|تحریر: ایڈم بوتھ، ترجمہ: یار یوسفزئی|
سرمایہ دار کورونا وباء کا بحران ختم ہونے کے لیے بیتاب نظر آ رہے ہیں جن میں سے کئی تیز معاشی بحالی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر آنے والے عرصے میں بحران، افراتفری اور طبقاتی جدوجہد ہی معمول کی باتیں ہوں گی۔
ممکنہ ویکسین کی خبروں سے سب کیلئے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ جس سے عموماً یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ وباء کا جلد خاتمہ ہو جائے گا اور سب کچھ معمول پر لوٹ آئے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عام لوگ گھومنے پھرنے اور دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کیلئے بے تاب ہیں۔
مگر خصوصاً سرمایہ داروں کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں، جو معیشت کے معمول پر آنے کے خیال سے جذباتی ہو رہے ہیں تاکہ ان کی منافع خوری اور جیبوں کا بھرنا ایک بار پھر شروع ہو سکے (جو درحقیقت کبھی رکا ہی نہیں)۔ اس خوشی کا اظہار سٹاک مارکیٹ میں بھی نظر آیا جب سرمایہ کاروں نے بیک وقت بائیڈن کی جیت اور کورونا وباء کی ویکسین میں پیش رفت کا جشن منایا۔ البتہ یہ جشن قبل از وقت ثابت ہو سکتا ہے۔ تیز بحالی کی امیدیں بیکار ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت وائرس کے ہاتھوں بری طرح پٹنے کے بعد کبھی بھی بحال نہیں ہوگی اور اس کے دیے ہوئے زخم ہمیشہ سہلاتے رہیں گے۔
کورونا وباء پھیلنے سے پہلے ہی سرمایہ دارانہ نظام بستر مرگ پر پڑا ہوا تھا۔ وباء نے محض اس کے مرنے کا عمل تیز تر کر دیا۔ سرمایہ داری کا بحران نہ تو کورونا وائرس سے شروع ہوا اور نہ ہی اس کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجائیگا۔ حقیقت یہ ہے کہ’معمول‘ پر لوٹنا ممکن نہیں رہے گا۔ حقیقی بحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، خصوصاً محنت کش اور غریب طبقے کے لیے۔ مستقبل میں معاشی ترقی کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔ اس کی بجائے ایک ’نیا معمول‘ دیکھنے کو ملے گا؛ بحران، مہنگائی اور محنت کشوں پر حملوں کا معمول۔ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو رہے ہیں، جس کے اندر طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوگا اور انقلاب کی ناگزیریت عیاں ہوتی جائے گی۔
”کل تک جو ٹھوس تھا“
تاریخ میں سال 2020ء ہمیشہ کورونا بحران کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ وباء نے دنیا کو سر کے بل کھڑا کر دیا ہے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے الفاظ میں: ”کل تک جو ٹھوس تھا، آج ہوا ہو گیا۔۔۔اور انسان آخرکار مجبور ہوا کہ اپنی زندگی کی حقیقتوں کا اور باقی انسانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا پورے ہوش و حواس کے ساتھ جائزہ لے۔“
منڈی کا نظام قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ عالمی قرضے کا 12 ٹریلین ڈالر (جو عالمی پیداوار کے 12 فیصد کے برابر ہے) تک پہنچنے کے باوجود جی ڈی پی تیز ترین گراوٹ کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین ’ورلڈ اکنامک آؤٹ لک‘ رپورٹ کے مطابق اس سال عالمی پیداوار 4.4 فیصد گراوٹ کا شکار رہے گی، جو 1930ء کی دہائی کے عالمی بحران کے بعد سب سے بدترین صورتحال ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں 5.8 فیصد گراوٹ آئے گی جو برطانیہ، فرانس، اٹلی اور اسپین میں 10 فیصد سے زیادہ ہو گی۔ یاد رہے کہ یہ اعداد و شمار وائرس کی دوسری لہر پھیلنے سے پہلے کے ہیں۔
