[تحریر: ایلن ووڈز]
مارکسسٹوں کے لیے سماج کی طبقاتی تقسیم تمام تر جبر کی بنیاد ہے لیکن جبر کی اشکال مختلف ہو سکتی ہیں۔ طبقاتی جبر کے ساتھ ساتھ ایک قوم کا دوسری قوم پر جبر، نسلی جبر اور خواتین پر جبر بھی اس سماج میں جاری ہے۔ مارکسسٹوں کو ہر جبر اور امتیازی سلوک کی ہر شکل کے خلاف لڑائی لڑنی چاہیے لیکن یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ صرف سماج کے اندر بنیادی تبدیلی اور طبقاتی غلامی کے خاتمے سے ہی وہ حالات پیدا ہونگے جن میں غلامی کی ہر شکل کا خاتمہ کر کے برابری، انصاف اور آزادی پر مبنی انسانی سماج قائم کیا جاسکتا ہے۔
عورت پر جبر ہمیشہ سے موجود نہیں تھا۔ دراصل جس خاندان کو آج ہم جانتے ہیں اس کا ہمیشہ سے وجود نہیں تھا۔ یہ ایک عارضی شکل ہے۔ مارکسزم وضاحت کر تا ہے کہ یہ طبقاتی سماج، ذاتی ملکیت اور ریاست کے ساتھ وجود میں آیا۔ عورت پر جبر سماج کی طبقاتی تقسیم جتنا پرانا ہے، لہٰذا اس کا خاتمہ طبقات کے خاتمے یعنی سوشلسٹ انقلاب پر منحصر ہے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ جیسے ہی پرولتاریہ طاقت پر قبضہ کرے گا تو عورت پر جبر خود بخود ختم ہو جائے گا۔ جب مر د اور عورت کے درمیان حقیقی انسانی رشتے کے قیام کے لیے سماجی حالات پیدا ہونگے تب ہی طبقاتی بربریت کی نفسیاتی باقیات پر قابو پایا جا سکے گا۔ لیکن جب تک پرولتاریہ سرمایہ داری کو اُکھاڑ کر غیر طبقاتی سماج کے حصول کے لیے حالات پیدا نہیں کر تی تب تک عورت کی حقیقی آزادی ممکن نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عورت کو اپنے مسائل کے حل کے لیے سوشلسٹ انقلاب کا انتظار کرنا چاہیے اور اس دوران امتیازی سلوک، ذلت اور مردانہ جبر کو برداشت کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس موجودہ سماج میں آگے بڑھنے کے لیے روزمرہ جد وجہد کے بغیر سماجی انقلاب کے بارے میں سوچا نہیں جا سکتا۔ عارضی حاصلات اور اصلاحات کے لیے جد وجہد کے ذریعے ہی محنت کش طبقہ بحیثیت مجموعی سیکھتا، اپنے شعور کو آگے بڑھا تا، اپنی طاقت کا احساس کرتا اور عظیم تاریخی فرائض سے آشنا ہو تا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے جد وجہد کے ذریعے ہی بہت ساری نوجوان خواتین سماجی تبدیلی کی ضرورت سے آشنا ہو تی ہیں۔ اُنہیں سماج میں عورت کے ساتھ بربریت پر مبنی ناانصافی کا شدید احساس متحرک کر تا ہے۔ ایک ایسے سماج کی اصلیت واضح ہوتی ہے جومنافقانہ طور پر جمہوریت اور انصاف کے راگ الاپتا ہے جبکہ آدھی انسانیت کو ذلت آمیز نا برابری، امتیازی سلوک اور ہر طرح کے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انقلاب کی ضرورت
ایسے بہت سے مطالبات ہیں جن کے لیے ابھی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ مثلاً کام کی جگہ اور سماج میں ہر طرح کے امتیازی سلوک کو غیر قانونی قرار دینا، ایک جیسے کام کے لیے برابر تنخواہ، اسقاط حمل اور طلاق کا حق، الگ والدین (Single Parents) سے امتیازی سلوک کا خاتمہ، مردانہ تشدد سے عورت کا تحفظ، جنسی آزار، زیادتی اور گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات، ہر کسی کے لیے گھر اور ملازمت کا حق، اعلیٰ معیار کی نگہداشتِ اطفال کی مفت فراہمی وغیرہ۔ یہ سب بہت ضروری ہے۔ تاہم عورت کی آزادی کی جد وجہد ایک ایسے سماج میں کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگی جہاں آبادی کی اکثریت پر بینکار اور سرمایہ دار مسلط ہیں اور استحصال کر تے ہیں۔ عورت پر جبر کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ طبقاتی جبر کا خاتمہ کیا جائے۔ عورت کی آزادی کی جد وجہد نامیاتی طور پر سوشلزم کی جد وجہد سے جڑی ہوئی ہے۔
سوشلسٹ انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقے اور اس کی تنظیموں کو بلاتفریق زبان، قومیت، نسل، مذہب اور جنس کے متحد کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف محنت کش طبقے کو جبر اور استحصال کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد میں شامل ہو کر سماج کی تما م مظلوم پرتوں کی رہنمائی کرنی چاہئے اور دوسری طرف تقسیم کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کر دینا چاہئے۔ چاہے یہ کوشش مظلوم طبقات کے کچھ حصوں کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔
خواتین اور قومی سوال پر مارکسی مؤقف کے درمیان مماثلت موجود ہے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ تمام تر قومی جبر کے خلاف لڑیں۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم قوم پرستی کی حمایت کرتے ہیں ؟ بالکل نہیں! مارکسزم بین الاقوامیت ہے۔ ہمارا مقصد نئی سرحدیں بنا نا نہیں بلکہ تما م سرحدوں کو ایک عالمی سوشلسٹ فیڈ ریشن میں ضم کرنا ہے۔ بورژوا اور پیٹی بورژوا قوم پرست محنت کش طبقے کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا مہلک کر دار ادا کرتے ہیں۔ وہ جابر قوم کے ہاتھوں سالوں کے امتیازی سلوک اور جبر سے جنم لینے والے نفرت کے جذبات کو استعمال کرتے ہیں۔ لینن اور روسی مارکسیوں نے ایک طرف ہر طرح کے قومی جبر کے ساتھ ساتھ بورژوا قوم پرستوں کی طرف سے قومی سوال کو لوگوں کو جذباتی کر نے کے لیے استعمال کرنے کے خلاف بھی بے رحم جد وجہد کی۔ انہوں نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ جاگیر داری اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں تمام قومیتوں کے محنت کشوں کو متحد کیا جائے جو سوشلسٹ فیڈریشن میں قومی سوال کے حل کی واحد ضمانت ہے۔
دوسرے الفاظ میں مارکسسٹ قومی سوال کو خاص طور پر طبقاتی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عورت پر جبر کی طرف بھی مارکسسٹوں کا یہی رویہ ہے۔ ہر طرح کے امتیازی سلوک اور جبر کے خلاف لڑائی کے دوران ہم مسئلے کو طبقاتی کی بجائے مرد اور عورت کی جنگ کے طور پر پیش کرنے کی ہر کوشش کو فیصلہ کن انداز میں مسترد کرتے ہیں۔ مزدوروں کے کسی بھی گروہ میں ہر طرح کی تقسیم (مثلاً مرد اور عورت کے درمیان، کالے اور گورے کے درمیان، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ، شیعہ یا سنی کے درمیان) صرف محنت کشوں کے مفادات کو نقصان پہنچا کر ان کی غلامی کو مزید طول دیتی ہے۔
عورت اور انقلاب
درحقیقت تحریک کی تمام تر تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی سوال بنیادی ہے اور انقلابی تبدیلی کے لیے جد وجہد کرنے والے مظلوم طبقات کی خواتین اور خواتین پر ہونے والی جبر کے مسئلے کو اپنے خود غرضانہ مفادات کے لیے استعمال کرنے والی دولتمند ’’ترقی پسند‘‘ خواتین کے درمیان ہمیشہ سے شدید لڑائی رہی ہے۔ ہر مرحلے پر اس طبقاتی تفریق نے شدید ترین انداز میں اپنا اظہار کیا ہے۔ کچھ مثالیں اس نقطے کی وضاحت کے لیے کافی ہیں۔
سترویں صدی میں خواتین نے سماجی اور سیاسی آزادی کے مطالبات پیش کرنے شروع کئے۔ انگلستان کے انقلاب میں خواتین نے بھر پور شرکت کر تے ہوئے شہنشاہیت کے خلاف اور جمہوریت اور مساوی حقوق کے لیے جد وجہد کی۔ 1649ء میں لند ن شہر کے خواتین کی پیٹیشن میں یہ کہا گیاکہ ’’جیسا کہ ہمیں یقین ہے کہ خدا نے ہمیں اپنی ہی مشابہت میں پیدا کیا ہے اور اس بات پر کہ مردوں کے مساوی ہی حضرت عیسیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس دولت مشترکہ میں حاصل آزادی پر برابر حق رکھتے ہیں۔ ہمیں حیرت اور دکھ ہوتا ہے کہ آپ ہمیں نیچ سمجھتے ہیں اور اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس ایوان کے سامنے اپنی گزارشات یا مسائل پیش کر سکیں۔ کیا اس ملک کے قوانین میں موجود آزادی اور تحفظ پر اس قوم کے مردوں کی طرح ہمارا حق نہیں ہے۔‘‘ ( J. O’Faolain and L Martines, Not in God’ s Image, pp. 266-7)
خواتین انقلابی تحریک کی بائیں جانب ریڈیکل گروہوں اور مذہبی فرقوں میں سرگرم تھیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ خواتین مبلغ اور وزیر بن سکتی ہیں۔ مثلاً میری کیری ’پانچویں شہنشاہیت ‘ کی ریڈیکل تحریک کے ساتھ منسلک تھی۔ ’’نئے یروشلم کی عظمت ‘‘ میں وہ لکھتی ہے کہ ’’وہ وقت آرہا ہے جب مذہبی بزرگان روحانیت کا ماخذ ہوں گے۔ ان میں صرف بوڑھے ہی نہیں جوان بھی شامل ہوں گے، صرف برتر ہی نہیں کم تر بھی شامل ہوں گے، صرف یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے ہی نہیں بلکہ ان پڑھ بھی، حتیٰ کہ نوکر اور گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں بھی۔ ‘‘
انقلاب فرانس اور خواتین
انقلاب فرانس کے وقت تک حالات بہت تبدیل ہو چکے تھے۔ طبقاتی تعلقات کے ساتھ شعور بلند ہوچکا تھا۔ اب انقلاب کو بائبل کے لبادے میں اوڑھنے کی مزید ضرورت نہیں تھی۔ لیکن خواتین کے حقوق کا کیا ہوا ؟انقلاب فرانس کو صرف طبقاتی نقطہ نگاہ سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ شورش زدہ سمندری لہروں کی مانند اُبھرتی اور گرتی ہوئی مختلف پارٹیاں، انجمنیں، رجحانات اورافراد دراصل مختلف طبقات کی جانب سے حالات کو اپنے تابع کرنے کی جد وجہد تھی۔ ہر انقلاب کا عمومی قانون یہ ہے کہ زیادہ ریڈیکل رجحانات، اعتدال پسند رجحانات کی جگہ لیتے ہیں۔ تب تک جب تک انقلابی تحریک تھک کر پیچھے کی جانب چلنا شروع نہیں کر تی۔ یہ ہر بورژوا انقلاب کا ناگزیر مقدر ہے۔ عوامی جوش و ولولہ اُس وقت ختم ہو جاتا ہے جب اُن کی غلط فہمیوں اور تحریک کی حقیقی طبقاتی نوعیت کے درمیان تضاد واضح ہو جاتا ہے۔
