محنت کش طبقے پر بد ترین حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے جبکہ حکمرانوں کی پر تعیش زندگیاں ویسے ہی جاری و ساری ہیں۔ہر نیا دن محنت کشوں کے لیے نئے عذاب اور نئی مصیبتیں لے کر نمودار ہوتا ہے جبکہ دولت مندوں کے محلوں کی روشنیوں کی چکا چوند مزید بڑھ جاتی ہے۔مہنگائی کا اژدھا ہر روز پہلے سے کہیں زیادہ بڑا ہو جاتا ہے اور آبادی کی اکثریت کی بچی کھچی بچتیں بھی ہڑپ کر جاتا ہے۔دوسری جانب امیر ترین افراد کے لیے تعیش کا نیا سامان ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔
یہاں بیروزگاری کا عفریت بھی کروڑوں نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جو روزگار کے حصول کے لیے دن رات ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔بہت سے مایوس ہو کر جرائم اور منشیات میں سہارا ڈھونڈ لیتے ہیں جبکہ کچھ اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کر لیتے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ سے لے کر یورپ تک روزگار کے مواقع سکڑتے چلے جا رہے ہیں جس کے باعث اس ملک میں بیروزگاروں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس ریاست کے پاس اتنی اہلیت ہی نہیں کہ ان تمام بیروزگاروں کی تعداد کی فہرست ہی مرتب کر سکے۔ انہیں روزگار دینا تو ان کے لیے نا ممکن ہے۔اس کے علاوہ جو لوگ برسر روزگار ہیں ان سے بھی روزگار چھینا جارہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی بڑے پیمانے پر نجکاری سے لے کر پی آئی اے اور دیگر اہم اداروں کی نجکاری کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔بہت سے سرکاری اداروں کے ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ادا کی گئی۔ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کا روزگار مسلسل داؤ پر لگا ہوا ہے۔آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت لاکھوں افرادکو بیروزگار کرنے کے منصوبے آخری مراحل میں ہیں۔
نجی شعبے میں بھی بہت بڑی تعداد میں چھانٹیاں کی جا رہی ہیں۔حکومت کے ترقیاتی اخراجات کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے جبکہ چین کے ساتھ دوستی کی پینگیں مقامی صنعت کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے سے لے کر زراعت تک ہر طرف ایک بہت بڑے بحران کا آغاز ہو چکا ہے۔ تعمیراتی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے اور اس سے منسلک تمام صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔حکومت کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں تمام تر بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھے پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ داروں کو ایمنسٹی سکیمیں دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ اجرتوں میں اضافے کا ذکر کرنا بھی شجر ممنوعہ قرار دے دیا جا چکا ہے۔ روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ اور بد ترین مہنگائی کے باوجودحکومت کی جانب سے اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیے جا رہے ہیں۔ اس مہینے پیش کیے جانے والے دوسرے منی بجٹ میں حکومت مزید 200ارب روپے کے ٹیکس لگائے گی۔
یہ سب محض آغاز ہے۔ اس نئے سال میں محنت کش طبقے پر تاریخ کے بد ترین حملے کیے جائیں گے۔ روپے کی قدر میں بہت بڑی گراوٹ متوقع ہے جبکہ نجکاری کے بد ترین حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا جائے گا۔ اگر عمران خان کے انتخابی وعدوں کا موازنہ گزشتہ چند ماہ کی کارکردگی سے کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس کا اقتدار میں آنے کا حقیقی مقصد ایک کروڑ افراد سے روزگار چھیننا اور پچاس لاکھ خاندانوں کو بے گھر کرنا تھا۔حکومتی پالیسیوں اور موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ آنے والے سال میں ان اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں گے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت کوئی سیاسی پارٹی یا پلیٹ فارم ایسا نہیں جو ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے دور اقتدار میں یہی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے تھیں اور آج بھی ان کے تمام تر اختلافات محض لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کی حد تک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ان تمام پارٹیوں کو مکمل طور پر رد کر چکی ہے اور کسی کے پاس بھی ماضی والی حمایت نہیں ہے۔ فوجی آمریتوں کا تجربہ بھی کچھ مختلف نہیں رہا اور انہوں نے بھی محنت کشوں کو بندوق کی نوک پر غربت، ذلت اور محرومی کی دلدل میں دھکیلا ہے جبکہ فوجی اشرافیہ نے بے دردی سے لوٹ مار کی ہے۔عدالتیں آج ویسے ہی مذاق بن چکی ہیں۔ایسے میں محنت کش طبقے کے پاس ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ خود اس کا اپنا اتحاد اور منظم حکمت عملی ہے۔
