|تحریر: نکلس البن سیونسن، ترجمہ: جویریہ ملک|
2008ء کے بحران کے آغاز سے، یورپ اور امریکہ میں تارکینِ وطن – مہاجر مخالف جماعتوں اور تحریکوں نے پیش قدمی کی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ساتھ محنت کش طبقے کی کچھ پرتوں کو شامل کرنے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ اس کی وجہ سے مزدور تحریک کے ایک حصے نے خود کو ان نظریات کے مطابق ڈھال لیا ہے اور مارکس کے اقتباسات کو استعمال کرتے ہوئے سخت سرحدی کنٹرول کے مطالبات جیسے مؤقف کو اپنایا ہے۔ اس طرح کی تنگ نظر پالیسیوں کا مارکس یا پہلی، دوسری یا تیسری انٹرنیشنل کی روایات سے کوئی تعلق نہیں ہے، جیسا کہ ہم واضح کریں گے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مارکس اور بریگزیٹ
جن اہم شعبوں میں یہ بحث ہوئی ہے ان میں سے ایک بریگزٹ ہے۔ خاص طور پر، دائیں بازو کے سیاست دانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بریگزٹ کی وجہ محنت کشوں کی نسل پرستی تھی اور اس لیے ہمیں ”ان کے تحفظات کو سننا ہوگا“۔ اس نے ٹریڈ یونین کی تحریک کو بھی متاثر کیا اور کئی یونین کے عہدیدار امیگریشن پر مزید پابندیوں کی حمایت میں کسی نہ کسی طریقے سے سامنے آئے ہیں۔
19 دسمبر 2018ء کو، یونائیٹ دی یونین کے رہنما، لین میک کلسکی نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ”دوسرے بریگزٹ ریفرنڈم سے ہمارے معاشرے کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ ہے“۔ مضمون میں دوسرے ریفرنڈم کی تحریک کی ایک معقول تنقید شامل ہے، جو درحقیقت لیبر پارٹی کو توڑنے کا امکان رکھتا ہے۔ تاہم میک کلسکی نے مضمون میں سرحدی کنٹرول پربھی لکھا ہے۔ وہ مقامی شرائط و ضوابط کو توڑنے والے ”درآمد شدہ ایجنسی لیبر“ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے:
”اصول سادہ ہے – اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر کسی کو کام کے مطابق قیمت ادا کی جائے، یونین معاہدوں کو پورا کیا جائے، اور ایجنسی لیبر کے اسکینڈل کو ختم کیا جائے جو بے ایمان کمپنیاں درآمد کر رہی ہیں کیونکہ وہ مقامی مزدوروں کی نسبت سستے ہیں۔ اس کے لیے تارکین وطن مزدور قصور وار نہیں ہیں بلکہ وہ نظام جو لالچی مالکان کو تمام ورکرز کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ وزیر اعظم تھریسا مے اس پر خاموش ہے۔“
یہ درست ہے۔ مزدور تحریک کو اپنے مؤقف کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف لڑنا چاہیے۔ اس میں یورپی یونین کا پوسٹڈ ورکرز ڈائریکٹیو شامل ہے، جس نے یورپ کے دیگر حصوں سے ”ہڑتال توڑنے والے“ مزدوروں کی درآمد کے لیے دروازہ کھولا ہے۔ تاہم، وہ مزید لکھتا ہے، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ صحیح مؤقف سے خطرناک مؤقف کی طرف قدم بڑھاتا ہے:
”محنت کش طبقے کی تحریک ہمیشہ نسل پرستی اور استحصال کے خلاف لڑے گی۔ اور کسی بھی ٹریڈ یونینسٹ کو معلوم ہو گا کہ ہماری طاقت مزدوروں کی فراہمی پر قابو پانے سے برقرار رہتی ہے۔ مزدوروں کی فراہمی کی بے ضابطہ آزاد منڈی زندگی کے دیگرحصوں کی طرح یہاں بھی نقصان دہ ہے“۔
اس عام فہم بیان کے پیچھے نقصان دہ مطالبہ چھپا ہے: کہ ہمیں سرمایہ داروں کو مزدوروں کی فراہمی کا تعین کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹریڈ یونین مزدوروں کی فراہمی قابو کر سکتی ہیں، لیکن یہ خیال واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا کیونکہ یہ متعلقہ موضوع کا حصہ نہیں ہے۔ وہ امیگریشن کو کنٹرول کرنے والی بورژوا ریاست کا حوالہ دے رہا ہے جس کی سربراہی اس وقت انتہائی یونین مخالف حکومت کر رہی ہے۔ حقیقت میں، یہ حکمرانوں سے امیگریشن کو محدود کرنے کی اپیل ہے، نہ کہ مزدور تحریک کے ذریعے امیگریشن کنٹرول کرنے کی کوشش۔ اگر وہ کلوزڈ شاپ (جہاں صرف ایسے ملازمین کو کام کرنے کی اجازت ہے جو ٹریڈ یونین کے ممبر ہوں) کی بحث کر رہا ہوتا تو ایک مارکس وادی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے، لیکن وہ یہاں ایسا نہیں کہہ رہا۔
یقیناً، یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ اگر لیبر پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو اس سے چیزیں بدل جائیں گی۔ تاہم، یہ بنیادی طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں کرے گا۔ ریاست بورژوا ریاست ہی رہے گی اور معاشی نظام سرمایہ دارانہ ہی رہے گا۔ یہ خیال کہ بڑے پیمانے پر دائیں بازو کی سول سروس بڑے کاروباروں کے بجائے مزدور تحریک کو فائدہ پہنچانے والی امیگریشن پالیسیوں کی تجویز سامنے لائے گی، بے ہودہ ہے۔ یہ خیال کہ بڑے پیمانے پر دائیں بازو کی سول سروس امیگریشن کی سطح کی تجویز لے کر آئے گی تاکہ مزدور تحریک کو فائدہ پہنچایا جا سکے، جیسا کہ بڑے کاروبار کے برخلاف ہے، بے ہودہ ہے۔ حقیقت میں میک کلیسکی جانتا ہے کہ اس کا مؤقف مضبوط نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے دفاع کے لیے مارکس اور سرمایہ دارانہ مخالف بیان بازی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
منتخب اقتباسات کا فن
24 دسمبر 2016ء کو میک کلسکی نے اپنی انتخابی مہم کے حصے کے طور پر برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار، مارننگ اسٹار میں ایک مضمون شائع کیا۔ مضمون واضح طور پر لین میک کلسکی کے بائیں بازو کے مخالف، ایان ایلنسن کو جواب ہے، جس نے کچھ دن پہلے مزدوروں کی آزادانہ نقل و حرکت کے حقوق کی حمایت میں ایک مضمون لکھا تھا۔
دیگر دلائل کے ساتھ، ایلنسن کام کی جگہ پر خواتین کی مثال دیتا ہے، اور یہ ایک اچھی تشبیہ ہے۔ خواتین کا کام کی جگہوں اور یونینوں سے دور رہنے کا مطالبہ ایک رجعتی اور تفرقہ انگیز مطالبہ تھا، اور اس نے مالکان کو خواتین اور مردوں کے لیے مختلف اجرتیں رکھنے میں مدد کی اور اس طرح خواتین کو مرد کارکنوں کی تنخواہوں اور شرائط کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ مہاجر مزدوروں کی موجودگی پر جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ ماضی میں خواتین ورکرز کے بارے میں کیے گئے تھے۔ مہاجروں سے مختلف سلوک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اپنے مؤقف کا دفاع کرنے کے لیے میک کلسکی، لوزان کانگریس کی تیاری میں فرسٹ انٹرنیشنل سے مارکس کے خطاب کا حوالہ دیتا ہے:
”انگریز محنت کش طبقے کی جدوجہد کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے مزدوروں کو کمزور کرنے کے لیے مالکان یا تو بیرون ملک سے مزدوروں کو لاتے ہیں یا پھر مینوفیکچرنگ کو ان ممالک میں منتقل کرتے ہیں جہاں سستے مزدور دستیاب ہوں۔“
اس چھوٹے سے اقتباس سے میک کلسکی یہ نتیجہ اخذ کر رہا ہے کہ مارکس نے سرحدی کنٹرول کی حمایت کی۔ لیکن اگر ہم پورا پیراگراف پڑھیں تو ہمیں ایک مختلف تصویر ملتی ہے:
”سرمائے کی طاقت کے سامنے فرد کی طاقت ختم ہو چکی ہے، کارخانے میں مزدور اب مشین میں ایک دانت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپنی انفرادیت کو بحال کرنے کے لیے، مزدور کو دوسروں کے ساتھ متحد ہونا پڑا اور اپنی اجرت اور اپنی زندگی کے دفاع کے لیے اتحادی تنظیمیں بنانا پڑیں۔ آج تک یہ تنظیمیں خالصتاً مقامی تھیں، جبکہ سرمائے کی طاقت، نئی صنعتی ایجادات کی بدولت، روز بروز بڑھ رہی ہے۔ مزید برآں بہت سے معاملات میں مقامی تنظیمیں بے اختیار ہو چکی ہیں: انگریز محنت کش طبقے کی جدوجہد کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے مزدوروں کو کمزور کرنے کے لیے مالکان یا تو بیرون ملک سے مزدوروں کو لاتے ہیں یا پھر پیداوار کو ان ممالک میں منتقل کرتے ہیں جہاں سستی محنت دستیاب ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر اگر محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنا چاہتا ہے تو قومی تنظیموں کو عالمی تنظیم بننا چاہیے۔ (مارکس، لوزان کانگریس پر)
مارکس اس مسئلے کو تسلیم کرتا ہے: کہ مالکان محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے قومی تقسیم اور سرحدوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، اس کا حل ”سرحدی کنٹرول“ نہیں بلکہ عالمی تنظیم ہے۔ مارکس سرحدوں کے پار مزدور تحریکوں کے درمیان اتحاد اور تعاون بڑھانے پر زور دیتا ہے۔ درحقیقت جس اقتباس کا حوالہ دیا گیا ہے وہ عالمی ورکنگ مینز ایسوسی ایشن (پہلی انٹرنیشنل) کی لوزان کانگریس سے ہے، جس کی تعمیر کے لیے مارکس نے خود کو وقف کیا تھا۔
میک کلسکی نے اپنے مضمون میں جو تجویز پیش کی ہے کہ آجروں پر اجتماعی معاہدوں کے بغیر مزدوروں کی درآمد پر پابندی لگائی جائے، حقیقت میں اہمیت نہیں رکھتا لیکن یہ بیان بازی اس سے کہیں زیادہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔درحقیقت یہ مضمون ”منظم ہجرت“ کے لیے ایک بائیں بازو کا کور قائم کرنے کی کوشش ہے، جس کا واضح مطلب ہجرت میں رکاوٹ ہے۔ یہ کم از کم دو دہائیوں سے لیبر پارٹی کی مائیگریشن پالیسی کے لیے سب سے اہم جملہ رہا ہے جو ٹونی بلیئر کے حراستی مراکز سے لے کر براؤن کے نعرے ”برطانوی مزدوروں کے لیے برطانوی ملازمتیں“ (2007ء میں ٹریڈ یونین کانفرنس میں شروع کیا گیا) اور ملی بینڈ کے”مہاجرین پر پابندیوں“ تک شامل رہا ہے۔
درست مطالبہ وہ ہوگا جسے میک کلسکی نے اس سال 19 دسمبر کو اپنے مضمون میں اٹھایا، کہ مالکان پر غیر ملکی مزدوروں کو پہلے سے موجود مزودوروں کے مقابلے میں کم اجرت پر ملازمت دینے پر پابندی لگائی جائے۔ یہ مارکس کے منظور کردہ پروگرام کا حصہ تھا۔
ایک مثال میک کلسکی کی اپنی یونین کی تاریخ سے لینڈزی آئل ریفائنری کی مشہور ہڑتالیں ہیں، جہاں محنت کشوں نے پوسٹڈ ورکرز ڈائرکٹیو کے شرائط و ضوابط کو کمزور کرنے کے خلاف جدوجہد کی۔ اس ہڑتال میں، مقامی ورکرز نمائندوں نے اسٹیبلشمنٹ کے نسل پرستوں کے خلاف عالمی نقطہ نظر کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی، جو ہڑتال پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ ورکرز نمائندوں نے مطالبہ کیا کہ تمام مزدور، خواہ وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتے ہوں، یکساں شرائط کے تابع ہوں۔ یہ کامیابی غیر ملکی مزدوروں کو ہڑتال میں شامل کرنے کے بعد ملی تھی، جو کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتی تھی اگر مہم میں غیر ملکیوں سے نفرت کا ایک قطرہ بھی شامل ہوتا۔
میک کلسکی جس قسم کی بیان بازی کرتا ہے اس سے برطانوی مزدوروں کے مطالبات پر غیر ملکی مزدوروں کو جیتنا مشکل ہو جاتا۔ اتفاق سے اس وقت ٹریڈ یونین بیوروکریسی ”برطانوی مزدوروں کے لیے برطانوی نوکریاں“ جیسے غیر ملکیوں سے نفرت انگیز نعرے کی حمایت کررہی تھی جسے سنسنی خیز اخبارات (جن کی پشت پناہی گورڈن براؤن کر رہا تھا) نے مقبولیت دی تھی۔ یہ نعرہ اُس وقت کے یونین لیڈر ڈیرک سمپسن نے اٹھایا، جس کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ لیکن محنت کش اپنی جدوجہد کے ذریعے اس سوال پر ٹریڈ یونینوں کے سرکردہ افراد سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اتفاق سے، بائیں بازو کے ایک حصے نے، جو ہمیشہ محنت کش طبقے میں نسل پرستی کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے بے چین رہتا تھا، ہڑتال کو نسل پرستانہ قرار دیا اور اس کی مخالفت کی۔ اس طرح کی انتہائی بائیں بازو کی حماقت صرف مالکان کے مفادات کو پورا کرتی ہے، اور اس سے کم طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کشوں کو اسٹیبلشمنٹ کے نسل پرستوں کے ہاتھوں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
اس تنازعے میں مزدور ٹھیک تھے اور یونین لیڈر بالکل غلط۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے۔ جدوجہد کرنے والے محنت کش دوسرے ممالک کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ متحد ہونے کی ضرورت محسوس کریں گے۔ یہ تنگ نظر اصلاح پسندانہ ذہنیت ہے جو یونین کے رہنماؤں کو ہمیشہ سرمایہ داروں کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ 19ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں، ہڑتال توڑنے کے لیے اکثر دوسرے ممالک سے مزدور درآمد کیے جاتے تھے۔ جب مارکس نے پہلی انٹرنیشنل قائم کی تو اس کے اہم کاموں میں سے ایک کام ان حربوں کے خلاف لڑنا تھا۔ یہ کیسے کیا گیا؟ مہاجر مزدوروں کو یونین میں شامل کر کے اور انٹرنیشنل کے ذریعے مختلف ممالک میں محنت کشوں کے درمیان روابط استوار کر کے یہ کام کیا گیا۔
پہلی انٹرنیشنل نے جو کامیابی حاصل کی، اس نے محنت کشوں کے لیے، خاص طور پر برطانیہ میں، بین الاقوامیت کی اہمیت کو ثابت کیا۔ دوسری انٹرنیشنل میں بھی یہی طریقے استعمال کیے گئے جس میں کافی کامیابی ملی۔ بارڈر کنٹرول کے لیے مہم چلانا، مارکس کے ذہن میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ برطانیہ میں تمام محنت کشوں کو ایک جیسی تنخواہ اور شرائط کے تحت کام کرنا چاہیے اور غیر ملکی محنت کشوں پر پابندی یا حد بندی، ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلا محنت کش طبقے کو متحد کرتا ہے جبکہ دوسرا اسے تقسیم کرتا ہے۔
زیزیک کی اخلاقی سیاست کا مسئلہ
زیزیک ہمیشہ تنازعات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ درست نکات پیش کرتا ہے، لیکن دوسرے لوگوں کی سوچ میں منافقت اور تضادات کو دیکھنے کی اس کی صلاحیت اصل میں کوئی متبادل تجویز کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ یہ امیگریشن کے سوال پر بھی سچ ثابت ہوا ہے۔
زیزیک فرانس میں چلنے والی پیلی واسکٹ تحریک کے بارے میں ایک مضمون لکھتے وقت امیگریشن اور پناہ گزیں مہاجرین کے سوال کے بارے میں کسی وجہ سے انحراف برتتا ہے:
”ہمارے اخلاقی سیاسی مسئلے کا بھی یہی تعلق ہے: مہاجرین کی آمد سے کیسے نمٹا جائے؟ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ سرحدیں تمام لوگوں کے لیے کھول دی جائیں جو آنا چاہتے ہیں، اور یہ سب ہمارے اجتماعی جرم کے احساس پر مبنی ہونا چاہیے (”ہماری نوآبادیات ہمارا سب سے بڑا جرم ہے جس کا حساب ہمیں ہمیشہ دینا پڑے گا“)۔ اگر ہم اس سطح پر رہے، تو ہم مقتدر حلقوں کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں جو مہاجرین اور مقامی محنت کش طبقے (جو ان [مہاجرین] سے خطرہ محسوس کرتے ہیں) کے درمیان تنازعے کو ہوا دیتے ہیں اور اپنے اعلیٰ اخلاقی مؤقف کو برقرار رکھتے ہیں“۔