انقلابی تحریک میں طبقاتی تفریق شروع دن سے ہی واضح تھی۔ گرونڈنز (Girondins) بورژوا رجحان کی نمائندگی کر تے تھے جو ادھورا انقلاب کر کے، بادشاہ کے ساتھ معاہدہ کر کے آئینی بادشاہت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ انقلاب کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ عوام نے میدان میں آکر انقلابی طریقہ کار کے ذریعے رجعت کے ساتھ حساب بے باق کر کے ہی بر تری حاصل کی تھی۔ یہ عوامی اُبھار ہی تھا جس نے پرانے نظام کو ختم کرکے انقلاب کی فتح کو ممکن بنایا۔
عمومی طور پر یہ بات محسوس نہیں کی جاتی کہ انقلاب فرانس اور انقلاب روس دونوں میں خواتین نے قائدانہ کر دار اداکیے۔ ہم یہاں درمیانے طبقے کے تعلیم یافتہ نسوانیت پرستوں کی بات نہیں کر رہے جو انقلاب کے دوران سامنے آئے تھے بلکہ عام غریب اور محنت کش طبقے کی خواتین کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے طبقے پر ہونے والے جبر کے خلاف بغاوت کی تھی۔ پیرس کی عام اور نیم پرولتاری خواتین جنہوں نے 1789ء کے انقلاب کا آغاز کیا تھا، روٹی کے مسئلے پر اُٹھی تھیں نہ کہ عورت پر ہونے والی جبر کے مسئلے پر۔ اگر چہ بعد میں انقلاب کے دوران فطری طور پر یہ مسئلہ بھی اُٹھا یا گیا۔
’’ اگرچہ عام سوسائٹیز اور ووٹنگ میں خواتین کو شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن اُنہوں نے سر کشیوں میں بہت اہم کر دار ادا کیے۔ خاص طور پر اکتوبر 1789ء، 10 اگست 1792ء اور سب سے بڑھ کر 1795ء کے بہار کی بغاوت میں۔ حتیٰ کہ ریڈیکل ترین خواتین نے بھی ووٹ کے حق کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ اٹھارویں صدی میں رائج جنسی امتیاز کے وہ حالات تھے جو مردوں کو گھر سے باہر اور عورتوں کو نجی معاملات تک محدود کر تے تھے۔ اُنہوں نے خواتین کی مقبول عام انجمنیں بنائیں جن میں سب سے مشہو ر ’انقلابی جمہوری شہریوں کی انجمن‘ تھی۔ لیکن یہ صرف مئی سے اکتوبر 1793ء تک چل سکی۔ اس کے باوجود جیساکہ ڈومینک گوڈینو اور ڈارلین لیوی جیسے تاریخ دان کہتے ہیں کہ اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ خواتین مردوں کے سیاسی اور معاشی مطالبات سے متفق نہیں تھیں۔ خواتین نے نہ صرف مردوں کی حمایت کی بلکہ اُن کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ وہ مقبول عام انجمنوں کے دالان میں بیٹھتی تھیں۔ وہ روٹی کی دکانوں، مارکیٹوں اور گلیوں میں اپنی سیاسی سرگرمیاں کر تی تھیں۔ (The French Revolution, 1787-1799. The People and the French Revolution, by Professor Gwynne Lewis)
انقلاب سماج کی گہرائیوں تک سرایت کر جاتا ہے۔ انقلابات عوام اور ہر مظلوم طبقے کے سوئے ہوئے احساسات اور ارمانوں کو جگا دیتے ہیں۔ اس لیے عورت کی آزادی کے مطالبے نے شدید اہمیت اختیار کر لی۔ لیکن اس مطالبے کو مختلف رجحانات نے مختلف انداز میں سمجھا جس کی بنیادی وجہ مختلف طبقات کے اپنے اپنے مفادات تھے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ پیرس کی غریب پرولتاری اور نیم پرولتاری خواتین نے تحریک کی قیادت کی۔ وہ سماج کی سب سے مظلوم پرت تھیں جن کو عوام کی اذیتیں بھی برداشت کرنا پڑتی تھیں۔ اُن کو سیاسی جد وجہد اور تنظیم کا کوئی تجر بہ نہیں تھا۔ اس کے بر عکس مرد زیادہ محتاط، ہچکچاہٹ اور قانونی موشگافیوں کا شکار تھے۔ یہ تفاوت اُس وقت سے اب تک کئی بار دیکھنے کو ملی ہے۔ بہت سی ہڑتالوں، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، وہ مردوں سے زیادہ لڑاکا، پُر اعتماد اور باہمت تھیں۔ واضح طور پر یہ طبقاتی یعنی روٹی کا سوال تھا جس کی وجہ سے خواتین حرکت میں آئیں۔ یہی بات سو سال بعد پیٹروگراڈ میں بھی سچ ثابت ہوئی۔
انقلاب فرانس کے ہر اہم موڑ پر (کم سے کم اس کے ابتدائی مرحلوں میں) نچلے طبقات کی خواتین نے قائدانہ کر دار ادا کیا۔ اکتوبر 1789ء میں جب آئین ساز اسمبلی والے حضرات اصلاحات اور آئین کی نہ ختم ہونے والی رٹ لگا رہے تھے، اُسی دوران پیرس کی غریب خواتین، مچھلی منڈی کی محنت کش عورتیں، دھوبن، کپڑوں کی سلائی کرنے والی، دکانوں میں کام کرنے والیاں، ملازمائیں اور مزدوروں کی بیویاں خود رو طور پر اُٹھیں۔ بائیں بازو کی ان ریڈیکل خواتین نے سستی روٹی کے مطالبے کے لیے ایک مظاہرے کا اہتمام کر کے پیرس کے ٹاؤن ہال تک مارچ کیا۔ اُنہوں نے ورسائی محل پر ہلہ بول کر مردوں کو بھی شرما دیا۔ خواتین نے بادشاہ اور ملکہ میں جنسی بنیادوں پر کوئی فرق نہیں کیااور دونوں کو زبردستی پیرس لا کر نظر بند کردیا۔ جارج روڈ نے اس منظر کو اچھی طرح سے بیان کیا ہے:
