|تحریر: سائرہ بانو|
اسٹاک ہوم سنڈروم میں مبتلا بورژوا تنخواہ دار ملازم اورسرمایہ دارانہ نظام کے دلال اکثر سوشلسٹ معاشی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے معاشرے میں لوگ سست ہوجائیں گے۔ اگر معاشی نظام سے منافع جیسی ترغیب نکال دی جائے تو کوئی کیوں کام کرے گا، کاروبار کیونکر چلیں گے، لوگوں میں آگے بڑھنے کی لگن کیسے پیدا ہوگی، نجی ملکیت کے خاتمے کے بعد کاروبار زندگی ٹھپ ہوجائے گا، دنیا بھر میں کاہلی کا دوردورہ ہوگا اور ایجادات ہونی بند ہوجائیں گی۔
ترغیبات دو طرح کی ہوتی ہیں، اندرونی اور بیرونی۔ کسی چیز یا مقام کے حصول کا مقصداگر تسکین یا خوشی حاصل کرنا ہو تو یہ اندرونی ترغیب کہلاتی ہے، اس کے برعکس وہ انعام یا سزا جو کوئی کام کرنے کے لیے یا کسی کام کرنے سے روکنے کے لیے دی جائے بیرونی ترغیب کہلاتی ہے۔ جزا اور سزا دونوں صورتوں میں فاعل کو کوئی اندرونی ترغیب حاصل نہیں ہوتی بلکہ وہ لالچ یا ڈر کی وجہ سے وہ مخصوص کام کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ معیشت میں لوگوں کو کیا ترغیب ملتی ہے؟ اس کا واحد جواب ہے پیسہ۔ پیسہ وہ بنیادی یونٹ ہے جس سے اشیاء کے تبادلے کی قدر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس طرز معیشت میں انسان کی بقاء کا دارومدار اس کی پیسہ حاصل کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ پیسے کی مدد سے انسان وہ اشیاء خریدتا ہے جن کو استعمال کرکے وہ اگلے دن پھر اپنی قوت محنت بیچنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ گویا سرمایہ دارانہ معیشت بنیادی طور پر پیسے کی شکل میں ایک بیرونی محرک فراہم کرتی ہے۔
مارکس کا کہنا ہے کہ اندرونی تحرک یا ترغیب کی کمی سرمایہ دارانہ معیشت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مزدوروں کو غربت سے بچنے کے لیے اپنی قوت محنت کو فروخت کرنا پڑتا ہے۔ وہ طویل عرصے تک سخت محنت کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں کوئی بھی مزدور سستی یا کاہلی کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ کام نہ کرنے کی صورت میں وہ اور اس کے گھر والے بھوکے مرجائیں گے۔ جیسے جیسے مزدور اپنے شعبے میں تجربہ کار ہوتا ہے ویسے ویسے اس سے زیادہ مشقت کی توقع اور تقاضہ کیا جاتا ہے، اسے مشینوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو زیادہ مفید ثابت کرسکے اور سرمایہ دار اسے کام سے نہ نکالے۔
سرمایہ داروں کے یہ معذرت خواہان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان بنیادی طور پر خود غرض ہے اور جب تک اسے کوئی لالچ نہیں دیا جائے گا وہ کوئی کام نہیں کرے گا۔ سرمایہ داری کا دفاع کرنے والے بیک وقت کہہ رہے ہوتے ہیں کہ انسان مسابقتی بھی ہے اورکام چور بھی۔ مارکس نے اس بات کے جواب میں کہا تھا کہ اس دلیل کے مطابق تو بورژوا سماج کوبہت پہلے ختم ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ اس نظام میں کام کرنے والے مزدوروں کے پاس کچھ نہیں ہوتااور جن کے پاس سب کچھ ہوتا ہے وہ کوئی کام نہیں کرتے۔
سُستی، اگر غور کیا جائے تو کوئی ایسی بری چیز بھی نہیں۔ فرض کیجیے اگر کوئی ایسی مشین موجود ہے جو مزدور کی مشقت اورکام کے د ورانیے کو کم کردیتی ہے تو کیا برا ہے۔ اس صورت میں تو سُستی نے دراصل اس ایجاد کے لیے ایک ترغیب کا کام کیا۔ اس سے سرمایہ داروں کے ایک اور الزا م کی نفی ہوگئی کہ اگر منافع نہیں ہوگا تو ایجادات کیوں کرہوں گی۔