یہ بالکل سطحی تجزیہ ہے۔ بے شک، جب مہاجرین کی بات آتی ہے تو پیٹی بورژوا اخلاقیات کا اظہار ہوتا ہے۔ بہت سارے خیراتی ادارے مہاجرین کے ساتھ مشغول ہونا پسند کرتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کسی دوسرے براعظم میں بہت دور موجود ہوں۔ تاہم، محض اس نقطہ کو تسلیم کرنا اور اسے طبقاتی جدوجہد کے سوال کے مد مقابل رکھنا کافی نہیں ہے۔ درحقیقت، مختلف ممالک کے محنت کشوں کے درمیان یکجہتی کا زبردست احساس موجود ہے، اور یہ مہاجرین کے استقبال کی تحریک میں کسی بھی قسم کے اخلاقی تحفظات یا احساس جرم سے زیادہ اہم تھا۔
بہت سے مڈل کلاس دانشوروں کی طرح، زیزک بھی سمجھتا ہے کہ محنت کش طبقہ بین الاقوامی یکجہتی یا طبقاتی جدوجہد کے نظریاتی پہلوؤں میں دلچسپی نہیں رکھتا اور صرف اپنی اگلی تنخواہ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس موضوع پر ایسے دانشور محنت کش طبقے کے بارے میں اپنی کم نظری کو ظاہر کرتے ہیں۔ متعلقہ وجہ سے اس سوال کو ایک اخلاقی سوال کے طور پر کھڑا کرنا اور اسے ایک خلفشار قرار دینا بھی غلط ہے۔ جیسا کہ وہ ان سطروں میں کرتا ہے:
”جس لمحے کوئی اس سمت میں سوچنا شروع کرتا ہے تو سیاسی طور پر ”درست“ بایاں بازو، فوراً فاشزم کا نعرہ لگاتا ہے۔ جیسے انجیلا ناگلے پر ان کے شاندار مضمون” کھلی سرحدوں کے خلاف بائیں بازو کا مقدمہ“ کی وجہ سے حملے۔ ایک بار پھر، کھلی سرحدوں کے حامیوں اور مہاجر مخالف پاپولسٹ مؤقف کے درمیان ”’تضاد“ ایک غلط ”ثانوی تضاد“ ہے، جس کا حتمی کام خود نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت کو مبہم کرنا ہے، پورا عالمی معاشی نظام جوخود اپنی موجودہ شکل میں مہاجرین کو جنم دیتا ہے“۔
بلاشبہ زیزک درست ہے کہ بنیادی جدوجہد سماج کو بدلنے کے لیے ہونی چاہیے۔ لیکن اس جدوجہد میں مہاجرین اور امیگریشن کا مسئلہ صرف اس صورت میں الجھے گا جب یہ سوال غلط طریقے سے اٹھایا جائے گا۔ ایک لحاظ سے ان کا اپنا مضمون بالکل یہی کرتا ہے۔ امیگریشن اور مہاجرین ایک بہت اہم معاملہ ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے، لیکن اس سوال کا جواب اخلاقی نہیں بلکہ سوشلسٹ ہونا چاہیے۔
مارکس اور آئرش قومی سوال
زیزیک نے نومبر میں تنگ نظر ”امریکی امور“ رسالے میں انجیلا ناگل کے ایک مضمون کا حوالہ دیا، جس کا عنوان تھا” کھلی سرحدوں کے خلاف بائیں بازو کا مقدمہ“، جسے بائیں کی جانب سے کافی تنقید اور کچھ حمایت ملی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کیونکہ، ایک بار پھر، اس میں مہاجر مخالف مؤقف کا جواز پیش کرنے کے لیے مارکس کو استعمال کیا گیا ہے۔ ناگل نے جس اقتباس کا انتخاب کیا وہ پہلی انٹرنیشنل کے دو امریکی ممبران کو مارکس کا خط ہے:
”اجارہ داری کے مسلسل بڑھتے ہوئے ارتکاز کی وجہ سے، آئرلینڈ کے مزدور تیزی سے برطانیہ کی منڈی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اور اس سے نا صرف انگریز مزدوروں کی اجرتیں کم ہوئی ہیں بلکہ انگریز محنت کش طبقے کی مادی اور اخلاقی حیثیت میں بھی کمی آئی ہے۔
”اور سب سے اہم یہ کہ انگلینڈ میں ہر صنعتی اور تجارتی مرکز میں ایک محنت کش طبقہ ہے جو دو مخالف کیمپوں میں تقسیم ہے، انگریز مزدور اور آئرش مزدور۔ عام انگریز محنت کش آئرش محنت کش سے نفرت کرتا ہے اور اسے مدمقابل سمجھتا ہے جس نے اس کے معیار زندگی کو گرا دیا۔ آئرش محنت کش کے سامنے وہ خود کو حکمران قوم کا فرد سمجھتا ہے اور نتیجتاً وہ آئرش محنت کش کے خلاف انگریز اشرافیہ اور سرمایہ داروں کا آلہ کار بن رہا ہے، اس طرح وہ اپنے اوپر ان کے تسلط کو اور مضبوط بناتا ہے۔ وہ آئرش محنت کش کے خلاف مذہبی، سماجی اور قومی تعصبات کو پسند کرتا ہے۔ آئرش محنت کش کے ساتھ اس کا رویہ امریکہ کی سابقہ غلام ریاستوں میں حبشیوں کے ساتھ ”غریب گوروں“ کے رویے جیسا ہی ہے۔ دوسرے طرف آئرش ورکرز اسے انگریز حکمرانوں کے ساتھی اور آلے کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس لڑائی کو مصنوعی طور پر زندہ رکھا جاتا ہے اور پریس، منبر، مزاحیہ مقالے سمیت حکمران طبقے کو میسر ہر ذرائع کا استعمال کر کے اسے بڑھایا جاتا ہے۔ یہ دشمنی ہی انگریز محنت کش طبقے کے منظم ہونے کے باوجود سیاسی بانجھ پن کی وجہ ہے۔ یہ وہ راز ہے جس کے ذریعے سرمایہ دار طبقہ اپنی حکمرانی برقرار رکھتا ہے۔ اور آئرش محنت کش اس سے بخوبی واقف ہیں۔“
یہ ایک بہت واضح تجزیہ ہے جہاں مارکس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ 19 ویں صدی کے آخر میں آئرش مہاجرین کو برطانیہ میں انگریز محنت کشوں کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا اور اس تقسیم نے برطانیہ میں طبقاتی جدوجہد کو نقصان پہنچایا۔ اس سے کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ مارکس نے اس حقیقت کی نشاندہی کی۔ ہمیں یہاں مارکس کی مشاہداتی صلاحیت کے بجائے اس کے تجویز کیے گئے حل میں دلچسپی ہونی چاہئے جو ناگل کو اس میں شامل کرنا مناسب نہیں لگا:
”انگلینڈ، سرمائے کا دارالحکومت، وہ طاقت جس نے اب تک عالمی منڈی پر حکمرانی کی ہے، اس وقت محنت کشوں کے انقلاب کے لیے سب سے اہم ملک ہے۔ اور اس وقت وہ واحد ملک ہے جہاں اس انقلاب کے لیے مادی حالات تیار ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں سماجی انقلاب کو تیز کرنا انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کا سب سے اہم مقصد ہے۔ اور اس کو تیز کرنے کا طریقہ آئرلینڈ کو خود مختار بنانا ہے۔ لہٰذا، ہر جگہ انٹرنیشنل کا کام ہے کہ وہ برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان تنازع کو پیش منظر میں رکھے اور ہر جگہ کھل کر آئرلینڈ کا ساتھ دے۔ لندن میں مرکزی کونسل کا یہ فریضہ ہے کہ وہ انگریز محنت کشوں کو باور کرائے کہ ان کے لیے آئرلینڈ کی قومی آزادی تجریدی انصاف یا انسانی جذبات کا سوال نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی سماجی آزادی کی پہلی شرط ہے۔“
یہ واقعی معاملے کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے۔ مارکس انگریز محنت کشوں کو آئرلینڈ کے محنت کشوں کے ساتھ متحد ہونے کے لیے ان کی آزادی کے مقصد کی حمایت کرنے اور پہلی انٹرنیشنل کو اس کے لیے آواز اٹھانے کا کہہ رہا ہے۔ اس طرح انگریز اور آئرش محنت کش انگریزی سرمائے اور انگریزی سامراج کے خلاف جدوجہد میں متحد ہو جائیں گے۔ یہ بھی واضح رہے کہ وہ اس جدوجہد کو شروع کرنے کی ذمہ داری انگریز محنت کشوں پر ڈالتا ہے، تاکہ آئرش محنت کشوں کو جیتا جا سکے۔ یہ سرحدی کنٹرول کی حمایت کرنے سے بالکل مختلف ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ناگل نے ”منتھلی ری ویو“ نامی اخبار سے ڈیوڈ ایل ولسن کے ایک مضمون سے یہ اقتباس نقل کیا ہے۔ اس مضمون میں، اس نے دلیل دی ہے کہ اجرتوں میں کمی میں امیگریشن کے کردار پر فکر مند لوگوں کو غلط کہنا درست نہیں ہوگا، جو کہ ایک حد تک درست ہے۔ تاہم اس دلیل کو مزید وضاحت دیے بغیر رجعت پسندی کو جواز فراہم کرنے کے لیے آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ولسن ایسا نہیں کرتا۔ اس کے بجائے وہ اس اقتباس کو مناسب طریقے سے استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں کے اتحاد کی بات کرتا ہے کہ ہمیں امریکی خارجہ پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے تارکین وطن اور مقامی محنت کشوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے۔ وہ تارکین وطن محنت کش مخالف امریکی حکومت کی نقصان دہ پالیسیوں کے خلاف بھی بحث کرتا ہے۔ پھر بھی وہ سرحدوں کے بنیادی نظریاتی سوال کو ادھورا چھوڑ دیتا ہے۔
اس طرح کی ادھوری وضاحت دوسری تشریحات کے دروازے کھلے چھوڑ دیتی ہیں۔ انجیلا ناگل ”ہجرت کی بنیادی وجوہات“ کے خلاف بحث میں ولسن کی پیروی کرتی ہیں، جو ان کے مطابق امریکی خارجہ پالیسی، ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور غربت ہیں۔ تاہم، جہاں ولسن تارکین وطن اور مقامی مزدوروں کے اتحاد کے لیے نقصان دہ ہونے کے طور پر امیگریشن کنٹرول کے خلاف استدلال کرتا ہے، ناگل اس کے برعکس مؤقف اختیار کرتی ہے۔
ناگل کے مطابق محض یہ بیان کہ مہاجر اور غیر مہاجر مزدوروں کے درمیان تنازعہ موجود ہے، امیگریشن کنٹرولزکی حمایت کی کافی اہم دلیل ہے، جب کہ حقیقت میں یہ اس کے برعکس ہے۔ ایک جگہ ناگل تارکین وطن کے خلاف مزید تعزیزی اقدامات کی حمایت میں مارکس کے اس اقتباس کا استعمال کرتی ہے جہاں وہ آئرش محنت کشوں کے جمہوری حقوق کے دفاع پر زور دے رہا ہے:
”غیر قانونی ہجرت کے حوالے سے بائیں بازو کو الیکٹرونک ویریفیکیشن کو لازمی بنانے کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے اور عمل درامد نہ کرنے والے مالکان پر سخت جرمانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اس کے نفاذ کا بنیادی مرکز تارکین وطن نہیں بلکہ مالکان کو ہونا چاہیے۔ آجر، تارکین وطن نہیں، نفاذ کی کوششوں کا بنیادی مرکز ہونا چاہیے۔ مالکان ان تارکین وطن کا استحصال کرتے ہیں جنہیں دوسروں کی طرح قانونی تحفظات حاصل نہیں ہیں اور وہ اجرت کم رکھنے، پے رول ٹیکس ادا کرنے اور دیگر فوائد فراہم نہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تمام ورکرز کے ساتھ منصفانہ سلوک کے لیے لازمی ہے کہ ایسی کاروائیوں کو فوراً ختم کیا جائے۔
”جیسا کہ مارکس نے اپنے زمانے کے برطانیہ کی صورتحال بیان کی تھی، ٹرمپ جیسے سیاست دان امیگریشن مخالف جذبات کو ابھار کر اپنی حمایتی بنیادیں بناتے ہیں، لیکن وہ شاذ و نادر ہی کبھی اپنے ملک یا بیرون ملک میں جاری استحصال پر توجہ دیتے ہیں جو کہ ہجرت کی اصل وجہ ہے۔ اکثر وہ ان مسائل کو مزید بدتر بنا دیتے ہیں، مالکان اور سرمائے کی طاقت کو محنت کشوں کے خلاف مضبوط کرتے ہیں اور اپنے حامیوں کے غصے کو جو خود ان قوتوں کے استحصال کا شکار ہوتے ہیں، دوسرے متاثرین یعنی تارکین وطن کے خلاف موڑ دیتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی تمام امیگریشن مخالف لفاظی کے باوجود اس کی انتظامیہ نے الیکٹرونک ویریفیکیشن کے نفاذ کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ اس کے بجائے ایک سرحدی دیوار کے بارے میں شور مچایا جو ایسا لگتا ہے کہ کبھی پوری نہیں ہو گی۔ امریکی سرحد پر خاندانوں کو الگ کیا جا رہا ہے لیکن حکومت ایسے مالکان کو نظر انداز کر رہی ہے جو اپنے مفاد کے لیے تارکین وطن کا استحصال کر رہے ہیں۔“
یہاں ناگل مالکان پر جرمانے کا مطالبہ کر کے خود کو مزدور حامی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں جیسا کہ ولسن اپنے مضمون میں بتاتا ہے، اس قسم کے جرمانے اور تقاضے تارکین وطن کارکنوں کو آجروں کے استحصال کا زیادہ نشانہ بناتے ہیں۔ قانون سازی اور پالیسیاں بنانے سے صرف انتہائی استحصال زدہ تارکین وطن کی ایک کلاس تخلیق ہوتی ہے۔ مالکان اس طرح کے اقدامات سے بچنے کے لیے ٹھیکیداروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان تجاویز سے کچھ بھی حل نہیں ہوگا اور حقیقت میں یہ 1882ء کے پرانے چین مخالف قوانین کی طرح رجعت پسندانہ پوزیشن ہے، جس کا حوالہ ناگل اے ایف ایل کے ماضی کے ذلت آمیز ابواب پر بحث کرتے ہوئے دیتا ہے۔
ناگلی یہاں مزدوروں کی فراہمی کے کنٹرول کا سوال سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں چھوڑ رہا ہے۔ اگر سرمایہ دار یہ طے کرتے ہیں کہ زیادہ مزدور آنے چاہئیں، قانونی یا غیر قانونی طور پر، تو وہ مزید مزدوروں کو آنے دیں گے، اگر نہیں تو وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ خیال کہ اس سے محنت کش طبقے کی سودے بازی کی پوزیشن مضبوط ہو گی، تنگ نظری پر مبنی خیال ہے۔ یہ ٹریڈ یونین بیوروکریسی کے لیے ایک آسان زندگی کی امید کی عکاسی کرتا ہے۔
اس طرح کی پالیسی قانونی اور غیر قانونی مزدوروں کے درمیان پھوٹ ڈالے گی اور محنت کشوں کی مزید پرتیں بنائے گی جہاں کچھ کو دوسروں سے زیادہ حقوق حاصل ہوں گے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران، اے ایف ایل اور سی آئی او نے ہجرت کے قوانین کے خلاف اور تارکین وطن کے لیے شہریت کے حق میں مہم چلائی ہے۔ یہ درست ہے اور دوسری انٹرنیشنل کے اختیار کردہ پروگرام سے مطابقت رکھتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ مزدور تحریک کی ضرورت سے بڑھ کر محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے متحد ہونے پر زور دیتا ہے۔
تاہم، ٹرمکا اور دیگر اے ایف ایل اور سی آئی او لیڈران مسلسل ’غیر قانونی‘ ہجرت کو ختم کرنے کے افسانے پر اصرار کرتے ہیں، جو کہ کم و بیش وہی ہے جس کی ناگل بھی بحث کر رہا ہے۔ وہ بورژوازی کی بیان بازی پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور جو وہ اصل میں کر رہے ہیں اس پر زیادہ غور نہیں کرتے۔ تارکین وطن کو مختلف حقوق دینے کا اصل مقصد اجرتوں اور شرائط میں کمی کرنا اور محنت کش طبقے کی ایک انتہائی استحصال شدہ پرت تشکیل دینا ہے، خواہ وہ صرف مخصوص شرائط کے تحت رہنے کا حق ہو یا مکمل غیر قانونی طور پر۔ اسی وجہ سے ہم سرمایہ دار طبقے یا ان کے ریاستی اداروں سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ مزدور دوست ہجرت کا نظام بنائیں۔
بورژوازی کے لیے بائیں بازو کا لبادہ
مہاجر مخالف اور حمایتی، بائیں بازو کے دونوں دھڑوں میں لبرل بورژوازی کا افسانہ موجود ہے۔ پال میسن (اگرچہ اس نے کئی بار اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے) نے 2016ء میں دلیل دی کہ بریگزٹ کے لیے لیبر پارٹی کو ”اشرافیہ کے بین الاقوامیت پسند طبقے“ کے ساتھ اتحاد بنانا چاہیے۔ یہ رویہ پورے یورپی یونین کے حامی برطانوی بائیں بازو میں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ مسلسل یورپی یونین کو کسی طرح کے ترقی پسند ادارے کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور اگرچہ وہ میسن جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتے، لیکن وہ بالکل اسی بات پر استدلال کرتے ہیں کہ لندن شہر کے محنت کشوں اور بینکاروں کے درمیان ایک اتحاد، جن کی اکثریت اس کی حمایت کرتی ہے۔