’’اب خواتین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ روٹی کا بحران خاص طور پر اُن پر اثر انداز ہورہا تھا۔ مردوں کی بجائے خواتین ہی تحریک کی قیادت کر رہی تھیں۔ ہارڈی نے لکھا ہے کہ 16ستمبر کو چیلوٹ کے مقام پر خواتین نے غلے سے لدے پانچ چھکڑوں کو روکا اور انہیں پیرس کے ٹاؤن ہال میں لے آئیں۔ سترہ تاریخ کی دوپہر کو مشتعل خواتین نے ٹاؤن ہال کا گھیراؤ کیا۔ وہ نان بائیوں سے نا لا تھیں۔ میونسپل کونسل اور باٹلی نے اُن کا استقبال کیا۔ ہار ڈی کے مطابق ان خواتین نے علی الاعلان کہا کہ مردوں کو کچھ سمجھ نہیں آتی اور یہ کہ وہ تمام کام اب خود کریں گی۔ اگلے دن پھر ٹاؤن ہال کا محاصرہ کیا گیا۔ اسی شام خواتین نے غلے سے بھرا ایک چھکڑا روک کر اُسے مقامی ضلعی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا۔ یہ تحریک 5 اکتوبر کے سیاسی مظاہرے کے بعد بھی جاری رہی۔‘‘ (George Rud233, The Crowd in the French Revolution, p. 69)
اور پھر ’’ اس آغاز کے بعد خواتین ٹاؤن ہال میں جمع ہوئیں۔ اُن کا پہلا مقصد روٹی اور دوسرا غالباًاپنے مردوں کے لیے اسلحہ اور بارود حاصل کرنا تھا۔ ایک کپڑے کا تاجر، جو پرانی مارکیٹ کے قریب سے ساڑھے آٹھ بجے گزر رہا تھا، نے دیکھا کہ خواتین کے گروہ گلیوں میں اجنبیوں کو روک کر انہیں اپنے ساتھ ٹاؤ ن ہال تک جانے کے لیے مجبور کر رہے تھے (تاکہ وہاں جاکر لوگ روٹی حاصل کریں)۔ پہرے داروں کو غیر مسلح کیا گیا اور اسلحے کو خواتین کے پیچھے آنے والے مردوں کو دے دیا گیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک اور چشم دید گواہ جو وہاں کا خزانچی تھا، کہتا ہے کہ کس طرح ساڑھے نو بجے خواتین کی بڑی تعداد جن کے ساتھ مرد بھی تھے، عمارت پر چڑھ کر دفتروں میں گھس گئیں۔ ایک چشم دید گواہ نے کہا کہ اُن کے پاس ڈنڈے اور نیزے تھے جبکہ دوسرے کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس کلہاڑیاں اور بندوقیں تھیں۔ ایک خزانچی، جس نے حملہ آوروں سے احتجاج کرنے کی ہمت کی تو اُسے بتا یا گیا کہ ’’ ہم اس ٹاؤن ہال کے مالک ہیں۔ ‘‘ اسلحے اور بارود کی تلاش میں اُنہوں نے دستاویزات اور روزنامچے پھاڑ دیئے اور فنڈ کے ایک لاکھ Livre کے نوٹ الماری سے غائب ہوگئے، لیکن اُن کا مقصد پیسے یا لوٹ مار نہیں تھی۔ شہر کے خزانچی نے بعد میں پولیس کو بتایا کہ 3.5 ملین Livre سے زائد کی رقم کو ہاتھ بھی نہیں لگا یا گیا اور غائب شدہ بینک نوٹوں کو چند ہفتے بعد اُسی حالت میں واپس کیا گیا۔ جب برج سے خطرے کی گھنٹی بجی تو مظاہرین گیارہ بجے Place de Greve کے باہر جمع ہوگئے۔ اسی دوران میلارڈ اور اُس کے رضاکار موقع پر پہنچ گئے۔ اُس کے مطابق خواتین باٹلی اور لیفایٹ کو مارڈالنے کی دھمکی دے رہی تھیں۔ اس طرح کے حادثے سے بچنے کے لیے یا ’وطن پرستوں ‘ کے سیاسی عزائم کی خاطر میلارڈ نے ورسائی کی طرف بارہ میل کے مارچ کی قیادت کی تاکہ بادشاہ اور اسمبلی سے پیرس کے لیے روٹی کا مطالبہ کر سکے۔ جب سہ پہر کو وہ روانہ ہوئے تو اُنہوں نے شیٹلے سے توپوں کو ہٹا دیا۔ ہارڈی لکھتا ہے کہ اُنہوں نے ہر طرح کی خواتین کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی۔‘‘(George Rud233, The Crowd in the French Revolution, pp. 74-5)
یہاں ہمیں بالکل واضح نظر آتا ہے کہ پیرس کی محنت کش خواتین نے جد وجہد کو کس انداز میں دیکھا تھا۔ اپنے مردوں کی بے عملی سے تنگ آکر وہ خود پر جوش انداز میں جد وجہد میں کود پڑیں اور سب کچھ بہا لے گئیں۔ لیکن کسی بھی لمحے اُنہوں نے جدوجہد کو ’عورت بمقابلہ مرد ‘ کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ غریب اور مظلوم طبقات کی امیر استحصال کنندگان کے خلاف جد وجہد کی نظر سے دیکھا۔ روٹی کے معاشی مطالبے کے ساتھ وہ ٹاؤن ہال کی طرف بڑھیں اور اسی دوران خود بخود ایک نیا مطالبہ سامنے آیا: اسلحے کا مطالبہ۔ مقصد یہ تھا کہ مردوں کو عمل پر آمادہ کیا جا ئے۔ اس مقصد میں پیرس کی خواتین شاندار طریقے سے کامیاب ہوئیں اور انقلاب کو بچا لیاگیا۔
سیاست کے میدان میں عوام کی مداخلت کسی بھی انقلاب کی پہلی اور بنیادی خاصیت ہے۔ خاص طور پر خواتین کے معاملے میں یہ بات درست ہے۔ انقلاب فرانس میں خواتین نے سیاست کو مردوں کے لیے نہیں چھوڑا۔ پیرس میں جیکوبین کلب کی حمایتی انقلابی جمہوری خواتین بنیں جو سرخ اور سفید پٹیوں والے پتلون کی وردی اور آزادی کی سرخ ٹوپی پہنتی تھیں اور مظاہرے کے دوران اسلحہ بھی ساتھ رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے خواتین کے لیے ووٹ اور جمہوریہ میں سب سے بڑے فوجی اور شہری عہدوں پر تعینات ہونے کے حق کا مطالبہ کیا۔ یعنی مردوں کے ساتھ مکمل سیاسی برابری کا حق اور انقلاب کے لیے لڑنے اور مرنے کا حق۔
بلاشبہ پیرس کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین انقلابی جذبے، طبقاتی شعور اور امیروں سے لافانی نفرت سے سرشار تھیں۔ گیرونڈن خواتین، جن کا تعلق مراعات یافتہ درمیانی طبقے اور بورژوا خاندانوں سے ہوتا تھا، کے مفادات پیرس کے غریب علاقوں کی خواتین کے مفادات سے میل نہیں کھاتے تھے۔ گیرونڈنوں نے طلاق کا قانون منظور کیا جو بلاشبہ خواتین کے لیے پیشرفت تھی۔ لیکن گیرونڈن خواتین نے خواتین کے جائیداد کے حقوق پر زیادہ زور دیا۔ انقلاب فرانس کے دوران اس طرح کا مطالبہ کسی بھی طرح خواتین کی اکثریت کے لیے معنی نہیں رکھتا تھا کیونکہ نہ تو اُن کے پاس اور نہ ہی اُن کے شوہروں کے پاس کوئی جائیداد تھی۔ بائیں بازو کی غریب خواتین جنہوں نے انقلاب میں شاندار کردار ادا کیا، ’’جائیداد کے مقدس حق‘‘ کے خلاف تھیں کیونکہ وہ انقلاب کو اپنے طبقاتی نقطہ نظر سے دیکھتی تھیں۔ وہ اُن انقلابی سرخ ٹوپی پہننے والے امیر بورژوا کے سخت خلاف تھیں۔ اُنہوں نے جبلی طور پر ایک ایسی جمہوریہ کے لیے جد وجہد کی جس میں مرد اور عورت صرف قانونی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر برابر ہوں، یعنی اُنہوں نے امیر اور غریب سے پاک غیرطبقاتی سماج کے لیے جد وجہد کی۔ ہم اب جانتے ہیں کہ یہ اُس وقت ناممکن تھی۔ پیداواری قوتیں، جو سوشلزم کی مادی بنیاد ہیں، اُس وقت ترقی کی اُس سطح پر نہیں تھی کہ یہ ممکن ہو۔ انقلاب فرانس کی طبقاتی فطرت لازماً بورژوا تھی لیکن یہ بات عوام کو ہر گز پتہ نہیں تھی جنہوں نے پر جوش انداز میں انقلاب میں شرکت کی اور اپنے خون سے اس کی فتح پر مہر ثبت کی۔ وہ بورژوا خواتین یا حضرات کو اقتدار دینے کے لیے نہیں بلکہ اپنے طبقے کے لیے لڑ رہے تھے۔ سماجی طبقات سے بالاتر ہو کر تمام خواتین کو متحد کرنے کا نعرہ محنت کش خواتین میں کوئی حمایت حاصل نہیں کر سکا جو اپنے مردوں کے ساتھ ایک عادلانہ معاشرے کے لیے لڑ رہی تھیں۔
حق رائے دہی کے لیے لڑنے والی خواتین کے درمیان طبقاتی فرق
بر طانیہ میں مزدور تحریک کے اُبھار کے ابتدائی سال مزدوروں اور خواتین کے شدید احتجاج سے عبارت تھے۔ نیا ٹریڈ یونین ازم انیسویں صدی کے آخرمیں جنگجوانہ ہڑتالوں کے نتیجے میں پیدا ہو ا جس میں غیر منظم مزدور بھی متحرک ہو ئے جو پہلے کبھی جدوجہد میں شامل نہیں تھے۔ ان میں سے بعض تحریکوں میں محنت کش خواتین بھی شامل تھیں جیسے کہ مشہور ماچس فیکٹری کی ہڑتال۔ مارکس کی بیٹی نے ان ہڑتالوں میں سرگرم کردار ادا کیا۔
درمیانے طبقے کی خواتین حق رائے دہی کے لیے روز افزوں احتجاج کر رہی تھیں۔ تا ہم انہیں صرف رسمی برابری حاصل کرنے میں دلچسپی تھی اور وہ اپنے طبقے سے تعلق رکھنے والی جائیداد کی مالک خواتین کے لیے ووٹ کا حق حاصل کرنے میں ہی خوش تھیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اُ س وقت بہت سارے مردوں کو بھی ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ تاہم واقعات نے بہت جلد بورژوا نسوانیت پرستی کے رجعتی کردار کو بے نقاب کر دیا۔ بورژوا خواتین نے محنت کشوں (مرد اور خواتین) کی طرف اپنی جارحانہ روش واضح کر دی۔ جیسا کہ جین پیکارڈ نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ ’’ پینکرسٹ خاندان کا نام، خواتین کے لیے ووٹ کا حق حاصل کر نے کی جد وجہد سے عبارت تھا لیکن جس چیز نے سلویا پینکرسٹ کی سوچ کو اُس کی والد ہ ایملین اور بہن کرسٹابیل کی سوچ سے ممیز کیا وہ طبقاتی مسائل تھے۔ تقریباً بیس سال کی جدوجہد کے بعد 1920ء میں یہ بات واضح ہو گئی جب ایملین ٹوری پارٹی کی پارلیمانی اُمید وار اور سلویا برطانوی کمیونسٹ پارٹی کی بانی کارکن بنی۔‘‘
’خواتین کی سماجی اور سیاسی یونین‘ (WSPU)، آزاد لیبر پارٹی کی خواتین کے ووٹ کے معاملے میں ہچکچاہٹ کی وجہ 1903ء میں وجود میں آئی جو بہت تیزی سے بڑھی اور 1907ء تک اس کی تین ہزار برانچیں تھیں جس میں اُستانیاں، کام کرنے والی لڑکیا ں، کلرکس، درزی اور ٹیکسٹائل مزدور شامل تھیں۔ اُن کے اخبار ’’ خواتین کے لیے ووٹ کا حق‘‘ کی ہفتے میں چالیس ہزار کاپیاں فروخت ہو تی تھیں۔ اُنہوں نے البرٹ ہال کو پُر کر دیا اور ہائڈ پارک میں ڈھائی لاکھ لوگوں کا جلسہ کیا۔
1911ء میں جب اسکویتھ کی لبرل حکومت آئرلینڈ کے لیے خود اختیاری کا وعدہ کر رہی تھی تو اُسی لمحے (دولتمند) خواتین کے لیے ووٹ کے حق کی اُمید بھی دلا ئی گئی۔ لیکن بعد میں حکومت دونوں وعدوں سے مکر گئی۔ جب ووٹ کے لیے لڑنے والی خواتین نے اپنے مقصد کی خاطر راست اقدام کا راستہ اپنایا تو اُن پر بد ترین تشدد کیا گیا۔ مارپیٹ، گرفتاریاں اور وحشیانہ تشدد کے ذریعے زبردستی کھانا کھلانا۔ اس مہم کو زیادہ تر درمیانے طبقے کی خواتین نے منظم کیا تھا لیکن بورژوا خواتین کی طرف سے کھڑکیاں توڑکر احتجاج کرنے کے طریقہ کار سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ حکمران طبقہ سختی سے خواتین کے ووٹ کے حق کے خلاف رہا۔
خواتین کے حقوق کی تحریک کے لیے حقیقی راستہ یہ تھا کہ وہ مزدور تحریک کے ساتھ جڑ جائے جو اُس وقت سرمایہ داروں کے ساتھ سخت جنگ کی کیفیت میں تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں طبقاتی کشمکش اُبھر رہی تھی، ٹرانسپورٹ اور گودی کے مزدوروں کی وسیع ہڑتالیں چل رہی تھیں۔ ’لبر ل‘ اسکویتھ نے جنوبی ویلز میں کانکنوں کی ہڑتال ختم کرنے کے لیے فوج بھیج دی۔ خواتین کی تحریک کے ایک حصے نے کچھ کامیابی کے ساتھ اسے جاری رکھنے کی کوشش کی۔ سلویا پینکرسٹ نے مشرقی لندن کی محنت کش خواتین میں احتجاج اور پروپیگنڈ ے کا راستہ اپنایا۔
