|تحریر:انعم خان|
ہم سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی شکست کے عہد میں جی رہے ہیں، شکست و ریخت کا یہ عمل اگرچہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا، لیکن سماج کی مختلف پرتوں کی جانب سے اس کے خلاف بغاوتیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ معاشی حملے سیاسی و سماجی شعور میں اضافہ کر رہے ہیں اور سماج کی پسماندہ ترین سمجھی جانے والی پرتیں، یعنی خواتین بھی بغاوت کے میدان میں اتر رہی ہیں۔ کسی بھی نظام کی طرح سرمایہ داری بھی اپنی بنیاد یعنی معاشی شکست کا اظہار اپنے دیگر اداروں کی ٹوٹ پھوٹ میں کر رہی ہے۔ سیاست، ریاست، سماج، خاندان، اخلاقیات، نفسیات غرض کہ تمام تر معاشرتی پہلوشدید بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ سیاسی بحران ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک میں ہر طرف طبقاتی تقسیم کو واضح کرتا جا رہا ہے۔ سماجی دولت و سرمایہ پیدا کرنے والے محنت کش طبقے کی محرومیاں اور عذاب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شدت اختیار کر رہے ہیں۔ صدیوں سے سرمایہ داری کا معمول چلے آ رہے عذاب، جن پر سماج کی عمومی اکثریت کی اتنی توجہ نہیں ہوتی تھی، اب وہ نا صرف موضوعِ بحث بن چکے ہیں بلکہ ان کے خلاف تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں۔ خاص کر خواتین کے حوالے سے دیکھیں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہراسمنٹ (Harassment)، ریپ، چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں اور اس جیسے سبھی مسائل کو پہلے ’’چندایک برے لوگوں کی ذاتی بد اخلاقیاں ‘‘سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ان مسائل کویکسر مختلف اور بہتر نقطہ نظر سے دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ آج انہیں انفرادی کی بجائے سماجی یا کلی نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا۔ اور شاید یہی وجہ ہے اب ان کے خلاف غصے اور نفرت کے اظہار میں معیاری اور مقداری وسعت آ رہی ہے۔ عمومی شعور کی یہ وسعت، براہ راست اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کی ہی جھلک ہیں۔
موجودہ دور میں خواتین کے استحصال اور جبر کی وجوہات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ان کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے تمام تر انسانی معاشروں میں خواتین کی اکثریت کے عمومی حالات، اس کی کم تر حیثیت، اس کا معاشی استحصال اور صنفی جبر کی جو انتہائیں ہمیں نظر آتی ہیں یہ ہمیشہ سے وجود نہیں رکھتی تھیں۔ اس کرۂ ارض پر انسان نے جو وقت گزارا ہے اس کے دس میں سے نو حصے انسان نے ملکیت، ریاست، طبقات، جبر و استحصال کے بغیر ہی گزارے ہیں۔ انسان اور سماج کے تاریخی ارتقاء کے مادی حقائق پر مبنی علم البشر یا ت (Anthropology)کا مطالعہ ہم پر واضح کرتا ہے کہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم کا آغاز ہی وہ نقطہ اور بنیاد تھی جس نے عورت کو انسان کے درجے سے گرا کر اسے محض بچہ پیدا کرکے ’مرد‘ کی نسل بڑھاکر اس کی ملکیت کی منتقلی یقینی بنانے والی ’شے ‘ میں بدل کر رکھ دیا۔ عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز کے الفاظ میں عورت کی یہی ’’تاریخی شکست‘ ‘ ہی تھی جس نے اسے معاشرے اور پیداوار کے عمل سے کاٹ کر گھر کی چار دیواری میں قید کر دیا۔ اس کا کردار بچوں کی پیدائش، دیکھ بھال اور گھریلو کاموں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد سے اب تک ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر مبنی طبقاتی تقسیم نے اپنی ہیئت تو تبدیل کی، لیکن عورت کی حیثیت پہلے سے کہیں زیادہ بد تر ہو تی چلی گئی۔ اور یہ سلسلہ آج تک بھی جاری ہے۔ آج بھی زیادہ تر خطوں میں چھوٹی بچیوں کی تمام تر تربیت انہیں شادی کے قابل بنانے کے گرد ہی کی جاتی ہے۔
