|تحریر: آفتاب اشرف|
اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی عالمی بحران کی پچھلی کم و بیش ڈیڑھ دہائی کی تاریخ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ 2011ء کی عرب بہار سے لے کر اب تک دنیا کے ہر خطے میں، درجنوں ممالک میں محنت کش طبقے، مظلوم عوام اور نوجوانوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی نمائندہ ریاست سے چھٹکارا پانے کے لیے انتہائی جرات مندی کے ساتھ انقلابی تحریکیں برپا کی ہیں۔ ان تحریکوں میں وسیع پیمانے کے عوامی احتجاجوں سے لے کر ملک گیر عام ہڑتالوں تک جیسے اقدامات کے ذریعے محنت کش عوام نے سرمایہ دار حکمران طبقے اور اس کی جابر ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں اور اس کے اقتدار کو معطل کرتے ہوئے ہوا میں معلق کر دیا۔ ایسے چند ایک انقلابی طوفانوں کے دوران، جیسے سری لنکا، مصر وغیرہ میں، متعلقہ سماج میں ”طاقت کی دوئی“ کا مظہر بھی ابھرا یعنی سرمایہ دارانہ ریاست اور حکمران طبقے کی منظم طاقت کے مقابلے میں تحریک کے دوران ابھرنے والی انقلابی کمیٹیوں، کونسلوں وغیرہ کے ذریعے محنت کش طبقے، نوجوانوں اور مظلوم عوام کی طاقت کا منظم اظہار بھی کسی نہ کسی حد تک سامنے آیا۔ کچھ ممالک جیسے سوڈان، میں انقلابی اور ریاستی و غیر ریاستی رد انقلابی قوتوں میں مسلح تصادم بھی ہوئے جن میں اپنی تمام تر بے سروسامانی کے باوجود محنت کشوں اور نوجوانوں نے ناقابل یقین دلیری کا مظاہرہ کیا۔
لیکن تمام تر جرات اور قربانیوں کے باوجود اس سارے عرصے میں کرۂ ارض کے کسی بھی خطے میں، کسی ایک بھی سماج میں محنت کش عوام سرمایہ دارانہ نظام، اس کے حکمران طبقے اور ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ”محنت کش طبقے کی آمریت“ پر مبنی ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی تخلیق میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ نتیجتاً کچھ عرصے میں جب آگے بڑھنے کا راستہ نہ ملنے کے کارن انقلابی تحریک تھکن کا شکار ہو کر ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں تو سرمایہ دار طبقے اور ریاست کا ہوا میں معلق اقتدار واپس بحال ہو جاتا ہے اور پوری وحشت کے ساتھ پسپا ہوتی تحریک پر حملہ آور ہو کر اسے تہس نہس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلی ڈیڑھ دہائی میں انقلابی بغاوتوں کی پسپائی کی یہ کہانی اتنی بار دہرائی گئی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے آپ ریپیٹ ٹیلی کاسٹ پر لگی کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔
لیکن ٹھوس معروضی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی بحران نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے تضادات میں مزید شدت آ رہی ہے۔ لہٰذا قابل قیاس مستقبل میں بھی محنت کش عوام کی زندگی میں کوئی بہتری آنے کی امید نہیں اور ان پر سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاست کی جانب سے ہونے والے معاشی، سماجی و سیاسی حملوں میں مزید شدت آئے گی جس کے نتیجے میں وہ بار بار پہلے سے کہیں بلند پیمانے پر انقلابی تحریکیں برپا کرنے کی طرف جائیں گے کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا بقا کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن ان تحریکوں کو ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ پچھلی ڈیڑھ دہائی میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں میں وہ کیا کمی تھی جو ان کی پسپائی کا سبب بنی؟ کمیونسٹوں اور طبقاتی شعور یافتہ محنت کشوں کا کام ماضی کی ناکامیوں اور پسپائیوں کا ماتم کرنا نہیں بلکہ ان کی وجوہات کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنا ہے تا کہ مستقبل میں اٹھنے والی محنت کش عوام کی بغاوتوں کو کامیابی کے ساتھ سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچایا جا سکے۔