جنوبی لندن برمونڈسے میں، ساؤتھ واک پارک میں، ایک بڑی میٹنگ میں مقامی فیکٹریوں اور ورکشاپوں سے پندرہ ہزار مزدور غذائی فیکٹری کی ہڑتالی خواتین کے ساتھ مل گئے۔ اُنہوں نے تنخواہوں میں اضافے اور ووٹ کا مطالبہ کیا۔ یہی صحیح راستہ تھا یعنی طبقاتی جد وجہد کے ہتھیار کے ذریعے معاشی مطالبات کو سیاسی مطالبات (خصوصاً خواتین کے لیے ووٹ کا حق) کے ساتھ جوڑا جائے۔ مختلف طبقاتی نقطہ نظرکی وجہ سے خواتین کی حق رائے کی تحریک کے ساتھ ساتھ پینکرسٹ خاندان میں بھی پھوٹ پڑ گئی۔ جنوری 1916ء میں جنگ سے چند مہینے پہلے، سلویا کو اپنی ماں ایملین اور بہن کرسٹا بیل سے ملنے کے لیے پیرس میں بلا یا گیا۔ کرسٹا بیل پیرس میں آرام دہ جلاوطنی کی زندگی میں اچھی صحت کی تصویر تھی جبکہ سلویا قید اور بھوک ہڑتال سے خستہ حال تھی۔ سلویا کی طبقاتی مؤقف کے بر عکس، اُس کی بہن کرسٹا بیل نے WSPU کی مردوں کی تمام پارٹیوں سے خودمختاری پر زور دیا۔ کرسٹا بیل نے مطالبہ کیا کہ مشرقی لند ن کی فیڈریشن کو WSPU سے نکال دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ خواتین کی حق رائے دہی کی تحریک سے محنت کش خواتین کو نکال دیا جائے۔
اس گھمنڈی درمیانے طبقے نے دلیل پیش کی کہ مشرقی لند ن کی فیڈریشن کے پاس جمہوری آئین ہے اور محنت کش خواتین پر زیادہ انحصار کر تی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کی والدہ نے مصالحت کی کوشش کی لیکن کرسٹابیل واضح علیحد گی پر مُصر تھی۔ اس طرح جنوری 1914ء میں مشرقی لند ن کی فیڈریشن کو WSPU سے الگ ہونے پر مجبور کیا گیا اور ایک الگ تنظیم (مشرقی لند ن کی فیڈریشن برائے حق رائے دہی خواتین) بنائی۔ محنت کش طبقے کی طرف درمیانے طبقے کی نسوانیت پرستی کا رویہ اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ جان پکارڈ کہتا ہے کہ ’’ WSPU میں یہ پھوٹ برطانوی سماج میں عمومی تضادات کی عکاسی کر رہی تھی۔ 1911ء سے 1914ء کے درمیان ہر شعبے کے محنت کش (گودی کے مزدور، ٹرانسپورٹ، ریلوے، انجینئر) ہڑتا ل پر تھے۔ حتیٰ کہ WSPU کے وہ کارکنان جن کو قید اور زبردستی خوراک دی گئی، وہ سب محنت کش طبقے کی خواتین تھیں جن کو بد ترین حالات اور تشدد کا سامنا کر نا پڑا تھا۔‘‘
یہاں بھی طبقاتی سوال بنیادی تھا۔ خواتین کی حق رائے دہی کی تحریک میں پھوٹ بورژوا نسوانیت پرستوں کی محنت کش خواتین، سوشلزم اور مزدور تحریک کی طرف حقیقی رویے کی غمازی کر تی ہے۔ یہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ ’مرد بمقابلہ زن‘ کا نعرہ ہمیں کہاں لے جا سکتا ہے۔ پھوٹ کے صرف چند ماہ بعد 1914 ء میں پہلی جنگ عظیم نے برطانیہ میں طبقاتی جد وجہد کو چیر دیا۔ خواتین کے ووٹ کی تحریک کی ’باغی‘ ایملین اور کرسٹابیل جلد ہی باؤلے سوشل شاؤنسٹ بن گئے۔ WSPU کے پرچے کا نام ’’ خواتین کے لیے ووٹ کا حق‘‘ سے ’’برطانیہ‘‘ میں تبدیل کیا گیا۔ اس کا نعرہ تھا ’’بادشاہ، ملک اور آزادی!‘‘
یہ خواتین کی تحریک سے بے شرمانہ اور ذلت آمیز غداری تھی۔ یہ بورژوا نسوانیت پرستی کی حقیقی فطرت کو واضح کر تی ہے اور اُس خلیج کو بھی جو اسے محنت کش طبقے اور سوشلزم سے الگ کرتی ہے۔ تمام تر زبانی جمع خرچ اور نعرہ بازی کے باوجود وہ پرولتاری مردوں اور خواتین کے خلاف اپنے طبقے کے مردوں(حکمران طبقہ) کے ساتھ متحد تھیں۔ تمام تر جنگ، اموات اور ذلتیں پرولتاریہ کو برداشت کر نی پڑیں جبکہ یہ بورژوا اور درمیانے طبقے کے خواتین و حضرات اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر صرف جھنڈے لہراتے تھے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہو تا ہے۔
سلویا پینکرسٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے جنگ کی مخالفت کی (اگرچہ کنفیوزامن پسندانہ نقطہ نظر سے) اور فیکٹریوں میں اُن خواتین کے لیے مساوی اُجرت کے لیے مہم شروع کی جن کو محاذ پر بھیجے گئے مردوں کی جگہ بھر تی کیا گیا تھا۔ اس نے ایک پرچہ نکا لا جس کا نام تھا The Workers’ Dreadnought۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئی اور الٹرالیفٹ مؤقف اختیار کیا۔ اُس کی مارکسزم کی سمجھ بوجھ بہت محدود تھی لیکن کم ا زکم اس نے ایک طبقاتی مؤقف اختیار کرنے کی کوشش تو کی۔ 1918ء میں تیس سال سے زائد عمر کی بر طانوی خواتین نے ووٹ کا حق حاصل کر لیا۔ یہ خواتین کی حق رائے دہی کی تحریک کے طریقہ کار کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ انقلاب روس اور پہلی جنگ عظیم کے بعد اُبھر نے والی انقلابی تحریک کے نتیجے میں ممکن ہوا جس نے برطانوی حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ مراعات دینے پر مجبور ہوئے۔ یہاں بھی یہ بات واضح ہوئی کہ اصلاحات انقلاب کی ضمنی پیداوار ہوتی ہیں۔
انقلاب روس اور خواتین
روس میں فروری 1917ء میں محنت کش طبقے کی خواتین کا کردار پھر ظاہر ہوا۔ زار کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اُبھرنے والی انقلاب نے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا جب پیٹروگراڈ کی خواتین مزدوروں نے ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے باوجود کہ مقامی بالشویکوں نے قتل عام کے ڈر سے اُنہیں اس کام سے منع کیا تھا۔ اپنی پرولتاری جبلت کے بلبوتے پر اُنہوں نے تمام اعتراضات کو ایک طرف رکھتے ہوئے انقلاب کا آغاز کیا۔ الیگزنڈرا کولانتائی جیسی خواتین نے بالشویک انقلاب میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ اکتوبر انقلاب نے خواتین کو دنیا کے کسی بھی ملک سے بڑھ کر حقوق دیئے جو اُنہیں پہلے کبھی حاصل نہیں تھے۔
بالشویکوں نے عورت کی آزادی اور خاند ان کو تبدیل کرنے کی بات کی۔ دیہاتوں میں قدیم دور سے مردانہ حاکمیت قائم تھی۔ غلامی اور جبر پر مبنی زندگی کے علاوہ کسان خواتین کچھ نہیں جانتی تھیں۔ انقلاب سے پہلے شوہر کا بیوی پر تشدد قانونی طور پر جائز تھا۔ بالشویکوں نے شادی، خاندان اور سرپرستی کے قوانین کے ذریعے خواتین کو مردوں کے برابر قانونی حیثیت دی۔ شادی کے بغیر پیداوار ہونے والے بچوں کو وہی حقوق حاصل تھے جو شادی شدہ جوڑوں کے بچوں کو حاصل تھیں۔
طلاق درخواست پر مل جا تی تھی اور اسقاط حمل کو قانونی حیثیت دی گئی۔ ’’ایک جیسے کام کے لیے مساوی اجرت ‘‘ کو قانونی حیثیت دی گئی۔ بالشویک خواتین کے دستوں نے خواتین تک انقلاب کا پیغام پہنچایا۔ محنت کش طبقے کی کسان خواتین کے لیے سیاسی تعلیم اور خواندگی کی کلاسیں شروع کیں اور جسم فروشی کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ انقلاب کے بعد ہونے والی خونی خانہ جنگی کے دوران خواتین کی بڑی تعداد نے سرخ فوج کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی، حالانکہ اُنہیں ایسا کرنے کو نہیں کہا گیا تھا۔ 1920 ء تک پچاس سے ستر ہزار خواتین نے سرخ فوج میں شمولیت اختیار کی۔ یہ خود اس بات کی نشانی ہے کہ بالشویکوں نے خواتین میں کتنی حمایت حاصل کر لی تھی۔
لینن، جس نے عورت کی آزادی کو بہت اہمیت دی، نے اس بات پر بہت زور دیا کہ خواتین کو گھریلو کام کاج سے آزاد کیا جائے تاکہ وہ سماج کو چلانے کے کام میں حصہ لے سکیں۔ تاہم انقلاب کے فوراً بعد روس میں مادی مسائل کو حل کر نے کی صلاحیت ذرائع پیداوار کی شدید پسماندگی کی وجہ سے محدود تھی جیساکہ مارکس نے پیش گوئی کی تھی کہ ’’ کسی بھی سماج میں اگر ضرورت عام ہو تو تمام تر پرانی بیہودگی زندہ ہو جا تی ہے۔ ‘‘عورت کی حقیقی آزادی صرف تب ممکن ہے جب عالمی محنت کش طبقہ مجموعی طور پر آزادی حاصل کر لے۔ سوشلزم انسانی شخصیت کی آزاد نشوونما، تمام تر وحشیانہ بیرونی دباؤ (سماجی، معاشی یا مذہبی) سے آزاد مردوں اور عورتوں کے درمیان حقیقی انسانی رشتے کو ممکن بنائے گا۔ تاہم اس طرح کے سماج کے لیے زیادہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملکوں کی معاشی اور ثقافتی ترقی سے بھی زیاد ہ اعلیٰ سطح کی ترقی کی ضرورت ہے۔ اکتوبر 1917ء کے روس میں وسیع پسماندگی کی وجہ سے اس طرح کی بنیاد موجود نہیں تھی۔ لہٰذا انقلاب کے نتیجے میں ہونے والی تمام تر ترقی کے باوجودروس میں پہلے تو سٹالنزم اور اس سے بھی بڑھ کر سرمایہ داری کی دوبارہ استواری نے خواتین کے مقام کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔ اب مشرقی یورپ اور روس میں عورت کی حالت پہلے سے بھی بد تر ہے۔ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہو نی چاہئے۔ سرمایہ داری کے تحت روس یا کسی اور جگہ میں بھی کو ئی راستہ ممکن نہیں۔
1917ء کے روس کی طرح مستقبل میں ہمیں اور بھی بہت سی مثالیں ملیں گی۔ خواتین سرمایہ داری کو اکھاڑنے اور سوشلزم کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کریں گی۔ لیکن یہاں بھی، یہ سب سے بڑھ کر محنت کش خواتین کا سوال ہے جو اپنی اور پورے طبقے کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہیں۔ محنت کش خواتین اور حضرات طبقاتی جدوجہد میں حصہ لے کر طبقاتی شعور اور اعتماد حاصل کر تے ہیں۔ سماج کو تبدیل کرنے کی جد وجہد میں مرد اور عورت اپنے آپ کو بھی تبدیل کریں گے۔ ہم ہر ہڑتال میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح محنت کش پرانی غلامانہ ذہنیت کو توڑ کر نئی بلندیوں پر پہنچ کر تخلیقی صلاحیتوں اور جارحیت کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا اُنہیں پہلے پتہ بھی نہیں ہوتا۔ ایک انقلاب کی صورت میں یہ بات اور زیادہ سچ ہوگی۔
