|تحریر: بین کری، ترجمہ: جلال جان|
انقلابی لہر، جس نے ایک ہفتہ قبل شیخ حسینہ کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، کے بعد سے طلبہ کی قیادت میں عوام اس تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کمیٹیاں ملک بھر میں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر طلبہ میں، لیکن یہ کمیٹیاں صرف طلبہ تک ہی محدود نہیں ہیں۔ کئی مقامات پر انہوں نے ریاستی امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ حکمران طبقہ ہوا میں معلق ہو چکا ہے۔ ایک قسم کی دوہری طاقت کی صورت حال بن چکی ہے۔ لیکن اب انقلاب کو نئے خطرات کا سامنا ہے جن میں نہ صرف معزول عوامی لیگ کی سازشوں کا خطرہ موجود ہے، بلکہ اس بات کا شائبہ بھی ہے کہ آگے کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
گزشتہ پیر کو واضح ہو گیا تھا کہ حسینہ کو اس کے ہی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ آخری لمحے تک اس نے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ فوجی جرنیلوں کا دباؤ تھا جس نے حسینہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ حکمران طبقہ یہ دیکھ چکا تھا کہ وہ صرف طاقت کے ذریعے اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ انہیں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے سربراہ کو قربان کرنا پڑا۔
حسینہ کے جانے کے بعد بھی عوام سڑکوں پر موجود رہے اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کرتے رہے، جو کہ آخر کار تسلیم کیا گیا۔ فوج مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو گئی۔
منگل کے روز فوج کے اعلیٰ حکام نے طلبہ کے منتظمین کو بنگابھبھن (صدارتی محل) میں مدعو کیا تاکہ ایک عبوری حکومت کی تشکیل پر بات چیت کی جا سکے۔ آدھی رات گزرنے کے بعد طلبہ کے منتظمین ایک معاہدے کے ساتھ باہر آئے۔ طلبہ کے مرکزی منتظمین نے ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں بننے والی نئی ’عبوری حکومت‘ کی حمایت کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔
ہمیں اس پر بالکل واضح ہونا چاہیے کہ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ ہم فوراً اور واضح طور پریہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں اس حکومت پر کس قسم کا کوئی اعتماد نہیں ہے!
طلبہ نے بے پناہ جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا، لیکن قیادت پر یہ بات واضح نہیں تھی کہ انقلاب کو کیسے مضبوط کیا جائے اور اسے آگے کیسے بڑھایا جائے۔ طلبہ نے اپنے ’1 نکاتی پروگرام‘ یعنی حسینہ کو جانا چاہیے، کو حاصل کر لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد اب آگے کا راستہ کیا ہو گا؟
حسینہ کے حکومت کے خاتمے اور پولیس کے ظلم و ستم کے خاتمے جیسی اہم جمہوری کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر یونس کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ ایک رجعتی حکومت ہے جس کے ارکان حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، حالانکہ اس سب میں حسینہ کے دھڑے کو اقتدار سے باہر رکھا گیا ہے۔
اس حکومت کے طلبہ اور محنت کش طبقے کے ساتھ کوئی مشترکہ مفادات اور ہمدردیاں وابستہ نہیں ہیں۔ وہ ’نظم و ضبط‘ قائم کرنے کی کوشش کریں گے، انقلابی تحریک کو ختم کرنے کے لیے اور بدنام زمانہ سرمایہ دارانہ ریاست کے ’جواز‘ کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ بنگلہ دیش میں غالب استحصالی طبقے ایک بار پھر عوام کا استحصال کر سکیں۔
جو بھی لبرل یا جمہوری اصلاحات وہ منظور کریں گے، وہ عوام کے دباؤ کی بنیاد پر ہوں گی جو کہ سڑکوں پر موجود ہیں اور یہ ان کی ’شاطر‘ مذاکراتی حکمت عملی کی بجائے اس بات کی عکاسی کرے گا کہ فوج خود کو انقلابی عوام کے دباؤ میں کمزور محسوس کر رہی ہے۔
لیکن یہ بات واضح ہے کہ اشرافیہ اور سرمایہ داروں کی یہ حکومت عوام کی تحریک کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ انہوں نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار کو پرانی سرمایہ دارانہ ریاست کے ہاتھوں میں مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے، بھلے ہی وہ کچھ نئے چہروں کے ساتھ اسے مزید چمکانے کی کوشش کریں۔ لیکن ان کے پیچھے، جرنیل، جج اور پولیس کے سربراہان ایک بہتر موقعے کے انتظار میں ہیں تاکہ اس انقلاب پر ردِ انقلاب کی ایک ضرب لگائی جا سکے۔
انقلاب ابھی نا مکمل ہے۔ اسے آگے بڑھنا ہو گا ورنہ سفر پیچھے کی جانب جائے گا۔ یہ صرف پرانی سرمایہ دارانہ ریاست کو مکمل طور پر ختم کر کے ہی آگے بڑھ سکتا ہے! صرف کمیٹیوں کو مزید تقویت دے کر، محنت کشوں کو ان میں شامل کر کے، ان کمیٹیوں کو قومی سطح پر ایک ساتھ جوڑ کر اور اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پرانی ریاست کو ختم کر کے ہی انقلاب مکمل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر یونس کی حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں!