امریکہ میں یہ پاپولرفرنٹ ازم، ڈیموکریٹس کی حمایت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ڈیموکریٹس اگرچہ ٹرمپ کی طرح انتہائی دائیں بازو کے نہیں ہیں لیکن پھر بھی بہت حد تک اس کے پروگرام کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کی بنیادی تنقید یہ ہے کہ وہ اسے بری طرح پیش کرتا ہے۔ آئی سی ای (Immigration and Customs Enforcement) صحیح ہے، لیکن بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ ملک بدر کیا جانا چاہیے، الگ الگ نہیں۔ اسی انٹرویو میں جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے، ہیلری کلنٹن کہتی ہے، پہلے آپ مجرموں، قومی سلامتی کے لیے خطرات اور ”خراب اداکاروں“ کو ملک بدر کریں اور پھر ان لوگوں کو جو طویل عرصے سے امریکا میں ہیں ایک مناسب عمل درآمد کے لیے قطار میں کھڑا کریں۔ ”اس کے بعد آنے والے لوگ اگر پناہ کے لیے اہل نہ ہوں تو آپ انہیں واپس بھیج دیں۔“ یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ یہاں ’مہاجر کارواں‘ (وسطی امریکی تارکین وطن) کی بات کر رہی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ نومبر کے انتخابات کے بعد ڈیموکریٹ پارٹی کے ”ترقی پسند“ دھڑے کی پہلی میٹنگ میں جمع کانگریس کے خواتین و حضرات اس بات کا سیدھا جواب نہیں دے سکے کہ آئی سی ای پر ان کا مؤقف کیا ہے، اور حقیقت میں انہوں نے موسم گرما میں آئی سی ای کے ساتھ اپنی مخالفت ترک کر دی تھی۔
یہ تصور کرنا کہ سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی مہاجر محنت کشوں یا نسل پرستی اور زینو فوبیا کے مخالف لڑنے والوں کا دوست ہو سکتا ہے، سرمایہ دار طبقے کو فائدہ فراہم کرنا ہے، یعنی انہیں بائیں بازو کا ایک ’ترقی پسند‘ لبادہ فراہم کرنا ہے۔ ایک مارکس وادی کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم سرمایہ دار طبقے میں موجود دونوں حصوں، جو ترقی پسند، جمہوری رنگوں کے پیچھے اپنے مفادات کو چھپاتا ہے اور جو بیرونی محنت کشوں کے خلاف مقامی محنت کشوں کا ساتھی ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے، کے حقیقی رجعتی محرکات کو بے نقاب کریں۔
ہماری حقیقی روایات
1907 ء کی سٹٹگارٹ کانگریس دوسری انٹرنیشنل کی سب سے اہم کانگریس تھی۔ اس میں کالونیوں، جنگ، سامراج، خواتین کے حق رائے دہی، ٹریڈ یونین اور ہجرت پر بحث کی گئی تھی۔ یہ حادثاتی نہیں تھا بلکہ انہی سوالات پر موقع پرستی کا اظہار ہو رہا تھا۔
کانگریس میں دائیں بازو کے موقع پرستوں خاص طور پر برطانیہ، امریکہ اور جرمنی نے کالونیوں کو ایک ”مہذب“ قوت کہہ کر اس کے حق میں، جنگ پر ایک مضبوط لائن کے خلاف، ان ممالک سے جو ”ترقی میں بہت پیچھے ہیں“ امیگریشن کے خلاف، ”غیر جانبدار“ (یعنی غیر سیاسی) ٹریڈ یونین ازم اور خواتین کے حق رائے دہی کے سوال پر سمجھوتہ کرنے کے حق میں، خاص طور پرمردوں کے حق رائے دہی کو ترجیح دینے کے دلائل پیش کئے۔ آخر میں، بائیں بازو نے اکثریتی ووٹ حاصل کیے۔
امیگریشن کے سوال پر کچھ تفصیل میں جانا ضروری ہے کیونکہ بحث کے دوران جو دلائل اٹھائے گئے تھے وہ ناگل اور میک کلسکی کے پیش کیے گئے دلائل سے بہت ملتے جلتے تھے ہیں۔ آسٹریلیا کی لیبر پارٹی کے ایک مندوب، ٹرومر نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے: ”سرمایہ دار اجرتوں کو کم کرنے کے لیے مزید ایشیائی محنت کشوں کو لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن سفید فام مہاجر مزدور اپنے آپ کو تیزی سے منظم کرتے ہیں اور آسٹریلیا کے مقامی مزدوروں کے حالات کو نیچے نہیں دھکیلتے۔ اس لیے آسٹریلیا کی لیبر پارٹی ایسے مزدوروں کو باہر رکھنا چاہتی ہے جو سفید فاموں کے طریقہ کار کو نہ اپنا سکیں۔ اس سے مراد ایشیائی مزدور ہیں۔ (ان کا خیال ہے کہ) آسٹریلیا کی لیبر پارٹی کی یہ پالیسیاں سوشلزم سے متصادم نہیں ہیں۔۔۔یقیناً ہم سب کا عمومی بھائی چارہ چاہتے ہیں لیکن جب تک ہم یہ حاصل نہیں کر لیتے ہمیں اپنے ہی ملک کے محنت کشوں کا خیال رکھنا چاہیے، تاکہ وہ سرمایہ داروں کے سامنے مزاحمت کے بغیر پیش نہ ہوں۔“ [1]
ایسے ہی جذبات کا اظہار امریکی مندوب ہِل کوِٹ نے بھی کیا:
”سرمایہ دار ایسی افرادی قوتیں درآمد کرتے ہیں، جو سستی ہوں اور ہڑتال توڑنے کے لیے کام آئیں، اور جو مقامی مزدوروں کے لیے خطرناک مقابلہ ہوں۔ آج کل یہ افرادی قوتیں چینی اور جاپانی ہیں، عام طور پر پیلی نسل۔ ہمارا چینیوں کے خلاف کوئی نسلی تعصب نہیں ہے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر غیر منظم ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے لیے لوگوں کو صرف اسی صورت میں منظم کیا جا سکتا ہے جب انہوں نے ایک حد تک ترقی کی ہو، جیسا کہ بیلجیم اور اطالویوں کا معاملہ ہے جو فرانس ہجرت کر چکے ہیں۔ تاہم چینی منظم ہونے کے لیے ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ سوشلزم محض جذباتیت نہیں ہے۔ ہم سرمائے اور محنت کے درمیان کھلی جنگ کے بیچ میں ہیں۔جو بھی محنت کشوں کے منظم ہونے میں رکاوٹ بنے وہ ہمارا دشمن ہے۔ کیا ہم غیر ملکی ہڑتال توڑنے والے مزدوروں کے لیے ایسا استحقاق حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے خلاف مقامی محنت کشوں کو لڑنا پڑے؟ اگر ہم چینی ہڑتال توڑنے والے مزدوروں کی درآمد کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کرتے تو ہم سوشلسٹ ورکرز کی تحریک کو پیچھے دھکیلیں گے۔“
الفاظ کے فرق کے علاوہ یہ بالکل وہی رجحان ہے جو ناگل اور میک کلسکی پیش کرتے ہیں۔ بین الاقوامیت اور طبقاتی جدوجہد کی لفاظی کے پس پردہ یہ مندوبین محنت کشوں کے ایک مخصوص حصے کے حقوق پر حملوں کی وکالت کر رہے تھے۔ سب تارکین وطن مزدوروں پر نہیں، (امریکہ تارکین وطن کے بغیر کہاں ہوگا؟) لیکن محنت کشوں کا ایک خاص حصہ جسے اجرتوں میں کمی کی وجہ سمجھا جاتا تھا۔
یہ کوئی اتفاقی بات نہیں کہ جس گروپ کے حوالے سے امریکی ممبران خاص طور پر فکر مند تھے وہ ایشیائی محنت کش تھے۔ امریکی کانگریس نے، صرف پانچ سال پہلے، 1882ء کے چینی اخراج ایکٹ کو مستقل کر دیا تھا، جس نے نہ صرف چین سے مزید امیگریشن پر پابندی عائد کر دی تھی، بلکہ چینی تارکین وطن کے بہت سے حقوق کو ختم کر دیا تھا۔اس ایکٹ کی اے ایف ایل اور کیلیفورنیا میں تعمیراتی یونینوں نے بے شرمی سے حمایت کی تھی، جبکہ بائیں بازو کی آئی ڈبلیو ڈبلیو نے اس ایکٹ کی بھرپور مخالفت کی۔ اس سلسلے میں امریکی اور آسٹریلیا کے مندوبین امریکی حکمران طبقے کی پیروی کر رہے تھے۔
اتفاق سے یہ دوسرا موقع تھا جب امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کے مندوبین نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ 1904ء کی ایمسٹرڈیم کانگریس میں، ہِل کوِٹ نے اسی طرح کی ایک قراردار پیش کی تھی، جس میں ”پسماندہ نسلوں“ سے محنت کشوں کی درآمد کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی ایس پی کے اس وقت کے دیگر مندوبین نے مخالفت کی تھی اور 1907ء کی قرارداد کی طرح اسے واپس لے لیا گیا تھا۔ اس کے باوجود، ایس پی کی اکثریت اس سوال پر موقع پرست تھی اور اس نے سٹٹگارٹ کی قرارداد پر ڈیبس کی مخالفت کے باوجود، 1904ء کی ڈیبس کی صدارتی مہم میں امیگریشن کارڈ کھیلا تھا۔