نہ صرف خواتین بلکہ تمام خواتین و حضرات کے لیے حقیقی آزادی حاصل کر نے کا صرف یہی راستہ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ناممکن ہے۔ ہم ایک یا دوسرے گروہ کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ خواتین فوری اصلاحات کے لیے جد وجہد بالکل نہ کریں۔ ہمیں ہر اُس معمولی چیز کے لیے جد وجہد کرنی چاہیے جو خواتین کی حالت بہتر کرے اور تعصب اور امتیازی سلوک پر ضرب لگائے۔ مزدور تحریک کو اس جد وجہد میں پیش پیش ہو نا چاہیے۔
عورت کی آزادی اور سوشلزم
ماضی میں بورژوا انقلابات نے ’انسان کے حقوق ‘ کی بات کی لیکن عملاً ان انقلابات میں عورت کو برابری حاصل نہ ہوسکی۔ دراصل سرمایہ داری میں عورت کی پیش رفت کچھ طبقاتی جد وجہد کی وجہ سے اور کچھ پیداوار میں عورت کے تبدیل شدہ کردار کی وجہ سے ہوئی۔ چند ایک ترقی یافتہ ممالک میں کچھ سیاسی حقوق حاصل کئے گئے ہیں لیکن حقیقی آزادی کبھی بھی حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی سرمایہ داری کے اندر یہ ممکن ہے۔ 1848ء میں مارکس اور اینگلز نے بورژوا خاندان کے خاتمے کا مطالبہ پیش کیاتاہم اُن کو معلوم تھا کہ خاندان کو ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مادی بنیادوں کی موجودگی کے بغیر یہ مطالبہ پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ تب ممکن ہے جب سرمایہ داری کو اُکھاڑ کر ایک نیا سماج قائم کیا جائے جس کی بنیاد پیداوار کی ہم آہنگ اور جمہوری منصوبہ بندی پر ہو اور انتظامی معاملات میں پورا معاشرہ حصہ لے۔
ایک دفعہ پیداواری قوتیں ذاتی ملکیت اور قومی ریاست کی جکڑ سے آزاد ہوجائیں تو معاشی خوشحالی کی ایک ناقابل یقین سطح پر فوراً پہنچا جا سکے گا۔ خوف، لالچ، ہوس اور حسد کی پرانی ذہنیت تب ختم ہو گی جب اُن مادی بنیادوں کو ختم کیا جائے گا جس نے اُنہیں جنم دیا تھا۔ زندگی کے حالات، مر د اور عورت کے درمیان رشتوں اور اُن کی سوچ اور فعل کی تبدیلی کے لیے راستہ صاف ہوگا۔ اس طرح کی بڑی چھلانگ کے بغیر لوگوں کے کردار اور نفسیات کو تبدیل کرنے کی تمام باتیں فریب اور بکواس ہیں۔ سماجی وجود شعور کا تعین کر تا ہے۔ طبقاتی معاشرے کی بربریت جو خود غرضی، انا پرستی اور لوگوں کی بد حالی سے لا پرواہی پر زور دیتی ہے، غلام داری کی باقیات ہیں۔ محنت کش طبقہ خود بورژوا سماج کے دباؤ، اس کی نام نہاد اخلاقیات، منافقت اور عمومی پراگندگی سے مبرا نہیں ہے۔ مزدور تحریک کی صفوں میں خواتین کی طرف پسماندہ رویے بھی موجود ہیں جن کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیے۔
ہم مرد اور عورت کی مکمل برابری پر مبنی نئے سماج کی بات کر تے ہیں۔ جہاں ایسا معاشرہ سرمایہ دارانہ بربریت کی موجودگی میں قائم کرنا ناممکن ہے وہاں ہمیں کم از کم ایک حقیقی پرولتاری اخلاقیات کے لیے جدوجہد کر نی چاہیے اور تحریک سے اُن پسماندہ رجحانات کو نکال باہر کرنا چاہیے جو مرد اور عورت کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایک طرف اس با ت کو سمجھنا لازم ہے کہ سرمایہ داری کے تحت ہر بہتری کا کردار عارضی، مسخ شدہ اور غیر مستحکم ہوگا اور مستقل طور پر نظام کے بحران، حالات کی عمومی ابتری اور سماجی، اخلاقی اور ثقافتی زوال کی وجہ سے خطرے میں رہے گا۔ دوسری طرف یہ لازمی ہے کہ خواتین پر جبر کے خلاف تحریک کو محنت کش طبقے کی سرمایہ داری کے خلاف جد وجہد سے جوڑا جائے۔ یہی فتح کا واحد راستہ ہے۔ پرانے سماج کی نفسیاتی باقیات، خود غرضانہ رویے، لالچ اور انا پرستی سرمایہ داری کو اُکھاڑ پھینکنے کے بعد بھی راتوں رات ختم نہیں ہونگی۔ اس پرانے گند کو غائب ہونے میں وقت درکا ر ہوگا۔ لیکن ابتدا سے ہی مردوں اور عورتوں کے درمیان رشتے بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اچھے روزگار، رہائش اور سب کے لیے تعلیم کی فراہمی سے خوفناک معاشی دباؤ فوراً ختم ہو جائے گاجو زندگیوں کو بر باد اور انسانی رشتوں کو مسخ کر رہا ہے۔ پیداوار کی جمہوری سوشلسٹ منصوبہ بندی سے ہر ایک کے لیے وہ مواقع پیدا ہونگے کہ وہ سماج کو چلانے میں حصہ لے سکے۔ یہ عمل پرانے مرکز مائل خاند ان کو ختم کرکے نئے اور آزاد انسانی رشتوں کی بنیاد پر ایک بالکل مختلف نفسیات کے لیے حالات تیار کر ے گا۔
طبقاتی سماج اور طبقاتی سماج کے گند سے جنم لینے والی غلامانہ ذہنیت کے بالآخر خاتمے سے ایک نئے مرد اور عورت کا جنم ہو گاجو پرانی تنگ نظر غلامانہ نفسیات سے حقیقی معنوں میں آزاد ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنے کے قابل ہونگے۔ مرد اور عورت مادی اشیا کے ذلت آمیز جستجو، جو انسانی زندگی کو ذلیل اور مسخ کر تی ہے، سے آزاد ہونے پر پہلی مرتبہ یہ ممکن ہو گا کہ وہ بحیثیت انسان ایک دوسرے سے جڑیں۔ بیرونی دباؤ، انا پرستانہ حساب کتاب یا ذلت آمیز انحصار سے آزاد ہو کر مرد اور عورت کے درمیان تعلقات حقیقی برابری کی بنیاد پر قائم ہونگے!