خواتین مخالف اور تضحیک آمیز باتیں کرنے کے خلاف بہت بڑے احتجاج ہوئے، سپین میں گزشتہ دو سالوں کے عالمی یوم خواتین کے موقعوں پر کامیاب ہڑتالیں کی گئیں، اس وقت بھی پولینڈ میں اسقاط حمل کے قوانین کے خاتمے کے خلاف بہت بڑے احتجاج کئے جا رہے ہیں۔ خود ہمارا خطہ، جو کہ دنیا کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے، یہاں بھی حال ہی میں بھارت میں ریپ کلچر کے خلاف بہت بڑے احتجاج ہو ئے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے بعد بنگلہ دیش میں اسی مدعے پر بہت بڑے عوامی احتجاج ہمیں دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہ سب ان رجعتی سمجھے جانے والے معاشروں میں صنفی جبر کے متعلق تبدیل ہوتی نفسیات کی عکاسی کر رہا ہے۔
ان احتجاجوں سے یا ان میں کئے جانے والے مطالبات موجودہ نظام کے ہوتے عورت کے استحصال میں کسی طور بھی کمی نہیں لا سکتے۔ ان احتجاجیوں کی اکثریت بھی صنفی جبر سمیت عورت کے استحصال کی بنیادی وجوہات پر بھی کلیئر نہیں۔ لیکن یہ سب اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پہلے کی طرح ہر چیز برداشت نہیں کی جا سکتی۔ صنفی جبر کے خلاف ابھرنے والا غم و غصہ، مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، جبری برطرفیوں سمیت عوام مخالف ہر رحجان کے خلاف ابھرنے والے غصے اور اس پر ہونے والے احتجاجوں کی ہی ایک کڑی ہے جو کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم مارکس وادی فی الوقت ان احتجاجوں اور تحریکوں کی قیادت میں نہیں ہیں، لیکن ہم ہر قدم پر ان کی قیادت پر ٹھوس نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے ان احتجاجوں کی تنقیدی حمایت کرتے ہیں۔ سانحہ موٹروے کے خلاف پاکستان میں ہونے والے احتجاجوں کی قیادت نسوانیت پرستوں کے پاس تھی، جنہوں نے ان احتجاجوں میں آئے ’مردوں‘ کو تقاریر کرنے سے روک کر اپنے نظریے کی محدودیت کا کھل کر اظہار کیا کہ جس کا مقصد ہی پہلے سے موجود صنفی تقسیم کے ناسور کوجدید انداز میں بڑھاوا دینا ہے، نہ کہ عورت کے استحصال کا خاتمہ کرنا۔ کیونکہ عورت کا استحصال دیگر معاشرتی مسائل کی طرح ہی ایک سماجی مدعا ہے اور سماج میں مرد و زن دونوں شامل ہوتے ہیں اور دونوں کی مشترکہ کاوش سے ہی معاشرے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنفی استحصال کے خلاف ہونے والے ان احتجاجوں، تحریکوں اور ہڑتالوں نے اس حقیقت کو واشگاف کردیا ہے کہ خواتین کے حالات ِ زندگی میں حقیقی بہتری کسی ایک یا دوسرے واقعے کے خلاف محض احتجاج کرنے سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے معاشرے کی انقلابی بنیادوں پر تبدیلی درکار ہے جسے محنت کش طبقے کے مرد و زن مل کر اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے ہی ممکن بنا سکتے ہیں۔