سچائی کیا ہے؟

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: صبغت وائیں |

”ان ڈیفنس آف مارکسزم“ کا نیا سہ ماہی جریدہ آ چکا ہے۔ جس میں ایلن ووڈز کا مندرجہ ذیل اداریہ اس بنیادی سوال پر بحث کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو ٹھیک سے جان اور سمجھ سکتے ہیں، اور یہی اس شمارے کا شروع سے آخر تک موضوعِ بحث بھی ہے۔ اس شمارے کے چار مضامین اس موضوع کے متعلق وسیع پیمانے پر سوالات اٹھاتے ہیں: ہم عصر سائنس کا بحران اور جمود، تصوف، کوانٹم فزکس کی تشریح میں، گوئٹے کے فاؤسٹ کی فلسفیانہ بصیرت، اور ماؤ کی فلسفیانہ تحاریر پر تنقید۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

سچائی کیا ہے؟ یہ پیلاطسؔ نے مسیحؔ سے پوچھا تو تھا، لیکن اس نے جواب کا انتظار نہیں کیا تھا۔

یوں فرانسس بیکنؔ کا مضمون، ”سچائی کے بارے میں“ شروع ہوتا ہے۔ بیکنؔ سینٹ جانؔ کی انجیل کا حوالہ دے رہا تھا، جس میں یسوع سے جب رومی گورنر نے سوال کیا تو اس نے کہا تھا: ”میں دنیا میں سچائی کی گواہی دینے آیا ہوں“۔

جس کے جواب میں پیلاطس، خاصے گہرے اور چبھتے ہوئے طنز سے یہ الفاظ کہتا ہے: ”سچائی کیا ہے؟“ ان چند الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ [خبطی] لفظ کے جدید معنوں میں ایک خبطی تھا (حالانکہ غالباً ایسا ہی تھا) بلکہ ایک پڑھا لکھا آدمی تھا، اور ایک ایسے نقطہ نظر کا حامل تھا جو تارک الدنیا قسم کی جاگیردار رومن اشرافیہ میں عام تھا۔

پیلاطس نے اس سادہ سی وجہ سے جواب کا انتظار نہیں کیا کہ اسے یقین نہیں تھا کہ اس بات کا جواب ممکن ہے۔ اس دور کا مقبول ترین فلسفہ– ایک زوال پذیر سماج کی پیداوار– اسی بات پر زور دیتا تھا کہ سچائی کے کسی بھی قسم کے معروضی تصور تک پہنچنا ناممکن ہے۔

اس قسم کی انتہائی موضوعیت (موضوعی عینیت پرستی) کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ فلسفے میں وقتاً فوقتاً ایک قسم کے اعصابی مروڑ کی صورت میں ابھرتا ہی رہتا ہے، یا یوں کہیے، ایک ایسا دورہ پڑتا ہے جس میں انسان معروضی سچائی سے ملتی جلتی کسی بھی چیز تک پہنچنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔

اس (دورے) کا سب سے مکمل اور واضح اظہار مشہور یونانی سوفسطائی، لیونٹینیؔ کے گورجیاس کی تحریروں میں ملتا ہے، جس نے زور دے کر کہا تھا: (1) کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ (2) اور اگر کچھ ہے بھی تو اس کی ماہیت تک پہنچنا ممکن نہیں ہے؛ اور (3) اگر اسے سمجھا جانا کسی طور ممکن ہے بھی، تو اسے کسی دوسرے شخص کو بتا پانا ہرگز ممکن نہیں ہے۔

گورجیاس جیسے سوفسطائی اس فلسفیانہ نقطہ نظر کے جدِ امجد تھے جس کو تشکیک Scepticism کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر، ہیوم اور کانٹ اس [گورجیاس] سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہ ایک ہی موضوع پر مختلف قسم کی چاند ماری ہے۔ اس بات کو بشپ برکلے نے اپنی انتہا تک پہنچا دیا تھا، جس کا جواب لینن نے اپنے ایک اہم ترین نظریاتی کام، مادیت پسندی اور تجربی تنقید میں تفصیل سے دیا تھا۔

لیکن غالباً ایک مخصوص قسم کی تشکیک [تشکیک کا ایک معنی عقیدہ پرستی کے رد کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ جس میں بغیر تحقیق کیے کسی بھی چیز کو نہیں مانا جاتا۔ یہ سائنسی تشکیک ہے۔ لیکن یہاں تشکیک کو بطور اصطلاح کے برتا گیا ہے۔ اپنے ارد گرد کی دنیا کو قابلِ ادراک نہ ماننا فلسفے میں تشکیک کہلاتا ہے۔ تشکیکیت کا یہ مکتبہئ فکر قدیم یونان سے چلا آ رہا ہے، ایلن ووڈز اس کے متعلق بتا رہا ہے۔ مترجم] کا سب سے با اثر پرچارک اٹھارہویں صدی کا عظیم جرمن فلسفی، ایمانوئل کانٹ تھا۔

کانٹ

کانٹ اپنے زمانے کے اصلی ترین اور اہم ترین مفکرین میں سے ایک تھا۔ اس نے بہت سی شان دار دریافتیں کیں، خاص طور پر فلکیات کے میدان میں۔ تاہم، وہ فلسفیانہ ثنویت کے پھندے سے بچنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو پایا، جس کے مطابق خیال کی دنیا اور مادی دنیا ایک دوسرے سے آزاد اور الگ تھلگ وجود رکھتی ہیں۔

جب اس نے مادی دنیا کو جاننے کی راہ میں موجود ناقابلِ حل تضادات کو دریافت کیا تو اس نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہمارے جاننے کی قوتوں میں لازماً قطعی قسم کی بندش موجود ہے۔

کانٹ سمجھتا تھا کہ سوچنے والے فرد اور سوچی جانے والی چیز کے مابین ایک ناقابلِ عبور خلیج حائل ہے۔ کانٹیئن نظریے کے مطابق حقیقت کو جاننے کے لیے مختلف نوعیت کے آلات استعمال کرتے ہوئے ہم مسلسل حقیقت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اس لیے اس نے دعویٰ کیا کہ ہمیں صرف مظاہر کا علم ہو سکتا ہے– چیزیں جیسی کہ کسی دیکھنے والے کو نظر آتی ہیں۔ اس طرح انسانی علم صرف حسی ادراک کے ظاہری یا سطحی علم تک محدود ہوتا ہے، جس کی پہنچ سے دور اس پُر اسرار ”شے فی الذات“ (das Ding an sich) کا وجود تھا، جس کے بارے اس نے ناقابلِ جانکاری unknowable ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

آج کی تشکیکیت

کانٹ کے بعد تشکیکیت ہر بار ایک نیا بھیس بدل کے سامنے آئی ہے۔ اس کا ہر ایک بہروپ مختلف ہو سکتا ہے، لیکن بنیادی مواد ایک ہی رہتا ہے: کہ انسانی علم محدود ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو کبھی جانا نہیں جا سکتا۔

کچھ فلسفی (جو اگرچہ حیرت ناک طور پر تجربیت کو اپنے نقطہ آغاز کے طور پر لیتے ہیں) فرض کرتے ہیں کہ دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ دوسرے اس مسئلے سے مکمل طور پر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عینیت پرستی اور مادیت پسندی کے مابین اختلاف ایک ’نان ایشو‘ ہے اور یہ محض زبان کے غلط استعمال یا غلط فہمی کی پیداوار ہے۔

یہی تشکیکی رویہ آج مدرسانہ دنیا میں نظر آتا ہے، جہاں آج کے جدید دور میں وہی گلے سڑے، بدنام اور ردے ہوئے سالخوردہ نظریات کے مُردے میں نظر بچاتے ہوئے خاموشی کے ساتھ تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر نام نہاد مابعد جدیدیت postmodernism کا نام دے کر جان ڈالی جا رہی ہے۔

یہاں، جعلی معروضیت کے ہلکے پھلکے سوانگ کے پیچھے چھپے ہوئے پیٹی بورژوا دانشوروں کی نرگیست کا جوھر کھلم کھلا ننگا ناچ کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس گھڑی گھڑائی راہ پر آنکھیں بند کر کے چلتے ہوئے جدید بورژوا فلسفہ ایک اندھی بند گلی میں پہنچ کر رک چکا ہے۔

سچ کی جگہ، ہمارے پاس صرف میرا سچ ہے، میری ذاتی رائے ہے، کیونکہ یہ وہ سب کچھ ہے جسے میں جاننا چاہتا ہوں۔ اصل معروضی سچائی کی تلاش یہاں مکمل طور پر مسدود ہو جاتی ہے، کیونکہ میرا سچ بھی اسی قدراچھا ہے، جتنا کہ آپ کا سچ۔ در حقیقت، اس نظریے کے مطابق، میری سچائی لامحدود طور پر برتر ہے، کیونکہ صرف میں ہی موجود ہوں۔

ایک عدم تعقلی رجحان

آئیے اس بارے میں معاملے کو مکمل طور پر سمجھ لیں۔ اگر تو کوئی اس نقطہ نظر کو مان لیتا ہے تو یہ نہ صرف تمام فلسفے، بلکہ بالکل عام سوچ کے خاتمے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ تمام سوچ کو محض داخلیت تک اور قطعی متعلقیت (ریلے ٹیویٹی) تک کی سطح پر لے آتا ہے، جس میں میری سچائی آپ کے ’سچ‘ ہی کی طرح اچھی ہے، کیونکہ تمام سچائی محض موضوعی رائے ہے۔

علم کی جگہ ہمارے پاس محض رائے ہے۔ سائنس کی جگہ ہمارے پاس ایمان ہے۔

ٹھوس بنیادوں پر استوار مادیت پسندوں کے طور پر، مارکسسٹ اس نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہیں۔ فلسفیانہ مادیت تصورات پر مادے کی فوقیت پر زور دیتی ہے اور اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ خیالات، سوچ وغیرہ صرف ایک خاص ترکیب سے منظم مادے کی خصوصیات ہیں۔

اس لیے آئیے ہم پونٹیئس پیلاطس کے سوال کا جواب دینے کی زحمت اٹھاتے ہیں۔ سچائی سے ہماری مراد انسانی علم ہے جو معروضی دنیا، اس کے قوانین اور خواص کی درست طور پر عکاسی کرتا ہے۔

ساری کی ساری سائنس کی بنیاد اس حقیقت پر قائم ہے کہ:

(الف) یہ دنیا ہم[ہماری سوچ] سے باہر موجود ہے، اور

(ب) اصولی طور پر ہم اس کو جان سکتے ہیں۔

ان دعووں کے ثبوت، اگر ثبوت درکار ہیں تو وہ سائنس کی 2000 سال سے زیادہ کی پیش قدمی پر مشتمل ہیں، یعنی جہالت پر علم کی مسلسل فتح۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وقت کے کسی بھی موڑ پر قدرتی طور پر ایسی بہت سی چیزیں ہوں گی جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ اور چوں کہ فطرت کو خلا نہیں پسند تو ہمارے علم کے اندر موجود یہ خلا بھی آسانی کے ساتھ مذہبی اور تصوف کی خرافات پُر کر سکتی ہیں۔ نام نہاد ”لاعلمی کا اصول“ جس کو بین کریؔ نے اپنے مضمون ’کوانٹم فزکس میں عینیت پسندی‘ میں بیان کیا ہے، سائنس کی دنیا میں اس تصوف کی بہترین مثال ہے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے کہ دنیا کے قدیم نقشوں میں غیر دریافت شدہ خِطوں پر ”یہاں جنات رہتے ہیں“ لکھ دیا جایا کرتا تھا۔

لیکن ”ہم نہیں جانتے“ اور ”ہم جان نہیں سکتے“ کہنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمیشہ بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم نہیں جانتے۔ لیکن جو ہم آج نہیں جانتے، وہ لازمی طور پر کل جان لیں گے۔ دنیا کو جاننے کا عمل فطرت کے رازوں کے اندر تک جا کر، مادی دنیا کے بارے میں ہمارے علم کو مستقل طور پر آگے بڑھاتا اور گہرا کرتا چلا جاتا ہے۔

لاعلمی سے علم کی جانب

سچائی کی تلاش میں فطرت کے اندر مسلسل گہرائی تک اترنے والا یہ سفر ایک نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔ سائنس کی ترقی ’ماننے اور مسترد کرنے‘ کا ایک مستقل عمل ہے، جس میں ایک خیال دوسرے کو رد کرتا ہے، اور بدلے میں وہ خود بھی (وقت آنے پر) رد ہو جاتا ہے، جیسا کہ ایڈم بوتھؔ نے اپنے مضمون ’آج کی سائنس کا بحران‘ میں وضاحت کی ہے۔ اس عمل کی کوئی اخیر نہیں ہے؛ (لیکن) یہ کسی ایسی روک کو نہیں جانتا جو کہ ناقابلِ عبور ہے، اور ہر بار کسی بھی رکاوٹ کا سامنا ہونے پر آخر کار اس کو عبور کرتے ہوئے اس کی نفی کر دی جاتی ہے۔

اس طرح باشعور ’فاعل‘ اور خارجی ’شے‘ کے مابین موجود تضاد پر علم کے اس عمل میں معروضی دنیا کے بھیتر تک رسائی پاتے ہوئے قابو پا لیا گیا– اور ایسا محض سوچ کے ذرائع استعمال کر کے نہیں کیا گیا، بلکہ ان سب سے بڑھ کر انسانی محنت کا استعمال کرتے ہوئے (ایسا ممکن ہوا ہے)، جس سے کہ انسان اس دنیا کو (اپنے لیے) تبدیل کرتا ہے، جس کے نتیجے میں خود کو بھی تبدیل کرتا ہے۔

سائنس کی پوری تاریخ سوائے علم تک پہنچ پانے کی ایک مسلسل جدوجہد کے سوا کچھ بھی نہیں، لاعلمی کے دور سے گزرتے ہوئے علم کے حصول کا سفر۔ سچائی کی یہ نہ ختم ہونے والی کھوج مختلف نظریات کے عروج و زوال سے ظاہر ہوتی ہے، جن میں سے ہر ایک گزرے ہوئے نظریے کی باتوں سے متصادم ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے ضروری مواد کو برقرار بھی رکھتا ہے۔

اپنی ایک قابلِ ذکر کتاب سائنسی انقلابات کی ساخت (جو کہ پہلی بار 1962ء میں شائع ہوئی تھی) میں تھامس کوہنؔ نے سائنسی پیرا ڈائم کی مثال اس طرح سے دی ہے: ”عالمی طور پر تسلیم شدہ سائنسی کامیابیاں جو کہ ایک مخصوص وقت کے کام کرنے والوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو درپیش مسائل اور ان کے حل کو فراہم کرتی ہیں“۔

ایک وقت کے لیے، موجودہ پیرا ڈائم کو بالکل موزوں اور درست سمجھا جاتا ہے۔ تسلسل اور مجموعی ترقی کے یہ طویل ادوار ”معمول کی سائنس“ کے ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ موجودہ پیرا ڈائم کو عالمی طور پر قبول کیا جاتا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو سائنس کو عمومی انداز میں درست طور پر نظریاتی فریم ورک کے اندر منظم لحاظ سے آگے بڑھنے کے قابل بناتی ہے۔

تاہم، تمام نظریات کی لازمی طور پر مشاہدے اور تجربے کے ذریعے مسلسل جانچ پرکھ ہونی چاہیے۔ ایک مدت تک، کچھ بے ضابطگیاں ظاہر ہوں گی، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ موجود پیرا ڈائمز کے لیے کوئی سنگین چیلنج ہوں۔ تاہم، وقت کے ایک خاص مقام پر، مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تضادات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں، اور بالآخر پرانے پیرا ڈائم کے خاتمے کا باعث بنتے ہیں، جسے ایک نئے اور اعلیٰ تر نمونے سے بدلنا ضروری ہے۔ جمود کو اچانک ”انقلابی سائنس“ کے ادوار سے توڑ دیا جاتا ہے۔

کوہنیؔ بحران اور سائنسی انقلاب کی ایک شاندار مثال اس وقت کائنات کے میدان میں ہماری آنکھوں کے سامنے– یا اس کے بجائے بند دروازوں کے پیچھے– چل رہی ہے۔ کئی دہائیوں سے، کائنات کی سائنسی تفہیم اور مطالعہ نام نہاد ’معیاری ماڈل‘ کے ارد گرد تک ہی مبنی ہے۔ اس میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ تمام مادّہ، وقت اور خلاء ایک ’بگ بینگ‘ کی واحدیت میں پیدا ہوئے، جس کی مدت تخمیناً لگ بھگ 14 ارب سال پہلے کی لگائی گئی تھی۔

تاہم، جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے فراہم کردہ دور دراز کی کہکشاؤں کے حالیہ مشاہدات نے اس عام طور پر قبول شدہ نظریہ کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں۔ بگ بینگ کے ماڈل کی حدود میں، ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ یہ دور دراز کی کہکشائیں اتنی بڑی اور ارتقاء یافتہ ہوں، جتنی کہ یہ ہیں۔ یہ تازہ ترین ثبوت، دوسرے لفظوں میں، ایک بڑی بے ضابطگی ہے، جو موجودہ پیرا ڈائم سے متصادم ہے۔

جیسا کہ کوہن نے پیش گوئی کی تھی، اس نے سائنسی برادری کے اندر ایک بحران کو جنم دیا ہے۔ ایک دھڑا اپنے سروں کو ریت میں چُھپا رہا ہے، حقائق کو اپنے برباد ہو چکے نظریے کے مطابق بنانے کے لیے مزید دھول اڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ دوسرا دھڑا مایوسی کی دھند میں گھر کر پورے ماڈل پر سوال اٹھانا شروع کر رہا ہے– جس پر بہت سے لوگوں کے کیریئر اور شہرت کا دار و مدار ہے۔

ابھی تک تو یہ بحثیں بڑی حد تک عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل صرف سائنسی اسٹیبلشمنٹ کے اندر ہی اندر ہو رہی ہیں۔ لیکن آخر کار کاسمولوجی کے اندر کا یہ بحران سب کے سامنے آ کر پھٹ جائے گا، جس سے بنیادی طبیعیات کے میدان میں پیرا ڈائم شفٹ– ایک انقلاب– کی راہ ہموار ہو گی۔

متعلقاتی Relative یا مطلق؟

عرصہ دراز تک ہم موجودہ پیرا ڈائم کو ایک مطلق سچائی کے طور پر قبول کرتے رہتے ہیں۔ صرف آخری تجزیے میں، جب مطلق سچائی اپنی نامکمل اور متضاد نوعیت کو ظاہر کر دیتی ہے، تب ہی اس کا بنیادی طور پر متعلقاتی اور عارضی کردار واضح سامنے آتا ہے۔ تو کیا ہم اس حقیقت سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں درست ہیں کہ سچائی نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے، اور اس لیے، جیسا کہ پونٹیئس پیلاطس نے سمجھا، اس کی تعریف کرنے کی کوشش کرنا بھی فضول ہے؟

نہیں، ہم ایسی کسی بات کا نتیجہ اخذ کرنے کے حقدار نہیں ہیں۔ سچائی کوئی مطلق چیز نہیں ہے جو ہمیشہ کے لیے مقرر اور یکساں ہو۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل تضادات، اثبات اور نفی کے کبھی نہ ختم ہونے والے گھیرے میں چلتا رہتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ اور انسانی سماجی ارتقاء کا سارا سفر علم کی وضاحت، اس کو گہرا کرنے کی اور اس کی تصدیق کرنے کی (جدوجہد) ہے۔

اس معنی میں (اور صرف اسی ایک معنی میں) سچائی کو متعلقاتی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ارتقاء کا مسلسل ترقی پذیر وہ عمل ہے، جو کبھی آرام سے نہیں بیٹھتا، بلکہ کائنات کے مخفی بھیدوں کے بھیتر میں جا کر مسلسل کھودنے کی کوشش میں مشغول عمل رہتا ہے۔ یہ وہی موضوع ہے جس کو گوئٹے نے اپنے مہاکاوی شاہکار فاؤسٹ میں اٹھایا تھا، جس پر جوشؔ ہولرائڈ نے اپنی تحریر میں بات کی ہے۔

یہی وہ چیز ہے جو سچائی کو ایک عقیدے میں تبدیل ہونے پر روک لگاتی ہے، یعنی ہم کبھی بھی ناقابل تغیر مطلق تک نہیں پہنچ پائیں گے، کیونکہ کائنات بذات خود لامحدود ہے، اور مسلسل بدلتی رہتی ہے، جس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا۔

سچائی کی تلاش ہونی ہے، کسی ایسے تخیلاتی حتمی نتیجے کی صورت میں نہیں، جو ہمارے تمام شکوک و شبہات اور مشکلات کو دور کر دے، بلکہ اس لامتناہی دریافت کے عمل میں جو ہمیں اکیلا ایک ایک کر کے اور قدم بہ قدم اس حیرت ناک، پُر پیچ اور لامتناہی طور پر حسین کائنات کے سربستہ راز آشکارا کرنے کے قابل بناتا ہے۔

ہیگل نے سائنس آف لاجک میں لکھا ہے کہ یہ محدود کی فطرت ہے کہ وہ اپنی حد سے گزر جائے، اپنی نفی کی نفی کرے اور لامحدود ہو جائے۔ [ہیگل کے مطابق محدود اپنی فطرت میں ادھورا اور نامکمل ہے۔ یہ حد ہی اس کی نفی ہے۔ تاہم یہ نفی ایک مستقل یا ساکت و جامد حالت نہیں ہے بلکہ یہ ایک متحرک عمل ہے۔ نفی کی نفی میں محدود اپنی محدودیت سے مزاحمت کرتے ہوئے اس کی نفی کرتا ہے۔ یہ نفی ’ہونے‘ یعنی being کا ایک اعلیٰ درجہ ہے، جو حدوں کو پھلانگ کر لامحدود ہو جاتا ہے۔ مترجم]

