|تحریر: ارتیوم سنداکوف، ترجمہ: یار یوسفزئی|
سال 2021ء کو شروع ہوئے ایک مہینہ ہی گزرا ہے مگر یہ سال ابھی سے جدید روس کی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ نہ بھی سہی تو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ضرور ہے۔ روسی سرمایہ داری کے مجتمع شدہ تضادات کی وجہ سے حکمرانوں کی تمناؤں کے برعکس نیا سال، ایک نئے آغاز کی کوئی خوشخبری ساتھ لے کر نہیں آیا۔ بلکہ اس کی بجائے ان تضادات میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے اور یہ سوال مزید واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مستقبل کیا ہوگا، ”سوشلزم یا بربریت؟“
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
موسمِ سرما کا طوفان
حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والا الیکسی نوالنی ایک لبرل اور کرپشن مخالف لکھاری ہے، جس کی شہرت 2018ء کے بعد کم ہو گئی تھی، مگر 2020ء کے اواخر اور اس سال کے اوائل میں وہ پھر مقبول ہونے لگ گیا ہے۔ اس کی حالیہ مقبولیت کی وجہ کئی واقعات بنے۔ اگست 2020ء میں نوالنی کو زہریلے کیمیکل ’نوویچوک‘ کے ذریعے مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جرمنی میں کامیاب علاج کے بعد 14 دسمبر 2020ء کو نوالنی اور اس کی ٹیم نے (بیلنگ کیٹ، دی انسائیڈر، سی این این اور ڈیر شپیگل کے تعاون سے) ایک فلم جاری کی جس میں اس پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں تحقیقات کی گئی تھیں۔ اس ویڈیو کو روس کے اندر لوگوں کی بڑی تعداد نے دیکھا۔
17 جنوری 2021ء کو الیکسی روس واپس آیا اور آتے ہی اسے فوری حراست میں لے لیا گیا۔ 19 جنوری کو اس کی ٹیم نے اس کے جواب میں ایک اور تحقیقاتی فلم جاری کی، یہ رپورٹ گیلندژیک کے قصبے میں موجود ایک جگہ کے بارے میں تھی جو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ملکیت ہے۔ ابھی تک اس ویڈیو کو 10 کروڑ سے زیادہ افراد دیکھ چکے ہیں، جو سماجی بے چینی کو اشتعال دینے کا باعث بن رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ نوالنی اور اس کی تنظیم، فاؤنڈیشن فار کمبیٹنگ کرپشن نے بھی اس فلم کے سہارے اپنی شہرت میں اضافہ کیا ہے۔
جنوری کے مظاہرے اور ان کی اساس
اس سلسلے میں جن احتجاجوں کا آغاز ہوا ہے، وہ محض الیکسی نوالنی کی حمایت میں نہیں ہو رہے۔ ملک بھر میں اس سے پہلے بھی سیاسی جبر جاری تھا اور اس کو حراست میں لینے کے واقعے نے اس بے چینی کے سطح پر نمودار ہونے کے لیے صرف ایک چنگاری کا کام کیا۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بائیں بازو کے کارکنان پر جبر نے عوامی غصّے کو ابھارنے میں ایک اہم کردار کیا ہے۔ فروری 2020ء میں ریاست نے پینزے شہر سے تعلق رکھنے والے فاشسٹ مخالف کارکنان پر الزام لگایا کہ وہ ایک انارکسٹ تنظیم ”نیٹورک“ سے وابستہ ہیں اور 6 سے 18 سال تک قید کی سزائیں سنا دیں۔ 2020ء کے شروع سے حکومتی جبر کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
نوالنی کو حراست میں لینے کے بعد 18 جنوری 2021ء کو ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک انارکسٹ طالب علم، آزت میفتاکوف کو سزا سنا دی گئی، جس پر حکمران پارٹی یونائیٹڈ رشیا کے ماسکو میں موجود دفتر پر حملہ کرنے کا الزام تھا۔ آزت کو 6 سال تک پینل کالونی (قیدیوں کے لیے مختص کیا گیا علاقہ) میں نظر بند رکھنے کی سزا مقرر کی گئی۔