تمام بڑی سرمایہ دارانہ ریاستوں میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مارچ کے مہینے سے لاک ڈاؤن اور حفاظتی اقدامات لیے جا چکے ہیں۔ ان اقدامات سے مجبور ہو کر سماج نے بھی خود کو تبدیل کر لیا۔ بہت سارے لوگوں کی روزمرہ زندگی میں بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملیں۔ راتوں رات لاکھوں لوگوں نے گھر بیٹھ کر نوکری کرنا شروع کر دیا۔ خرید و فروخت کا عمل بھی آن لائن ہونے لگا اور شاپنگ مالز اور بازاروں پر گرد جم گئی ہے۔ سینما اور اسٹیڈیم بند ہو جانے سے شائقین اب گھر بیٹھ کر فلمیں اور کھیل دیکھتے ہیں۔ ہوٹلوں اور سیر و تفریح کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش شدید متاثر ہوئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود حالات کی کشیدگی کم کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے بغیر تنخواہ کے رخصت جیسی اسکیمیں متعارف کی گئیں جس سے نوکریاں محفوظ اور معیشت ہوا میں معلق رہی۔
اگر چہ سرمایہ دارانہ نظام بحیثیت مجموعی دلدل میں پھنسا ہوا ہے مگر سرمایہ داروں کا ایک حصّہ اب بھی خوشحال ہے۔ آکسفیم کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال 100 بیش قیمت کمپنیوں نے عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹ میں 3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔ ایپل، مائیکرو سافٹ، فیس بک، گوگل اور ایمازون کے شئیرز میں اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً انہی بڑی ’ٹیک کمپنیوں‘ کے بارے میں 46 بلین ڈالر مزید منافعے کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔ ایمازون کا مالک جیف بیزوس، جو دنیا کا امیر ترین شخص ہے، کی دولت میں 94 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ وائرس کے چھوڑے ہوئے نقوش اتنی آسانی سے نہیں مٹیں گے۔ زندگی کا پرانی ڈگر پر واپس آنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ ویکسین آنے کے باوجود پہلے جیسے حالات واپس نہیں آ سکیں گے۔
دیر پا نقصان
آئی ایم ایف معاشی اعتبار سے وائرس کے دیرپا نقصان کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ”کوئی بھی بحالی ناہموار اور غیر یقینی ہو گی اور اس کا عرصہ لمبا ہو گا“۔ کورونا پر ایک حد تک قابو پانے کے باوجود ترقی یافتہ معیشتوں کے بارے میں 2021ء کے اختتام پر 4.7 فیصد سکڑاؤ کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جس کی وجہ کورونا وائرس کا بحران بتایا جا رہا ہے۔
نام نہاد ’ابھرتی‘ معیشتوں میں صورتحال اس سے بد تر ہے جہاں آئی ایم ایف کے مطابق اگلے سال کے اختتام پر وباء سے پہلے لگائے گئے اندازوں کے بر خلاف 8.1 فیصد سکڑاؤ دیکھنے کو ملے گا۔ سیاحت اور اشیاء کی برآمدات پر انحصار کرنے والوں کو خصوصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’ترقی پذیر‘ ممالک میں قرضوں کا بحران پریشانیوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔ جوبلی ڈیٹ کمپئین کے مطابق ”غریب ممالک کو 20 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ قرضوں کا سامنا ہے“۔ مثال کے طور پر گھانا اور پاکستان قرضوں کی واپسی پر قومی آمدنی کا بالترتیب 50 اور 35 فیصد لگا رہے ہیں جس کی وجہ سے انتہائی ضروری پبلک سروسز کے لیے پیسہ کم پڑ رہا ہے۔ اب تک قرض داروں کو تھوڑی مہلت دی جا چکی ہے۔ G20 کے ممالک میں قرض دینے والے ممالک قرض واپسی کی مدت میں توسیع پر متفق ہو چکے ہیں، جبکہ قرض دینے کے نجی شعبے جیسے بینک اور بانڈ مالکان نے کوئی بھی رعایت بخشنے سے انکار کیا ہے۔ اس کا نتیجہ کچھ یوں نکلا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو 5.3 بلین ڈالر کی عارضی مہلت ملی ہے، جو اس سال واپس کیے جانے والے قرض کا محض 1.7 فیصد بنتا ہے۔
جہاں ایک طرف بینکار اپنے حصّوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں مزید لاکھوں لوگوں کو غربت اور فاقوں کا سامنا ہے۔ اس سال شدید غربت میں زندگی گزارنے والوں میں، جو 1.90 ڈالر یومیہ پر زندگی گزارتے ہیں، 7 سے 10 کروڑ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق عالمی وباء کی وجہ سے 24 سے 49 کروڑ لوگوں کو بنیادی رہائش اور صحت و صفائی تک رسائی ممکن نہیں رہی۔ اس ساری صورتحال میں ’ترقی پذیر‘ دنیا کے لیے بحالی کی باتیں ایک احمقانہ لطیفے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ویکسین آنے کی صورت میں ان ممالک کے غریب عوام کو سب سے کم ترجیح دی جائے گی۔
معاشی زلزلہ
بورژوا معیشت دانوں میں سے بکواس کرنے میں سبقت لے جانے والوں کا اب بھی خیال ہے کہ صورتحال میں بہتری آئے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیاں ہٹ جانے اور وائرس کی ویکسین آنے سے ’جمع شدہ طلب‘ معیشتوں میں بہتری لائے گی۔ مگر ان امیدوں کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ آئی ایم ایف بھی تسلیم کر رہا ہے کہ معیشت کے سارے شعبہ جات آگے بڑھنے میں ناکام ہوں گے۔ حکومت کا آکسیجن ماسک جیسے ہی ہٹے گا، کئی کمزور کاروباروں کو موت کا سامنا ہوگا اور لاکھوں لوگ خیرات کی قطاروں میں کھڑے ہوں گے۔ دیوالیہ پن اور برطرفیوں کی تلوار معیشت کے سر کے اوپر لٹک رہی ہے۔
سچ یہ ہے کہ وباء نے ایک معاشی زلزلے کی طرح صنعت اور پیداوار کے نقشے کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ کورونا وباء کے پیشِ نظر کی جانے والی تبدیلیاں ممکنہ طور پر مستقل رہیں گی۔ مثال کے طور پر گھر بیٹھے آن لائن کام اور خریداری کرنا محض عارضی رجحانات نہیں بلکہ سماجی ڈھانچے کی تبدیلی ہے۔ لاک ڈاؤن کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے متعارف کرائی گئی ٹیکنالوجی کے نتیجے میں کئی نوکریاں ختم ہوئی ہیں جو دوبارہ کبھی بحال نہیں ہو سکتیں۔ نتیجتاً کئی ساری صنعتیں مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں جن میں سے کچھ میں ڈاؤن سائزنگ کر کے متحرک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیے ’عارضی طور پر‘ رکے ہوئے متعدد کاروبار اور بغیر تنخواہ کے رخصت پر گئے محنت کش دوبارہ منڈی میں داخل نہیں ہو پائیں گے۔