محنت کشوں کی ایک انقلابی پارٹی کا فقدان
اگر ہم پچھلی ڈیڑھ دہائی کی ان تمام انقلابی تحریکوں کے اتار چڑھاؤ کا بغور مطالعہ کریں تو بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ثانوی اور حادثاتی وجوہات سے قطع نظر ان تمام تحریکوں کی پسپائی کی اصل وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے محنت کش طبقے کی ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا فقدان۔ سرمایہ دارانہ نظام، اس کے حکمران طبقے اور ریاست کا مقابلہ کرنے کے لیے درست سائنسی نظریات، مطالبات و پروگرام سے مسلح، محنت کش عوام، طلبہ و نوجوانوں اور خصوصاً محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں میں سیاسی جڑیں رکھنے والے جرات مند اور تجربہ کار کیڈرز پر مشتمل ایک انتہائی منظم انقلابی قوت جو انقلابی تحریک کے دوران اپنے درست پروگرام و نعروں کے ذریعے محنت کش عوام کے نیم شعور میں موجود سماج کی انقلابی تبدیلی کی خواہش کو بھرپور شعوری اظہار دے کر اور ماضی میں کی گئی مستقل مزاج انقلابی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والی سیاسی اتھارٹی کے بلبوتے پر محنت کش طبقے اور پھر ان کے ذریعے مظلوم عوام کی قیادت حاصل کرتے ہوئے تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے۔
دوسرے الفاظ میں محنت کش عوام کی ایک انقلابی تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچانے کے لیے بالکل ویسی ہی انقلابی پارٹی چاہیے جیسی کہ بالشویک پارٹی تھی، جس نے 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں انقلاب روس برپا کیا تھا۔ ایک ایسی انقلابی پارٹی کے بغیر محنت کش عوام کی تمام تر جرات مندی کے باوجود کوئی بھی انقلابی تحریک ایسے ضائع ہو جائے گی جیسے ٹراٹسکی کے بقول پسٹن باکس کے بغیر بھاپ کوئی حرکت پیدا کیے بغیر ہی فضا میں تحلیل ہو کر ضائع ہو جاتی ہے۔ مگر محنت کش طبقے کو ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ اس قسم کی پارٹی کے بنیادی خصائص کیا ہوتے ہیں؟ اس کی ساخت کیسی ہوتی ہے؟ اس کے فرائض کیا ہوتے ہیں اور اس کی جدوجہد کا بنیادی طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
سرمایہ دارانہ ریاست اور محنت کش طبقہ
سرمایہ دارانہ ریاست، محنت کش طبقے پر سرمایہ دار حکمران طبقے کے طبقاتی جبر کا آلہ ہوتی ہے۔ دیگر الفاظ میں یہ سرمایہ دار حکمران طبقے کے ہاتھوں میں محنت کش طبقے کو بزور طاقت دبا کر رکھنے کا ایک اوزار ہوتی ہے۔ یہ ریاست اور اس کے آئین و قانون سے لے کر اس کا ہر ایک مسلح و انتظامی ادارہ سرمایہ دار طبقے، سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ اور محافظ ہوتا ہے۔ یہ ریاست ایک منظم قوت ہوتی ہے جو بنیادی طور پر فوج، پولیس، خفیہ ایجنسیوں، عدلیہ، سول افسر شاہی، نظام قانون اور جیل خانہ جات جیسے انتہائی منظم اداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک انقلابی تحریک میں محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کا مقابلہ اس منظم و مسلح قوت کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ اپنے بڑے حجم اور پیداواری عمل میں اپنے کلیدی کردار کے کارن ریاست، سماج و معیشت کو جام کر کے رکھ دینے کی زبردست قوت رکھنے کے باوجود محنت کش طبقہ اس وقت تک سرمایہ دارانہ ریاست کو نہیں پچھاڑ سکتا جب تک کہ وہ خود بھی ایک منظم قوت نہ بن جائے۔ مگر محنت کش طبقے میں تو صنعتی محنت کش، سروسز سیکٹر کے محنت کش، پبلک سیکٹر کے محنت کش، کھیت مزدور وغیرہ جیسی بہت سی پرتیں ہوتی ہیں۔ ان تمام پرتوں کا شعور یکساں نہیں ہوتا، نہ ہی ان کے انقلابی حالات سے لازمی نتائج اخذ کرنے کی رفتار و صلاحیت یکساں ہوتی ہے اور نہ ہی ایک انقلابی تحریک میں محنت کش طبقے کی یہ تمام پرتیں یکساں طور پر حرکت میں آتی ہیں۔ مگر سرمایہ دار طبقے اور ریاست پر ایک فیصلہ کن وار کرنے کے لیے اور مسائل کے حل کے ایک مشترکہ انقلابی پروگرام کے گرد ان تمام پرتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تال میل میں آنا اور منظم ہو کر اکٹھے قدم بڑھانا بہت ضروری ہے۔
اسی طرح ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا محنت کش طبقے کا ہی فریضہ ہے لیکن وہ تن تنہا یہ کام نہیں کر سکتا۔ کامیابی کے لیے اسے طلبہ، بے روزگار نوجوانوں، چھوٹے کسانوں، فوج کے عام سپاہیوں (جو محنت کشوں یا چھوٹے کسانوں کے ہی بیٹے ہوتے ہیں)، مظلوم مذہبی اقلیتوں اور قومیتوں کے ساتھ کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ایک انقلابی تحریک ان تمام عناصر پر بھی انقلابی اثرات ڈالتی ہے لیکن محنت کش طبقے کو اپنے پروگرام میں ان تمام سماجی پرتوں اور عناصر کے مسائل کا انقلابی حل پیش کرتے ہوئے انہیں جیتنا پڑے گا اور انہیں اپنے گرد منظم کرتے ہوئے فیصلہ کن لڑائی کا حصہ بنانا ہو گا۔
بلاشبہ محنت کش طبقہ انقلابی حالات میں انتہائی تیزی کے ساتھ سیکھتا ہے اور لازمی نتائج اخذ کرتے ہوئے ٹریڈ یونین تحریک کی تنگ حدود کو توڑتا ہوا انقلابی جدوجہد کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے۔ مزید برآں اسے نہ صرف اپنے مسائل کا بخوبی ادراک ہوتا ہے بلکہ بطور طبقہ اپنے سابقہ تجربات اور انقلابی تحریک کے طوفانی واقعات کے ہچکولوں سے وہ اپنے طبقاتی مفادات اور سرمائے کے مفادات کے مابین جوہری ٹکراؤ اور سرمایہ دارانہ ریاست کی طبقاتی اصلیت سے بھی بڑی حد تک آگاہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سب کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک انقلابی تحریک کے تیز و تند دور میں خود بخود سے ایک ایسا جامع پروگرام بھی تشکیل دے دے گا جو نہ صرف محنت کش طبقے کی تمام پرتوں بلکہ تمام مظلوم عوام کی امنگوں کا ترجمان ہو۔ اس مقصد کے لیے اسے ایک انقلابی پارٹی درکار ہے جو سماج کی انقلابی تبدیلی کا ایسا پروگرام رکھتی ہو۔ اسی طرح سماج کو بدل ڈالنے کے ایک درست و جامع پروگرام کے گرد خود منظم ہونے اور مظلوم عوام کی وسیع تر پرتوں کو جیتتے ہوئے فیصلہ کن پیش قدمی کرنے کے لیے اسے ایک ایسی انقلابی قیادت کی ضرورت ہے جو اپنے نظریات، تجربے اور جرات کے بلبوتے پر نہ صرف تحریک کو منظم کرنے میں ایک ہر اول کردار ادا کر سکتی ہو بلکہ اس انقلابی جدوجہد کی حرکیات، دشمن کی ممکنہ رد انقلابی کاروائیوں وغیرہ جیسے تمام عوامل کا درست سائنسی و تاریخی ادراک رکھتی ہو۔ مگر یہ قیادت انقلابی تحریک کے دوران خود بخود پیدا نہیں ہو گی بلکہ اسے ایک انتہائی منظم انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی صورت میں انقلاب سے قبل تعمیر کرنا پڑے گا۔
