|تحریر: ارسلان دانی|
90ء کی دہائی میں جنم لینے والی نسل جو طالبانائزیشن کے دور میں پروان چڑھی اور جوان ہونے کے بعد اپنے مستقبل کے لیے پر تول رہی تھی وہاں ہم نوجوان نوکریوں کی مدد سے بہتر زندگی کی امید کے سہارے مستقبل کے لیے پُر امید تھے۔ بالکل اسی طرح میری زندگی بھی ان حالات میں پروان چڑھی لیکن زندگی کا بہتر ہونا تو درکنار جن حالات میں زندگی تھی ان حالات سے بھی بدتر صورتحال ہو گئی۔
تب عمران خان اور نواز شریف کی دھینگا مشتی میں ایک بات سمجھ آئی کہ نوکریوں کا مسئلہ بھی تب ہی حل ہو گا جب سیاست کا مسئلہ حل ہو گا یعنی ہمارے ٹیکس کو ہم پر خرچ کیا جائے گا۔ تب کے بحث و مباحثے میں ایک ہی سوال گردش کر رہا ہوتا تھا کہ نواز شریف کھاتا تھا تو لگاتا بھی تھا اور دوسری طرف سے عمران خان کھائے گا نہیں کیونکہ اسے کس چیز کی کمی ہے وہ تو صرف عوام پر خرچ کرے گا اور فوج اور عمران خان کے ایک پیج پر ہونے کا مطلب دونوں کا عوام کے لیے ایک پیج پر ہونا ہے۔
لاک ڈاؤن نے اس بھرم کو بھی توڑ دیا جب گھر میں راشن نہ ہونے کے برابر تھا اور سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ پوش علاقے میں رہنے والوں کے گھروں میں راشن کے انبار ہیں۔ پھر عمران خان کی حکمرانی کے آخری ایام نے جہاں مہنگائی کے ریکارڈ توڑے وہاں ریکارڈ توڑ بیروزگاری بھی شامل تھی اور جہاں روزگار مہیا تھا وہاں تنخواہوں کا ملنا یقینی نہیں تھا۔ اسی دور میں سوشل میڈیا پر بہت سے بت ٹوٹ رہے تھے جس میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی طرف سے یہ بھی واضح ہوا کہ مسئلہ دراصل وسائل کی لوٹ مار کا ہے۔ ان علاقوں کے وسائل لوٹنے کے لیے جہاں قتل و غارت کا بازار گرم ہے، وہاں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا مقصد بھی عوامی فلاح نہیں بلکہ اپنی ذاتی فلاح ہے۔
بچپن میں فوجی بننے کی خواہش سے لے کر عمران خان تک سب امیدیں دم توڑ چکی تھیں اور سوشل میڈیا اور کچھ دوستوں کے مدد سے کمیونزم کا تعارف ہوا یا یوں کہہ لیں کہ مارکسزم کو پڑھنے کا موقع ملا جس کا اس وقت علم تو اس طرح نہیں تھا جیسے اب ہوتا ہے کہ شروع میں جو ہم پڑھتے تھے اس کا مقصد اپنا قد اونچا کرنا ہوتا تھا کہ ہم زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن بعد میں پڑھتے ہوئے علم ہوا کہ جو کچھ ہورہا ہے اسے بدلا بھی جا سکتا ہے اور پڑھنے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس معاشرے میں موجود پالیسی اور جمہوریت کا مطلب عام عوام سے نوالہ چھیننا ہے اور اس کے خاتمے سے ہی زندگی بہتر ہو گی۔ یوں پڑھنے اور پڑھنے کے مقصد کو سمجھنے یا یوں کہہ لیں کے جاننے اور جاننے کے بعد کے مقصد کو سمجھنے کا جو اختیار میرے پاس آیا اسے استعمال کرتے ہوئے اس پارٹی کی تلاش مکمل ہوئی جس کے پاس واقعتا میرے نعرے تھے اور عمل میں بھی میری ترجمان پارٹی تھی، تب بھی جب میں اس سے واقف بھی نہیں تھا۔
آج بھی جہاں زندگی ذلت ہے اور اس وقت جہاں لوگ اس ذلت کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں، جہاں بے بسی نہیں بے چینی ہے کچھ کر گزرنے کی، وہاں ہم پڑھنے اور جاننے اور سمجھنے والوں سے کہیں گے کہ پڑھنے، سمجھنے اور جاننے کا اصل مقصد آج اس نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے جہاں امیر اور حکمرانوں کی زندگی تو عیاشیوں سے بھرپور اور مزدور، کسان کی زندگی کا مقصد صرف امیر و حکمرانوں کی عیاشیوں کا ایندھن بننا ہے، وہاں ضرورت ایک ایسی پارٹی کو تعمیر کرنے کی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف امیر و غریب کے اس نظام کو ایک کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے ختم کرنا ہو۔
آخر میں، میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کو آپ کی اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