سرمایہ داری نے عورت کو، مرد مزدور کی نسبت، اس کی سستی محنت کا استحصال کرنے کی غرض سے گھر کی چار دیواری سے باہر تو نکالالیکن اسے گھریلومحنت (خاندانی پرورش اور دیکھ بھال) سے آزاد نہیں کیا، یہی اس کی محنت کا دوہرا استحصال ہے، دنیا کے 83 ممالک میں کئے گئے UN کے سروے کے مطابق خواتین میں مردوں کے مقابلے میں گھریلو دیکھ بھال اور(غیر ادا شدہ )محنت کرنے کی شرح2.6 گنا زیادہ ہے۔ فیکٹریوں، کارخانوں اور اداروں میں عورت اور مرد دونوں کی محنت کو سستے داموں خرید کر ان کا استحصال کیا جاتا ہے، یعنی ان کی اجرت بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ جس سے وہ خود کو زندہ رکھ کر محنت کرنے کے قابل ہوں اور اپنی نسل یعنی مزدوروں میں اضافہ کرتے رہیں گو کہ عورتوں کی اجرتیں مردوں کی نسبت پوری دنیا میں کم ہیں۔ لیکن یہاں عورت کی محنت کا محض دوہرا استحصال ہی نہیں ہوتا بلکہ عورت پر ریپ، جسمانی اور ذہنی ہراسمنٹ، تیزاب گردی، گھریلو تشدد جیسی کئی بھیانک صورتوں میں صنفی جبربھی کیا جاتا ہے۔ یہ جبر و استحصال، ترقی یافتہ ممالک میں ذرا کم ہی سہی لیکن ہر جگہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ ملک چاہے ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، دونوں کی بنیاد ایک ہی ہے اور وہ سرمایہ داری نظام ہے۔
عورت پر ہونے والے صنفی جبر کی مختلف صورتوں کی تمام اقسام کی درجہ بندی تو نہیں کی جا سکتی کہ اذیت کا کون سا عمل اس کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور ریپ ہونا زیادہ تکلیف دہ ہے یا تیزاب گردی کا شکار ہونا۔ درد کی درجہ بندیاں نہیں ہوا کرتیں! لیکن مقدار کے حوالے سے دیکھیں تو دنیا کے سب زیادہ ترقی یافتہ ملک امریکہ میں، سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 13 لاکھ سے زائد خواتین کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔ ریپ کے متعلق بیان کئے گئے ان اعداد و شمار سے باقی ممالک میں موجود صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
لیکن دنیا بھر میں خواتین کے صنفی جبر کے حوالے سے جو عنصر سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ ہراسمنٹ ہے۔ امریکن ہیریٹیج ڈکشنری (American Heritage Dictionary) کی تشریح کے مطابق ہراسمنٹ کے لفظی معانی کسی بھی فرد کو ’’ مستقل تنگ یا زچ کرنا ‘‘ ہیں۔ لیکن اس کی ایک سے زائد شکلیں ہیں۔ اس سلسلے میں UN WOMEN نے اپنی ویب سائٹ پر’’اعداد و شمار؛ عورت پر جبر کا خاتمہ‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو کہ تازہ ترین معلومات پر مشتمل ہے۔ اعداد و شمار اجتماعی کردار کے حامل ہونے کی وجہ سے یقیناً ان انفرادی حادثات کی اذیت کا احاطہ تو نہیں کرتے لیکن معاشرے کی عمومی تصویر کشی میں اہم کردارضرور ادا کرتے ہیں۔ ہراسمنٹ کے متعلق درج ذیل اعداد و شمار صورتحال کی سنگینی کو بخوبی بیان کرتے ہیں۔
• دنیا کی 35 فیصد خواتین، زندگی میں کبھی نہ کبھی جسمانی یا جنسی پارٹنر یا Non-Partner کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی جبر کا نشانہ بنتی ہیں۔