وال سٹریٹ جریدے نے امریکی ریاست کے سینما اور ریستورانوں کے سی ای اوز کے انٹرویوز لیے، ان انٹریوز میں ان سے محنت کشوں کی نوکریوں سے بے دخلی، اور تھیٹروں اور ریستورانوں کی شاخوں کی بندش کے حوالے سے سوالات کیے۔ لکھاریوں نے دبے الفاظ میں بیان کیا کہ ”کئی محنت کشوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے“۔ دوسری جانب ایک اور بڑے سرمایہ دارانہ جریدے دی اکنامسٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے عرصے میں امریکہ کے اندر ہونے والی نوکریوں سے برطرفیوں کی تعداد مستقل بنیادوں پر ایک تہائی یا اس سے بھی زیادہ ہو گی۔ اس لبرل جریدے کے مطابق اس کا سب سے زیادہ نقصان ”غریب اور غیر مہارت یافتہ“ لوگوں کو ہوگا۔۔۔یعنی ”سروس شعبے کے محنت کش جو زیادہ تر کم عمر، خواتین اور سیاہ فام ہوتے ہیں“۔
کورونا وباء نے محض پہلے سے جاری عوامل کی رفتار کو تیز کر دیا ہے اور یہ وائرس پر قابو پانے کے بعد بھی جاری رہیں گے۔ تحفظاتی پالیسیوں کا ابھار اور عالمی سطح پر سپلائی چینز کی ٹوٹ پھوٹ، خود کار مشینوں کے نتیجے میں بے روزگاری کا خطرہ، بڑھتی ہوئی نا برابری اور دولت کا بڑے ٹیک مالکان کے ہاتھوں میں مرتکز ہونا، یہ سب 2020ء سے پہلے بھی دیکھا جا سکتا تھا، اور آنے والے سالوں میں بھی جاری رہے گا۔
چنانچہ ’V‘ شکل کی بحالی کا امکان بالکل بھی نہیں۔ جیسا کہ وال سٹریٹ جریدہ کہہ رہا ہے، زیادہ سے زیادہ ’K‘ شکل کی بحالی ممکن ہو پائے گی، جس میں امیر لوگوں اور کچھ کاروباروں کی بحالی ہو گی۔۔۔جبکہ کم اجرت پر کام کرنے والے محنت کش اور دیگر کاروباروں کو بحران کے دیر پا زخموں کا سامنا ہو گا۔ اسی جریدے کے مطابق یہ صورتحال سماج میں امیر اور غریب کے بیچ گہری تفریق لے کر آئے گی۔ کارل مارکس نے اپنی کتاب سرمایہ میں بالکل درست لکھا تھا کہ:
”جب سماج کے ایک حصّے میں دولت کا انبار لگ رہا ہوتا ہے، اسی وقت سماج کے دوسرے حصے میں محرومی، سخت محنت کی اذیت، غلامی، جہالت، بربریت اور اخلاقی پستی پروان چڑھ رہی ہوتی ہے۔“
(سرمایہ، جلد اول، باب 25)
’تخلیقی تباہی‘
کئی لبرٹیرین (جو آزاد منڈی میں ریاست کی کم از کم مداخلت کے حامی ہوتے ہیں) پُر اعتمادی کے ساتھ آسٹرین معیشت دان جوزف شمپیٹر کی پیش کی گئی ’تخلیقی تباہی‘(Creative Destruction) کی تھیوری کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ محنت کشوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مگر یہ عمل محض انہیں نئی اور متحرک صنعتوں میں جانے کے لیے ’آزاد‘ کرے گا۔
باالفاظ دیگر بار اور ہوٹل کے بے روزگار ویٹروں کو کمپیوٹر پروگرامر اور ڈیجیٹل انٹرپرینیئر کی تربیت حاصل کرنی چاہیے! البتہ ماضی کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نام نہاد ’تخلیقی تباہی‘ کے عمل میں تخلیق سے زیادہ تباہی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ برطانیہ کے سابقہ کان کنی کے قصبوں اور امریکہ کی شمال مشرقی ریاستوں (Rust Belt) کے محنت کش اس بات کے گواہ ہیں۔
’غیر مرئی ہاتھ‘ پیداوار کے تعقلی منصوبے کے تحت نہیں چلتا بلکہ منڈی کے اندھے اور انارکی سے بھرپور قوانین کا غلام ہے۔ مفلوج شعبہ جات اور کاروباروں کے پیدا کیے گئے خلا کو سماجی ضروریات کی بنا پر نئی صنعتیں پُر نہیں کریں گی۔ محض ان نوکریوں کے مواقع (اگر ہوتے ہیں تو) پیدا ہوں گے جو سرمایہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافعوں کے ضامن ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں کوڑے دان میں پھینکے گئے محنت کشوں کو متبادل روزگاروں کی سہولت میسر آنے کی بجائے انہیں اپنی مدد آپ کے اوپر انحصار کرنا پڑے گا۔ جو محنت کش روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، وہ کسی پروان چڑھتے آن لائن کاروبار کی بجائے بد ترین استحصال اور دیہاڑی پر مبنی غیر مستحکم روزگار ہی ہو گا۔