سرمایہ دار حکمران طبقہ اور اس کی ریاست صرف ننگے جبر کے ذریعے ہی محنت کش طبقے کو دبا کر نہیں رکھتے۔ بلکہ ان کے پاس سیاسی پارٹیوں کے علاوہ نظام تعلیم، نصاب، میڈیا، مذہبی پیشواؤں، سرکاری دانشوروں اور دیگر بے شمار عناصر پر مشتمل پوری ایک پراپیگنڈہ مشینری ہوتی ہے جو ایک منظم انداز میں محنت کش طبقے کے شعور کو پراگندہ کرنے کا کام کرتی ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے محنت کشوں کو رنگ، نسل، قوم، زبان، مذہب، فرقے، شعبے کے نام پر تقسیم کرنے اور آپس میں لڑوانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ محنت کش طبقے اور دیگر مظلوم عوام کے بیچ پھوٹ ڈالنے اور انہیں ایک دوسرے سے کاٹ کر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محنت کشوں کے طبقاتی شعور کو کند کرنے کی خاطر ان پر مزدور دشمن نظریات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے اور حکمران ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ محنت کش انقلابی نظریات اور اپنے ہی طبقے کی انقلابی تاریخ سے نابلد رہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام ہتھکنڈوں کا زیادہ تر استعمال ایک انقلابی تحریک کے پھٹ پڑنے سے قبل نام نہاد زمانہ امن میں ہوتا ہے۔ لہٰذا محنت کش طبقے کو انقلابی تحریک سے قبل بھی ایک انقلابی پارٹی کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف انہیں منظم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے بلکہ سرمایہ دار طبقے اور ریاست کے ان تمام ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے طبقاتی شعور کی بڑھوتری میں ہر ممکن نظریاتی، سیاسی و عملی معاونت کرے۔
سب سے پہلے نظریات!
ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی اساس مارکسزم، لینن ازم، سائنسی سوشلزم یا کمیونزم کے مزدور نظریات ہوتے ہیں۔ یہ نظریات کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی جیسے عظیم انقلابی اساتذہ کے ذریعے ہمیں ملے ہیں اور تاریخ کی کسوٹی پر مکمل طور پر پورے اترے ہیں۔ کمیونزم ہی وہ واحد نظریہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا نہ صرف ایک جامع تجزیہ پیش کرتا ہے بلکہ ایک مزدور انقلاب کے ذریعے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے پرولتاریہ کی آمریت پر مبنی ایک مزدور ریاست، ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک منصوبہ بند معیشت اور غیر طبقاتی سماج کے قیام جیسا قابل عمل سائنسی متبادل بھی دیتا ہے۔ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کبھی بھی، کسی بھی صورت میں اپنی نظریاتی اساس پر رتی برابر بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ مگر ایک انقلابی پارٹی کا کام صرف ان مزدور نظریات پر انتہائی قطعیت کے ساتھ قائم رہنا ہی نہیں ہوتا بلکہ محنت کش طبقے، خاص کر اس کی ہر اول پرتوں اور نوجوانوں میں ان نظریات کی منظم انداز میں بھرپور ترویج کرتے ہوئے انہیں نظریاتی کیڈرز میں ڈھالنا بھی پارٹی کا اولین فریضہ ہے۔ یہی وہ منظم کیڈرز ہیں جو پارٹی کی ریڑ ھ کی ہڈی بنتے ہیں اور مزدور تحریک کے تجربات سے مزید نکھرتے ہوئے اس کی قیادت کرنے کی اہلیت حاصل کرتے ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد کا عمومی طریقہ کار
ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد حتمی تجزیے میں سیاسی جدوجہد ہوتی ہے جس کا مقصد ایک انقلابی تحریک، غیر معینہ مدت کی ملک گیر عام ہڑتال اور محنت کش عوام کی حمایت یافتہ مسلح سرکشی کے ذریعے محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے یعنی سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب بنانا ہوتا ہے۔ لیکن سرمایہ دار حکمران طبقہ اور اس کی ریاست اپنے پراپیگنڈے اور انتخابی سیاسی نظام کے ذریعے محنت کش طبقے کے شعور میں یہ خیال راسخ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کا واحد طریقہ سرمایہ دارانہ انتخابی سیاست ہے۔ مگر ہم کمیونسٹ اس لغو خیال کو رد کرتے ہیں اور واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کبھی بھی سرمایہ دارانہ ریاست و حکمران طبقے کے رائج کردہ سیاسی و انتخابی نظام کا حصہ بن کر اور اس کے ذریعے برپا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بالکل درست ہے کہ بنیادی نظریات پر انتہائی مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انقلابی مزدور جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے کمیونسٹ پارٹی طریقہ کار اور لائحہ عمل کے سوالات پر انتہائی لچکدار رویہ اختیار کرتی ہے اور تمام میسر مواقع کا استعمال کرتی ہے۔ لہٰذا قبل از انقلاب دور میں مخصوص حالات کے تقاضوں کے مطابق کسی مخصوص موقع پر محدود وقت کے لیے پارٹی اپنے نظریات کی وسیع ترویج، سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کے مزدور دشمن کردار کو محنت کش عوام کے سامنے مزید عیاں کرنے یا ایک ”پوائنٹ آف ریفرنس“ بننے کی خاطر سرمایہ دارانہ انتخابی عمل میں محدود شمولیت اختیار کر سکتی ہے لیکن پارٹی کے کسی ایک بھی کیڈر کو کبھی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ بورژوا انتخابی سیاست کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
سوشلسٹ انقلاب کی تیاری کے حوالے سے ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد کا بنیادی عنصر محنت کش طبقے، طلبہ، نوجوانوں اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں میں کمیونسٹ نظریات کی ترویج، محنت کش طبقے کے تاریخی حافظے کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں ماضی کی لڑائیوں و مزدور انقلابات سے اخذ کردہ لازمی اسباق سے مسلح کرنا، رد انقلابی نظریات اور پراپیگنڈے کا ہر سطح پر اور ہر طریقے سے مدلل سائنسی جواب دینا، کیڈر سازی، محنت کش طبقے کی اپنی فوری مانگوں کے حصول کے لیے ہر ایک چھوٹی بڑی جدوجہد میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ شرکت کرتے ہوئے انہیں منظم کرنے کی کوشش کرنا اور صبر کے ساتھ ان کے سامنے درست انقلابی مؤقف رکھتے ہوئے انہیں اصلاح پسند سیاسی و ٹریڈ یونین قیادتوں کے اثر و رسوخ سے باہر نکالنا، محنت کشوں کی فوری مانگوں اور سماج کی مکمل انقلابی تبدیلی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے والے عبوری پروگرام کی ترویج کے ذریعے انقلاب کے سالماتی عمل کو تیز تر کرنا، ایک جامع انقلابی پروگرام کے گرد محنت کش طبقے کے تمام حصوں اور پرتوں کو ایک منظم لڑی میں پرونا اور مزدور تحریک کو طلبہ و نوجوانوں اور سماج کی دیگر مظلوم و عوامی پرتوں کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے جیسے عوامل پر مشتمل ہوتا ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ڈھانچے اور جمہوری مرکزیت
ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی نہ تو کوئی ڈھیلا ڈھالا بے عمل ڈسکشن کلب ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تنظیم جس میں بس اوپر بیٹھے ایک دو لیڈر فیصلے کر رہے ہوں اور باقی تمام ممبران بلا سوچے سمجھے سر نیہوڑے ان کے پیچھے چل رہے ہوں۔ بلکہ ایک کمیونسٹ پارٹی کی تو پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ نظریاتی، سیاسی و عملی تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنے تمام ممبران میں لیڈر شپ کی بھرپور صلاحیت پیدا کرے۔ لیکن جہاں کیڈر سازی اور درست اجتماعی فیصلہ سازی کے لیے پارٹی میں جمہوری بحث مباحثے کی گنجائش متعلقہ اداروں میں ہونا ضروری ہے وہیں محنت کش طبقے کی ایک لڑاکا انقلابی پارٹی کے طور کمیونسٹ پارٹی کا انتہائی منظم ہونا اور آہنی ڈسپلن کا پابند ہونا بھی لازمی ہے تاکہ وہ مشکل حالات میں اپنے تاریخی فرائض سر انجام دے سکے۔ بحث مباحثے کی جمہوری آزادی اور مرکزیت پر مبنی آہنی ڈسپلن کے جدلیاتی تال میل سے ہی جمہوری مرکزیت کا راہنما اصول تخلیق ہوا ہے جس پر پارٹی کا ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کی وضاحت ”بحث اور اظہار رائے کی آزادی (پارٹی کے متعلقہ اداروں میں) مگر عمل میں وحدت“ کے طور پر بھی کی جا سکتی ہے۔ یعنی کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت پارٹی کے تمام ممبران پارٹی کے متعلقہ اداروں میں ہونے والی بحث میں بھرپور حصہ لیتے ہیں اور اپنی رائے دیتے ہیں لیکن ایک دفعہ جب اکثریتی رائے سے فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر آہنی ڈسپلن کے تحت اس کا اطلاق تمام ممبران پر ہوتا ہے، ان پر بھی جن کی رائے بحث کے دوران اس کے خلاف تھی۔
اسی طرح پارٹی کے بالا ادارے زیریں اداروں سے ہی جمہوری طور پر منتخب ہوتے ہیں لیکن فیصلہ سازی میں بالا اداروں کی رائے کو زیریں اداروں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ پارٹی میں کسی بھی فرد یا ادارے کی اتھارٹی حتمی تجزیے میں تنظیمی نہیں بلکہ نظریاتی و سیاسی اتھارٹی ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں مزدور ریاست کی تخلیق کا اوزار ہوتی ہے نہ کہ مزدور ریاست کے انتظامی ڈھانچے کا بلیو پرنٹ۔ لہٰذا پارٹی میں رائج جمہوری مرکزیت اور مزدور ریاست میں رائج مزدور یا سوویت جمہوریت ایک ہی چیز نہیں ہیں۔
ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں رنگ، نسل، مذہب، قوم، فرقے، زبان، ثقافت، صنف کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب کی رتی برابر بھی گنجائش نہیں ہوتی اور ایسی غلاظت کا ایک ذرہ رکھنے والا ممبر بھی پارٹی کی رکنیت سے محروم کر دیا جاتا ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی مزدور انقلاب کی جدوجہد کو بھرپور پیشہ ورانہ سنجیدگی اور ڈسپلن کے ساتھ سر انجام دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے زیادہ سے زیادہ ممبران اور خاص کر ہر سطح پر قیادت کا کل وقتی انقلابی کارکن ہونا ضروری ہے۔ یعنی کہ ایسے کارکنان جنہوں نے اپنی زندگی کو مکمل طور پر انقلابی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا ہو۔ یہ کل وقتی انقلابی کارکنان ہی پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی بنتے ہیں اور اس کا آپریٹس تشکیل دیتے ہیں۔
