|تحریر: جلال جان، کراچی|
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کا میرا سفر کافی لمبا تو نہیں کیونکہ میں نے ایک ایسی عمر میں انقلابی پارٹی جوائن کرنے فیصلہ کیا جس عمر میں اکثر لڑکے کھیل کود اور کیرئیر بنانے میں مشغول رہتے ہیں۔ ویسے میرا اپنا تعلق کسی سیاسی خاندان سے تو نہیں لیکن میرا تعلق اس نسل سے تھا جس نے بچپن میں کراچی میں روزانہ کی تعداد میں لاشیں گرتی دیکھیں۔
بچپن کے وہ واقعات آج بھی یاد ہیں جن میں لسانی فسادات میں لاشوں کو مسخ کر کے پھینکا جا رہا تھا۔ میرے شعور پر سب سے گہرا اثر بلدیا ٹاؤن کی فیکٹری میں لگنے والی آگ نے مرتب کیا، جہاں ہزاروں مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا۔
جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہ اپنی تاریخ میں کمیونسٹ سیاست کا مرکز رہا ہے۔ خود میرے ماموں کمیونسٹ پارٹی اور کافی رشتے دار بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے ممبر تھے، یہ تمام لوگ اس وقت بی ایس او کے ممبر تھے جب بی ایس او ترقی پسند سیاست پر یقین رکھتی تھی۔ میں نے بچپن سے ہی کمیونزم کا نام سن رکھا تھا لیکن ایک تجسس تھا کہ اس کا مطلب ہے کیا؟
کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ مذہب مخالف نظریہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ یہودیوں کا نظام ہے۔ اسی تجسس نے مجھے اکتوبر میں لگنے والے لال سلام (سابقہ تنظیم) کے رجسٹریشن کیمپ پر پہنچا دیا۔ اسی کیمپ پر میں پہلی دفعہ کمیونسٹ لیفلیٹ دیکھا۔
ہتھوڑے اور درانتی کا نشان تو کافی پہلے سے ہی دیکھا ہوا تھا لیکن پہلی دفعہ انقلاب اور سماج کو بدلنے کی باتیں اسی لیفلیٹ میں پڑھیں۔ کمیونزم کے بارے میں جو جو باتیں سن رکھی تھیں اس لیفلیٹ کو پڑھ کر لگنے لگا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس لیفلیٹ میں پہلی دفعہ مجھے سماج کی طبقاتی بنتر کا پتہ چلا۔
گویا 7 سے 8 سال پرانی بات ہے لیکن آج بھی یاد ہے کہ میں نے وہ لیفلیٹ کئی دفعہ پڑھا تھا، کچھ چیزیں سمجھ میں آئیں اور کچھ کو پڑھ کر سوچا کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔
لال سلام کے تنظیمی آفس میں ایک بار ماموں (جو کہ تنظیم کے ممبر تھے) کے ساتھ جانا ہوا اس کے بعد روز کا معمول رہا۔ حالات حاضرہ پر مارکسسٹ ڈاٹ کام (marxist.com) کے آرٹیکلز پڑھنا بھی شروع کیے۔
ورکرز کنٹرول پر موجود تفصیلی آرٹیکل بھی کامریڈ زکے ساتھ اسٹڈی سرکلز میں پڑھے لیکن ساتھ ساتھ کامریڈز نے یہ بھی بتایا کہ یہ پڑھایا اس لیے جا رہا ہے کہ ہم چیزوں کو سمجھ سکیں جب ہم سمجھ جائیں گے تب ہی پتہ لگے گا کہ انہیں کیسے بدلا جا سکتا ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ان آرٹیکلز کو پڑھنے کے باوجود شروعاتی دنوں میں میں نے خود کو اس پارٹی کا ممبر تصور نہیں کیا تھا۔ یہ فیصلہ 2017ء کی کانگریس کی بحثوں کو سننے کے بعد لیا، جب مجھے پاکستان اور پوری دنیا کے حالات پر سیر حاصل بحث سننے کو ملی اور یہ بات واضح ہوئی کہ اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ انقلاب ہے۔
قومی سوال اور دیگر تمام مسائل کا حل کمیونزم ہی سمجھ آیا۔ پارٹی کی برانچ جو کہ بنیادی ادارہ ہوتا ہے اس میں سمجھ آیا کہ کس طرح تنظیم میں بڑھوتری اور دیگر تمام محنت کشوں اور نوجوانوں تک یہ نظریات پہنچائے جا سکتے ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی ایک ایسی پارٹی ہے جو محنت کش طبقے، نوجوانوں اور کسانوں کی پارٹی ہے، جو بغیر کسی مصالحت کے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اگر آپ بھی اس سماج کو بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس پارٹی کا حصہ بننا چاہیے۔