23 اور 31 جنوری کو ملک بھر کے اندر ہونے والے غیر منظم جلسے جلوسوں میں جب لوگ سڑکوں پر امڈ آئے تو وہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا جمہوری مطالبہ کر رہے تھے۔ اگرچہ 23 جنوری کو ہونے والے زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے، 31 جنوری 2021ء والے مظاہروں نے پچھلے نو سالوں کے اندر بیک وقت حراست میں لیے جانے والے افراد کا ریکارڈ قائم کر دیا؛ روس کے 84 شہروں میں 5 ہزار 754 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ انسانی حقوق کی ویب سائٹ ’او وی ڈی انفو‘ کے لگائے گئے اندازوں کے مطابق پولیس نے کم از کم 63 مظاہرین کو گرفتار کرتے وقت تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس کے صرف دو دن بعد 2 فروری 2021ء کو ماسکو کی سیمونوسکی عدالت نے الیکسی نوالنی کو ساڑھے تین سال قید کی سزا سنا دی۔ رسمی طور پر نوالنی کو حالیہ مظاہروں سے وابستگی پر سزا نہیں سنائی گئی بلکہ اس کے لیے فرانسیسی کمپنی یویس روچر سے متعلق ایک فراڈ کیس کا سہارا لیا گیا (اس کمپنی نے الیکسی اور اس کے بھائی اولیگ پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد 2014ء میں روسی عدالت نے قید کی سزائیں سنائی تھیں)۔ یہ سب اس کے باوجود کیا گیا جبکہ انسانی حقوق کی یورپی عدالت (ECHR) نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا تھا، اور روسی حکام نے اس حوالے سے نوالنی کو ہرجانہ ادا کرنے کا بھی کہا تھا! یہ حماقت کی حد ہے کہ اسے قید کرنے کے لیے ابھی پھر سے اس پرانے کیس کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
2020 ء کا ورثہ
دنیا بھر میں پھیل جانے والی کورونا وباء نے پہلے سے جاری معاشی گراوٹ کو انسانی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی بحران میں تبدیل کرنے میں عمل انگیز کا کام کیا۔ بلاشبہ روس بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ بورژوا معیشت دان ویسے تو چھوٹے بڑے کاروباروں کے نقصانات پر ہر وقت خون کے آنسو روتے رہتے ہیں، مگر اس حقیقت سے ہم خوب واقف ہیں کہ کاروبار، وائرس اور محنت کش طبقے کے بیچ تین طرفہ جنگ میں سب سے بھاری نقصان محنت کش طبقے ہی نے اٹھایا ہے۔
روس میں بے روزگاری 6.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو تقریباً 50 لاکھ کی تعداد بنتی ہے۔ یہ آٹھ سالوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 18 لاکھ کے تیز ترین اضافے کے ساتھ 2 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، جو ملک کی کل آبادی کا 13.5 فیصد بنتا ہے۔
2020ء کے اندر جنوری سے ستمبر تک روسیوں کی ڈسپوزیبل آمدن (براہِ راست ٹیکس کے بعد بچنے والی آمدن) میں 4.3 فیصد کمی ہوئی ہے۔ 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں 8.4 فیصد کی دیوہیکل گراوٹ دیکھنے کو ملی! آخری دفعہ آمدنی میں اس طرح کی حیرت انگیز گراوٹ 1999ء کے اندر دیکھنے میں آئی تھی، جب 12.3 فیصد گراوٹ واقع ہوئی تھی۔
ابھی وباء کا خاتمہ نہیں ہوا اور روسی سماج کے تضادات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان اعداد و شمار میں آگے بھی اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔
جہاں ایک جانب روسی عوام کا معیارِ زندگی تسلسل کے ساتھ گر رہا ہے، وہاں دوسری طرف اشرافیہ کی دولت میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی مالیاتی بحران کے ہوتے ہوئے بھی روس کے امیر ترین سرمایہ دار خاندانوں کی دولت 1.5 ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ 26.8 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، اور نتیجتاً نابرابری کی عالمی دوڑ میں روس نے پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ کورونا وباء سے نمٹنے کے لیے حکمران طبقے کی نا اہلی اور سرمایہ دارانہ بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالا گیا ہے۔
