|تحریر: آفتاب اشرف|
سوشلسٹ انقلاب کے بعد کا پاکستان کیسا ہو گا؟ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پاس پاکستان کو در پیش غربت، مہنگائی، بیروزگاری، پسماندگی، لاعلاجی، ناخواندگی، بے گھری، بیرونی و داخلی قرضہ جات، جابر نیم نو آبادیاتی ریاستی ڈھانچے، زرعی مسئلے، ماحولیاتی تباہی، قومی جبر اور صنفی جبر جیسے مسائل کا کیا حل ہے؟ جیسا کہ ان مسائل کی نوعیت سے ہی واضح ہے کہ ان کو حل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل چاہیے ہوں گے، لہٰذا کوئی بھی سمجھدار قاری آغاز میں ہی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا پاکستان کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں؟ اسی لیے بحث کو آگے بڑھانے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی رکھنے والا یہ سماج کتنی دولت پیدا کرتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار اور استحصال کے نتیجے میں کس طرح یہ تمام دولت مٹھی بھر ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں، فوجی و سول ریاستی اشرافیہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے۔ یہاں ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ہم پاکستان کی معاشی تفصیلات میں جائیں لیکن چند ایک موٹے موٹے اعداد و شمار ہی یہ واضح کر دیتے ہیں کہ اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام، حکمران سرمایہ دار طبقے اور اس کی پروردہ ریاست کا طبقاتی استحصال اور لوٹ مار ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ مالی سال 2024ء میں حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے احکامات پر عوام کی ہڈیاں نچوڑ کر 9300 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس ٹیکس آمدن کا دو تہائی محنت کش عوام کی پیٹھ پر لادے گئے بالواسطہ ٹیکسوں سے آتا ہے جبکہ بقیہ ایک تہائی براہ راست ٹیکسوں پر مشتمل ہے، جس کا غالب حصہ بھی تنخواہ دار درمیانے طبقے اور چھوٹے کاروبار پر عائد کردہ براہ راست ٹیکس سے اکٹھا ہوتا ہے۔ لیکن اصل ظلم تو یہ ہے کہ اسی مالی سال 2024ء میں حکومت نے 8300 ارب روپے ان بیرونی و داخلی قرضوں کے اصل زر اور سود کی ادائیگیوں پر خرچ کیے جو نہ تو پاکستان کے محنت کش عوام نے لیے اور نہ ہی کبھی ان پر خرچ ہوئے۔
اسی طرح حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے پچھلی ایک دہائی میں آئی پی پیز (جن میں زیادہ تر نجی پاور پلانٹس اور کارپوریٹ طرز پر چلنے والے کچھ پبلک سیکٹر پاور پلانٹس دونوں شامل ہیں) کو کپیسٹی پیمنٹس (یعنی اس بجلی کی مد میں ادائیگی جو ان آئی پی پیزنے کبھی بنائی ہی نہیں) کی صورت میں 8344 ارب روپے کی ادائیگی کی جو کہ کرنٹ ڈالر ایکسچینج ریٹ پر تقریباً 30 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ رقم نام نہاد گیم چینجر منصوبے سی پیک (در حقیقت چینی ایسٹ انڈیا کمپنی) کی مد میں اسی عرصے میں ہونے والی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ رواں مالی سال 2025ء میں عوام کو لوٹ کر ان آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 2800 ارب روپے کی ادائیگی کی جائے گی جس کا ایک غالب حصہ نجی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں جائے گا۔