مزدوروں کی تنظیمیں اور یونینیں بھی گزشتہ ایک لمبے عرصے سے بحران کا شکار ہیں اور مسلسل زوال پذیر ہوتے ہوئے آج بہت ہی بکھری ہوئی اور انتہائی کمزور اور مفلوج شکل میں موجود ہیں۔ محنت کش طبقے کے نوے فیصد سے بھی زائد حصے کے لیے ٹریڈ یونین کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں گزشتہ چار دہائیوں سے حکمران طبقے کے بدترین حملے ہیں وہا ں یونین لیڈروں کی غداریاں اور سابقہ بائیں بازو کی نظریاتی زوال پذیری بھی اہمیت کی حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اتنے بڑے حملوں کا جواب دینے کے متعلق بحث کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی اب محنت کشوں کو ناممکن کا حصول دکھائی دیتا ہے جبکہ اکثریت اپنے روزگار کی بقا کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
لیکن اب لڑائی یا موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا وقت آن پہنچا ہے۔یہ فیصلہ کن لڑائی الگ الگ رہ کر لڑنا نا ممکن ہے۔ محنت کش طبقے کا دشمن سرمایہ دار طبقہ اپنے طبقے کے مفادات سے دستبردار ہونے کے کے لیے تیار نہیں خواہ اس کے لیے محنت کشوں کی اکثریت کو بھوک اور ننگ کے ذریعے موت کے منہ میں ہی کیوں نہ دھکیلنا پڑے۔ وہ کسی بھی صورت اپنے منافعوں میں کمی کے لیے تیار نہیں۔ گنے کے کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان کی حالیہ لڑائی ہو یا دیگر بہت سے نجی اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہوں ہر جگہ بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں اور شعبوں کے محنت کش اپنی الگ الگ لڑائیوں سے باہر نکل کر متحد ہوں اور ایک فیصلہ کن لڑائی کی جانب بڑھیں۔ بہت سے اداروں میں ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں سب سے اہم دو سال قبل پی آئی اے میں ہونے والی آٹھ روزہ ہڑتال تھی۔ اسی طرح یوٹیلیٹی سٹور ملازمین کا حالیہ دھرنا اور کامیابی اس حوالے سے اہم پیش رفت تھی۔ینگ ڈاکٹروں اور اب انجینئروں کی لڑائیاں بھی اسی کا تسلسل ہیں۔ واپڈا ، ریلوے، اسٹیل مل، اساتذہ اور دیگر بہت سے شعبوں میں حالیہ عرصے میں احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں نظر آئی ہیں۔ لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام لڑائیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔ اس عام ہڑتال کے آغاز میں ملک کے تمام کلیدی شعبوں کو ایک دن کے لیے بند کرنا ہو گا اور پی ٹی سی ایل اور بینکوں کے ملازمین سے لے کر پورٹ، شپنگ، واپڈا اور سوئی گیس تک کے تمام محنت کشوں کو یکجا ہو کر اس سماج کا پہیہ روکنا ہو گا۔ یہ عام ہڑتال حکمران طبقے کو محنت کش طبقے کی حقیقی طاقت سے آگاہ کرے گی اورطاقتوں کا توازن درست کرنے کی جانب جائے گی۔
حکمران طبقے کو ایک دفعہ کھل کر باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اس سماج کو محنت کش چلاتے ہیں اور یہاں پیدا ہونے والے وسائل پر سب سے پہلے ان کا حق ہے۔اس ہڑتال میں اجرتوں میں اضافے سے لے کر نجکاری کے مکمل خاتمے کا مطالبہ معیشت اور سیاست کی واضح سمت طے کرے گا۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے مزدور دشمن کردار کے حامل ہیں اور ان باہم دست و گریبان نظر آنے والے تمام افراد کا اتفاق ہے کہ بحران کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈالا جائے۔ لیکن عام ہڑتال اس تمام صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دے گی اور مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست کو سطح پر ابھارے گی۔ اسی ہڑتال میں یہ مطالبہ بھی اہمیت کا حامل ہو گا کہ ریاست ہر شخص کو روزگار یا بیروزگاری الاؤنس دینے کی ذمہ داری ادا کرے۔ یہی مطالبات اس ملک کی سیاست اور تاریخ کو بدلنے کا کردار ادا کریں گے۔ یہ ہڑتال درحقیقت اس سرمایہ دارانہ معیشت کو جڑ سے اکھاڑنے کی جانب پہلا قدم ہو گی۔ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی اس عام ہڑتال کو سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی انقلاب یہاں سے بھوک اور محرومی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا اور ایک روشن مستقبل کی نوید سنائے گا۔
کی قدر میں بہت بڑی گراوٹ متوقع ہے جبکہ نجکاری کے بد ترین حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا جائے گا۔ اگر عمران خان کے انتخابی وعدوں کا موازنہ گزشتہ چند ماہ کی کارکردگی سے کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس کا اقتدار میں آنے کا حقیقی مقصد ایک کروڑ افراد سے روزگار چھیننا اور پچاس لاکھ خاندانوں کو بے گھر کرنا تھا۔حکومتی پالیسیوں اور موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ آنے والے سال میں ان اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں گے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت کوئی سیاسی پارٹی یا پلیٹ فارم ایسا نہیں جو ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے دور اقتدار میں یہی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے تھیں اور آج بھی ان کے تمام تر اختلافات محض لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کی حد تک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ان تمام پارٹیوں کو مکمل طور پر رد کر چکی ہے اور کسی کے پاس بھی ماضی والی حمایت نہیں ہے۔ فوجی آمریتوں کا تجربہ بھی کچھ مختلف نہیں رہا اور انہوں نے بھی محنت کشوں کو بندوق کی نوک پر غربت، ذلت اور محرومی کی دلدل میں دھکیلا ہے جبکہ فوجی اشرافیہ نے بے دردی سے لوٹ مار کی ہے۔عدالتیں آج ویسے ہی مذاق بن چکی ہیں۔ایسے میں محنت کش طبقے کے پاس ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ خود اس کا اپنا اتحاد اور منظم حکمت عملی ہے۔
مزدوروں کی تنظیمیں اور یونینیں بھی گزشتہ ایک لمبے عرصے سے بحران کا شکار ہیں اور مسلسل زوال پذیر ہوتے ہوئے آج بہت ہی بکھری ہوئی اور انتہائی کمزور اور مفلوج شکل میں موجود ہیں۔ محنت کش طبقے کے نوے فیصد سے بھی زائد حصے کے لیے ٹریڈ یونین کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں گزشتہ چار دہائیوں سے حکمران طبقے کے بدترین حملے ہیں وہا ں یونین لیڈروں کی غداریاں اور سابقہ بائیں بازو کی نظریاتی زوال پذیری بھی اہمیت کی حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اتنے بڑے حملوں کا جواب دینے کے متعلق بحث کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی اب محنت کشوں کو ناممکن کا حصول دکھائی دیتا ہے جبکہ اکثریت اپنے روزگار کی بقا کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
لیکن اب لڑائی یا موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا وقت آن پہنچا ہے۔یہ فیصلہ کن لڑائی الگ الگ رہ کر لڑنا نا ممکن ہے۔ محنت کش طبقے کا دشمن سرمایہ دار طبقہ اپنے طبقے کے مفادات سے دستبردار ہونے کے کے لیے تیار نہیں خواہ اس کے لیے محنت کشوں کی اکثریت کو بھوک اور ننگ کے ذریعے موت کے منہ میں ہی کیوں نہ دھکیلنا پڑے۔ وہ کسی بھی صورت اپنے منافعوں میں کمی کے لیے تیار نہیں۔ گنے کے کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان کی حالیہ لڑائی ہو یا دیگر بہت سے نجی اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہوں ہر جگہ بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں اور شعبوں کے محنت کش اپنی الگ الگ لڑائیوں سے باہر نکل کر متحد ہوں اور ایک فیصلہ کن لڑائی کی جانب بڑھیں۔ بہت سے اداروں میں ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں سب سے اہم دو سال قبل پی آئی اے میں ہونے والی آٹھ روزہ ہڑتال تھی۔ اسی طرح یوٹیلیٹی سٹور ملازمین کا حالیہ دھرنا اور کامیابی اس حوالے سے اہم پیش رفت تھی۔ینگ ڈاکٹروں اور اب انجینئروں کی لڑائیاں بھی اسی کا تسلسل ہیں۔ واپڈا ، ریلوے، اسٹیل مل، اساتذہ اور دیگر بہت سے شعبوں میں حالیہ عرصے میں احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں نظر آئی ہیں۔ لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام لڑائیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔ اس عام ہڑتال کے آغاز میں ملک کے تمام کلیدی شعبوں کو ایک دن کے لیے بند کرنا ہو گا اور پی ٹی سی ایل اور بینکوں کے ملازمین سے لے کر پورٹ، شپنگ، واپڈا اور سوئی گیس تک کے تمام محنت کشوں کو یکجا ہو کر اس سماج کا پہیہ روکنا ہو گا۔ یہ عام ہڑتال حکمران طبقے کو محنت کش طبقے کی حقیقی طاقت سے آگاہ کرے گی اورطاقتوں کا توازن درست کرنے کی جانب جائے گی۔ حکمران طبقے کو ایک دفعہ کھل کر باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اس سماج کو محنت کش چلاتے ہیں اور یہاں پیدا ہونے والے وسائل پر سب سے پہلے ان کا حق ہے۔اس ہڑتال میں اجرتوں میں اضافے سے لے کر نجکاری کے مکمل خاتمے کا مطالبہ معیشت اور سیاست کی واضح سمت طے کرے گا۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے مزدور دشمن کردار کے حامل ہیں اور ان باہم دست و گریبان نظر آنے والے تمام افراد کا اتفاق ہے کہ بحران کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈالا جائے۔ لیکن عام ہڑتال اس تمام صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دے گی اور مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست کو سطح پر ابھارے گی۔ اسی ہڑتال میں یہ مطالبہ بھی اہمیت کا حامل ہو گا کہ ریاست ہر شخص کو روزگار یا بیروزگاری الاؤنس دینے کی ذمہ داری ادا کرے۔ یہی مطالبات اس ملک کی سیاست اور تاریخ کو بدلنے کا کردار ادا کریں گے۔ یہ ہڑتال درحقیقت اس سرمایہ دارانہ معیشت کو جڑ سے اکھاڑنے کی جانب پہلا قدم ہو گی۔ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی اس عام ہڑتال کو سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی انقلاب یہاں سے بھوک اور محرومی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا اور ایک روشن مستقبل کی نوید سنائے گا۔
ہے۔آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت لاکھوں افرادکو بیروزگار کرنے کے منصوبے آخری مراحل میں ہیں۔
نجی شعبے میں بھی بہت بڑی تعداد میں چھانٹیاں کی جا رہی ہیں۔حکومت کے ترقیاتی اخراجات کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے جبکہ چین کے ساتھ دوستی کی پینگیں مقامی صنعت کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے سے لے کر زراعت تک ہر طرف ایک بہت بڑے بحران کا آغاز ہو چکا ہے۔ تعمیراتی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے اور اس سے منسلک تمام صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔حکومت کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں تمام تر بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھے پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ داروں کو ایمنسٹی سکیمیں دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ اجرتوں میں اضافے کا ذکر کرنا بھی شجر ممنوعہ قرار دے دیا جا چکا ہے۔ روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ اور بد ترین مہنگائی کے باوجودحکومت کی جانب سے اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیے جا رہے ہیں۔ اس مہینے پیش کیے جانے والے دوسرے منی بجٹ میں حکومت مزید 200ارب روپے کے ٹیکس لگائے گی۔
یہ سب محض آغاز ہے۔ اس نئے سال میں محنت کش طبقے پر تاریخ کے بد ترین حملے کیے جائیں گے۔ روپے کی قدر میں بہت بڑی گراوٹ متوقع ہے جبکہ نجکاری کے بد ترین حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا جائے گا۔ اگر عمران خان کے انتخابی وعدوں کا موازنہ گزشتہ چند ماہ کی کارکردگی سے کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس کا اقتدار میں آنے کا حقیقی مقصد ایک کروڑ افراد سے روزگار چھیننا اور پچاس لاکھ خاندانوں کو بے گھر کرنا تھا۔حکومتی پالیسیوں اور موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ آنے والے سال میں ان اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں گے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت کوئی سیاسی پارٹی یا پلیٹ فارم ایسا نہیں جو ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے دور اقتدار میں یہی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے تھیں اور آج بھی ان کے تمام تر اختلافات محض لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کی حد تک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ان تمام پارٹیوں کو مکمل طور پر رد کر چکی ہے اور کسی کے پاس بھی ماضی والی حمایت نہیں ہے۔ فوجی آمریتوں کا تجربہ بھی کچھ مختلف نہیں رہا اور انہوں نے بھی محنت کشوں کو بندوق کی نوک پر غربت، ذلت اور محرومی کی دلدل میں دھکیلا ہے جبکہ فوجی اشرافیہ نے بے دردی سے لوٹ مار کی ہے۔عدالتیں آج ویسے ہی مذاق بن چکی ہیں۔ایسے میں محنت کش طبقے کے پاس ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ خود اس کا اپنا اتحاد اور منظم حکمت عملی ہے۔
مزدوروں کی تنظیمیں اور یونینیں بھی گزشتہ ایک لمبے عرصے سے بحران کا شکار ہیں اور مسلسل زوال پذیر ہوتے ہوئے آج بہت ہی بکھری ہوئی اور انتہائی کمزور اور مفلوج شکل میں موجود ہیں۔ محنت کش طبقے کے نوے فیصد سے بھی زائد حصے کے لیے ٹریڈ یونین کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں گزشتہ چار دہائیوں سے حکمران طبقے کے بدترین حملے ہیں وہا ں یونین لیڈروں کی غداریاں اور سابقہ بائیں بازو کی نظریاتی زوال پذیری بھی اہمیت کی حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اتنے بڑے حملوں کا جواب دینے کے متعلق بحث کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی اب محنت کشوں کو ناممکن کا حصول دکھائی دیتا ہے جبکہ اکثریت اپنے روزگار کی بقا کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
لیکن اب لڑائی یا موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا وقت آن پہنچا ہے۔یہ فیصلہ کن لڑائی الگ الگ رہ کر لڑنا نا ممکن ہے۔ محنت کش طبقے کا دشمن سرمایہ دار طبقہ اپنے طبقے کے مفادات سے دستبردار ہونے کے کے لیے تیار نہیں خواہ اس کے لیے محنت کشوں کی اکثریت کو بھوک اور ننگ کے ذریعے موت کے منہ میں ہی کیوں نہ دھکیلنا پڑے۔ وہ کسی بھی صورت اپنے منافعوں میں کمی کے لیے تیار نہیں۔ گنے کے کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان کی حالیہ لڑائی ہو یا دیگر بہت سے نجی اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہوں ہر جگہ بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں اور شعبوں کے محنت کش اپنی الگ الگ لڑائیوں سے باہر نکل کر متحد ہوں اور ایک فیصلہ کن لڑائی کی جانب بڑھیں۔ بہت سے اداروں میں ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں سب سے اہم دو سال قبل پی آئی اے میں ہونے والی آٹھ روزہ ہڑتال تھی۔ اسی طرح یوٹیلیٹی سٹور ملازمین کا حالیہ دھرنا اور کامیابی اس حوالے سے اہم پیش رفت تھی۔ینگ ڈاکٹروں اور اب انجینئروں کی لڑائیاں بھی اسی کا تسلسل ہیں۔ واپڈا ، ریلوے، اسٹیل مل، اساتذہ اور دیگر بہت سے شعبوں میں حالیہ عرصے میں احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں نظر آئی ہیں۔ لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام لڑائیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔ اس عام ہڑتال کے آغاز میں ملک کے تمام کلیدی شعبوں کو ایک دن کے لیے بند کرنا ہو گا اور پی ٹی سی ایل اور بینکوں کے ملازمین سے لے کر پورٹ، شپنگ، واپڈا اور سوئی گیس تک کے تمام محنت کشوں کو یکجا ہو کر اس سماج کا پہیہ روکنا ہو گا۔ یہ عام ہڑتال حکمران طبقے کو محنت کش طبقے کی حقیقی طاقت سے آگاہ کرے گی اورطاقتوں کا توازن درست کرنے کی جانب جائے گی۔ حکمران طبقے کو ایک دفعہ کھل کر باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اس سماج کو محنت کش چلاتے ہیں اور یہاں پیدا ہونے والے وسائل پر سب سے پہلے ان کا حق ہے۔اس ہڑتال میں اجرتوں میں اضافے سے لے کر نجکاری کے مکمل خاتمے کا مطالبہ معیشت اور سیاست کی واضح سمت طے کرے گا۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے مزدور دشمن کردار کے حامل ہیں اور ان باہم دست و گریبان نظر آنے والے تمام افراد کا اتفاق ہے کہ بحران کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈالا جائے۔ لیکن عام ہڑتال اس تمام صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دے گی اور مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست کو سطح پر ابھارے گی۔ اسی ہڑتال میں یہ مطالبہ بھی اہمیت کا حامل ہو گا کہ ریاست ہر شخص کو روزگار یا بیروزگاری الاؤنس دینے کی ذمہ داری ادا کرے۔ یہی مطالبات اس ملک کی سیاست اور تاریخ کو بدلنے کا کردار ادا کریں گے۔ یہ ہڑتال درحقیقت اس سرمایہ دارانہ معیشت کو جڑ سے اکھاڑنے کی جانب پہلا قدم ہو گی۔ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی اس عام ہڑتال کو سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی انقلاب یہاں سے بھوک اور محرومی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا اور ایک روشن مستقبل کی نوید سنائے گا۔
کر دیا گیا ہے جبکہ چین کے ساتھ دوستی کی پینگیں مقامی صنعت کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے سے لے کر زراعت تک ہر طرف ایک بہت بڑے بحران کا آغاز ہو چکا ہے۔ تعمیراتی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے اور اس سے منسلک تمام صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔حکومت کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں تمام تر بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھے پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ داروں کو ایمنسٹی سکیمیں دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ اجرتوں میں اضافے کا ذکر کرنا بھی شجر ممنوعہ قرار دے دیا جا چکا ہے۔ روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ اور بد ترین مہنگائی کے باوجودحکومت کی جانب سے اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیے جا رہے ہیں۔ اس مہینے پیش کیے جانے والے دوسرے منی بجٹ میں حکومت مزید 200ارب روپے کے ٹیکس لگائے گی۔
یہ سب محض آغاز ہے۔ اس نئے سال میں محنت کش طبقے پر تاریخ کے بد ترین حملے کیے جائیں گے۔ روپے کی قدر میں بہت بڑی گراوٹ متوقع ہے جبکہ نجکاری کے بد ترین حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا جائے گا۔ اگر عمران خان کے انتخابی وعدوں کا موازنہ گزشتہ چند ماہ کی کارکردگی سے کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس کا اقتدار میں آنے کا حقیقی مقصد ایک کروڑ افراد سے روزگار چھیننا اور پچاس لاکھ خاندانوں کو بے گھر کرنا تھا۔حکومتی پالیسیوں اور موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ آنے والے سال میں ان اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں گے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت کوئی سیاسی پارٹی یا پلیٹ فارم ایسا نہیں جو ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے دور اقتدار میں یہی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے تھیں اور آج بھی ان کے تمام تر اختلافات محض لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کی حد تک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ان تمام پارٹیوں کو مکمل طور پر رد کر چکی ہے اور کسی کے پاس بھی ماضی والی حمایت نہیں ہے۔ فوجی آمریتوں کا تجربہ بھی کچھ مختلف نہیں رہا اور انہوں نے بھی محنت کشوں کو بندوق کی نوک پر غربت، ذلت اور محرومی کی دلدل میں دھکیلا ہے جبکہ فوجی اشرافیہ نے بے دردی سے لوٹ مار کی ہے۔عدالتیں آج ویسے ہی مذاق بن چکی ہیں۔ایسے میں محنت کش طبقے کے پاس ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ خود اس کا اپنا اتحاد اور منظم حکمت عملی ہے۔
مزدوروں کی تنظیمیں اور یونینیں بھی گزشتہ ایک لمبے عرصے سے بحران کا شکار ہیں اور مسلسل زوال پذیر ہوتے ہوئے آج بہت ہی بکھری ہوئی اور انتہائی کمزور اور مفلوج شکل میں موجود ہیں۔ محنت کش طبقے کے نوے فیصد سے بھی زائد حصے کے لیے ٹریڈ یونین کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں گزشتہ چار دہائیوں سے حکمران طبقے کے بدترین حملے ہیں وہا ں یونین لیڈروں کی غداریاں اور سابقہ بائیں بازو کی نظریاتی زوال پذیری بھی اہمیت کی حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اتنے بڑے حملوں کا جواب دینے کے متعلق بحث کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی اب محنت کشوں کو ناممکن کا حصول دکھائی دیتا ہے جبکہ اکثریت اپنے روزگار کی بقا کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
لیکن اب لڑائی یا موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا وقت آن پہنچا ہے۔یہ فیصلہ کن لڑائی الگ الگ رہ کر لڑنا نا ممکن ہے۔ محنت کش طبقے کا دشمن سرمایہ دار طبقہ اپنے طبقے کے مفادات سے دستبردار ہونے کے کے لیے تیار نہیں خواہ اس کے لیے محنت کشوں کی اکثریت کو بھوک اور ننگ کے ذریعے موت کے منہ میں ہی کیوں نہ دھکیلنا پڑے۔ وہ کسی بھی صورت اپنے منافعوں میں کمی کے لیے تیار نہیں۔ گنے کے کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان کی حالیہ لڑائی ہو یا دیگر بہت سے نجی اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہوں ہر جگہ بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں اور شعبوں کے محنت کش اپنی الگ الگ لڑائیوں سے باہر نکل کر متحد ہوں اور ایک فیصلہ کن لڑائی کی جانب بڑھیں۔ بہت سے اداروں میں ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں سب سے اہم دو سال قبل پی آئی اے میں ہونے والی آٹھ روزہ ہڑتال تھی۔ اسی طرح یوٹیلیٹی سٹور ملازمین کا حالیہ دھرنا اور کامیابی اس حوالے سے اہم پیش رفت تھی۔ینگ ڈاکٹروں اور اب انجینئروں کی لڑائیاں بھی اسی کا تسلسل ہیں۔ واپڈا ، ریلوے، اسٹیل مل، اساتذہ اور دیگر بہت سے شعبوں میں حالیہ عرصے میں احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں نظر آئی ہیں۔ لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام لڑائیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔ اس عام ہڑتال کے آغاز میں ملک کے تمام کلیدی شعبوں کو ایک دن کے لیے بند کرنا ہو گا اور پی ٹی سی ایل اور بینکوں کے ملازمین سے لے کر پورٹ، شپنگ، واپڈا اور سوئی گیس تک کے تمام محنت کشوں کو یکجا ہو کر اس سماج کا پہیہ روکنا ہو گا۔ یہ عام ہڑتال حکمران طبقے کو محنت کش طبقے کی حقیقی طاقت سے آگاہ کرے گی اورطاقتوں کا توازن درست کرنے کی جانب جائے گی۔ حکمران طبقے کو ایک دفعہ کھل کر باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اس سماج کو محنت کش چلاتے ہیں اور یہاں پیدا ہونے والے وسائل پر سب سے پہلے ان کا حق ہے۔اس ہڑتال میں اجرتوں میں اضافے سے لے کر نجکاری کے مکمل خاتمے کا مطالبہ معیشت اور سیاست کی واضح سمت طے کرے گا۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے مزدور دشمن کردار کے حامل ہیں اور ان باہم دست و گریبان نظر آنے والے تمام افراد کا اتفاق ہے کہ بحران کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈالا جائے۔ لیکن عام ہڑتال اس تمام صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دے گی اور مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست کو سطح پر ابھارے گی۔ اسی ہڑتال میں یہ مطالبہ بھی اہمیت کا حامل ہو گا کہ ریاست ہر شخص کو روزگار یا بیروزگاری الاؤنس دینے کی ذمہ داری ادا کرے۔ یہی مطالبات اس ملک کی سیاست اور تاریخ کو بدلنے کا کردار ادا کریں گے۔ یہ ہڑتال درحقیقت اس سرمایہ دارانہ معیشت کو جڑ سے اکھاڑنے کی جانب پہلا قدم ہو گی۔ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی اس عام ہڑتال کو سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی انقلاب یہاں سے بھوک اور محرومی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا اور ایک روشن مستقبل کی نوید سنائے گا۔
کر دیا گیا ہے جبکہ چین کے ساتھ دوستی کی پینگیں مقامی صنعت کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے سے لے کر زراعت تک ہر طرف ایک بہت بڑے بحران کا آغاز ہو چکا ہے۔ تعمیراتی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے اور اس سے منسلک تمام صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔حکومت کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں تمام تر بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھے پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ داروں کو ایمنسٹی سکیمیں دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ اجرتوں میں اضافے کا ذکر کرنا بھی شجر ممنوعہ قرار دے دیا جا چکا ہے۔ روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ اور بد ترین مہنگائی کے باوجودحکومت کی جانب سے اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیے جا رہے ہیں۔ اس مہینے پیش کیے جانے والے دوسرے منی بجٹ میں حکومت مزید 200ارب روپے کے ٹیکس لگائے گی۔
یہ سب محض آغاز ہے۔ اس نئے سال میں محنت کش طبقے پر تاریخ کے بد ترین حملے کیے جائیں گے۔ روپے کی قدر میں بہت بڑی گراوٹ متوقع ہے جبکہ نجکاری کے بد ترین حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا جائے گا۔ اگر عمران خان کے انتخابی وعدوں کا موازنہ گزشتہ چند ماہ کی کارکردگی سے کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس کا اقتدار میں آنے کا حقیقی مقصد ایک کروڑ افراد سے روزگار چھیننا اور پچاس لاکھ خاندانوں کو بے گھر کرنا تھا۔حکومتی پالیسیوں اور موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ آنے والے سال میں ان اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں گے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت کوئی سیاسی پارٹی یا پلیٹ فارم ایسا نہیں جو ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے دور اقتدار میں یہی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے تھیں اور آج بھی ان کے تمام تر اختلافات محض لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کی حد تک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ان تمام پارٹیوں کو مکمل طور پر رد کر چکی ہے اور کسی کے پاس بھی ماضی والی حمایت نہیں ہے۔ فوجی آمریتوں کا تجربہ بھی کچھ مختلف نہیں رہا اور انہوں نے بھی محنت کشوں کو بندوق کی نوک پر غربت، ذلت اور محرومی کی دلدل میں دھکیلا ہے جبکہ فوجی اشرافیہ نے بے دردی سے لوٹ مار کی ہے۔عدالتیں آج ویسے ہی مذاق بن چکی ہیں۔ایسے میں محنت کش طبقے کے پاس ان تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ خود اس کا اپنا اتحاد اور منظم حکمت عملی ہے۔
مزدوروں کی تنظیمیں اور یونینیں بھی گزشتہ ایک لمبے عرصے سے بحران کا شکار ہیں اور مسلسل زوال پذیر ہوتے ہوئے آج بہت ہی بکھری ہوئی اور انتہائی کمزور اور مفلوج شکل میں موجود ہیں۔ محنت کش طبقے کے نوے فیصد سے بھی زائد حصے کے لیے ٹریڈ یونین کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں گزشتہ چار دہائیوں سے حکمران طبقے کے بدترین حملے ہیں وہا ں یونین لیڈروں کی غداریاں اور سابقہ بائیں بازو کی نظریاتی زوال پذیری بھی اہمیت کی حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اتنے بڑے حملوں کا جواب دینے کے متعلق بحث کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی اب محنت کشوں کو ناممکن کا حصول دکھائی دیتا ہے جبکہ اکثریت اپنے روزگار کی بقا کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
لیکن اب لڑائی یا موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا وقت آن پہنچا ہے۔یہ فیصلہ کن لڑائی الگ الگ رہ کر لڑنا نا ممکن ہے۔ محنت کش طبقے کا دشمن سرمایہ دار طبقہ اپنے طبقے کے مفادات سے دستبردار ہونے کے کے لیے تیار نہیں خواہ اس کے لیے محنت کشوں کی اکثریت کو بھوک اور ننگ کے ذریعے موت کے منہ میں ہی کیوں نہ دھکیلنا پڑے۔ وہ کسی بھی صورت اپنے منافعوں میں کمی کے لیے تیار نہیں۔ گنے کے کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان کی حالیہ لڑائی ہو یا دیگر بہت سے نجی اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہوں ہر جگہ بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں اور شعبوں کے محنت کش اپنی الگ الگ لڑائیوں سے باہر نکل کر متحد ہوں اور ایک فیصلہ کن لڑائی کی جانب بڑھیں۔ بہت سے اداروں میں ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں سب سے اہم دو سال قبل پی آئی اے میں ہونے والی آٹھ روزہ ہڑتال تھی۔ اسی طرح یوٹیلیٹی سٹور ملازمین کا حالیہ دھرنا اور کامیابی اس حوالے سے اہم پیش رفت تھی۔ینگ ڈاکٹروں اور اب انجینئروں کی لڑائیاں بھی اسی کا تسلسل ہیں۔ واپڈا ، ریلوے، اسٹیل مل، اساتذہ اور دیگر بہت سے شعبوں میں حالیہ عرصے میں احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں نظر آئی ہیں۔ لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام لڑائیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔ اس عام ہڑتال کے آغاز میں ملک کے تمام کلیدی شعبوں کو ایک دن کے لیے بند کرنا ہو گا اور پی ٹی سی ایل اور بینکوں کے ملازمین سے لے کر پورٹ، شپنگ، واپڈا اور سوئی گیس تک کے تمام محنت کشوں کو یکجا ہو کر اس سماج کا پہیہ روکنا ہو گا۔ یہ عام ہڑتال حکمران طبقے کو محنت کش طبقے کی حقیقی طاقت سے آگاہ کرے گی اورطاقتوں کا توازن درست کرنے کی جانب جائے گی۔ حکمران طبقے کو ایک دفعہ کھل کر باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اس سماج کو محنت کش چلاتے ہیں اور یہاں پیدا ہونے والے وسائل پر سب سے پہلے ان کا حق ہے۔اس ہڑتال میں اجرتوں میں اضافے سے لے کر نجکاری کے مکمل خاتمے کا مطالبہ معیشت اور سیاست کی واضح سمت طے کرے گا۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے مزدور دشمن کردار کے حامل ہیں اور ان باہم دست و گریبان نظر آنے والے تمام افراد کا اتفاق ہے کہ بحران کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈالا جائے۔ لیکن عام ہڑتال اس تمام صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دے گی اور مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست کو سطح پر ابھارے گی۔ اسی ہڑتال میں یہ مطالبہ بھی اہمیت کا حامل ہو گا کہ ریاست ہر شخص کو روزگار یا بیروزگاری الاؤنس دینے کی ذمہ داری ادا کرے۔ یہی مطالبات اس ملک کی سیاست اور تاریخ کو بدلنے کا کردار ادا کریں گے۔ یہ ہڑتال درحقیقت اس سرمایہ دارانہ معیشت کو جڑ سے اکھاڑنے کی جانب پہلا قدم ہو گی۔ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی اس عام ہڑتال کو سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی انقلاب یہاں سے بھوک اور محرومی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا اور ایک روشن مستقبل کی نوید سنائے گا۔