گھر بیٹھے آرام دہ کام کرنے والے لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کئی سارے شعبوں میں کام آن لائن ہو چکا ہے اور آنے والے عرصے میں کمپیوٹر پر کیے جانے والے غیر ملکی روزگار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس عمل سے دنیا بھر میں ’وائٹ کالر‘ محنت کشوں میں اجرتوں اور کام کے حالات کے حوالے سے مقابلہ شدید تر ہوتا جائیگا جس کے نتیجے میں ان کے حالات تیزی سے ابتری کی طرف بڑھیں گے۔۔جس تجربے سے ان کے بلیو کالر محنت کش بہن بھائی خوب واقف ہیں۔
اسی طرح ورلڈ اکنامک فورم کی حالیہ رپورٹ ’روزگار کا مستقبل‘ کے مطابق نئی ٹیکنالوجی کے آنے سے کمپنیوں میں محنت کشوں کی جگہ مشینیں، سافٹ ویئر اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس لے رہی ہے جس سے 8 کروڑ 50 لاکھ نوکریاں خطرے میں ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق اس عمل میں کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے شدید تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ ”جسے روزگار کا ’مستقبل‘ سمجھا جاتا تھا، وہ وقت آ چکا ہے“۔ وباء سے پہلے والے حالات میں بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ خود کار مشینری اور عالمگیریت محنت کشوں کو پہلے کی طرح مزید دبا رہی ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح محنت کے ثمرات سرمایہ دار اٹھا کر لے جائیں گے۔
نیم مردہ سرمایہ داری
آزاد منڈی کو نہ چھیڑنے کی وکالت کرنے والوں کو سب سے بڑا درپیش مسئلہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا طوفان سر پر کھڑا ہے۔ مثال کے طور پر یورپ کی پانچ بڑی معیشتوں میں 4 کروڑ سے زیادہ محنت کشوں کے لیے حکومت کی طرف سے بغیر تنخواہ کے رخصت والی سکیمیں متعارف کی گئی ہیں۔ او بی آر (Office for Budget Responsibility) کے اندازوں کے مطابق برطانیہ میں مبینہ سکیموں کے 90 لاکھ محنت کشوں میں سے 10 سے 20 فیصد، ریاستی امداد ختم ہو جانے کی صورت میں بے روزگار ہو جائیں گے۔ اس پیشین گوئی کے مطابق برطانیہ کے اندر بے روزگاری میں 12 فیصد اضافہ ہوگا۔
مزید برآں نیم مردہ کمپنیوں کی تعداد بھی کافی بڑھی ہے، یعنی غیر منافع بخش کمپنیاں جن کو سستے قرضوں کے قطروں کی مدد سے مصنوعی طور پر زندہ رکھا جا رہا ہے۔ جرمن بینک سیکیورٹیز کے مطابق امریکہ میں تقریباً پانچ میں سے ایک کمپنی اسی نیم مردہ صورتحال سے دوچار ہے۔ یہ اعداد و شمار 2013ء کی نسبت دگنا ہو چکے ہیں۔ حالیہ مہینوں کے اندر اس تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جس میں امریکی فیڈرل ریزرو اور دیگر مرکزی بینکوں کا کردار ہے جنہوں نے معیشت میں سستے قرضوں کے ڈھیر انڈیل دیے ہیں۔ البتہ قرضوں کی وصولی کے باوجود ان میں سے کئی کمپنیاں بچ نہیں پائیں گی۔ برطانیہ میں او بی آر کے اندازوں کے مطابق حکومت کی جانب سے بحالی کی خاطر دیے جانے والے قرضوں میں سے 40 فیصد کی واپسی نہیں ہوگی اور کمپنیاں ختم ہوتی جائیں گی۔
چنانچہ مکمل بربادی والی صورتحال کا سامنا ہے۔ بینک کے نظام کو دیوالیہ پن کی لہر کا سامنا ہے اور اس کا نتیجہ مالی وباء کی صورت میں نکلے گا۔ البتہ ہر بحران کی طرح حالیہ بحران میں بھی فاتح اور مفتوح ہوں گے۔ مسابقت کی دوڑ میں آگے رہنے والی کمپنیوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا اور وہ ناکام ہوتی ہوئی کمپنیوں کو ختم کرتی جائیں گی۔ نتیجتاً اس سے سرمائے کے ارتکاز میں اور بڑے کاروباروں کی قوت میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ معیشت کو نہ چھیڑنے کے اصل نتائج ہوں گے، جس سے بڑی اجارہ داریوں کے مفاد میں محنت کش اور چھوٹے کاروبار دونوں پستے چلے جائیں گے۔
طویل مدتی جمود
ریاستی امداد ختم ہو جانے کا مجموعی نتیجہ بھرپور بحالی نہیں بلکہ معاشی افراتفری ہوگی، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور کم ہوتی ہوئی طلب اور سرمایہ کاری میں مزید کمی آئے گی۔ حالیہ بحران کی وجہ کورونا وباء نہیں ہے۔ معاشی گراوٹ کے عرصے میں بحالی کی بے بنیاد باتوں کے باوجود عالمی معیشت اس سال سے پہلے بھی بحران کا شکار تھی اور اس بحران کا سامنا 2008ء سے کرنا پڑ رہا تھا۔ اسی طرح نیم مردہ سرمایہ داری وباء سے پہلے بھی موجود تھی۔ یہ اصل بیماری کی ایک علامت ہے جس کی وجہ سے عالمی معیشت مرجھا رہی ہے؛ یہ بیماری زائد پیداوار کی ہے۔
تنخواہ کے بغیر رخصت کیے گئے محنت کش تو صرف اس بہت بڑے بحران کی ایک چھوٹی سی نشانی ہیں۔ سٹیل سے لے سمارٹ فون تک عالمی سطح پر ہر بڑے شعبے میں زائد پیداوار کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ سرمایہ کار پیسوں کے انبار حقیقی پیداوار کی بجائے، جہاں منڈی پہلے سے بھری پڑی ہے، سٹا بازی میں لگا رہے ہیں اور اثاثوں کی قیمتیں سالوں سے برابر بڑھتی جا رہی ہیں۔ نہ صرف مالی بحران کے بعد سے بلکہ اس سے دہائیاں قبل بھی حکومتوں نے اس غیر مستحکم صورتحال کو غبارے میں ہوا بھرتے ہوئے برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی ہے، یا تو براہ راست خسارہ فنانسنگ اور ریاستی امداد کے ذریعے یا پھر کم شرح سود اور مقداری آسانی کے ذریعے۔
اس صورتحال کو بورژوا معیشت دان ’طویل مدتی جمود‘ (Secular Stagnation) کے نام سے پکارتے ہیں؛ در حقیقت 09-2008ء کے بحران سے قبل چھوٹے پیمانے کی بڑھوتری بھی اس لیے ہو رہی تھی کہ حکمران طبقہ ان طریقوں کا استعمال کر رہا تھا جو بحران سے نکلنے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کا بحران، جو پہلے سے شدید تر ہے، سے باہر نکلنے کے لیے حکمران طبقے کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا اور وہ بند گلی میں پھنس چکا ہے۔ اسی لیے سیاستدان اور پالیسی ساز نظام کو بچانے کی خاطر نہایت خطرناک اقدامات لینے پر مجبور ہیں۔
ان حقائق سے اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ بہت سی بورژوا شخصیات جیسا کہ یوروپین سنٹرل بینک کی چیف کرسٹین لگارڈ، فیڈرل ریزرو سسٹم کا صدر جیروم پاویل، آئی ایم ایف اور فنانشل ٹائمز کے ایڈیٹرز، اب کینشین پالیسیوں کی بات کر رہے ہیں اور حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سبسڈیز اور دیگر طریقوں سے معیشت کو متحرک کرے۔ سارے اہم مرکزی بینک اب عوامی قرضوں کے معاملے میں مانیٹری فنانسنگ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مرکزی بینکوں نے حکومتی بانڈز خریدنے کے لیے 7.5 ٹریلین ڈالر چھاپے ہیں تاکہ ریاستی اخراجات کو پورا کیا جا سکے، اور یہ عمل جلد رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
نتائج بھگتنے پڑیں گے