اسی طرح سال 2023ء میں جہاں ایک طرف عوام کا معاشی قتل عام ہو رہا تھا وہیں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ بینکوں سمیت 83 بڑی کارپوریٹ کمپنیوں نے 1660 ارب روپے کا منافع کمایا اور یہ ابھی ان کے خود کے دیے گئے اعداد و شمار ہیں جبکہ حقیقی منافع خوری تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہو گی۔ ابھی چند سال قبل 2021ء میں منظر عام پر آنے والی یو این ڈی پی کی این ایچ ڈی آر رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت پاکستان سرمایہ داروں، بنکاروں، بڑے تاجروں، جاگیر داروں، جرنیلوں، ججوں، سول افسر شاہی وغیرہ کو کل ملا کر 2700 ارب روپے سالانہ کی معاشی مراعات (مفت یا سستی سرکاری زمین، سستی بجلی و قرضہ جات، ٹیکس چھوٹ وغیرہ) سے نوازتی ہے اور یقینا اب تک ان مراعات میں مزید اضافہ ہو چکا ہو گا۔ اسی طرح سال 2023ء کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آپریٹ کرنے والے دس بڑے نجی بینکوں کے اثاثہ جات کی کل مالیت 100 ارب ڈالر سے زائد تھی۔ یاد رہے کہ نجی بینک اور آئی پی پیز پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ لوٹ مار اور منافع خوری کرنے والے شعبے ہیں۔ اسی طرح (بنکاری کے علاوہ) رئیل اسٹیٹ، لارج اسکیل مینو فیکچرنگ، مائننگ اور انشورنس سمیت فوجی اسٹیبلشمنٹ کی عسکری کاروباری سلطنت کی کل مالیت کا تخمینہ بھی کم از کم 40 ارب ڈالر ہے۔
اگر ریاست پاکستان کے غیر پیداواری اخراجات کی بات کی جائے تو اس میں سر فہرست فوجی اخراجات ہیں (جن کا ایک قابل ذکر حصہ جرنیلی اشرافیہ کی مراعات اور کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے) جن کی مد میں مالی سال 2024ء میں 2700 ارب روپے خرچے گئے (فوجی پنشنوں، اسلحہ خریداری، سپلیمنٹری گرانٹس اور متفرق اخراجات سمیت) حالانکہ یہ فوج پچھلی دو دہائیوں میں اپنی ہی نام نہاد اسٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی کی پیداوار مٹھی بھر دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اسی مالی سال کے دوران سول پولیس کے اخراجات 525 ارب روپے رہے (پنشن کے علاوہ) جبکہ سول آرمڈ فورسز پر بھی سینکڑوں ارب روپے خرچ کیے گئے حالانکہ پاکستان میں ہونے والے غیر قانونی دھندوں میں سب سے زیادہ یہی ادارے ملوث ہیں۔
مزید برآں ہر سال کتنے ہزار ارب روپے سول افسر شاہی، عدلیہ اور سیاسی حکومت کے نام نہاد رننگ اخراجات، عیاشیوں اور کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں، اس کا کوئی حساب ہی نہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حتمی تجزیے میں ایک سرمایہ دارانہ ریاست کی فوج، پولیس، خفیہ ایجنسیوں، عدلیہ، سول افسر شاہی اور سیاسی حکومت کا فریضہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت اور منافع خوری کا مسلح تحفظ کرنا ہوتا ہے یعنی ان تمام مدوں میں ہونے والے اخراجات کا عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
اب اگر ہم اوپر دیے گئے تمام اعداد و شمار کو سمیٹتے ہوئے ایک کلیت میں دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے کروڑوں محنت کش عوام دن رات کی محنت سے بے تحاشہ دولت پیدا کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ان کی پیدا کردہ یہ تمام دولت ان سے چھن کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے جبکہ وہ اسی غربت و ذلت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو اور یہ تمام دولت اپنے پیداکاروں کی فلاح و بہبود پر ہی خرچ ہو تو صورتحال بالکل مختلف ہو گی۔
آئیے اب بات کرتے ہیں کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد انقلابی کمیونسٹ پارٹی کون سے ایسے اقدامات کرے گی جس سے اس پورے خطے کی کایا پلٹ جائے گی اور امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق پر مبنی نظام ختم ہو جائے گا۔
1۔ مزدور ریاست کا قیام
ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام انتظامی، قانونی، فوجی ڈھانچے اور اداروں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے گا۔ انقلاب کے دوران گلی محلوں سے لے کر فیکٹریوں، ملوں، کھیتوں کھلیانوں، فوجی بیرکوں اور تعلیمی اداروں میں تشکیل پانے والی محنت کشوں، چھوٹے کسانوں، فوج کے عام سپاہیوں، طلبہ اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کی نمائندہ انقلابی کمیٹیوں (جن میں فوقیت محنت کش طبقے کو حاصل ہو گی) کو نیچے سے لے کر اوپر اور علاقائی سے لے کر مرکزی سطح تک منظم کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ مزدور ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ان انقلابی کمیٹیوں میں منتخب ہونے اور ووٹ دینے کا حق صرف محنت کش عوام کے پاس ہو گا۔ ناقص کارکردگی پر ووٹ دہندگان کے پاس کسی بھی منتخب نمائندے یا پوری کمیٹی کو کسی بھی وقت برخاست کرنے کا مکمل اختیار ہو گا۔
مزدور ریاست کے کسی بھی اہلکار یا منتخب نمائندے کی تنخواہ یا مراعات کسی بھی صورت ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ مزدور ریاست کا کوئی الگ سے افسر شاہانہ انتظامی یا عدالتی ڈھانچہ نہیں ہو گا بلکہ انتظامی فرائض سر انجام دینے، عدل و انصاف فراہم کرنے اور امن و امان قائم رکھنے کی تمام تر ذمہ داری ان منتخب شدہ انقلابی کمیٹیوں کی ہو گی۔ یہی انقلابی کمیٹیاں مزدور ریاست کے لیے محنت کش عوام کی خواہشات کے مطابق ایک نیا آئین و قانون بھی مرتب کریں گی جس میں نجی ملکیت اور استحصال کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے محنت کش عوام کی فلاح و بہبود کو اول و آخر اہمیت حاصل ہو گی۔ اس آئین کے تحت محنت کش عوام کو تحریر و تقریر، احتجاج اور انجمن سازی کی مکمل آزادی بھی حاصل ہو گی۔
2۔ ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول
سرمایہ دارانہ نظام اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ملک میں موجود تمام ذرائع پیداوار (جیسا کہ فیکٹریاں، آلاتِ پیداوار، بینک، انشورنس، جاگیریں، مائننگ، فزیکل انفراسٹرکچر جیسے کہ آئی پی پیز، وغیرہ) پر ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے گا۔
منڈی کی معیشت کی منافع خوری پر مبنی انارکی کا خاتمہ کرتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں موجود سوشلسٹ معیشت کو منصوبہ بندی کے تحت سماج کی اجتماعی ضروریات پوری کرنے اور عوام کی فلاح بہبود اور تعمیر و ترقی کے لیے چلایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک منصوبہ بند انداز میں جدید صنعت کاری، خاص کر بھاری صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی، چین، سعودی عرب، پیرس کلب وغیرہ کے قرضوں سمیت تمام سامراجی قرضے مکمل طور پر ضبط کر لیے جائیں گے اور اجتماعی ملکیت میں لیے گئے بینکوں کے چھوٹے کھاتہ داروں کو تحفظ دیتے ہوئے داخلی قرضوں کے ایک بڑے حجم کو بھی ضبط کر لیا جائے گا۔ بجلی، گیس وغیرہ کے شعبوں میں موجود گردشی قرضوں کو بھی ضبط کر لیا جائے گا۔ بیرونی تجارت پر روز اول سے مزدور ریاست کی مکمل اجارہ داری ہو گی جبکہ ملک میں ہول سیل اور ریٹیل تجارت کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ منظم محنت کش طبقے کی جانب سے تخلیق کردہ ڈسٹریبیوشن سیٹ اپ کے ساتھ تبدیل کر دیا جائے گا۔ ہر شعبے میں مڈل مین کے غیر پیداواری کردار کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
محنت کش عوام کو تعلیم، علاج، صاف پانی اور رہائش سمیت تمام بنیادی سہولیات زندگی کی مفت اور معیاری فراہمی مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ کام کے اوقات کار 6 گھنٹے یومیہ ہوں گے اور ہفتہ وار 2 چھٹیاں ہوں گی۔ اجرتوں کا تعین ”ہر ایک سے اہلیت کے مطابق کام لو اور اہلیت کے مطابق دو“ کے اصول کے تحت ہو گا۔ کام کے اوقات کار میں کمی اور نئی صنعت کاری و سماج کی منصوبہ بند تعمیر و ترقی کے ذریعے بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ چائلڈ لیبر پر مکمل پابندی ہو گی۔ منصوبہ بند معیشت کے تحت لازمی سماجی ضروریات کی تکمیل کے بعد ایک طرف تو محنت کش عوام کو سیر و تفریح اور ثقافتی بڑھوتری کے بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں گے جبکہ دوسری طرف سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
3۔ زراعت
زرعی زمین کی حد ملکیت 12.5 ایکڑ نہری اور 25 ایکڑ بارانی زمین ہو گی۔ اس سے زائد تمام زرعی زمین کو ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے یا تو بے زمین ہاریوں میں کاشت کے لیے بلا معاوضہ تقسیم کر دیا جائے گا یا پھر بڑے ریاستی فارموں کی شکل میں جدید مشینری کے ذریعے زیر کاشت لایا جائے گا۔ چھوٹے اور درمیانے کسانوں کو اجتماعی ملکیت میں لی گئی صنعت کے ذریعے انتہائی سستی بجلی، فرٹیلائیزر اور دیگر زرعی ان پٹس فراہم کی جائیں گی اور انہیں مزدور ریاست کی جانب سے بھرپور تکنیکی سپورٹ فراہم کرتے ہوئے کو آپریٹو فارمنگ کی جانب راغب کیا جائے گا۔ نہری نظام کی تعمیر نو کی جائے گی اور اسے وسعت دی جائے گی۔ آبپاشی کے جدید طریقے رائج کیے جائیں گے تاکہ زراعت میں نہری پانی کا ضیاع کم سے کم ہو۔
4۔ سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر
منصوبہ بندی کے تحت پورے سماج کی ضروریات کے مطابق وافر سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے گا۔ تعلیم اور صحت مکمل طور پر مفت ہوں گی اور اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر ہر سطح کے تعلیمی ادارے کھولے جائیں گے اور ہسپتال و صحت کی دیگر سہولیات تعمیر کی جائیں گی۔ سماجی ضروریات کے مطابق نئی رہائش گاہوں کی تعمیر کے ذریعے بے گھری کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ ہر گھر کی صاف پانی اور سیوریج تک رسائی کو ممکن بنایا جائے گا اور یہ ساری سہولیات بالکل مفت ہوں گی۔ عوام کو سستی ترین ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے پورے ملک میں جدید ریلوے اور سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا۔ انتہائی سستی بجلی کی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر ہائیڈل، سولر، ونڈ پاور وغیرہ کے بیشمار منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ مقامی آبادی کی مرضی و منشا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نئے آبی ذخائر کی تعمیر کی جائے گی۔ سماج کے ہر فرد کی سستی اور جدید مواصلات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔
5۔ مظلوم قومیتیں اور حقِ خود ارادیت
قومی جبر کی ہر شکل اور قسم کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ تمام مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت (بشمول ریاست سے علیحدگی) حاصل ہو گا۔ ہر خطے کے قدرتی وسائل وہاں کے محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں ہوں گے اور ان پر پہلا اختیار بھی انہی کا ہو گا۔ تمام ثقافتوں اور زبانوں کو پھولنے پھلنے کے بھرپور اور یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
6۔ خواتین اور مذہبی اقلیتیں
مزدور ریاست ایک سیکولر ریاست ہو گی جس میں رنگ، نسل، قومیت، مذہب، زبان، صنف کا معاملاتِ ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں اور خواتین کے خلاف بنائے گئے تمام رجعتی اور کالے قوانین کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔ ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کو ان کے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو گی۔
خواتین کو تعلیم اور روزگار سمیت ہر شعبے میں مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ خواتین اور مرد محنت کشوں کی تنخواہ اور مراعات برابر ہوں گی۔ زچگی کے دوران مکمل اجرت کے ساتھ ایک سال کی چھٹی دی جائے گی۔ اجتماعی کچن، لانڈری اور ریاستی سرپرستی میں بچوں کی اجتماعی نگہداشت کے ذریعے خواتین کو صدیوں پرانی گھریلو مشقت سے نجات دلائی جائے گی۔
7۔ ماحولیات
اجتماعی اہمیت کی کسی انتہائی ضرورت کے علاوہ درختوں کے کٹاؤ پر مکمل پابندی ہو گی۔ ایک منصوبہ بند انداز میں شجر کاری مہم چلاتے ہوئے ملک کے کم از کم 50 فیصد رقبے کے برابر جنگلات لگائے جائیں گے۔ تمام دریاؤں اور آبی ذخائر کو آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔ تمام صنعتی فضلے کی لازمی ٹریٹمنٹ کی جائے گی اور اسے مناسب انداز میں ٹھکانے لگایا جائے گا۔ گرین انرجی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے فروغ کے ذریعے فاسل فیولز کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے گا۔
8۔ مزدور ریاست کا انقلابی دفاع
عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں سے مزدور ریاست کے دفاع کے لیے محنت کش طبقے کے سب سے لڑاکا اور سیاسی و نظریاتی شعور یافتہ عناصر پر مشتمل ایک مزدور فوج تشکیل دی جائے گی۔ مزدور فوج میں کوئی کمیشن سسٹم نہیں ہو گا اور افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہ و مراعات برابر ہوں گی۔ افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے ہو گا۔ یہ مزدور فوج محنت کش عوام سے الگ تھلگ چھاؤنیوں میں نہیں بلکہ عام آبادی کے ساتھ رہے گی اور محنت کش طبقے کے شانہ بشانہ باقاعدگی کے ساتھ پیداواری سرگرمیوں میں بھی حصہ لے گی۔ بڑی صنعتوں میں منظم محنت کشوں پر مشتمل ایک مسلح مزدور ملیشیا تخلیق کی جائے گے جو اپنی ٹریڈ یونین تنظیموں اور فیکٹری کمیٹیوں کے تابع ہو گی۔ محنت کش عوام کی تما م عاقل و بالغ آبادی کو لازمی فوجی تربیت دی جائے گی۔
9۔ مزدور ریاست کی انقلابی خارجہ پالیسی
مزدور ریاست عالمی اور علاقائی سطح پر ہر قسم کی سامراجی، قبضہ گیر اور شاؤنسٹ پالیسیوں کی مخالفت کرے گی۔ ماضی میں سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی جانب سے مختلف سامراجی طاقتوں کے ساتھ کیے گئے تمام خفیہ معاہدوں کو منظر عام پر لایا جائے گا۔
مزدور ریاست کی انقلابی خارجہ پالیسی کی بنیاد ”دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!“ کا نعرہ ہو گا۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بڑھوتری اور ایک عالمی سوشلسٹ سماج کا قیام مزدور ریاست کی انقلابی خارجہ پالیسی کا نصب العین ہو گا اور اس مقصد کے لیے مزدور ریاست ہر ممکن ذرائع استعمال کرے گی۔ عالمی انقلاب کی طرف پہلے قدم کے طور پر مزدور ریاست برصغیر کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جدوجہد پر بھر پور توجہ دے گی۔
10۔ مزدور ریاست کا نام اور پرچم
مزدور ریاست کا نام ”یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس“ یعنی سوویت یونین ہو گا اور یہ لینن اور ٹراٹسکی کی بالشویک پارٹی کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلابِ روس 1917ء کا ہی تسلسل ہو گی۔ مزدور ریاست کا پرچم سرخ رنگ کا ہو گا جس میں محنت کشوں اور کسانوں کے اتحاد کی علامت کے طور پر ہتھوڑے اور درانتی کا نشان ہو گا۔