اسی طرح پارٹی اپنے کام کو بڑھانے کے لیے لٹریچر شائع کرتی ہے، سیاسی و نظریاتی اخبار نکالتی ہے اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کرتی ہے۔ اپنی سرگرمیوں اور پارٹی آپریٹس کے تمام اخراجات کے لیے پارٹی کو پیسوں کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن ایک کمیونسٹ پارٹی کے لیے مالی وسائل کا سوال سب سے پہلے ایک سیاسی سوال ہوتا ہے اور ایک انقلابی طریقہ کار سے مالی وسائل کا حصول ہی پارٹی کی نظریاتی و سیاسی صحت کو قائم رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا پارٹی اپنی فنڈنگ کے لیے صرف اور صرف اپنے ممبران کے چندے اور محنت کشوں، طلبہ، مظلوم عوام اور انٹیلی جنشیہ میں موجود اپنے نظریاتی و سیاسی ہمدردوں سے حاصل ہونے والے فنڈز پر ہی انحصار کرتی ہے۔
مزدور بین الاقوامیت اور انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل
سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کش طبقے کی لڑائی کسی ایک خطے، سماج یا ملک کے محنت کشوں تک محدود نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے اور اس کے خلاف لڑائی بھی عالمی سطح پر ہی لڑی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سوشلسٹ انقلاب کا آغاز تو کسی ایک ملک یا چند ممالک سے ہو سکتا ہے لیکن کمیونزم کی طرف گامزن ایک حقیقی سوشلسٹ سماج کا قیام صرف عالمی سطح پر ہی ممکن ہے اور اس مقصد کے لیے محنت کش طبقے کو کسی ایک یا چند ممالک سے آغاز کرتے ہوئے ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھنا پڑے گا۔ لہٰذا دنیا بھر کے محنت کش ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر یہ لڑائی نہیں لڑ سکتے اور اس مقصد کے لیے انہیں محنت کشوں کی ایک بین الاقوامی کمیونسٹ پارٹی کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس اور اینگلز نے آج سے پونے دو سو سال قبل ”دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!“ کا نعرہ دیا تھا اور بعد ازاں اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے محنت کشوں کی پہلی بین الاقوامی انقلابی تنظیم ”فرسٹ انٹرنیشنل“ قائم کی تھی۔ اسی طرح لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے انقلاب روس 1917ء برپا کرنے کے بعد ”تیسری انٹرنیشنل“ کی بنیاد رکھی تھی تاکہ اس مزدور انقلاب کو پوری دنیا میں پھیلایا جا سکے۔ یہ مزدور بین الاقوامیت ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ہے اور کوئی بھی حقیقی کمیونسٹ پارٹی سب سے پہلے، اپنے آغاز میں ہی ایک مزدور بین الاقوامیت پسند سیاسی قوت ہوتی ہے۔
پاکستان سمیت کرۂ ارض کے چالیس کے قریب ممالک میں پچھلی کئی دہائیوں سے مزدور انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھانے پر کاربند محنت کشوں کی بین الاقوامی تنظیم آئی ایم ٹی (International Marxist Tendency) نے حال ہی میں ”انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل“ کی تخلیق کا فیصلہ کیا ہے۔ اس انٹرنیشنل کے تحت دنیا کے مختلف ممالک میں ”انقلابی کمیونسٹ پارٹیوں“ کی تشکیل کا عمل کامیابی سے جاری ہے اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں اور محنت کش ان پارٹیوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہاں بھی ایک ایسی ہی پارٹی کی تعمیر کی جدوجہد اہم فیصلوں کی جانب بڑھ رہی ہے تاکہ یہاں پر ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیز تر کیا جا سکے۔ تمام پڑھنے والوں سے اپیل ہے کہ وہ اس جدوجہد کا حصہ بنیں اور ان نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے اس انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کریں۔