تحریر: ثناء اللہ جلبانی

سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے محنت کشوں کا راج قائم کرنے کی جدوجہد کرنے والے انقلابی کمیونسٹوں کے لیے ریاست اور خصوصاً سرمایہ دارانہ ریاست کا سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ریاست کے سوال کو اتنی اہمیت محض جذباتی یاخواہش کی بنا پر نہیں، بلکہ مزدور انقلاب میں سرمایہ دارانہ ریاست کے انقلاب دشمن کردار کی وجہ سے دی جاتی ہے۔
آپ نے اپنی زندگی میں بارہا دیکھا ہوگا، کہ جب بھی مزدور اپنے حق کے لیے احتجاج یا ہڑتال کرتے ہیں، تو پولیس، فوج اور کئی طرح کے سرکاری مسلح جتھے فیکٹری مالکان یا ارب پتی سرمایہ داروں کے وفادار بن کر اس احتجاج یا ہڑتال کو توڑنے کی خاطر مزدور وں پر بہیمانہ تشدد کرتے ہیں۔ انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے یا پھر انہیں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے بعد ازاں عدلیہ بھی سرمایہ دار طبقے کی ہی گماشتگی کرتی ہے۔ یہ تمام ریاست کے ہی ادارے ہیں جو سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی رکھوالی کرتی ہے۔ ریاست کی طرف رویہ کسی فرد کے کمیونسٹ ہونے کے لیے فیصلہ کن ہوتا ہے۔
ہم کمیونسٹ محنت کشوں اور غریب عوام پر جبر کرنے اور سرمایہ داروں کے مفادات کی ضامن اس سرمایہ دارانہ ریاست اور ایسے سب اداروں کو پاش پاش کر کے ایک نئی مزدور ریاست تعمیر کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، جس میں مٹھی بھر مراعات یافتہ اقلیت کی بجائے پورے انسانی سماج کے مفادات کو مدنظر رکھ کر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اسی لیے انقلاب ِروس کے عظیم قائد لینن کی یہ شہرہ آفاق کتاب ”ریاست اور انقلاب“ انقلابی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں ریاست کے آغاز، کر دار، ارتقا، تاریخ اورانجام اور محنت کشوں کے فرائض کے حوالے سے تفصیلی مباحث موجود ہیں۔
ریاست کیا ہے؟
ریاست کا ادارہ ہمیشہ سے نہیں تھا بلکہ انسانی تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے پر ابھرا تھا۔ سرمایہ داری سے پہلے جاگیر داری نظام کی ریاست مختلف تھی جس میں مطلق العنان بادشاہ کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل تھا اور کسی بھی قسم کی جمہوریت موجود نہیں تھی۔ اس سے قبل غلام داری طرزِ پیداوار کی ریاست بھی مختلف تھی۔ لیکن ریاست اپنے آغاز سے لے کر آج تک جبر کا ایک آلہ ہی رہی ہے۔
خواہ آج نام نہاد جمہوریت موجود ہے لیکن پھر بھی نجی ملکیت کی موجودگی ے باعث یہ ریاست سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو ہی تحفظ دیتی ہے۔ آج بھی سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع پیداوار پر قابض سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں محنت کش طبقے کو دبا کر رکھنے کا ایک اوزار ہے۔ ان ارب پتی لٹیروں کی نجی ملکیت یعنی فیکٹریوں، ملوں، صنعتوں، بنکوں ان کے مفادات،منافعوں اور ان کے نظام سرمایہ داری کی محافظ ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست کا مقصد محنت کشوں کے استحصال کے ذریعے سرمایہ داروں کی دولت میں ہونے والے اضافے کو یقینی بنانا ہے۔ اس لیے یہ ریاست محنت کشوں اور غریب عوام کے کسی احتجا ج، تحریک، بغاوت یا ہڑتال کو توڑنے کی غرض سے ظلم اور جبر کی تمام حدیں پارکر دیتی ہے۔ اس ریاست کے تمام ادارے آئین، عدلیہ، سینٹ، پارلیمنٹ، پولیس، فوج، جیل اور تھانے، گورنر، وزرا، کمشنر،بیوروکریٹ، میڈیا اور نصاب سب مزدور دشمن ہیں اور یہ پوری ریاستی مشینری محنت کش عوام کو کچلنے کا کام کرتی ہے۔
عام حالات میں یہ پوری ریاستی مشینری دیو ہیکل طاقت ہوتی ہے جو کہ ناقابلِ شکست نظر آتی ہے اور مزدور راج کے قیام میں بہت بڑی رکاوٹ لگتی ہے۔ لیکن ایسا وقت لازمی آتا ہے، جب ان مظالم کے خلاف محنت کش طبقے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ یہ کروڑوں افتادگانِ خاک اس نظام سے بغاوت کردیتے ہیں، تو یہ سرمایہ داروں کے نظام کی چوکیدار ریاستی مشینری تنکوں کی طرح ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ تمام ریاستی ادارے بے بس ہو جاتے ہیں۔ رائفلیں، ٹینک اور گولے ناکارہ بن جاتے ہیں۔
محنت کش جب عام ہڑتال کر کے پورے سماج کا پہیہ جام کردیتے ہیں تو جج، جرنیل، منسٹر صاحبان اور بیوروکریٹ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ حکمران طبقہ کبھی بھی رضاکارانہ طور پر اقتدار سے دستبردار نہیں ہوتا، اسے بے دخل کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اقتدار پر قبضے کا سوال جنم لیتا ہے۔ نیا سماج تعمیر کرنے کا سوال ابھر کرسامنے آتا ہے۔ چنانچہ محنت کش عوام ریاستی طاقت کو ہو ا میں معلق کر دیتے ہیں پھر اس فیصلہ کن گھڑی میں محنت کش طبقے کو نئے اداروں کی ضرورت پیش آتی ہے جو سرمایہ دارانہ ریاستی مشینری سے زیادہ طاقتور اور منظم ہوں۔
انقلاب کے دوران محنت کش عوام کے جمہوری طور پر منتخب کردہ منظم ادارے جو تمام ذرائع پیداوار پر قبضہ کرتے ہوئے، پرانے ریاستی ڈھانچے کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے اور انقلاب کا مسلح دفاع کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست کو جنم دیتے ہیں جو نئے سماجی معاشی نظام کے مطابق اور محنت کش طبقے کے مفادات کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس لیے ریاست کے کردار کو سمجھنا انتہائی عملی نوعیت کا معاملہ ہے۔
اس کو سمجھے بغیر انقلاب اور عوامی طاقت بکھر جاتی ہے، اقتدار پھر سے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ اسی کنفیوژن کا اظہار گزشتہ چند سالوں میں کئی بار ہوتا نظر آیاہے مثلاً سری لنکا، بنگلادیش، کینیا اوردیگر کئی ممالک میں۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ سائنسی سمجھ بوجھ اسوقت آسمان سے نازل نہیں ہوگی۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب مقداری اور معیاری حوالے سے پہلے سے تیار کردہ ایسی سنجیدہ انقلابی پار ٹی موجود ہوجونئے غیر طبقاتی سماج کی تعمیر، سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا دفاع کرنے والی ریاست کے خاتمے اور مزدور ریاست و سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کا پروگرام محنت کشوں تک پہنچا سکے اوران کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس صورت میں مزدور انقلاب کو کامیاب ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اور یہ پارٹی بھی اچانک سے نہیں بلکہ طویل اور کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے اس انقلابی تحریک کے پھٹ پڑنے سے پہلے تعمیر کرنی پڑتی ہے۔
لینن نے یہ کتاب اپنی تشفیِ نفس یا مدرسانہ دانشوری کی خاطر نہیں لکھی بلکہ یہ عظیم انقلابی،ایسی صورتحال میں انقلاب اور ریاست کا جو تعلق بنتا ہے اسے انقلابی محنت کشوں، کسانوں،طلبہ اورنوجوانوں کے لیے واضح کرنا چاہ رہا تھا۔ یہ کتاب ہر کمیونسٹ انقلابی کو ضرور پڑھنی چاہئے اور فیکٹریوں، تعلیمی اداروں، کام کی جگہوں اور اپنے دوستوں اور جاننے والوں کے ساتھ مل کر اس کتاب پر سٹڈی سرکلز کا انعقاد بھی کرنا چاہئے۔
اس کتاب میں 1848 ء کے یورپی انقلابات کے اسباق، 1871ء کے’’پیرس کمیون‘‘کے نام سے یاد کیے جانے والے شاندار مزدور انقلاب کے تجزیے اور انقلاب روس 1905ء اور 1917 ء کے بے مثال تجربات درج ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر محنت کشوں کے عالمی قائدین، کارل مارکس اورفریڈرک اینگلز کی نادر تحریروں بالخصوص داس کیپیٹل، کمیونسٹ مینی فیسٹو، خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز، فلسفے کاا فلاس، فرانس میں خانہ جنگی، فرانس میں طبقاتی جدوجہد، اینٹی ڈوہرنگ، گوتھا پروگرام پر تنقید، لوئی بوناپارٹ کی18واں برومیئر، سوشلزم سائنٹیفک اور یوٹوپین، اور دیگر کتابوں اورمضامین کے اقتباسات شامل ہیں جو کہ آج کے انقلابیوں کے لیے گہری نظریاتی تربیت کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کے حوالے سے انقلابی مؤقف پر انارکسٹوں، موقع پرستوں، ترمیم پسندوں اور اصلاح پسندوں کے حملوں کاجواب لینن اپنے مخصوص زیرک انداز میں باریک بینی سے دیتا ہے کہ پڑھنے والا دنگ ہی رہ جاتا ہے۔
انقلاب کے بعد مزدور ریاست کیسی ہوگی؟
کامیاب مزدور انقلاب کے بعد امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کر دیا جائے گا، سرمایہ دارانہ نظام اور ریاستی مشینری کو پاش پاش کر دیا جائے گا اور اجتماعی ملکیت میں موجود تمام پیداواری ذرائع پر مزدورطبقے کا جمہوری کنٹرول قائم کیا جائے گا۔ محنت کش طبقہ سماج کی باگ دوڑ سنبھال لے گا۔
لہٰذا اس مزدور ریاست کا کردار موجودہ جابر سرمایہ دارانہ ریاست سے معیاری طورپر مختلف ہوگا کیونکہ سرمایہ دارانہ ریاست ایک اقلیت یعنی سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ ہوتی جبکہ مزدور ریاست محنت کش طبقے یعنی سماج کی اکثریت کی نمائندہ ہو گی۔ اس میں ووٹرز کے پاس ریاستی امورسرانجام دینے والے منتخب ذمہ داران کو کسی بھی وقت واپس بلانے کا اختیار ہوگا اور ان کی تنخواہ بھی ایک ہنر مند مزدور کی تنخواہ کے برابر ہوگی۔
عوام سے کٹی ہوئی مستقل فوج اور پولیس جیسے گھناؤنے اداروں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر مزدوروں کی کمیٹیوں کے ماتحت عوامی ملیشیا اور مزدور فوج تخلیق کی جائے کی جو اس مزدور انقلاب کا دفاع کرے گی۔ اس میں افسروں کا انتخاب سپا ہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے ہو گا اور افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہیں ومراعات برابر ہوں گی۔ مزدوروں کی منتخب آئین ساز اسمبلی نیا آئین و قانون بنائے گی جو مکمل طور پر محنت کش طبقے کے مفادات کی ترجمانی کرے گا۔
معیاری تعلیم، علاج، غذا اور دیگر ضروریات زندگی ہر شخص کوگھر کی دہلیز پر مفت فراہم کی جائیں گی۔ جیسے جیسے سوشلسٹ انقلاب عالمی سطح پر پھیلتا جائے گا، پیداواری افراط تخلیق ہو گی، ذہنی اور جسمانی محنت میں تفریق ختم ہو گی، قلت کا مکمل خاتمہ ہو گا تو یہ مزدور ریاست بھی رفتہ رفتہ سماج میں تحلیل ہو کر ختم ہو جائے گی۔ انسان ہمیشہ کے لیے ظلم، جبر، استحصال، بھوک، ننگ، جہالت، لاعلاجی، بے گھری، بے روزگاری، جنگوں، قحطوں اور صنفی، قومی و طبقاتی جبرجیسے امراض سے نجات پاکر اس دھرتی کو جنت بنا دیگا۔
ہم آپکو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بن کر اس سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کے لئے یہاں کلک کریں!