تاہم سرمایہ دارمعاشرے میں ہونے والی ایجادات مزدور کے اوقات کار کم کرنے یا اس کی مشقت میں کمی کے کام نہیں آتیں بلکہ ان کی وجہ سے اسے اپنے کام کے دورانیے میں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پہلے سے کم وقت میں اپنی تنخواہ حلال کرکے بعد میں سرمایہ دار کی نہ ختم ہونے والی ہوس کو پورا کررہا ہوتا ہے۔ وقت اور محنت بچانے والے آلات اور مشینیں مزدور کو تو کوئی آسانی فراہم نہیں کرتے لیکن کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سستی مصنوعات بناکر سرمایہ دار کے سرمائے میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ سو جب تک ایجادات کے پیچھے منافع کی ہوس کارفرما ہے مزدوروں کے استحصال میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں مارکیٹ کا خاتمہ ہوچکا ہوگا وہاں اشیائے صرف انسانی ضرورت کے لیے ایک منصوبہ بندی کے تحت بنائی اور استعمال کی جائیں گی۔ ایسے معاشرے میں ایجادات اس لیے کی جائیں گی کہ انسانی ضرورت کی تمام اشیاء پیدا کرنے کے لیے کی جانے والی مشقت کو کم کیا جائے تاکہ معاشرے کے تمام افراد کو اپنے شوق، دلچسپیاں اور ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اضافی وقت مل سکے۔
کام اور اس کے طریقہ کار پر مزدوروں کے کنٹرول، کام کرنے کے محفوظ اور تیز ترین طریقوں، اوقات کار میں کمی، اور سب سے بڑھ کر لوگوں کو ان کی پسند اور مرضی کے مطابق مختلف کام کرنے کی آزادی کام کو دلچسپ اور خوشگوار بنادے گی۔ ان تبدیلیوں کی بناء پرلوگوں پرکام کا دباؤ کم ہوجائے گااور ہر پیشے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ ایسے معاشرے میں کچرے کو ٹھکانے لگانے اور کان کنی جیسے ناگوار اور خطرناک کام بھی مشینوں کے ذریعے بآسانی کیے جاسکیں گے۔
سرمایہ دار ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مصنوعات بیچنے کی دھن میں لگا رہتا ہے اس لیے آج کی دنیا میں ہونے والی ایجادات کا مقصد بھی اپنے کاروباری حریفوں کو پیچھے چھوڑنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی اشیاء کے ہر چند مہینوں بعد جدید ترین ماڈل سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ لوگ جن کے پاس ’پرانا‘ ماڈل ہوتا ہے انھیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد نئی کار یا فون خرید لیں چاہے وہ بالکل ٹھیک ہی کام کیوں نہ کررہا ہو۔ نئی سے نئی مصنوعات لانے کی اس دوڑ کا ایک پہلو غیر معیاری اشیاء بنانا ہے تاکہ وہ زیادہ عرصے نہ استعمال ہوسکیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس کی بنیاد منافع خوری پر نہیں ہوگی وہاں پائیدار اشیاء بنائی جائیں گی جس کی وجہ سے سماج کو چلانے کے لیے کم سے کم محنت درکار ہوگی۔
انسان اچھائی کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں۔ اگر کوئی ہماری مدد کرے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم بھی جواباً ایسا ہی کریں۔ ایسا ہی اشتراکی معاشرے میں بھی ہوگا۔ اگر ایک شخص ایک ایسی چیز بنا رہا ہے جو معاشرے کے دیگر افراد کے لیے ضروری ہے تو باقی لوگ بھی اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق کوئی نہ کوئی کام کریں گے۔ کمیونزم میں انسانی ضروریات پوری کرنے کا مشترکہ نظام ہوتاہے۔ اس نظام میں ہر شخص اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق کوئی چیز پیدا کرتا ہے اور منافع کی لالچ کے بغیر اجتماعی استعمال کے لیے پیش کردیتا ہے۔
سرمایہ داروں کے معذرت خواہان یہ بھی کہتے ہیں کہ جب آپ کو معاشرے میں رہنے کی وجہ سے سارے فائدے مل ہی جانے ہیں اورجب زیادہ ہنر مند اور کم ہنر مند لوگوں کو ایک جیسی زندگی ملے گی تو کوئی زیادہ محنت کیوں کرے گا۔ ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ کم ہنرمند، زیادہ ہنرمند، وائٹ کالر، بلو کالر جیسی تفریق بورژوازی کی اختراعات ہیں۔ یہ ساری اصطلاحات لوگوں کے استحصال کے لیے بنائی گئی ہیں ورنہ کوئی بھی پیشہ کم اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔ ایک معاشرے کو خاکروب کی بھی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی ڈاکٹر یا انجینئر کی، لہٰذا اشتراکی معاشرے میں انسانوں سے ان کے پیشوں کی بنیاد پر کوئی فرق روانہیں رکھا جائے گا۔
حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ بورژوا معاشرے کی بنیاد ہی محنت کش طبقے کے استحصال پر ہے، سرمایہ دار اس بات کا پورا اہتمام کرتے ہیں کہ مزدوروں کے دن کا بیشتر حصہ ان کی قدر زائد بڑھانے میں صرف ہو نہ کہ ان کی اپنی دلچسپیوں اور ذاتی کاموں میں۔ وہ خود ایک گلاس بھی ادھر سے ادھر نہیں کرتے، لیکن، چونکہ وہ ذرائع پیداوار پر قابض ہوتے ہیں اس لیے مزدوروں کا خون چوستے رہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سست اور کاہل دراصل سرمایہ دار ہیں جبکہ محنت مشقت کرنے والے مزدورہمیشہ غریب رہتے ہیں۔
رہا یہ سوال کہ کوئی کیوں ڈاکٹر یا سائنسدان بنے گا؟ اس کا جواب ہے اندرونی ترغیب۔ اگر لوگ تنخواہ کے لیے کام کرنے کی بجائے اپنے شوق اور دلچسپی کے لیے کام کریں تو وہ اپنے شعبوں میں کمال حاصل کرسکیں گے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ لوگ ان کاموں میں وقت اور محنت کی پروا ہ نہیں کرتے جن کا انہیں شوق ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک فرد اپنے کام سے خوش نہیں ہے یا اس میں اس کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے تو وہ کسی اور شعبے میں کام کرسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اختصا ص یا اسپیشیئلٹی کے نام پر لوگوں کو ان کے پیشوں کا قیدی بنادیا ہے جہاں ان کو زندگی بھر ایک ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ تاہم ایک اشتراکی معاشرے میں ایسا نہیں ہوگا۔ کسی شخص کے لیے کوئی مخصوص کام مختص نہیں ہوگا۔ کوئی بھی انسان کوئی بھی کام کرسکے گا۔ انسان بنیادی طور پرتنوع پسند ہے اور ایک ہی کام مستقل کرتے رہنے سے اس کی دلچسپی اور تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام ایک مشین کی طرح ایک ہی قسم کے ہزاروں انسان تیار کررہا ہے جو زندگی بھر ایک ہی کام کرکرکے بیزار ہوچکے ہیں لیکن بھوکے رہ جانے کے ڈر سے وہ کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ سوشلزم لوگوں کو کاہل نہیں بنائے گا بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انہیں ہر وہ کام کرنے کا موقعہ دے گا جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اشتراکیت میں انسان کی توقیر اس کے پیشے یا پیسے کی بنیاد پر نہیں ہوگی، اس لیے لوگوں کا ارتکاز کسی خاص شعبے کی طرف نہیں ہوگا۔
اشتراکی معاشرے کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ فرد یا خاندان کی بیشتر ذمہ داریاں گروہی نظام کے تحت خود بخود پوری ہورہی ہوں گی اس لیے لوگ اپنی صلاحیتوں اور وقت سے بھرپور استفادہ کرسکیں گے۔ اجتماعی طعام خانے اور دھوبی گھاٹ خواتین کو جسمانی مشقت سے محفوظ رکھیں گے، بچوں، بزرگوں اور معذورافراد کی دیکھ بھال کے مراکز قائم ہوں گے جس کی وجہ سے خواتین کو معاشرے میں ایک بھرپور اور صحت مند کردار ادا کرنے کا موقعہ ملے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسان اجتماعی بیگانگی کا شکار ہوچکا ہے اور اس کی دلچسپی کا محور اس کی اپنی ذات یا اپنا خاندان بن چکا ہے لیکن اشتراکی معاشرے میں وقت اور توانائی ہونے کے باعث انسان کے انسان اور دوسری انواع سے رشتے مضبوط ہوں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے تعلیم کو بھی ایک بکاؤ چیز بنادیا ہے اس لیے لوگ وہی پڑھتے ہیں جس کی مارکیٹ میں کھپت ہے اور اس وجہ سے لوگوں میں ادب، موسیقی، رقص، فلسفہ، منطق، لسانیات ا ور دیگر علوم حاصل کرنے کا رجحان ختم ہوگیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے معاشرے میں ایک خاص طرح کی تعلیم اور پیشوں کو فوقیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ غیر انسانی اور مصنوعی ہوگیا ہے۔ اشتراکی معاشرے کے افراد صرف ستاروں پر ہی کمند نہیں ڈال رہے ہوں گے بلکہ دنیا کی بھی تمام خوبصورت اور لطیف سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ اشتراکی انقلاب کے بعد ہم صحیح معنوں میں انسانیت کے درجے پر فائز ہوں گے اور ایک اعلیٰ معاشرہ قائم کرسکیں گے۔