یہ ایک بہت گہری سچائی ہے۔ علم کے لیے نوع انسانی نے ہمیشہ ان روکوں کے ساتھ سنگھرش کیا ہے، جو پہلی نظر میں ناقابل عبور معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن رکاوٹیں بالآخر دور تو ہو جاتی ہیں، صرف نئی رکاوٹیں اور نئی چنوتیاں پیدا کرنے کے لیے، جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم ایک مطلق سچائی کی تلاش کر رہے ہیں، جو آخر کار ہمیں یہ کہنے کے قابل بنا دے کہ: ”ہم اب سب کچھ جان چکے ہیں، اور دریافت کرنے کے لیے مزید کچھ بھی نہیں بچا“، تو وہ دن کبھی طلوع نہیں ہو گا۔

کائنات لامحدود ہے، لیکن انسانی علم کی صلاحیت بھی اتنی ہی لامحدود ہے جتنی کہ خود کائنات۔ اور واحد مطلق تبدیلی ہے۔

آخری تجزیے میں، کائنات کے تمام علم کے گہرے ہونے کا یہ لامتناہی عمل ہی حقیقت کی تشکیل کرتا ہے۔

مارکسزم کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

خود مارکسزم کے حوالے سے ہم اس سے کیا مراد لے سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مارکس اور اینگلز کے نظریات ہمیشہ کے لیے درست رہیں گے؟ یہ مارکسزم کے اپنے جدلیاتی جوہر کے سامنے بھک سے اڑتا دکھائی دے گا۔

انسانی فکر میں ان تمام پیچیدہ تبدیلیوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا ایک لایعنی کام ہو گا جو لامحالہ مستقبل میں رونما ہوں گی۔ میں ایسی کھوکھلی قیاس آرائیوں میں الجھنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ تاہم، ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں کسی وقت، نئے خیالات ابھریں گے جو پرانے خیالات کی جگہ لیں گے- حالانکہ، جیسا کہ ہیگل نے وضاحت کی، یہ اکثر غیر ضروری تصورات کو ترک کرنے کا عمل ہوتا ہے، جو کہ ماضی کی ہر اس چیز کو محفوظ کر لیتا ہے جو کہ قیمتی، مفید اور ضروری تھی۔

یہ مشاہدات لازمی طور پر دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ مارکسزم پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ تاہم، اس وقت، مارکسزم کے نظریات نے بلاشبہ یہ حق حاصل کر لیا ہے کہ عمل کے لیے ایک ضروری رہنما کے طور پر اس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ بورژوازی کے ان گھٹیا نظریات کے بارے میں ایسا کبھی نہیں کہا جا سکتا، جو ایک میدان کے بعد دوسرے میں جھوٹے ثابت ہوتے رہے ہیں۔

اس حقیقت کی جانب اتنا اشارہ کر دینا کافی ہو گا کہ بورژوا ماہرین اقتصادیات کی بڑھتی ہوئی تعداد اب داس کیپیٹل کا مطالعہ کر رہی ہے تاکہ سرمایہ داری کے موجودہ بحران کا کچھ اندازہ لگایا جا سکے، جس کے بارے میں ان میں سے کوئی ایک بھی پیش گوئی کرنے یا وضاحت کرنے کے قابل نہ تھا۔

بالغ ہونے کے بعد کی اپنی پوری زندگی میں، میں نے مارکسزم کا مطالعہ کرنے کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ میں نے مارکسزم کے ناقدین کے کاموں کو پڑھنے کی زحمت اٹھانے کے ساتھ ساتھ متعدد متبادل نظریات پر غور بھی کیا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی بھی نظریے کا موازنہ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے تخلیق کردہ کاموں کی دیو ہیکل شان اور گہرائی سے نہیں کیا جا سکتا۔

یہ خیالات اکیلے ہی وقت کی کسوٹی پر پورے اترے ہیں۔ لہٰذا ہم اس کو مستقبل پر بحفاظت چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں کچھ بہتر فراہم کرے۔ جب تک وہ خوشگوار دن طلوع نہیں ہوتا، میں اپنے آپ کو سائنسی سوشلزم کی ٹھوس بنیادوں پر استوار کرتا رہوں گا، جب تک کوئی مجھے اس کے برعکس قائل کر پانے کے قابل نہ ہو جائے، میں اس کو بطور مطلق سچائیوں ہی کے مانتا رہوں گا– کم از کم اب کے لیے۔ اور یہی بہت کافی ہے۔

Comments are closed.