• اسی رپورٹ کے مطابق صرف امریکی شہر واشنگٹن ڈی سی میں 2016 ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک سے زیادہ خواتین نے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے جنسی ہراسمنٹ کا سامنا کیا ہے۔
• دنیا بھر میں بارہ کروڑ لڑکیوں(ہر 10میں ایک سے تھوڑاسا زیادہ ) کو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی جبراً جنسی عمل (Intercourse)یا اس سے ملتے جلتے کام کرنا پڑے ہیں۔ اور یہ جبر نافذ کرنے والوں کی اکثریت شوہر، پارٹنریا بوائے فرینڈ پر مشتمل تھی۔
• یورپی یونین میں ہر دس میں سے ایک خاتون نے 15 سال کی عمر سے سائبر ہراسمنٹ کا سامنا کیا ہے، جس میں انہیں سماجی رابطہ کاری کے نیٹ ورکس پر واضح طور پر جنسی حوالے سے غیر ضروری یا تشدد آمیز ای میلز، ایس ایم ایس، پیغامات موصول ہوئے۔ اور یہ خطرہ سب سے زیادہ 18 سے 29 سال کی نوجوان لڑکیوں کو لاحق ہے۔
• 2015ء میں27 امریکی یو نیورسٹیوں میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق 23فیصد انڈر گریجویٹ طالبات جنسی حملوں یا بد تمیزی کا شکار ہوئی ہیں۔
امریکی اعداد و شمار سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کے حالات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے، ترقی یاقتہ ممالک میں بہر حال زیادہ تر حادثات کو رپورٹ ضرور کیا جاتا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ایسے حادثات کی اکثریت رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی’گرفت ‘ مضبوط ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ایسے حادثات کی تعداد میں کچھ نہ کچھ کمی دیکھنے کو ملتی، لیکن UN کی اسی رپورٹ کے مطابق صورتحال اس کے بر عکس ہے، مجرموں کو سزائیں ہونے کے باوجود بھی حالات نہیں بدل رہے۔ اس کی وجوہات پر ہم آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں ایسے واقعات کورپورٹ کرنا ایسے ہے جیسے جسمانی ریپ کے بعد آپ کا اورآپ کے خاندان کا نفسیاتی ریپ کیا جا رہا ہو۔ خاتون یا لڑکی کی بد نامی اس کے زندگی کے بنیادی مقصد یعنی شادی کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طالبات کی بھاری اکثریت کو درپیش اس ہراسمنٹ کے مسئلے پر کوئی ٹھوس اعداد و شمار موجود ہی نہیں ہیں۔ کام کی جگہوں پر ہونے والی ہراسمنٹ کے حوالے سے Council of Gender Equality اسلام آباد کے اسسٹنٹ ڈائیریکٹر ڈاکٹر وارثی کے مطابق ہر تین میں سے ایک ورکر کو کام کے دوران ہراسمنٹ، دباؤ یا دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص کر محنت کش خواتین میں سے لگ بھگ 99فیصد ہی ایسی صورتحال میں خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ کیونکہ محنت کش خواتین کے لیے روزگار اور(انتہائی قلیل ہی سہی) آمدن ان کے گھرانے کا اکثر اوقات واحد سہارا ہوتی ہے جس کی غیر موجودگی فاقوں کے مترادف ہے۔
لیکن یونیورسٹیوں کا ایک سرسری جائزہ بھی یہ بتاتا ہے کہ ہراسمنٹ کا شکار نہ ہونے والی طالبات ایک یا دو فیصد سے بھی کم ہیں۔ یونیورسٹی کی مہنگی ڈگریاں اوریونیورسٹیوں تک پہنچ پانے کا طالبات کی جدوجہد کا سفر، اوپر سے ہراسمنٹ کی رپورٹ کرنے پر بدنامی اور اس کے اثرات کا خوف مل کر ایک ایسا گھٹن زدہ جال بنا دیتے ہیں جس میں لڑکی کے پاس سوائے برداشت کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ لیکن یہ تمام تر گھٹن اور برداشت اب ایک سلگتے لاوے کی صورت اختیار کرچکی ہے، جس نے سطح پر نمودار ہونا شروع کر دیا ہے۔ تمام تر خوف کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے اعداد و شمار تو میسر نہیں ہیں لیکن انفرادی واقعات اور خاص کر اس پر ہونے والے احتجاجوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ان میں سر فہرست ملتان، حیدر آباد، کراچی کی سرکاری یونیورسٹیوں کے احتجاج اور لاہور میں جی سی یونیورسٹی کے واقعات قابل ذکر ہیں۔ ان احتجاجوں میں میل اور فی میل سٹوڈنٹس نے مل کر ہراساں کرنے والے اساتذہ کے خلاف کامیاب احتجاج کئے ہیں۔ یہ کامیابیاں بہت اہم ہیں، ان میں ہراسمنٹ کے خلاف لڑنے کے طریقہ کار کے ابتدائی بیج موجود ہیں۔