حزبِ اختلاف اور حکومت
اوپری طبقے کی دولت اور نچلے طبقے کی غربت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کی شدت میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پیوٹن کی بوناپارٹسٹ حکومت ان بنیادوں کو مضبوط کرتی رہی ہے جس پر وہ کھڑی ہے، یعنی سیکیورٹی فورسز جس میں اومون (خصوصی پولیس)، نیشنل گارڈ اور ایف ایس بی شامل ہیں۔
بجٹ 2021ء کے مسودے کے مطابق دفاع اور نیشنل سیکیورٹی کے حصّے میں اضافہ کیا جائے گا، جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کا بجٹ 5.82 ٹریلین روبل (76 ارب ڈالر) تک پہنچ جائے گا! نتیجتاً فوج، نیشنل گارڈ، وزارتِ داخلہ اور سیکیورٹی ایجنسیاں قومی خزانے کا 27 فیصد حصّہ ہڑپنے لگ جائیں گے۔
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ حکومت اس سب کا بوجھ کس پر ڈالے گی۔ فلاح و بہبود کے بجٹ میں 192 ارب روبل کمی کی جائے گی؛ گھرانوں اور بچوں کے لیے مختص شدہ بجٹ میں 60 کروڑ روبل کی کٹوتی کی جائے گی؛ حکومتی امداد میں 17 فیصد یعنی 200 ارب روبل کمی کی جائے گی، شعبہ صحت کے بجٹ میں 162 ارب روبل کٹوتی کی جائے گی۔ مختصر یہ کہ پولیس افسران، جرنیلوں اور خفیہ اداروں کے مالکان کی عیاشیوں میں اضافہ کرنے کے لیے محنت کشوں کے کندھوں پر بوجھ ڈالا جائے گا۔ ایک ہی وقت میں ٹیکس کو بڑھایا جائے گا اور اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا!
ظاہر ہے کہ اس ساری صورتحال میں عوام کے رد عمل میں بھی شدت آئے گی اور احتجاجوں، ہڑتالوں اور جلسوں میں اضافہ ہوگا۔ البتہ محنت کش طبقے کی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں اس موقعے کا فائدہ لبرل پاپولسٹ اٹھائیں گے۔ بلاشبہ وہ سرمایہ داری کے تضادات حل کرنے کے اہل نہیں ہیں، جو ان سب مسائل کی جڑ ہے۔
نوالنی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی شہرت میں کسی حد تک دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں؛ ایک جانب عوام کی خستہ حالی، اور دوسری جانب نوالنی کے اوپر سیاسی جبر، جس کی وجہ سے وہ لوگوں کی نظروں میں ایک قسم کا ’مردِ مجاہد‘ بن چکا ہے۔ نوالنی کو بیک وقت اپنی تنظیم اور پیٹی بورژوازی کی ایک بڑی تعداد کی حمایت کا سہارا حاصل ہے۔ اس نے خود کو وہ واحد شخص ظاہر کیا ہے جو بڑے پیمانے کے عوامی مظاہروں کی کال دینا چاہتا ہے۔
سماج میں شدید بے چینی موجود ہونے کے باوجود اصلاح پسند روسی کمیونسٹ پارٹی نے انتہائی کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ سماج میں طبقاتی تضادات کی شدت کا فائدہ اٹھانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ ریاستی پشت پناہی کھو جانے کا ڈر؛ پارٹی قیادت کی جانب سے کھلے عام موقع پرستی؛ اور ایک ہی وقت میں متضاد کام کرنے کی خواہش؛ یہ ان وجوہات میں سے چند ہیں جس کی بنا پر روسی کمیونسٹ پارٹی ان فیصلہ کن لمحات میں احتجاجوں کی قیادت نہیں کر سکی۔
بہرحال کمیونسٹ پارٹی کی نچلی پرتوں میں یہ صورتحال عدم استحکام اور افراتفری بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ پارٹی کے عام ممبران کا مرکزی قیادت، خاص کر جنرل سیکرٹری زیوگانوف کے اوپر، بھروسہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ علاقائی سطح کی قیادت بھی بداعتمادی کا شکار ہے اور وہ پارٹی کے آفیشل مؤقف پر اب مزید آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کرتے۔ علاقائی قیادتیں عملی میدان میں آزادانہ طریقہ کار اپنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی قابلِ دید بات تھی جب کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے کا رکن، لیوچینکو، جو حکومتی عہدیدار بھی رہا ہے، نے پارٹی کا مؤقف نظر انداز کرتے ہوئے حالیہ احتجاجوں کی کھلے عام حمایت کی۔