سٹٹگارٹ میں، امریکی سوشلسٹ لیبر پارٹی (جس کی قیادت ڈینیل ڈی لیون کر رہا تھا) کے مندوبین نے اس پالیسی کی مخالفت کی:
”]اسپیکر، جولیس ہیمر، نے تنقید کی[ خاص طور پر ہِل کوِٹ کی قرارداد کا تیسرا نکتہ، جو چینی اور جاپانی محنت کشوں کی امیگریشن پر حدود کی اجازت دیتا ہے۔ یہ مکمل طور پر غیر سوشلسٹ ہے۔ امیگریشن پر ایک قانونی حد کو برخاست کیا جانا چاہیے۔ بورژوا پارٹیوں کے ساتھ تعاون سے قانون سازی کے ذریعے سوشلزم کے لیے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔] اسپیکر نے کئی مثالیں دیں [کہ کس طرح امریکہ میں نسلی نفرت نے محنت کشوں کو تشدد پر اکسایا۔ جاپانی اور چینی بہت اچھے طریقے سے منظم ہو سکتے ہیں۔ کوئی محنت کش اتنا ان پڑھ نہیں ہے جیسا بتایا جا رہا ہے۔ وہ سرمایہ داری کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اور یہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس کے خلاف کیسے لڑنا ہے۔“
اس کی حمایت اطالوی مندوبین نے بھی کی:
”کوئی بھی مہاجروں کے خلاف نہیں لڑ سکتا بلکہ صرف ان زیادتیوں کے خلاف لڑ سکتا ہے جو ہجرت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اطالوی پارٹی اور ٹریڈ یونین ہمیشہ اس کا خیال رکھتی ہیں۔ ہم ہجرت پر کنٹرول کے خلاف ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تارکین وطن کو پڑنے والا بھوک کا کوڑا حکومتوں کے بنائے گئے کسی بھی قانون سے زیادہ مضبوط ہے۔“
بنیادی طور پر، یہ دلائل آج کے حالات پر بھی اسی طرح لاگو ہوتے ہیں۔ اس کانفرنس میں موقع پرستوں نے جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ اس پوزیشن سے مشابہت رکھتا ہے جو آج ہجرت پرکنٹرول کے حامیوں نے اٹھائی ہے۔ سٹٹگارٹ کانگریس میں جس قرارداد پر اتفاق کیا گیا تھا اس نے اسی نکتے کو دہرایا:
”کانگریس محنت کشوں پر ہجرت کے نتائج کے لیے کسی اقتصادی یا سیاسی اخراج کے قوانین میں بہتری نہیں چاہتی، کیونکہ یہ] قوانین [فطرت کے اعتبار سے بے نتیجہ اور رجعت پسند ہیں۔ یہ خاص طور پر نقل و حرکت پر پابندی اور غیر ملکی قومیتوں یا نسلوں کے اخراج کے بارے میں سچ ہے۔“ [2]
دوسری انٹرنیشنل نے ہجرت کے کنٹرول کے بجائے، جس کو اس نے ”اپنی حقیقت میں رجعتی“ قرار دیا، وصول کنندہ ملک میں مزدور تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کا ایک سلسلہ تجویز کیا:
1۔ ان مزدوروں کی برآمد اور درآمد پر پابندی جنہوں نے ایسے معاہدے کیے ہیں جو ان کی مزدوری اور اجرت پر کنٹرول کو محدود کرتے ہیں۔
2۔کام کے اوقات کو مختصر کرکے، کم از کم اجرت کی شرح متعارف کراتے ہوئے، مزدوروں کے استحصالی طریقوں کا خاتمہ اور گھر سے کام کرنے والے مزدوروں کے لیے قانونی تحفظ۔
3۔ ان تمام پابندیوں کا خاتمہ جو مخصوص قومیتوں یا نسلوں کو کسی ملک میں رہنے سے روکتی ہیں یا جو انہیں مقامی باشندوں کی طرح سماجی، سیاسی اور اقتصادی حقوق سے خارج کرتی ہیں یا ان حقوق کے استعمال میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ نیچرلائزیشن کی سہولت کے لیے وسیع اقدامات۔“
اس کے علاوہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٹریڈ یونین تحریک کو تارکین وطن کے ممبر بننے پر تمام پابندیاں ہٹانی ہوں گی، اور ان کی شمولیت کو آسان بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بین الاقوامی ٹریڈ یونین تحریک قائم کرنے اور مہاجرین کے ممالک میں ٹریڈ یونین تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
یہ بین الاقوامی پروگرام مزدور تحریک کے موجودہ لیڈروں کی صوبائیت کے بالکل برعکس ہے۔
یہ واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں مہاجر مزدوروں کا کردار تبدیل نہیں ہوا ہے۔ آج بھی سو سال پہلے کی طرح سرمایہ دار طبقے کی طرف سے مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں کہ مہاجر مزدوروں کو اجرتوں اور شرائط کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہیں اس پر بحث کی جا سکتی ہے، لیکن اگر یہ نتیجہ بھی اخذ کر لیا جائے کہ تارکین وطن پہلے سے موجود مزدوروں کی قوت کو کم کرتے ہیں، تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ کسی کو ہجرت کے کنٹرول کی حمایت کرنی چاہیے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس، مزدور تحریک کو تقویت دینے کے لیے ٹریڈ یونینوں اور سیاسی جماعتوں کا کردار غیر یونین شدہ مزدوروں کو تعلیم دینا ہونا چاہیے۔ اس طرح مہاجرین اور مقامی محنت کشوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور مختلف حقوق کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کو ان کے روزگار سمیت رہنے کے حق کے لیے بھی لڑنا چاہیے۔
لینن اور تیسری انٹرنیشنل
غیر حیران کن طور پر، لینن سٹٹگارٹ کانگریس میں بائیں بازو کا حمایتی تھا۔ اس نے مزدور تحریک میں موقع پرستی کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا:
”نوآبادیت کے سوال پر یہ ووٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے، اس نے سوشلسٹ موقع پرستی کو بے نقاب کیا جو بورژوا جھنجھلاہٹ کے سامنے جھک جاتا ہے۔ دوم، اس نے یورپی مزدور تحریک میں ایک منفی خصوصیت کو نمایاں کیا جو کہ محنت کشوں کی جدوجہد کو غیر معمولی نقصان پہنچا سکتی ہے، اور اس وجہ سے اس پر سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہیے۔“
نوآبادیاتی پالیسی کی قرارداد کو تھوڑے سے فرق سے جیت لیا گیا تھا، جس میں چھوٹی قومیں سامراجی نوآبادیاتی اقوام سے زیادہ تھیں۔ اس نے موقع پرستی کی طاقت کو سامراج سے منسوب کیا، جس پر اس نے اپنی کتاب ‘Imperialism: the Highest Stage of Captalism’ میں بھی لکھا ہے۔ لینن نے ہجرت کے سوال پر بھی یہی بات کہی:
”ہجرت سے متعلق قرارداد کے بارے میں چند الفاظ۔ یہاں کمیشن میں چھپے مفادات کے لیے پسماندہ ممالک (چین سے آنے والے قلی، وغیرہ) کے محنت کشوں کی ہجرت پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی۔ یہ اشرافیہ کا وہی جذبہ ہے جو کچھ ”مہذب“ ممالک میں محنت کشوں میں بھی پایا جاتا ہے جو اپنی مراعات یافتہ پوزیشن سے کچھ فوائد حاصل کرتے ہیں، اور اس لیے بین الاقوامی طبقاتی یکجہتی کی ضرورت کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن کانگریس میں کسی نے بھی اس پیٹی بورژوا تنگ نظری کا دفاع نہیں کیا۔ یہ قرارداد انقلابی سوشل ڈیموکریسی کے تقاضوں پر پورا اترتی ہے۔ (سٹٹگارٹ میں عالمی سوشلسٹ کانگریس)
لینن نے قرارداد سے اتفاق کیا اور مہاجرین کے حقوق کی مخالفت کو سامراج کی حمایت سے جوڑا۔ اس سوال پر ان کا رویہ باقی تمام معاملات کی طرح بین الاقوامیت کا تھا۔ سامراجی ممالک میں محنت کش طبقے کی ایک پرت کا رویہ اس اتحاد کے لیے نقصان دہ تھا۔ جیسا کہ لینن نے کہا، وہ ”بین الاقوامی طبقاتی یکجہتی کی ضرورت کو بھول جاتے ہیں“۔
اپنے 1913 ء کے مضمون ’سرمایہ داری اور محنت کشوں کی ہجرت‘ میں وہ اسی طرح کی بات کرتا ہے:
”بورژوازی ایک قوم کے محنت کشوں کو دوسری قوم کے محنت کشوں کے خلاف بھڑکاتی ہے تاکہ انہیں منتشر رکھا جائے۔ طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کش، جو یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری کی تمام قومی رکاوٹوں کو توڑنا ناگزیر اور ترقی پسند ہے، پسماندہ ممالک سے اپنے ساتھی محنت کشوں کو روشناس اور منظم کرنے میں مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“
1915ء میں وہ دوبارہ اس موضوع پر لکھتا ہے کہ:
”حقیقی بین الاقوامیت کے لیے اور قوم پرست-سوشلزم کے خلاف ہماری جدوجہد میں ہم ہمیشہ اپنی پریس میں امریکہ میں سوشلسٹ پارٹی کے موقع پرست رہنماؤں کی مثال دیتے ہیں، جو چینی اور جاپانی محنت کشوں کی ہجرت پر پابندیوں کے حق میں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی انٹرنیشنلسٹ ایسی پابندیوں کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ اور ہم واضح کرتے ہیں کہ امریکہ میں سوشلسٹ، خاص طور پر انگلش سوشلسٹ، جو حکمران اور جابر قوم سے تعلق رکھتے ہیں، جو ہجرت پر پابندی، کالونیوں (ہوائی) کے قبضے کے خلاف اور کالونیوں کی پوری آزادی کے خلاف نہیں ہیں ایسے سوشلسٹ درحقیقت انتہائی قوم پرست ہیں“۔ (سوشلسٹ پروپیگنڈا لیگ کے سیکرٹری کو خط)
لینن کا مؤقف بہت واضح ہے۔ ہجرت پر پابندیوں کی حمایت پر بحث نہیں ہو سکتی۔ ایسی پوزیشن ”قوم پرست سوشلزم“ہے اور بنیادی طور پر بین الاقوامی پالیسی کے خلاف ہے۔ لینن نے 1913ء کے مضمون میں ہجرت کے فائدہ مند اثرات کے بارے میں مزید بات کی ہے:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف شدید غربت ہی لوگوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ کہ سرمایہ دار تارکین وطن مزدوروں کا انتہائی بے شرمی سے استحصال کرتے ہیں۔ لیکن قوموں کی اس جدید ہجرت کے ترقی پسند پہلو پر صرف رجعت پسند ہی آنکھیں بند کر سکتے ہیں۔ سرمائے کے جوئے سے نجات سرمایہ داری کی مزید ترقی اور اس پر مبنی طبقاتی جدوجہد کے بغیر ناممکن ہے۔ اور اسی جدوجہد میں سرمایہ داری پوری دنیا کے محنت کشوں کو کھینچ رہی ہے، مقامی زندگی کی بے ہنگم عادات کو توڑ رہی ہے، قومی رکاوٹوں اور تعصبات کو توڑ رہی ہے اور تمام ممالک کے محنت کشوں کو امریکہ، جرمنی وغیرہ میں بڑی بڑی فیکٹریوں اور کانوں میں اکٹھا کر رہی ہے۔“
ہجرت کے مسئلے کو عالمی محنت کش طبقے کے نقطہ نظر سے پیش کیا جانا چاہیے۔ ہجرت اگرچہ ان لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور المناک ہوتی ہے جو اس کا سامنا کرتے ہیں، لیکن یہ تاریخی طور پر ایک ترقی پسند کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہ قومی رکاوٹوں، تعصبات اور عادات کو توڑنے کا کام کرتی ہے۔ مستقبل میں ایسی ترقی صرف محنت کش طبقے کی تحریک کو قومی اور عالمی سطح پر مضبوط کرنے کا کام کرے گی۔
تیسری انٹرنیشنل نے بھی اپنی چوتھی کانگریس میں مہاجر مزدوروں کے سوال پر ایک بیان دیا۔ ’مشرقی سوال پر مقالہ‘ میں درج ذیل اقتباس شامل ہے:
”خطرے کے پیش نظر، امریکہ، جاپان، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے سامراجی ممالک کی کمیونسٹ پارٹیاں اپنے آپ کو جنگ کے خلاف پروپیگنڈے تک محدود نہ رکھیں بلکہ ان عوامل کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں جو ان ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کو غیر منظم کرتے ہیں اور سرمایہ داروں کے لیے قومی اور نسلی دشمنیوں کو استعمال کرنا آسان بناتے ہیں۔ یہ عوامل ہجرت اور سستے ’رنگین‘ (غیر سفید فام مزدوروں) مزدوروں کے سوالات ہیں۔
”آج کل جنوبی بحرالکاہل میں شوگر کے باغات پر ’رنگین‘ (غیر سیاہ فام) مزدوروں کو بھرتی کرنے کا بنیادی طریقہ ٹھیکہ کا نظام ہے، جو چین اور ہندوستان سے مزدور لاتا ہے۔ اس حقیقت نے سامراجی ممالک کے محنت کشوں کو امریکہ اور آسٹریلیا دونوں میں ہجرت اور ’رنگین‘ (غیر سیاہ فام) لیبر کے خلاف قوانین کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔یہ قوانین ’رنگین‘ (غیر سیاہ فام) اور سفید فام محنت کشوں میں دشمنی کو مزید گہرا کرتے ہیں اور مزدور تحریک کے اتحاد کو پاش پاش اور کمزور کرتے ہیں۔
”امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی کمیونسٹ پارٹیوں کو ہجرت کو محدود کرنے والے قوانین کے خلاف ایک بھرپور مہم چلانی چاہیے، اور ان ممالک کے محنت کشوں کو سمجھانا چاہیئے کہ ان قوانین کی وجہ سے پیدا ہونے والی نسلی نفرت سے انہیں بھی نقصان پہنچے گا۔
”سرمایہ دار ایسے ہجرت مخالف قوانین کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ سفید فام مزدوروں کی اجرت کو کم کرنے کے لیے سستے رنگین (غیر سیاہ فام) مزدوروں کی مفت درآمد کے حق میں ہیں۔ سرمایہ داروں کے جارحانہ اقدام کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے: تارکین وطن مزدوروں کو سفید فام مزدوروں کی موجودہ ٹریڈ یونینوں میں داخل کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی اٹھایا جانا چاہیے کہ رنگین (غیرسیاہ فام) مزدوروں کی اجرت کو سفید فاموں کی تنخواہ کے برابر کیا جائے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کا ایسا قدم سرمایہ داروں کے عزائم کو بے نقاب کرے گا اور رنگین (غیر سیاہ فام) محنت کشوں کے سامنے یہ بھی واضح کرے گا کہ عالمی محنت کش طبقہ کسی قسم کا نسلی تعصب نہیں رکھتا۔“
ایک بار پھر، اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دار اجرت کو کم کرنے کے لیے مزدوروں کی درآمد کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس سے صرف ایک ہی طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ”تارکین وطن مزدوروں کو سفید فام مزدوروں کی موجودہ ٹریڈ یونینوں کی صف میں شامل ہونا چاہیے“۔ تارکین وطن مزدوروں کی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ ”سرمایہ داروں کے عزائم کو بے نقاب کرے گا“ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات کہ، ”یہ ظاہر کرتا ہے“ کہ ”عالمی محنت کش طبقے میں کوئی نسلی تعصب نہیں ہے۔“
سامراج مخالف؟
ہجرت پر کنٹرول کے بائیں بازو کے حامی کبھی کبھار بین الاقوامی یکجہتی کے لیے ہجرت پر کنٹرول کو جواز بناتے ہیں۔ یقیناً ہجرت ان ممالک کے لیے بری ہے جہاں سے لوگ ہجرت کر رہے ہیں، تو کیا ہمیں وہاں کے حالات کو بہتر کرنے کے حق میں نہیں ہونا چاہیے؟ یہ سننے میں کافی خوشگوار لگتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں حالات کو کیسے بہتر کرنا چاہیے؟ مزید برآں، یہ دیکھتے ہوئے کہ محنت کش طبقہ اصل میں اقتدار میں نہیں ہے، ہمیں اس مقام پر پہنچانے کے لیے کون سے مطالبات کام آئیں گے؟
عالمی لیڈروں کی تمام لفاظی کے پیچھے وہ ہمیشہ اپنے مفادات کو پہلے دیکھتے ہیں۔ ٹرمپ اشیاء اور تارکین وطن دونوں کے لیے سرحدوں کی وکالت کرتا ہے۔ اشیاء پر تحفظاتی رکاوٹوں کا مقصد دوسرے ممالک میں بے روزگاری پیدا کرنا ہے۔ یہی بات مہاجروں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ تارکین وطن کو باہر رکھ کر امریکی حکمران طبقہ میکسیکو اور وسطی امریکی ممالک کی قیمت پر، اپنے گھر میں طبقاتی جدوجہد کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس کے بعد امریکی حکمران طبقہ میکسیکو کی ریاست کے ذریعے وسطی امریکہ سے آنے والے تارکین وطن کو روکنے اور میکسیکو میں آباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی اور نام نہاد لبرل اسٹیبلشمنٹ کی بھی کم وپیش یہی پالیسی ہے۔ یورپی یونین کی ترکی کے حوالے سے بھی یہی پالیسی ہے۔ سامراج اس طرح کام کرتا ہے۔
ایک اشتعال انگیز بیان میں، جرمنی کے افریقہ کمشنر گنٹر نوک نے تجویز پیش کی کہ یورپی ممالک افریقہ میں ایسے زمین لے کر ایسے شہر تعمیر کریں جو مہاجرین کو پناہ اور معیشت کو ترقی دے سکیں، یعنی استعمار کی طرف واپسی۔ اسی طرح کی ایک تجویز رجعت پسند صدر لوبوس نے ہونڈوراس میں پیش کی تھی۔ بنیادی طور پر، یہ صرف اس بات کا برہنہ اظہار ہو گا جو سامراجی طاقتیں پہلے ہی خاص طور پر معاشی میدان میں کر رہی ہیں۔ ترقی کے بارے میں تمام لفاظی کے پیچھے ایسی پالیسی صرف ان کے مفاد پورے کرتی ہے۔
ایک عمومی تصور یہ ہے کہ خیراتی تنظیمیں اور غیر ملکی امداد دنیا بھر میں غریبوں اور پسماندہ آبادیوں کی مدد کرتی ہیں۔ لیکن حقیقت میں خیراتی ادارے بنیادی طور پر اپنی اور دنیا بھر کے کرپٹ سرکاری اہلکاروں کی جیبیں بھرتے ہیں۔ مزدوروں اور غریبوں کو بس چھوٹا سا ٹکڑا ملتا ہے۔ یہ خیراتی ادارے سامراجی ممالک کی فوجوں اور بینکوں کے ذریعے ہونے والے نقصان کو چھپاتے ہیں۔
ناگل نے امریکی فوجی مہم جوئی کو ہجرت کے ایک اہم محرک کے طور پر درست طریقے سے پیش کیا ہے۔ درحقیقت مشرق وسطیٰ کے عدم استحکام کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے گھروں اور روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس بات سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ ایک شرط امریکی سامراج کی غیر واضح مخالفت ہونی چاہیے۔
لیکن صرف جنگ یا سیاسی جبر ہی ہجرت کا سبب نہیں بنتے۔ مہاجرین کے بڑھتی ہوئی تعداد میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں سے ایک کافی (Coffee) کی قیمت ہے۔ سامراج نے وسطی امریکہ کو کافی کی برآمد پر منحصر کر دیا ہے۔ جیسے برازیلین ریال کی قدر میں کمی آئی ہے، برازیل کی کافی کی کمپنیوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ 2 ڈالر کی فی کلو عربیکا کافی، پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتی۔ چونکہ روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی میسر نہیں ہے، کافی کے کاشتکاروں کومجبوراً نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی سٹاربکس جیسی کمپنیاں اپنی کافی 50 ڈالر فی کلو میں فروخت کرتی ہیں۔ یہ وہ کردار ہے جو بین الاقوامی کارپوریشنز عالمی معیشت اور ہجرت کے بہاؤ میں ادا کرتی ہیں۔
حقیقت میں سرمایہ داری اور سامراجیت کو چیلنج کیے بغیر سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں حالات کو بدلنے کے بارے میں بات کرنا بے معنی ہے۔ بیسویں صدی کا پورا حصہ سرمایہ داری اور سوشلزم کے بغیر سامراج مخالف فضولیت کو ظاہر کرتا ہے۔ خاص طور پر چونکہ سامراج سرمایہ داری کے ساتھ اندرونی طور پر جڑا ہوا ہے، اس لیے سامراج کے خلاف جدوجہد کو سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے جوڑا جانا چاہیے۔ کوئی بھی دوسری تجویز، خاص طور پر سامراجی ممالک میں مزدور تحریک سے سامنے آنے والی، سامراج کے لیے محض ایک بائیں بازو کا لبادہ فراہم کرے گی۔ سامراجی ممالک کے محنت کشوں کو سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ متحد ہوکر اپنے ہی سامراجی حکمران طبقے کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقی بین الاقوامی یکجہتی ہے۔
ایک نیا دور
یہ موجودہ دور کی خصوصیت ہے کہ مغرب میں مزدور تحریک اب تک پرانی یادوں سے متاثر ہے۔ عوامی خدمات میں کٹوتیوں اور تنخواہوں اور شرائط پر حملوں کے باعث بہت سے محنت کش پچھلے دور کے استحکام اور بہبود کو یاد کرتے ہیں۔ وہ وقت جب سرمایہ داروں اور ٹریڈ یونینوں نے اجرتوں میں کمی کے بجائے اجرت میں اضافے کے معاہدے کیے، اور جب سیاسی پارٹیوں نے اصلاحات کا وعدہ کیا اور پورا بھی کیا۔ وہ وقت جب لفظ ”اصلاح“ کا مطلب دراصل محنت کش طبقے کی حالت میں بہتری تھی، حملے اور کٹوتی نہیں۔ لیکن وہ وقت گزر گیا ہے اور واپس نہیں آئے گا۔
اس بحران کی وجہ نہ مہاجرہیں اور نہ ہی برے خیالات (نیو لبرل ازم) بلکہ خود سرمایہ داری کی حدود ہیں۔ اس کے کچھ مضمرات ہیں۔ اصلاح پسند اور ٹریڈ یونین لیڈر ہجرت کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو اس بات پر مبنی کرنے، کہ مہاجرین کی اتنی تعداد جتنی سرمایہ داری برداشت کر سکتی ہے، کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اجرتوں میں کمی کے بغیر کتنے تارکین وطن آ سکتے ہیں؟ ہم کتنے مہاجروں کو سکولوں، رہائشوں اور ہسپتالوں میں رکھ سکتے ہیں؟ یہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں غلط تھا، لیکن سرمایہ دارانہ زوال کے دور میں یہ ایک تباہ کن منطق ہے۔ جواب یہ ہے کہ سرمایہ داری میں موجودہ اجرتوں اور حالات کو برقرار رکھنے کی سکت نہیں ہے چاہے مہاجر ہوں یا نہ ہوں۔ سرحدوں کو بند کرنا، یہاں تک کہ تارکین وطن کو بے دخل کرنا، اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ یہ نمکین پانی سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کے مترادف ہوگا۔
موجودہ دور میں سرمایہ داری کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں تمام پناہ گزینوں کے لیے رہائش، سکول وغیرہ فراہم کرنے کے لیے پیسہ ہے، لیکن یہ نجی ہاتھوں میں ہے۔ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے معیاری زندگی فراہم کرنے کے وسائل موجود ہیں، لیکن وہ چند مٹھی بھر ارب پتیوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے چنگل میں ہیں۔ یہ عدم مساوات مزید بڑھ رہی ہے۔
ہمارا پروگرام سرمایہ دار طبقے کے ساتھ استحکام اور رہائش کے حصول کے بارے میں نہیں ہے، جو صرف محنت کش طبقے کی قیمت پر ہوگا، بھلے وہ مہاجر ہوں یا نہیں۔ بلکہ ہمارا پروگرام حالات کے دفاع، کٹوتیوں کے خلاف اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے سرحدوں کے پار محنت کشوں کو متحد کرنے کا ہونا چاہیے۔ دوسری انٹرنیشنل کی سٹٹگارٹ کانگریس کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد درحقیقت سب سے اہم عناصر پر مشتمل ہے: اجتماعی سودے بازی کے معاہدوں کا دفاع، شرائط و ضوابط، تمام محنت کشوں کے حالات میں بہتری کے لیے جدوجہد، تارکین وطن محنت کشوں کے مقامی مزدوروں کے برابر حقوق، بشمول رہائش، صحت کی دیکھ بھال، سماجی فوائد، رہائش وغیرہ۔
مزید برآں، ہمیں عالمی سطح پر یونینوں کے درمیان روابط استوار کرنے اور دنیا بھر میں محنت کش طبقے کی تنظیموں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے پر اصرار کرنا چاہیے۔ ایسا طریقہ حکمران طبقے کے حملے کے خلاف محنت کش طبقے کے موجودہ حالات کا بہترین دفاع تو ہو گا، لیکن یہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بہترین تیاری بھی ہے۔