اگرچہ گزشتہ ہفتے جرنیلوں کی پوزیشن ایسی نہیں تھی کہ وہ مذاکرات کر سکیں کیونکہ انقلابی عوام ان کے سر پر کھڑے تھے، ایسی صورتحال میں ڈاکٹر یونس پھر بھی ایک ایسا شخص ہے جس کے ساتھ وہ کام کر سکتے ہیں۔
اس کی اہلیت اس بات کو واضح کرتی ہے۔ وہ کون ہے؟ اس کی شہرت ایک مشکوک ’فلاحی‘ شخصیت کی حیثیت سے ہے، جو غریبوں کے لیے مائیکرو کریڈٹس پر کام کرنے کی وجہ سے ہے۔ یہ ’مائیکرو کریڈٹس‘، جنہوں نے ایک وقت میں غریب عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے شہرت حاصل کی تھی، اب یہ مقروضیت اور خود کشیوں کے مترادف بن چکے ہیں۔ شاید زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر یونس کو حسینہ نے سیاسی مخالف کے طور پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اسے خاص طور پر متوسط طبقے کی ایک پرت میں کچھ سیاسی ساکھ ملی ہے۔
لیکن ہمیں سچ بتانا ہو گا کہ یہ شخص ایک بینکار ہے۔ ڈاکٹر یونس کو مغربی سامراجیت نے برسوں تک سراہا اور اس کے بدلے میں اسے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ وہ اسی حکمران طبقے کا حصہ ہے جس نے گزشتہ 16 سالوں سے حکمرانی کی ہے، اگرچہ وہ اس طبقے کے اس دھڑے سے تعلق رکھتا ہے جو اقتدار سے باہر رہا ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ ہے، اگرچہ وہ بھارتی حکومت کی نسبت امریکی سامراجیت کے زیادہ قریب ہے۔ مغربی سامراجیوں کو اس بات پر خوشی ہے کہ یونس کو حکومت کی قیادت کے لیے چنا گیا ہے!
اس حقیقت کو مزید ثابت کرنے کے لیے یہ بات واضح ہے کہ یہ حکومت سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ سے نکلی ہے، ہمیں اس کی کابینہ سے آگے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں دو بینکار (خود ڈاکٹر یونس کو شامل کر کے تین) شامل ہیں، ایک سابق اٹارنی جنرل اور ایک سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل، ایک سابق سیکرٹری خارجہ اور اس کے علاوہ ڈائریکٹرز، سی ای اوز، سپریم کورٹ کے وکلاء، سابق سفیر، ہائی کمشنر وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے مختلف سرمایہ دارانہ حکومتوں کی خدمت کی ہے، اگر عوامی لیگ کی نہیں تو پھر بی این پی کی۔
ان سرمایہ دار وزراء کے ساتھ صرف دو طالب علم منتظمین ہیں جو اس تحریک سے وابستہ ہیں، ناہید اسلام اور عاصف محمود۔ انہیں انتہائی معمولی وزارتیں دی گئی ہیں۔ ان کا کردار، اس سرمایہ دارانہ حکومت میں یرغمال کی طرح ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں ایک ایسی قانونی حیثیت دی گئی ہے جس کے وہ مستحق نہیں ہیں۔
اس حکومت کے، جس نے ابھی جمعرات کو ہی حلف لیا ہے، ابتدائی اقدامات پہلے ہی اس کے آگے کے سفر کی سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عوام کے مطالبے کے برخلاف، جو کہ پرانے نظام کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں، نئے مشیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل ایم سخاوٹ حسین نے عوامی لیگ کو مفاہمت کی پیشکش کی ہے۔
اس (مشیر داخلہ) نے یقین دلایا ہے کہ پارٹی پر پابندی نہیں لگائی جائے گی، کہ وہ نئے انتخابات میں حصہ لے، یہاں تک کہ اس نے پارٹی کی تعریف بھی کی (”عوامی لیگ ہمارا فخر ہے“)، اور شیخ حسینہ کو آزادانہ طور پر ملک واپس آنے کی اجازت دینے کا بھی اشارہ دیا ہے۔
ہم اس ’مفاہمتی‘ حکومت سے اسی طرح کے مزید اقدامات کی توقع کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، اس بریگیڈیئر جنرل نے انقلاب کے دوران عوام کی جانب سے اپنے دفاع کے لیے حاصل کیے گئے تمام اسلحے کو واپس لینا اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ یعنی وہ یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ جابر پولیس ایک بار پھر بنگلہ دیش میں تشدد پر مبنی اجارہ داری قائم کر لے۔
ہم اس حکومت کے آئندہ اقدامات کے بارے میں ایک پیش گوئی کرتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت ہر کوئی (بشمول پولیس کے سربراہان!) طلبہ کو سراہ رہا ہے، مگر ریاست کی رٹ بحال کرنے کا اگلا قدم طلبہ کو اپنی کمیٹیاں تحلیل کرنے اور گھر واپس جانے پر قائل کرنا ہو گا۔ آخر کار، وہ یہ دلیل دیں گے کہ آپ نے انقلاب جیت لیا ہے، اب آپ کا کام ختم ہو گیا ہے۔
ہم اس حکومت کے فریب کے خلاف خبردار کر رہے ہیں کہ اس کا ارادہ انقلاب کو ختم کرنا ہے! اگر آپ کو ابھی اس تنبیہ پر یقین نہیں ہے، تو ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان الفاظ کو ذہن نشین کر لیں۔ اس پر کوئی اعتماد نہ کریں! انقلابی عوام کو صرف اپنے آپ پر اور صرف اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے!
عوامی ایکشن کمیٹیاں ہی آگے کا راستہ ہیں!
اس وقت بنگلہ دیش میں ایک ایسی صورتحال موجود ہے جو کسی حد تک دوہری طاقت کی مانند ہے۔ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد، سرمایہ دارانہ ریاست، جو عوامی لیگ کے چنے ہوئے عہدیداروں سے بھری ہوئی ہے، مکمل طور پر ہوا میں معلق ہو چکی ہے۔
حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک بھر میں نفرت زدہ پولیس ہڑتال پر چلی گئی تھی اور صرف دو دن پہلے واپس ڈیوٹی پر آئی ہے۔ اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، بغاوت کے دوران 450 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے اکثریت کو پولیس نے قتل کیا۔ اس قتلِ عام کے خلاف لڑنے والی عوام نے ملک کے 600 میں سے 450 پولیس اسٹیشنوں کو نذر آتش کر دیا۔ پولیس اب انقلابی عوام سے انتقامی کاروائیوں سے خوفزدہ ہے۔
صرف فوج کے پہرے میں اور عبوری حکومت کی جانب سے دلاسوں کی یقین دہانیوں کے بعد ہی کچھ پولیس اسٹیشن دوبارہ کھلنے کی ہمت کر سکے ہیں۔ یہ ڈاکٹر یونس کی حکومت کا ایک اور اہم قدم ہے جو ’معمول‘ کو بحال کرنے کی کوشش میں ہے، تاکہ ایک بار پھر سرمایہ دارانہ ریاست کے تشدد کرنے کی اجارہ داری کی حفاظت کی جا سکے اور اس کی قانونی حیثیت کو بحال کیا جا سکے۔
لیکن ایک اور طاقت ابھر کر سامنے آئی ہے، جس نے ریاستی امور کو کئی علاقوں میں اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے؛ وہ طلبہ اور انقلابی عوام کی کمیٹیوں کی طاقت ہے۔
عوامی لیگ اور ردِ انقلاب کے حامی چاہتے تھے کہ حسینہ کے جانے کے بعد ملک افراتفری کا شکار ہو جائے۔ در حقیقت، انہوں نے اسے اس سمت میں دھکیلنے کی کوشش بھی کی۔ اس کے برعکس، کمیٹیوں نے ملک کے کئی حصوں میں پولیس کے فرائض سنبھال لیے، جلدی سے نظم و ضبط بحال کیا اور ٹریفک کو کنٹرول کیا۔
دوسرے طلبہ نے سڑکوں کی صفائی شروع کر دی ہے۔ ریاستی اثاثوں کو سابقہ حکام کی لوٹ مار سے بچانے کے لیے کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ جبکہ کمیٹی کے ارکان نے ہسپتالوں کا دورہ کیا ہے تاکہ ان کے کام میں مدد کی جا سکے اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔
طلبہ کمیٹیوں نے ریاستی بدعنوانی اور کرپشن کی رپورٹنگ کے لیے ایک نظام بھی قائم کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ایسے کسی بھی معاملے کو چھ گھنٹے کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور نمٹانے کا یہ کام خود طلبہ سر انجام دیں گے، نہ کہ پرانی عدالتیں اور پولیس، جو کہ بدعنوانی کے اہم ذرائع ہیں!
کمیٹیوں کی ان عارضی تشکیلات نے پہلے ہی پرانی حکمران اشرافیہ کی بہت سی ردِ انقلابی چالوں کو ناکام بنا دیا ہے، جن میں افراتفری پھیلانے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔
حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے فوراً بعد، سرمایہ دارانہ میڈیا، پرانے حکام اور ان کی پشت پناہی کرنے والی بھارتی خفیہ ایجنسیاں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد کے پھیلاؤ کا خوف پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
ان میں سے بہت سی افواہیں دراصل جھوٹ یا جعل سازی پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر، سلہٹ، جو انقلابی تحریک کا ایک مرکزی شہر ہے، میں ہندو بدھ اسٹ کرسچن یونٹی کونسل کے ایک رکن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ہفتے جن ہندو گھرانوں پر حملہ ہوا ہے وہ دراصل عوامی لیگ کے رہنما ہیں! اس تشدد کا کوئی ’مذہبی‘ پہلو نہیں تھا، جو مکمل طور پر سیاسی تھا، اس کے بعد بھی پرانی حکمران اشرافیہ اس طرح کے دعوے پھیلانے سے باز نہیں آئی۔
اس کے باوجود، عوام نے ان افواہوں کے درمیان ایک بار پھر قدم بڑھایا ہے۔ ملک بھر میں مذہبی تشدد کے خلاف دفاع کے لیے کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں، تاکہ ردِ انقلابی عناصر کو مذہبی منافرت بھڑکانے سے روکا جا سکے۔ عرب بہار کی یاد دلانے والے طاقتور مناظر میں، جب قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں قبطی عیسائیوں نے مسلمانوں کی نماز کے دوران حفاظت کی تھی، گزشتہ ہفتے اسلامی مدارس کے طلبہ کو ہندو مندروں کی حفاظت کے لیے پہرے دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ وسیع تر کمیٹیاں (نام نہاد ’طلبہ عوامی کمیٹیاں‘) قائم کی گئی ہیں تاکہ ان منافع خوروں کے خلاف کارروائی کی جا سکے جنہوں نے سیاسی افراتفری کے دوران سٹے بازی اور زخیرہ اندوزی کرتے ہوئے اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔
یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے! کمیٹیاں انقلاب کی واحد ضمانت ہیں۔ آج بنگلہ دیش میں دو طاقتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ ایک طرف، پرانی سرمایہ دارانہ ریاست جس کا سربراہ اب ڈاکٹر یونس ہے۔ دوسری طرف عوامی کمیٹیاں ہیں، جو متبادل انقلابی طاقت کی بنیادی شکل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس طرح کی صورتحال زیادہ دیر تک موجود نہیں رہ سکتی۔
یا تو سرمایہ دار طبقہ غالب آئے گا، ریاست کی برتری کو بحال کرے گا یا کمیٹیاں اقتدار پر قبضہ کر لیں گی اور اس عمل میں پرانی ریاست کو تباہ کر دیں گی۔ لیکن اس طاقتور ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے کمیٹیوں کو پورے محنت کش طبقے میں پھیلانا ہو گا، جو معاشرے میں واحد مستقل انقلابی طبقہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، انہیں قومی سطح پر مکمل جمہوریت اور مندوبین کی جوابدہی کی بنیاد پر جوڑنا ہو گا۔
پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ اور عوامی کمیٹیوں کی قومی سطح پر کانگریس بلائی جائے!
طلبہ کا سب سے انقلابی اور لڑاکا دھڑا اس مقصد کے لیے منظم ہونا چاہیے اور اس کا مطلب ایک پارٹی، ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرنا ہے، جو انقلاب کی تکمیل کے پروگرام کے گرد منظم ہو۔
انقلابی پارٹی بنائیں! یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل جدوجہد کر رہی ہے اور ہم انقلابی طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کام میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔
جمہوریت اور کمیونزم
کمیٹیوں نے پہلے ہی عوام کی بے پناہ انقلابی صلاحیت کو ظاہر کر دیا ہے۔ انہوں نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ عوام بیوروکریسی پر مشتمل پرانی سرمایہ دارانہ ریاست کے بغیر معاشرے کے انتظام کے فرائض سنبھال سکتے ہیں۔ یہ صرف وہی ہیں جو انقلاب کی کامیابیوں کو مضبوط بنا رہے ہیں اور انہیں عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔
اب حالات کس سمت بڑھ رہے ہیں؟ سب کچھ طاقت کے توازن پر منحصر ہے۔ فوج کو اپنے وقت کا انتظار کرنا ہو گا اور وہ اپنے ردِ انقلابی منصوبے کو جلدی نافذ نہیں کر سکتی۔ سڑکوں پر عوام کا دباؤ اب بھی بے پناہ ہے۔ جمعہ کے دن عوام نے مرکزی بینک کے گورنر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ ہفتے کے دن، ہائی کورٹ کے باہر بڑے پیمانے پر احتجاج نے چیف جسٹس عبیداللہ حسن کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔
ایک بات جو ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہ ڈاکٹر یونس اور حکمران طبقے کے دوسرے لوگ اپنی میٹھی باتوں اور حسینہ کے زوال کے بعد بھی انقلابی عوام اور ان کے پرانے دشمنوں کے درمیان ’مفاہمت‘ قائم نہیں کر سکیں گے۔ بنگلہ دیش ایک طویل، مستحکم سرمایہ دارانہ جمہوریت کے مرحلے میں داخل نہیں ہونے ہو گا۔ اس کے برعکس، انقلاب کا ایک نیا باب شروع ہونے والا ہے۔
پچھلے پیر کو جو فتح حاصل ہوئی تھی اس کی قیادت طلبہ نے کی تھی، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے، لیکن دیگر گروہوں اور طبقات نے بھی متحرک ہو کر اس میں اہم کردار ادا کیا۔ در حقیقت، یہ فتح ناممکن ہوتی اگر محنت کش عوام کی بڑی تعداد اس تحریک میں مداخلت نہ کرتی، جو لاکھوں کی تعداد میں ڈھاکہ کی طرف آئی اور جس نے گارمنٹس کی فیکٹریوں والے علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہڑتالیں کیں۔
ہمیں اس حقیقت پر زور دینا چاہیے کہ محنت کش طبقے کی مداخلت اس انقلاب کی ابتدائی فتوحات کے لیے فیصلہ کن تھی۔
محنت کش عوام کے ساتھ ساتھ طلبہ تحریک، جس نے بہت سی شہادتیں پیش کی ہیں، زبردست طاقت کی متحمل ہے۔ تاہم، اس کے رہنماؤں نے یہ غلطی کی کہ انہوں نے اپنا یہ مضبوط اختیار ڈاکٹر یونس کی کابینہ کو سونپ دیا۔ لیکن اس کا یہ ابتدائی وقت زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔
محنت کش طبقے کے لیے ’جمہوریت‘ کوئی مجرد چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک مقصد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، بہتر اجرتیں، بہتر حالات، کام کے اوقات میں کمی اور باعزت زندگی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لاکھوں مزدور اپنی نئی جمہوری آزادیوں کو استعمال کرتے ہوئے، جو سڑکوں پر حاصل کی گئی ہیں، اپنے مطالبات پیش کریں گے اور سرمایہ داری کے اس ناقابل برداشت طوق کو ہٹانے کی کوشش کریں گے جو ان کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔
پہلے ہی اس ہفتے، ہم نے ہمایت پور میں گارمنٹس کے مزدوروں کے بڑے پیمانے پر احتجاج اور گازی پور میں گارمنٹس کے مزدوروں کی جانب سے سڑکوں کو بند کیے جانے کے واقعات دیکھے ہیں، یہ دونوں احتجاج ان مزدوروں کی غیر ادا شدہ اجرتوں کے خلاف تھے۔
جب طبقاتی جدوجہد ابھرے گی تو نئی حکومت ریاست کے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مفلوجیت پر قابو پانے کوشش کرے گی اور اسے ایک جانب کا انتخاب کرنا پڑے گا؛ اسے خون چوسنے والے سرمایہ دار گارمنٹس فیکٹریوں کے مالکان اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حمایت کرنی پڑے گی یا مزدوروں کی حمایت کرنی پڑے گی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ کس کی حمایت کرے گی، یہ سرمایہ دار طبقے کی حکومت ہے، جس کے سر پر ایک ریاست ہے جو سرمایہ دار طبقے نے تعمیر کی ہے۔
اگر حسینہ کی حکومت ایک ظالمانہ اور آمرانہ حکومت تھی، جو کہ واقعی تھی، تو ایسا حسینہ کے کسی ذاتی برے کردار کی وجہ سے نہیں تھا۔ بلکہ ایسا اس لیے تھا کہ بنگلہ دیش کی سرمایہ داری محنت کش عوام کے بدترین استحصال کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس نظام کے تحت سماجی تضادات اتنے شدید اور ناقابل مصالحت ہیں کہ ایک سرمایہ دارانہ جمہوریت کا نظام لازمی طور پر غیر مستحکم ثابت ہو گا۔
جس طوفانی دور کا اب آغاز ہو رہا ہے، اس میں سرمایہ دار طبقے کے نمائندے اپنی ’جمہوریت‘ کے نعروں سے غداری کرنے پر مجبور ہوں گے، کیونکہ وہ بغاوت میں اٹھنے والے عوام کے خلاف اپنے طبقاتی اقتدار کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ کیا ہم ایک بار پھر یوں ہی پسپائی اختیار کر لیں اور انقلاب کی جمہوری فتوحات کو ترک کر دیں، یا آگے بڑھیں اور حقیقی جمہوریت قائم کریں، جو کہ صرف محنت کش طبقے کے اقتدار پر مبنی ہو سکتی ہے؟ ہم بنگلہ دیش کے تمام مخلص انقلابی طلبہ کے سامنے یہ واضح بات رکھتے ہیں کہ اگر آپ جمہوریت چاہتے ہیں، حقیقی جمہوریت، تو آپ اسے اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مستقل طور پر حاصل نہیں کر سکتے۔
صرف اور صرف اس نظام کو گرا کر، پرانی ریاست کو توڑ کر اور سرمایہ داروں کی معاشی طاقت کے ذرائع پر قبضہ کر کے ہی، جس کا آغاز حسینہ اور اس کے گروہ کی ناجائز کمائی گئی دولت ہتھیانے سے ہو گا، ہم حقیقی جمہوریت قائم کر سکتے ہیں۔ اس کا ایک نام ہے، کمیونزم۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ:
کمیٹیوں کو طلبہ، مزدوروں اور محنت کش عوام کی وسیع تر پرتوں تک پھیلاؤ!
انقلابی کمیٹیوں کی قومی کانگریس کے لیے!
تمام طاقت طلبہ اور مزدور کمیٹیوں کو منتقل کی جائے!
محنت کش طبقے کو اقتدار کی منتقلی کے لیے جدوجہد کرنے والی انقلابی پارٹی کی تعمیر کرو!
اگر آپ اس سے متفق ہیں، تو انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں شامل ہوں اور آئیں اس کام کو ایک ساتھ مل کر شروع کریں!