جہاں ایک آزاد منڈی کی صلاحیتوں کے بارے میں بیان بازیاں کی جا رہی ہیں، وہیں دوسری جانب نسبتاً سمجھدار سرمایہ دار طبقہ حکومتی امداد رُک جانے کی صورت میں آنے والی بدحالی اور سماجی تباہی کو دیکھ رہا ہے۔ جیسا کہ پرانی کہاوت ہے کہ اچھے دنوں کو آخرکار ختم ہونا پڑتا ہے۔ ہائیکین لبرٹیرینز اور کینشین لبرلز اس بات پر متفق ہیں کہ تمام تر کیے گئے اقدامات کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ آخرکار جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ اصل سوال یہ ہے؛ کہ کس کو؟
یہ جرمانہ بہت بھاری ہوگا۔ حالیہ آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق کورونا وباء کے پیشِ نظر کیے گئے حکومتی اخراجات کی وجہ سے عالمی سطح پر کل عوامی قرضہ عالمی جی ڈی پی کا 100 فیصد بن رہا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر سماج میں موجود سارے معاشی وسائل کو محض قرض کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جائے تو تب بھی اس عمل میں پورا ایک سال لگے گا۔ آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے مطابق ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے لیے مجموعی حکومتی قرضہ، قرضے اور جی ڈی پی کے تناسب کے تحت 2019ء میں 105 فیصد سے بڑھ کر 2021ء میں تقریباً 132 فیصد تک بڑھ جائے گا۔
قرض کی مقدار میں کمی لانے کے حوالے سے حکمران طبقے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جذباتی کینشینز کا ماننا ہے کہ معاشی بڑھوتری سے مسئلہ حل ہو جائے گا اور اس کے لیے وہ جنگ عظیم کے بعد کی بحالی کا حوالہ دیتے ہیں۔ مگر ایسا ہونا ممکن نہیں رہا جس کی وجوہات اوپر بیان کی جا چکی ہیں۔ جبکہ ماڈرن مانیٹری تھیوری کے حامیوں کا ماننا ہے کہ قرض ایک سراب اور فرضی کہانی ہے، جس کو محض ’سیاسی عزم‘ کے ذریعے قابو کیا جا سکتا ہے۔ وہ حکومتوں کو مرکزی بینکوں کے ذریعے پیسے چھاپنا جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرضوں کے بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مگر کینشیئین اسٹ (روایتی اور نئے دونوں) اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کو ریاست حل نہیں کر سکتی، نہ تو ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے اور نہ ہی پیسہ چھاپنے کے ذریعے۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ سرمایہ داری بحران کا شکار آخر ہوتی کیوں ہے؟
سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جس میں پیداوار منافعے کی خاطر کی جاتی ہے۔ جب تک ذرائع پیداوار کے اوپر نجی ملکیت قابض رہے گی، تب تک کاروباری سرمایہ کاری اور معاشی بڑھوتری کا انحصار منافعوں کے اوپر رہے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ زائد پیداوار کا تضاد ہی ہے۔۔بڑے پیمانے پر پیداوار کی عالمگیر صلاحیت۔۔جس کی وجہ سے موجودہ معاشی سکڑاؤ کا سامنا ہے اور جو پیداواری قوتوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ دیگر بورژوا تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ قرضوں پر پیسے چھاپ کر افراط زر کے ذریعے یا ٹیکس بڑھا کر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مگر در حقیقت دونوں صورتوں میں ایک جیسے نتائج نکلیں گے، اول الذکر ٹیکس کا دوسرا نام ہے، جس کا سامنا سماج کو آخر الذکر سے زیادہ انتشاری اور ظالمانہ صورت میں کرنا پڑتا ہے۔
بنیادی سوال وہی ہے؛ جرمانہ کس کو بھرنا پڑے گا؟ آخری تجزیے میں یا تو محنت کش اس بوجھ کو مہنگائی اور گرتے ہوئے معیار زندگی کی صورت میں برداشت کریں گے یا پھر سرمایہ دار طبقہ، جو اپنے منافعوں پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ فیصلہ جو بھی لیا جائے، یہ طبقاتی جدوجہد کو مزید تیز کرے گا۔
تبدیلی اور یکسانیت
وباء کے بعد کی دنیا کئی حوالوں سے پرانی دنیا جیسی ہی لگ رہی ہے؛ بڑھتی نابرابری، تحفظاتی پالیسیوں، جغرافیائی سیاست میں عدم استحکام، سرمایہ دارانہ بحران اور طبقاتی جدوجہد کا دور دورہ ہے۔ ایک پرانی فرانسیسی کہاوت کے مطابق؛ چیزیں جتنی تبدیل ہوتی جاتی ہیں، اتنی ہی وہ پہلے جیسی بھی رہتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود حالات نہ پہلے کی طرح ہیں اور نہ ہو پائیں گے۔ اس کی بجائے وباء سے پہلے موجود تضادات اور دباؤ میں مزید شدت آئی ہے۔
سائنس اور فطرت سے اس معاملے میں نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں، خاص کر ایک عمل جسے ہائسٹریسس (Hysterisis) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر لوہے کے سپرنگ کو جب کھینچا جائے تو وہ کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اس عمل کو فزکس میں ہُک کے قانون (Hook’s law) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور جب اسے واپس چھوڑ دیا جائے تو وہ پہلے والی لمبائی پر واپس آ جائے گا۔ مگر جب سپرنگ کو بہت زیادہ زور سے کھینچا جائے تو یہ پرانی لمبائی برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہتا اور اس میں مستقل تبدیلی رونما ہو جاتی ہے۔ لوہا مستقل طور پر تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح سماج کے لیے کورونا وباء سے پہلے والے ایام میں واپسی ممکن نہیں ہے۔ جس طرح ٹرمپ کا دور حکومت ختم ہو جانے سے عام امریکیوں کے چار سالہ سیاسی تجربے کو ان کے ذہنوں سے نہیں مٹایا جا سکتا، اسی طرح وائرس کے ختم ہو جانے سے پچھلے بارہ مہینوں کے اثرات بھی نہیں مٹ پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دیوہیکل واقعات تاریخ اور شعور کے اوپر ان مٹ نقوش چھوڑیں گے۔ وباء گزر جانے کے بعد حالات معمول پر نہیں آئیں گے بلکہ مزید شدید ہوں گے۔ بحران مزید گہرا ہوگا اور طبقاتی جدوجہد مزید شدت اختیار کرے گی۔
بلیک ڈیتھ کے ساتھ موازنہ ایک طرح سے ٹھیک بھی ہے۔ چودھویں صدی کے طاعون نے پہلے سے بوسیدہ نظام کے زوال کی رفتار کو تیز کر دیا تھا اور جاگیرداری کی گرتی ہوئی دیواروں کے لیے دھکا ثابت ہوا۔
مگر ’قدیم نظامِ حکومت‘ (ancien regimes، 1789ء کے انقلاب سے پہلے کے فرانس کا سماجی و معاشی نظام) کی طرح سرمایہ داری خود بخود ختم نہیں ہو جائے گی۔ ’سرمایہ داری کا آخری بحران‘ نامی کوئی بھی چیز نہیں۔ سرمایہ داری کو شعوری بنیادوں پر ختم کرنا پڑے گا۔
بلا شبہ پرانی دنیا مر رہی ہے اور ایک نیا سماج جنم لینے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا، اس پیدائش میں محض مدد کرنے والی دایہ، یعنی انقلاب کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے لیے ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر درکار ہے، تاکہ مارکسزم کے نظریے کو مادی قوت میں بدلا جا سکے۔ ایک ایسی قوت جو محنت کشوں اور نوجوانوں کے عظیم تر مفاد میں تاریخ کے رخ کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دے۔