مظاہروں کا چلن اور بائیں بازو کی حکمت عملی
بہرحال کمیونسٹ پارٹی بحیثیت مجموعی احتجاجوں کو دور کھڑی دیکھتی رہی جبکہ لبرلز نے قیادت سنبھالنے کی کوشش کی۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ احتجاجوں پر لبرلز کا غلبہ تھا۔ 23 جنوری کو اچانک ابھرنے والے احتجاج کی خبر انٹرنیٹ کی بدولت طلبہ، مزدوروں، سکول کے بچوں اور پنشن یافتہ افراد سمیت سماج کی ہر ایک پرت تک تیزی کے ساتھ پہنچ گئی۔ یہ مظاہرے محض ’نوالنی کی حمایت میں‘ نہیں ہوئے بلکہ شروع سے ہی ان میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا عام مطالبہ کیا گیا تھا۔
ان مظاہروں میں پیوٹن کی حکومت کی جگہ حقیقی جمہوریت کا مطالبہ کیا گیا، جو بائیں بازو کے سیاسی پروگرام سے مطابقت رکھتا ہے، مگر اس کی بجائے کہ کمیونسٹ پارٹی محض نوالنی سے یکجہتی کا انکار کرتی، اس نے احتجاجوں کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ مظاہروں کی شدت دیکھ کر پارٹی کے عام اراکین اور علاقائی قیادتوں نے آزادانہ اقدامات اٹھائے۔ بلاشبہ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے پارٹی کا مؤقف اپنایا۔ البتہ ایک بڑی تعداد نے مظاہروں میں شرکت کی، جن میں سے کچھ خفیہ طور پر شریک ہوئے اور بعض نے کھلے عام پارٹی کا مؤقف رد کرتے ہوئے شمولیت اختیار کر لی۔
یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی تنظیم اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے نوالنی اور اس کی کرپشن مخالف تنظیم کے تجویز کردہ معاشی و سیاسی پروگرام کی حمایت نہیں کرے گی۔ البتہ ہم جمہوری حقوق کے عام مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ جنوری 1905ء کے اندر بالشویک پارٹی، بالکل آج کے انقلابیوں کی طرح، اقلیت میں تھی اور فادر گیپون کی قیادت میں جاری زار مخالف تحریک میں کسی حوالے سے بھی قیادت میں شامل نہیں تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے شہر کے چوراہے میں بھوک کے مارے اور غصّے سے بھرپور لوگوں کا ساتھ دیا۔ انہوں نے مظاہرین کے بیچ اپنی سیاسی مہم چلائی، اور اس بات کی وضاحت کی کہ بالشویک پروگرام کے تحت ہی مسائل کا حل ممکن ہے، اور یہ کہ فادر گیپون مظاہرین کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ بالکل اسی طرح آج بھی انقلابیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ روسی محنت کشوں اور نوجوانوں کی جمہوری حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی حمایت کریں، اور اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی واضح کریں کہ لبرلز ان مطالبات کے حق میں ناقابلِ مصالحت جدوجہد نہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کرنے کے اہل ہیں۔
بائیں بازو کا اگلا قدم
یہ کہنا مشکل ہے کہ آگے یہ مظاہرے کیا صورت اختیار کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی کے لیے یہ سلسلہ تھم جائے مگر سال کے آخر میں یہ دوبارہ شروع ہوگا۔ بہرحال اس عرصے میں سماج میں موجود تضادات کے اندر شدت آئے گی اور عدم مساوات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ان مسائل میں سے کسی ایک کو بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔ سرمایہ داری کے ان تضادات کو حل کرنے کی نااہلی کی وجہ سے حکمران طبقہ محنت کشوں کے جمہوری حقوق چھین کر ان پر حملے کرتا ہے۔ چنانچہ واحد حل یہی ہے کہ اس نظام کا تختہ الٹ کر حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی جائے، مزدور جمہوریت کی جدوجہد!