نسوانیت پرست (Feminist) خواتین و حضرات عورت کے دیگر مسائل کی طرح ہراسمنٹ کے مسئلے کو بھی محض صنفی مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہراسمنٹ کا سوال طاقت کا سوال ہے، یعنی طاقتور یا اوپری عہدوں پر فائض مرد اپنے ارد گر د موجود خواتین کو ہراساں کرتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر معاشرے میں موجود طاقتور اور کمزور کی تقسیم کیا صرف صنفی بنیادوں پر وجود رکھتی ہے؟ ایسا نہیں ہے، سرمایہ دارانہ نظام سرمائے کی طاقت کا نظام ہے، اسی لیے طاقتور ہونے کا تعین صنف کی بنیاد پر نہیں پر بلکہ سرمائے کی بنیادپر کھڑا ہے۔ مثلاً ایک خاتون مینیجریا مالک اپنے نیچے کام کرنے والے مردوں اور خواتین پر جو دباؤ رکھتی ہے وہ سرمائے کی عطا کی گئی طاقت کی بنیاد پر رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین پر ہونے والے صنفی جبر کا تعلق خواتین سے منسلک ملکیت کی نفسیات پر منحصر ہے۔ کیونکہ سرمایہ داری کے تحت خواتین کا عمومی کردار اور رتبہ انسان ہونے کی بجائے ایک ایسی شے کا ہے جو مرد کی ملکیت ہے؛ یعنی محض اس کی جنسی تسکین پورا کرنے کی عیاشی کاسامان ہے۔ سرمائے کی طاقت اور سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی تعلقات اور جنسو ں کے باہمی تعلقات اس کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہیں۔ بیٹی، بہن، بیوی، ماں بالترتیب باپ، بھائی، شوہر، بیٹے کی ملکیت ہیں۔ سرمائے کی طاقت اور ملکیت پر مبنی معاشی نظام کو چلانے کا سماجی ادارہ خاندان ہے، جس کی اوپر بیان کی گئی بنت ہی ہراسمنٹ سمیت دیگر تمام عذابوں کی آماجگاہ ہے اور جو اپنے نظام کے معاشی بحران کے جھٹکوں سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ اس ادارے کی ٹوٹ پھوٹ نے سماج کے عمومی عدم استحکا م کی رفتار کو بڑھا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنفی جبر کی تمام شکلوں میں شدت آتی جارہی ہے۔ جو کہ خواتین میں پہلے سے موجود عدم تحفظ کو اور بھی گہرا کر رہی ہے۔
اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ میل شاونزم پر مبنی عمومی سوچ اور رویے اصل بیماری کی علامات ہیں، اس کی وجہ نہیں۔ اور انہیں بدلنے کے لیے طبقاتی استحصال پر کھڑی سرمایہ داری کی اس بوسیدہ عمارت کو تباہ کر کے نئی بنیادیں ڈالنا ہو نگی۔ بول چال، رویے اور نفسیات محض الفاظ کو بدلنے سے، یا نئے الفاظ متعارف کروانے سے نہیں، بلکہ طبقاتی جبر و استحصال کے زہر سے پاک نیا ڈھانچہ تعمیر کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ ’’مجھے کوئی ہراس (Harass) نہیں کر سکتا‘‘ یا ’’No to Harassment!‘‘ کے اپر اور اپر مڈل کلاس کی نسوانیت پرست خواتین کے نعرے اور باتیں، جراتمند ہونے کے باوجود بھی سماج کی اکثریتی خواتین کو لاحق ہراسمنٹ کے مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرتے۔ غالب کا مشہور شعر ہے کہ؛
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے ہو جو، اب راکھ جستجو کیا ہے!
سرمایہ داری میں رہتے ان نسوانیت پرستوں کا حال بھی یہی ہے کہ یہ سرمایہ داری کے جلے ہوئے جسم کی راکھ سے دل یعنی زندگی اور مسائل کے حل کی کوئی کنجی ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر نام نہادبائیں بازو اور لبرل خواتین و حضرات کی طرف سے بڑے شہروں میں عورت مارچ منعقد کئے گئے اور نئی این جی اوز طرز کی تنظیموں کی بنیاد بھی رکھی گئی، جس کی بنیادیں مارکسی فیمینزم یا سوشلسٹ فیمیزم کے نظریات پر رکھی گئیں۔ یوں دو متضاد نظریات اور دھاروں کا ملاپ کروانے کی کاوش کی گئی۔ فیمینزم موجودہ نظام میں طبقاتی تفریق کو نظر انداز کرتے ہوئے صنفی تقسیم کا نظریہ ہے، جو معاشرے کے تمام تر مسائل کی وضاحت صنف کی بنیا د پر کرتا ہے۔ جبکہ مارکسزم مسائل کی وضاحت طبقاتی بنیادوں پر کرتا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ نکلتا ہے مارکسزم صنفی جبر سے انکاری یا اس کے حق میں ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے، مارکسزم وضاحت کرتا ہے کہ صنفی جبر طبقاتی نظام کی پیداوار ہے جس سے لڑنے کے لیے صنفی نہیں بلکہ طبقاتی بنیادوں پر صف بندی کرنا ہوگی۔ اس کے باوجود مارکس وادی موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بھی عورت کی حالات میں بہتری لانے والے معمولی سے عمل کی نا صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ ایسی تمام لڑائیوں کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی مارکس وادیوں اور فیمینسٹوں میں جو فرق ہے وہ نظریے کے ساتھ ساتھ طریقہ کار کا بھی ہے۔ مارکس وادیوں کا طریقہ کار اس لڑائی کو طبقاتی لڑائی سے جوڑتے ہوئے معاشرے کی کُلی بھلائی یعنی محنت کش طبقے کی نجات سے جوڑنا ہوتا ہے۔ جبکہ فیمینسٹوں کا طریقہ کار لڑائی کو صنفی بنیادوں پر تقسیم کر کے اسے کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ فیمینسٹ نہ ہونے اور مارکسسٹ ہونے کا مطلب میل شاونزم کی حمایت کرنا بالکل بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مارکسی صنفی جبر سمیت دنیا میں موجود تمام جبر کی تمام تر اشکال کی برملا مخالفت کرتے ہیں اور ان کے خلاف لڑتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف زیادہ تر فیمینسٹ این جی اوز کے غلیظ دھندے سے وابستہ ہیں اور خواتین پر ہونے والے مظالم کا پراپیگنڈہ کر کے پیسے کماتے ہیں۔
سماج کی عمومی تنزلی میں ہونے والا اضافہ تعلیمی اداروں اور فیکٹریوں اور دیگر کام کے اداروں میں ہراسمنٹ کے عذاب میں بھی تیزی سے اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا کہ خاص کر تعلیمی اداروں میں اس کے خلاف ہونے والے احتجاج، اپنے اندر اس لڑائی کو لڑنے کے ابتدائی بیج رکھتے ہیں، کیونکہ یہ احتجاج محض طالبات کی جانب سے نہیں ہوئے بلکہ طلبا کی بڑی تعداد بھی ان میں شامل تھی، جبکہ ویکٹم طالبات تھیں۔ ہراسمنٹ کے مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کے لیے ہمیں اپنی یونیورسٹیوں میں سنجیدہ مبا حث کا آغاز کرنا ہوگا، سٹڈی سرکلز اور بحثیں منعقد کروانے ہوں گے، جن میں تعلیمی اداروں کی حد تک اس کی روک تھام کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی، مثلاً اس مسئلے کے سد باب کے لیے یونیورسٹوں میں کوئی ڈھانچے ہی موجود نہیں ہیں، کوئی کمیٹی اگر بنتی بھی ہے تو اس میں طلبہ کے منتخب نمائندوں کو شامل نہیں کیا جاتا، حالا نکہ موجودہ قوانین کے مطابق بھی سنڈیکیٹ میں منتخب طلبہ کی یونین کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ ہراسمنٹ سمیت طلبہ کے ایسے ہی دیگر بنیادی مسائل جن میں فیسوں کا اضافہ، اداروں اور ہاسٹلز میں سہولیات کا فقدان، طلبہ کی یکجہتی کی طاقت کو بننے سے روکنے کے لیے غیر معمولی سیکیورٹی کا بندوبست (جو دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں بنتی، بلکہ ان کی معاونت کرتی ہے) وغیرہ، یہی وہ حقیقی مسائل ہیں جو طلبہ یونین کی بحالی کی ضرورت کو اہم ترین بنا رہے ہیں۔
بھتہ خوری، دہشت گردی، بلیک میلنگ، انتظامیہ کی چاپلوسی پر مبنی تعلیمی اداروں کی موجودہ سیاسی فضا کا حقیقی طلبہ سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے طلبہ ونگ تعلیمی اداروں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، جن کی حرکتوں نے سٹوڈنٹس میں سیاست کے خلاف نفرت پیدا کی ہے، یوں یہ طلبہ ونگ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ طلبہ یونین کی بحالی تک سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیاں بنائی جانی چاہئیں جو طلبہ کے منتخب نمائندوں پر مبنی ہوں اور جو ان کے مسائل کی خاطرسیاسی جدوجہد کریں اور انتظامیہ کے آگے ان کی نمائندگی کریں۔ اور جو تعلیمی اداروں سے باہر موجود سماج کو چلانے والی طاقت یعنی مزدوروں تک بھی اپنی جرات مندی کو لے کر جائیں اور انہیں اس نظام کے خلاف منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ محنت کش خواتین کو بھی اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے منظم ہونے کی ضرورت ہے اور اداروں میں یونین سازی کے عمل میں بھرپور سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد میں انہیں ہراسمنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی ضرورتوں اور اجرتوں میں اضافے کی لڑائی کوبھی منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس برائی کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف مزدوروں کی ایک فوج تشکیل دی جاسکے جو ایک انقلاب کے ذریعے اس نظام اور اس کی تمام بیماریوں کا مکمل خاتمہ کرے۔ حقیقی انقلابی پارٹی کی موجودگی میں طلبہ اور محنت کش طبقے کی جڑت ایک ایسی طاقت بن سکتا ہے جو پاکستان کے عوام کواس کے سبھی عذابوں سے نکالنے کا نجات دہندہ بن سکتا ہے۔
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے!