(تحریر: عبداللہ؛ طالبعلم جی سی یونیورسٹی، لاہور)

وہ تفاوتیں ہیں میرے خدا کہ یہ تو نہیں کوئی اور ہے
کہ تو آسماں پہ ہو تو ہو، پہ سرِ زمین کوئی اور ہے!
فطرت نے کبھی امیر و غریب پر فرق نہیں کیے۔ چاند کی چاندنی اپنی شیرینی سے لطف اندوز ہونے کی دعوت سب کو دیتی ہے۔ سورج کی شعائیں ہر شب ِتاریک کو سحر کرتی ہیں۔ زمین نے کبھی اپنی دولت کو کسی کے لیے محدود نہیں کیا۔ مگر انسان نے دیواریں کھڑی کر لیں۔ زمین کی دولت پر پردے ڈالنے شروع کر دیے۔اور دیکھتے دیکھتے ایک طرف ایسے انسان پیدا ہو گئے جن کے ہاتھ چومے جا رہے ہیں۔ اور زمین پر جنت کے مزوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انہیں ہر طرح کی آسائشیں مہیا ہیں۔ اور ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ زندگی کس قدر حسین ہے، رحم دل ہے اور دل کش ہے۔
مگر دوسری طرف انسان دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ اور آسائشیں تو دور کی بات ٹھہریں، جینا اور زندہ رہنا دوبھر ہو گیا۔ اور اسن کی طرف دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ زندگی کتنی بھیانک، کتنی رزیل کتنی ناقابل برداشت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان ساری زندگی دن رات کام کاج کرنے میں گزار دیتا ہے۔ مگر سکون اور خوشی سے، زندگی کی راحت سے محروم رہتا ہے۔ زندگی اس کے لیے ایسا بوجھ بن جاتی ہے، جس کو وہ اٹھا نہیں پاتا۔ غم، دکھ، درد، بے چینی زندگی کا مستقل اور بڑا حصہ بن جاتی ہے۔ اور انسان کہہ اٹھتا ہے کہ؛
زندگی تیری عطا ہے سو یہ جانے والا
تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا!
چند انسان زمین اور زندگی کے نمائندے ٹھہرے، تمام دولت کے مالک بن بیٹھے، جبکہ بڑی آبادی انسان اور انسانیت کے معیار سے گر پڑی۔ ان کے لیے زندگی محض گھٹ گھٹ کے جینے کا نام رہ گیا۔پیٹ بھرنے کا گھن چکر ان کی صلاحیتوں کو کھا گیا۔ اس بڑی آبادی کے لیے سچا اور اصل انسانی جوہر کدھر گیا؟ ایسا نظام کیوں ہے؟مجھے ایسا نظام ہرگز قبول نہیں۔
سرمایہ داری نے اپنے پنجے گاڑے اور انسان کا خون چوسنے میں مصروف ہو گئی، انسان کی اصل جوہر کا قتل، زندگی کے معیار سے جہاں رہ کر انسان کو جینا چاہیے کا فقدان، کشت و خون، بڑی مچھلی کا چھوٹی مچھلی کو کھانا، انسانوں کا انسانوں کوبے جان چیزوں ساسمجھنا، جہالت،بے چینی، بھوک افلاس سب اسی نظام کا پیدا کردہ ہے۔ مگراب اس نظام کا بحران اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ یہ نظام اب انسانیت کو مزید کچھ نہیں دے سکتا۔ اور انسان اس کے زیرِ اثر زندگی نہیں گزار سکتا، اس کا ختم ہونا لازم ہے۔
کمیونزم کا قیام چند لوگوں کی خواہش نہیں، وقت، تاریخ اور انسان کی ضرورت ہے۔ یہ چند لوگوں کا وقت گزاری کے لیے نفیس شغل نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد کے ذریعے اس ظالم نظام سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے، انسانیت کو درپیش تمام مسائل کو حل کرنے اور انسان کو اس کی اصل معیار پر لانے کا نام ہے۔
انہی مقاصد کے تحت میں نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی، یہ پارٹی عملی جدوجہد کے ذریعے اس کو سرانجام دینے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس دن کی جانب سفر جس دن زمینی خداؤں کے تاج ہوا ہو جائیں گے اور انسان زمین پر راحت و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکے گا۔
انقلاب زندہ باد!
کمیونزم زندہ باد!
انقلابی پارٹی کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں