ٹرمپ ازم کیا ہے؟

|تحریر: برائس گورڈن، ترجمہ: ولید خان|

امریکیوں کو یہ سننے کی عادت پڑ چکی ہے کہ ہر انتخاب ”ہماری زندگیوں کا اہم ترین (انتخاب) ہے“۔ اس سال دونوں امیدواروں نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بحث عام کر دی ہے کہ یہ انتخابات امریکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں۔ ”ٹرمپ کی حمایت یا مخالفت؟!“۔ دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے اس سوال کو بقاء کا سوال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ ازم کیا ہے؟ اس سوال پر بہت زیادہ ابہام موجود ہے۔ اس بیماری کی درست تشخیص کیے بغیر یہ سمجھنا ناممکن ہے کہ امریکی سماج کی سمت کیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

عدم استحکام کا عہد

ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک امریکی حکمران طبقے نے حیران کن سیاسی استحکام کے مزے لوٹے ہیں۔ لیکن صورتحال 2016ء میں تبدیل ہونی شروع ہو گئی جب عام انتخابات میں دہائیوں سے جاری معاشی گراوٹ اور طبقاتی غم و غصہ پھٹ کر سطح پر نمودار ہو گئے۔ معاشی قوم پرستی اور تارکین وطن، خواتین اور دیگر محکوم اقوام کے حوالے سے شاونسٹ شعلہ بیانی کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ معاشی بحالی کرے گا اور ”سب سے پہلے امریکہ“ ہو گا۔ اس نے اپنے آپ کو واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ”باہر کا فرد“ بنا کر پیش کیا جو امریکی عوام کی بہتری کا خواہش مند ہے اور اس کے نتیجے میں اس نے ریپبلیکن پارٹی پر قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔

لبرلز ٹرمپ کے ابھار کو غیر معمولی اور قابل تاسف حادثہ دیکھتے ہیں اور پریشان ہیں کہ ”آمریت کی جانب“ مسلسل بڑھا جا رہا ہے۔ اگرچہ کچھ اعتراف کرتے ہیں کہ اس نے حقیقی مایوسی کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے لیکن اسے عام طور پر ایک شاطر فرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو اکیلے ہی ملک کا جمہوری پردہ چاق کر سکتا ہے۔ لیکن سیاسی رجحانات آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ ایک خیال کو ارتقاء پذیر ہو کر سماج میں جڑیں بنانے کے لیے در پیش مسائل کا حل سمجھا جانا ایک کلیدی عمل ہے۔

ٹرمپ کے ابھار کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ سماج میں خیالات کیسے جنم لیتے اور اثر انداز ہوتے ہیں۔ کارل مارکس نے اس حوالے سے 1859ء میں اپنی کتاب ”سیاسی معیشت پر تنقید میں حصہ“ کے دیباچے میں لکھا کہ:

”اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے افراد سماجی پیداوار میں حصہ ڈالتے ہوئے ناگزیر طور پر ٹھوس تعلقات میں بندھ جاتے ہیں جو ان کی خواہشات سے بالاتر ہوتے ہیں یعنی پیداوار کی مادی قوتوں کے ارتقاء میں کسی بھی سطح کی مناسبت سے پیداواری تعلقات۔ ان پیداواری رشتوں کی کلیت سماج کا معاشی ڈھانچہ بناتی ہے، حقیقی بنیاد، جس پر ایک قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے اور جس سے سماجی شعور کی ٹھوس شکلیں منسلک ہوتی ہیں۔ مادی زندگی کی پیداوار کا ذریعہ ہی سماجی، سیاسی اور دانشورانہ زندگی کے عمومی عمل کی تراش خراش کرتا ہے۔ یہ افراد کا شعور نہیں ہے جو ان کے وجود کا فیصلہ کرتا ہے بلکہ یہ ان کا سماجی وجود ہوتا ہے جو ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ ارتقاء کے ایک مخصوص مرحلے پر سماج کی مادی پیداواری قوتیں موجودہ پیداواری رشتوں کے ساتھ ٹکراؤ میں آ جاتی ہیں یا اسی صورتحال کی قانونی اصطلاحات میں تشریح کی جائے۔۔ ان ملکیتی رشتوں کے ساتھ (ٹکراؤ) جو پہلے (موجودہ بالائی) ڈھانچے میں فعال تھے۔ پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں معاون یہ تعلقات رکاوٹوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پھر سماجی انقلاب کا عہد شروع ہوتا ہے۔ معاشی بنیادوں میں تبدیلیاں جلد یا بدیر پورے دیو ہیکل بالائی ڈھانچے کی تبدیلی کا موجب بن جاتی ہیں۔“

یعنی خیالات آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ وہ سماجی وجود کے عمل میں نمودار ہوتے ہیں جن کی مادی اور معاشی بنیادیں ہوتی ہیں۔ ٹرمپ نے ضرور امریکی سماج اور معاشی تعلقات میں موجود کسی ٹھوس چیز کو متوجہ کیا ہے جس نے اس کا پیغام زبان زدِ عام کر دیا ہے۔ بطور مارکس وادی ہمیں ہر صورت ”معاشی بنیادوں میں تبدیلیوں“ کی نشاندہی کرنی ہے جنہوں نے امریکی سیاسی بالائی ڈھانچے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔

ٹرمپ ازم: ارتقاء کی نصف صدی

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سرمایہ داری پوری دنیا میں سب سے طاقتور سامراجی قوت بن کر ابھری۔ یورپ اور جاپان مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکے تھے۔ جنگ میں 3 کروڑ 65 لاکھ یورپی جبکہ 4 لاکھ 5 ہزار امریکی قتل ہو چکے تھے۔ یورپ کی سب سے طاقتور معیشت جرمنی کو 1890ء کی صنعتی پیداوار کی سطح پر دھکیلا جا چکا تھا۔ اس دوران امریکی صنعت پوری آب و تاب سے پیداواری عمل میں مصروف تھی۔

جنگ کے بعد سالہا سال امریکہ کا پوری دنیا میں بننے والی کل مینوفیکچرنگ میں 43 فیصد، اسٹیل میں 57 فیصد اور گاڑیوں میں 80 فیصد حصہ تھا۔ اس کے ساتھ نئی ٹیکنالوجیوں اور جنگی پیداواری ضروریات پوری کرنے کے لیے پیداواری قوتوں میں بڑھوتری نے سرمایہ دارانہ تاریخ کے سب سے خوشحال عہد کو جنم دیا جس کے ساتھ معیار زندگی میں شاندار بہتری ہوئی۔ صنعت دن رات فعال تھی، منافع بخش سرمایہ کاری کے وسیع ترین مواقع موجود تھے اور سرمایہ داری عمومی طور پر تیزی سے پھیل رہی تھی۔ 1945-46ء میں ایک دیوہیکل ہڑتالی لہر کے نتیجے میں بہتر اجرتیں اور سہولیات حاصل ہو گئیں اور عام امریکی محنت کشوں کو سماجی مراعات جیسے پینشن اور صحت انشورنس بھی میسر آ گئیں۔

اس عہد میں مینو فیکچرنگ اشیاء کی عالمی تجارت میں امریکی حصہ 1933ء میں 10 فیصد سے بڑھ کر 1953ء میں 29 فیصد ہو گیا۔ بیروزگاری کم تر سطح پر تھی، اجرتیں بڑھ رہی تھیں اور محنت کش آسانی سے مینوفیکچرنگ نوکریاں حاصل کر رہے تھے، جن کے ذریعے وہ گھر خرید رہے تھے اور خاندان بنا رہے تھے۔ 1946-73ء کے دوران حقیقی گھریلو آمدن میں 74 فیصد اضافہ ہوا اور امریکیوں کے لیے معیاری اور سستی رہائش، تعلیم، صحت، تفریحی وقت وغیرہ وغیرہ میسر رہے۔

ان سالوں نے امریکی محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ کئی نسلوں میں یہ خیال پروان چڑھا کہ امریکی سرمایہ داری میں یہ حالاتِ زندگی ”معمول“ ہیں۔ آج بھی آپ کو پرانی نسلیں مل جاتی ہیں جو ماضی کو یاد کرتی ہیں کہ ”وہ اچھے دن“، ”جب ہم امریکہ میں اشیاء بناتے تھے“۔ کھانے کی جگہوں، ہائی اسکول فٹ بال کھیل، کوکا کولا اشتہارات اور نئے رہائشی مضافات کے نقوش ذہن میں ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ دانستہ طور پر مسلسل ”امریکہ کو پھر سے عظیم بنا دو“ کا وعدہ کر کے اُس عہد کی پرانی یادوں کو استعمال کر رہا ہے۔

لیکن یہ معمول نہیں غیر معمول تھا اور اس کا ظہور جنگ کے بعد مخصوص سیاسی اور معاشی عوامل کے ادغام میں ممکن ہوا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں ایک عالمی معاشی بحران اور زیادہ سنجیدہ سامراجی مخالفین کے دوبارہ ابھار میں امریکی حکمران طبقہ محنت کش تحریک پر حملہ آور ہو گیا اور سرمایہ داری ایک مرتبہ پھر اپنے تاریخی معمول کی جانب گامزن ہونے لگی۔

منافعوں پر مبنی معاشی منڈی کے دو خاصے، آٹومیشن اور آؤٹ سورسنگ، کروڑوں افراد کو ماضی میں میسر مستحکم زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع ہو گئے۔ 1943ء میں کل امریکی نوکریاں کا 39 فیصد حصہ مینوفیکچرنگ نوکریاں تھیں جو 2010ء کی دہائی میں 8 فیصد رہ گئیں۔ بیورو برائے لیبر شماریات کی ایک 2020ء کی رپورٹ کے مطابق مینوفیکچرنگ نوکریاں ”پانچ (معاشی) بحرانوں میں گرتی رہیں اور ہر مرتبہ نوکریوں کی بحالی بحران سے پہلے کی سطح پر کبھی نہیں ہو سکی۔“

اصلاح پسند اور لیفٹ لبرلز اس کو ایسے بنا کر پیش کرتے ہیں جیسے یہ محض غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ در حقیقت یہ رجحانات سرمایہ داری کی معاشی منطق کا حصہ ہیں۔ سرمایہ داری میں آٹومیشن کے پُر تضاد اثرات کی تشریح کرتے ہوئے مارکس نے ”اجرت، محنت اور سرمایہ“ میں بیان کیا کہ کیسے نئی مشینری کا تعارف؛

”محنت کشوں کی دیو ہیکل تعداد کو سڑکوں پر پھینک دیتا ہے اور جیسے جدت اور پیداوار بڑھتے جاتے ہیں ان (محنت کشوں) کی مزید چھوٹی تعداد فارغ ہوتی جاتی ہے۔۔ اگر ہم یہ تصور کر بھی لیں کہ وہ تمام افراد، جو مشینری کی وجہ سے براہ راست بیروزگار ہوئے ہیں اور آنے والی اگلی تمام نسل اسی صنعتی سیکٹر میں روزگار کا نتظار کر رہی تھی، اگر انہیں کوئی نیا روزگار مل بھی جاتا ہے۔۔ کیا ہم یقین کریں کہ یہ نیا روزگار اتنی ہی اجرت دے گا جتنی پچھلے روزگار میں مل رہی تھی؟ اگر ایسا ہو تو یہ سیاسی معیشت کے قوانین کے خلاف ہے۔“

اس پورے دور میں یہی سب کچھ عوام کی ایک قابل ذکر آبادی کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ بہتر اجرت والی مینوفیکچرنگ نوکریوں کی جگہ مسلسل کم اجرتی سروس سیکٹر کی نوکریاں بڑھتی رہی ہیں جن میں سے اکثریت محض پارٹ ٹائم کام ہی دیتی ہیں۔ جن کی مینوفیکچرنگ نوکریاں بچ گئیں ان کی حقیقی اجرتوں میں مسلسل کمی ہوتی رہی۔ اس سارے عمل میں غیر فعال اور طبقاتی تعاون کرنے والی لیبر اشرافیہ حکمران طبقے کی معاونت کرتی رہی۔

ایلن گرین سپین اور ایڈرین وولڈرج نے ”امریکہ میں سرمایہ داری: متحدہ ریاستوں کی معاشی تاریخ“ میں بیان کیا ہے کہ:

”1900-73ء کے دوران امریکہ میں حقیقی اجرتوں میں سالانہ اضافہ 2 فیصد تھا۔ ان سالوں کا شمار کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عمومی اجرت (اور اس سے جڑا عمومی معیار زندگی) ہر 35 سال بعد دگنی ہوتی رہی ہے۔ 1973ء میں اس رجحان کا اختتام ہوا اور امریکی بیورو برائے لیبر شماریات کے مطابق پیداواری اور غیر نگران مزدوروں کی عمومی حقیقی اجرتوں میں گراوٹ شروع ہو گئی۔ 1990ء کی دہائی میں ایک پیداواری مزدور کی عمومی گھنٹہ وار حقیقی اجرت 1973ء کے مقابلے میں 85 فیصد سے کم رہ گئی تھی۔“

2018ء میں پیو ریسرچ سنٹر (Pew Research Center)کی ایک رپورٹ نے اس کی تصدیق کی کہ، ”زیادہ تر امریکی محنت کشوں کے لیے حقیقی اجرتوں میں دہائیوں سے اضافہ نہیں ہوا“۔ اس عہد میں عدم مساوات میں دیو ہیکل اضافہ ہوا اور ڈیپارٹمنٹ برائے خزانہ کی 2023ء میں ایک رپورٹ کے مطابق اجرتیں مزید پرانتشار ہو گئیں، چھٹیوں میں گزرنے والا وقت کم ہونے لگا اور امریکی ریٹائرمنٹ میں آرام دہ زندگی گزارنے سے مسلسل دور ہوتے چلے گئے۔ ”نسلوں کے درمیان معاشی نقل و حرکت بھی کم ہو چکی ہے۔۔ 1940ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے 90 فیصد بچے 30 سال کی عمر تک اپنے والدین سے زیادہ کمائی کر رہے تھے جبکہ 1980ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے نصف بچے ہی اپنے والدین سے زیادہ کمائی کر رہے ہیں۔“

اس ساری صورتحال کا 2008ء کے عالمی سرمایہ دارانہ بحران سے پہلے ہی عوامی شعور پر در پردہ ہی صحیح لیکن دیو ہیکل اثر پڑ چکا تھا۔ 2008ء کی ”عظیم کساد بازاری“ کے بعد امریکی تاریخ کی طویل ترین اور کمزور ترین معاشی بحالی ہوئی۔

لازمیت اپنا اظہار حادثے کے ذریعے کرتی ہے

ظاہر ہے اس سب کا ایک سیاسی رد عمل ہونا ناگزیر تھا۔ 2016ء کے انتخابی دور کا آغاز اس امید سے ہوا تھا کہ یہ جیب بش اور ہیلری کلنٹن کے درمیان ایک ”معمول“ کا ٹاکرا ہو گا۔ لیکن ایک معیاری مرحلہ عبور ہو چکا تھا۔ جلد ہی واضح ہو گیا کہ کروڑوں امریکی محنت کش اب اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔

برنی سینڈرز کے گرد محنت کشوں اور نوجوانوں میں موجود ترقی پسند قوتیں مجتمع ہو گئیں جو ایک نیم ”سوشلسٹ“ پروگرام پیش کر رہا تھا جس میں مفت کالج تعلیم، شعبہ صحت میں اصلاحات اور عوامی ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے نوکریاں دینا شامل تھا۔ اس دوران ٹرمپ نے جنگجوانہ انداز میں رائٹ وِنگ رجحان رکھنے والے افراد کے زیر سطح غم و غصے کو بھڑکایا۔ کئی ٹرمپ حامی سینڈرز کی مہم سے ہمدردی کرتے تھے اور انہیں جیتا جا سکتا تھا۔ لیکن برنی سینڈرز کے برعکس، جو ڈیموکریٹک پارٹی کنونشن میں پارٹی کے سامنے سرنگوں ہو چکا تھا، ٹرمپ آخری وقت تک بے باکی سے لڑتا رہا۔ ایک طرف سینڈرز اپنی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی حصہ امیدوار کو وفا داری کا یقین دلا رہا تھا اور دوسری طرف ٹرمپ تمام رکاوٹوں کو روندتا ہوا اپنی پارٹی کا امیدوار بننے میں کامیاب ہو گیا۔

انتخابات قریب آنے کے ساتھ کلنٹن نے اپنی امیدواری کو سٹیٹس کو کا تسلسل قرار دیا اور کہا کہ ”بطور صدر میں ڈیموکریٹک کامیابیوں کا ریکارڈ آگے بڑھاؤں گی۔ میں صدر اوبامہ کی کامیابیوں کا دفاع کروں گی اور انہیں مزید آگے بڑھاؤں گی“۔ لیکن وہ یہ بھول گئی کہ تاحیات (ڈیموکریٹک پارٹی) حامیوں سمیت کروڑوں افراد کے لیے اوبامہ میراث کے تسلسل کا مطلب الام و مصائب سے بھری زندگی کا ہی تسلسل تھا۔ اس کے معنی بند فیکٹریاں، رسٹ بیلٹ قصبوں (امریکہ میں سابق مینوفیکچرنگ علاقے۔ مترجم) کی جاری بربادی، نشے کی قومی وباء اور کم اجرتی سروس سیکٹر کی نوکریوں کا بڑھنا تھا۔

دوسری طرف ٹرمپ اپنے آپ کو ایک باہر کا فرد بنا کر پیش کرتا رہا جس کا عزم واشنگٹن جوہڑ کو خالی کرنا تھا۔ اس نے بالکل مختلف پیغام دیا کہ ”ہماری تحریک کا مقصد ایک ناکام اور کرپٹ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا متبادل ایک نئی حکومت ہے جسے آپ، امریکی عوام کنٹرول کرو گے۔۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے ہماری فیکٹریاں اور نوکریاں برباد کر دی ہیں جو میکسیکو، چین اور دنیا کے دیگر ممالک میں جا رہی ہیں۔ یہ ایک عالمی طاقت کا ڈھانچہ ہے جو ان معاشی فیصلوں کا ذمہ دار ہے جنہوں نے ہمارے محنت کش طبقے کو لوٹ لیا ہے، ہمارے ملک کی دولت چوری کر لی ہے اور یہ سارا پیسہ مٹھی بھر بڑی اجارہ داریوں اور سیاسی ہستیوں کی جیبوں میں ڈال دیا ہے۔“

جب آپ ان پیغامات اور ان کے سیاق و سباق کا موازنہ کریں گے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ٹرمپ کیوں 2016ء کے انتخابات میں فاتح تھا۔

یقینا یہ شعلہ بیانی محض سفاک لفاظی اور شاطر چالبازی ہے۔ در حقیقت 2015ء میں ٹرمپ نے ایک نجی ملاقات میں ییل (Yale)یونیورسٹی کے بزنس پروفیسر جیفری سونن فیلڈ کو بتایا تھا کہ وہ دانستہ طور پر برنی سینڈرز کا اجارہ داریوں کے خلاف پیغام کو چرا رہا ہے کیونکہ یہ مؤثر ہے۔ لیکن کسی بھی حقیقی اسٹیبلشمنٹ مخالف قوت کی عدم موجودگی میں ٹرمپ غم و غصے کے لہر پر تیرتا ہوا وائٹ ہاؤس جا پہنچا جس میں غیر جمہوری الیکٹورل کالج نے کلیدی کردار ادا کیا جسے بانیان مملکت نے بنایا ہی اس مقصد کے لیے تھا کہ اس طرح کے ”پاپولر جذبات“ کا مقابلہ کیا جا سکے۔

حکمران طبقے کے نکتہ نظر سے ٹرمپ ایک ”بے قابو عنصر“ ہے جس نے ریپبلیکن پارٹی اور صدارت پر قبضہ کر لیا ہے۔ حکمران طبقے کی اکثریت شدید متنفر تھی کہ اتنا تنگ نظر، خود غرض اور غیر متوقع انسان ان کا نظام چلا رہا ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ ”جدید ریاست کی عاملہ پورے حکمران طبقے کے روزمرہ معاملات چلانے کی ایک کمیٹی سے زیادہ کچھ نہیں“ اور اس کام کے لیے سب سے زیادہ سنجیدہ سرمایہ دار ٹرمپ پر اعتماد کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔

تمام ہلڑ بازی اور اسکینڈلوں کے پس پردہ اس کی صدارت کا خاصہ وہی روایتی ریپبلیکن پارٹی پالیسیاں تھیں جن میں اس کا مشہور زمانہ کارپوریٹ ٹیکس کو کم کرنا بھی شامل تھا۔ تحفظاتی پالیسیوں کے عالمی رجحانات سے مطابقت میں اس نے محصولات لاگو کیے جن میں سے زیادہ تر کو بائیڈن نے جاری رکھا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ ان سالوں میں عمومی معاشی استحکام موجود تھا اور ساتھ ہی پیش رو اوبامہ اور بش کی طرح خسارہ اخراجات (دیوہیکل اخراجات کی وجہ سے خسارے کو پیسے چھاپ کر پورا کرنا۔ مترجم) بھی جاری رکھے گئے۔ 2019ء میں افق پر ایک معاشی بحران کے آثار نمودار ہو چکے تھے لیکن اس نے کامیابی سے معاشی بربادی کا سارا ملبہ کرونا وباء پر ڈال دیا۔ مسلسل انتشار کے نتیجے میں ”اور کوئی بھی لیکن ٹرمپ نہیں!“ موڈ نے جنم لیا جس کی بنیاد پر بائیڈن بمشکل وائٹ ہاؤس تک پہنچا۔ لیکن انتخابات دھاندلی اور بائیڈن حکومت میں دیوہیکل افراط زر نے ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی پر گرفت مزید مضبوط کر دی ہے۔

بین الطبقاتی انتخابی اتحاد

بورژوا میڈیا میں یہ عام روش ہے کہ امریکی سیاست کو دو بلاکوں کے حوالے سے پیش کیا جائے جس میں لبرل میڈیا تمام ”ٹرمپ حامیوں“ کو بنیادی طور پر ایک قسم کا رجعتی ہجوم بنا کر پیش کرتا ہے۔ یقینا ٹرمپ کے کچھ گرم جوش حامی شدید رجعتی ہیں جن میں کچھ فسطائی گروہ بھی شامل ہیں۔ رجعتی چھوٹے کاروباریوں کی ایک پرت بھی اس کی حامی ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد محنت کش افراد ہیں جن کی زندگیاں گلی سڑی سرمایہ داری نے تباہ و برباد کر دی ہیں۔

کئی افراد کے لیے وہ ڈیموکریٹوں کے مقابلے میں ”کم تر برائی“ ہے۔ وہ اس کے اعلانیہ شاونزم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے باوجود اس کی حمایت کرتے ہیں۔ مثلاً ایک 2024ء پیو ریسرچ رائے شماری کے مطابق 91 فیصد ریپبلیکن ووٹر ”بہت زیادہ یا کچھ پُر اعتماد“ تھے کہ معاشی پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ اچھے فیصلے کر سکتا ہے جبکہ صرف 26 فیصد ”اس کے ذاتی افعال کو پسند کرتے ہیں“۔

وال سٹریٹ جرنل نے ایک فورڈ محنت کش کا انٹرویو کیا جو یونائیٹڈ آٹو ورکرز یونین کا ممبر تھا اور 2016ء میں ٹرمپ انتخابی مہم تک غیر سیاسی تھا۔ جب اسے ٹرمپ کی حمایت کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ”مجھے پتا تھا کہ ڈیموکریٹس کے پاس 1990ء کی دہائی میں لیفٹ محنت کش افراد موجود تھے۔ ٹرمپ کوئی غیر معمولی دماغ نہیں ہے۔ اس نے بس جان لیا ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور وہ بہادر ہے کہ ان افراد کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ تارکین وطن کی دیو ہیکل تعداد، گرین نیو ڈیل۔۔ یہ سب بکواس ہے۔ اس سے محنت کش طبقے کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔“

لیبر قائدین اور لیفٹ اصلاح پسندوں کی طبقاتی اتحاد پالیسی کا نتیجہ یہی کنفیوژن اور بگڑا ہوا نکتہ نظر نکلتا ہے۔ امریکی محنت کش طبقے کو اپیلیں کر کے ٹرمپ نے کئی افراد کی حمایت حاصل کر لی ہے جو اپنے آپ کو محنت کش سمجھتے ہیں۔ اس لیے 2024ء میں ریپبلیکن پارٹی پلیٹ فارم نے وعدہ کیا کہ وہ ”امریکی محنت کشوں اور کسانوں کا غیر منصفانہ تجارت کے خلاف دفاع کریں گے“، ”امریکی خواب واپس آئے گا اور دوبارہ سستا ہو گا“ اور ”تاریخ کی عظیم ترین معیشت تعمیر کی جائے گی“۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ یہ کام سرمایہ دارانہ بحران میں ناممکن ہے۔

ایک عوامی کمیونسٹ پارٹی اگر ایک ایسا طبقاتی پروگرام دے جس کا مقصد سب کے معیار زندگی میں بہتری ہو تو وہ ٹرمپ کے کئی محنت کش حامیوں کو جیت سکتی ہے۔ حل یہ نہیں ہے کہ تارکین وطن کو مورد الزام ٹھہرایا جائے یا موسمیاتی تبدیلی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر حملہ کیا جائے۔۔ بلکہ فارچون 500 کمپنیوں کو محنت کش کنٹرول میں قومیاء کر ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت تعمیر کی جائے۔ لیکن محنت کش طبقے کی قیادت کے بحران میں یہ پرتیں رائٹ وِنگ کی حامی بنی ہوئی ہیں۔

کیا ٹرمپ ایک آمریت کا خواہش مند ہے؟

ٹرمپ کے ابھار اور خاص طور پر پہلی صدارت اور پھر 2021ء میں 6 جنوری کے دن امریکی کانگریس پر حملے کے بعد، لبرلز نے رونا دھونا ڈالا ہوا ہے کہ امریکہ کو فسطائیت اور آمریت سے خطرہ ہے۔ یہ ایک سطحی موازنہ ہے اور ڈرانے کی ایک چال ہے تاکہ ڈیموکریٹس کے لیے حمایت حاصل ہو۔

قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ آخر ”چاہتا“ کیا ہے لیکن یہ کوئی فیصلہ کن سوال نہیں ہے۔ اصل اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ طبقاتی قوتوں کے توازن میں ٹرمپ ایک آمریت لاگو کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے، چاہے وہ ایک فسطائی ریاست ہو یا ایک عدم مستحکم عسکری آمریت۔ یہ ٹرمپ کی ذاتی خواہشات کا سوال نہیں ہے بلکہ طبقات کے درمیان سماجی تعلقات کا سوال ہے۔ آج کے امریکہ میں کوئی بھی سرمایہ دارانہ ریاست 12 کروڑ سے زائد امریکی محنت کشوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو امریکی سماج کو چلاتے ہیں اور دہائیوں کی نیند کے بعد اب جاگ رہے ہیں۔

اینگلز نے ”لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ“ میں بیان کیا تھا کہ جب ہم تاریخ کا تجزیہ کریں تو ”سوال یہ نہیں ہے کہ ایک فرد واحد، چاہے وہ کتنا ہی عظیم (اہم) ہو، اس کی خواہشات کیا ہیں بلکہ اصل خواہشات وہ ہیں جو دیو ہیکل عوام، پوری قوم اور پھر ہر قوم میں موجود پورے طبقات کو متحرک کرتے ہیں۔“

فسطائیت ایک منفرد عسکری آمریت ہے جس کی بنیاد غم و غصے سے بپھری پیٹی بورژوازی ہوتی ہے جس کے ذریعے منظم محنت کش طبقے کو کچل دیا جاتا ہے۔ اٹلی، جرمنی اور اسپین میں اقتدار حاصل کرنا تاریخ کا ایک

امریکہ میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے جہاں دیوہیکل قوت رکھنے والا محنت کش طبقہ ابھی تک کسی شکست سے دوچار نہیں ہوا ہے۔ ٹرمپ کے لیے قریب المدت میں یا کچھ عرصے میں ایک بونا پارٹسٹ عسکری آمریت بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے طبقاتی جدوجہد کو ایک بند گلی میں داخل ہونا ہو گا اور پھر ٹرمپ کو عسکری قوتوں کے قابل ذکر حصے کی حمایت درکار ہو گی۔۔ فی الحال ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

2020ء میں بائیڈن سے شکست خوردہ ہونے کے بعد ٹرمپ اقتدار پر قابض رہنا چاہتاتھا اور اس کوشش میں اس نے کئی آپشنز کا تجربہ کیا۔ لیکن امریکی حکمران طبقہ اپنی گرفت دوبارہ مضبوط کرنے کے لیے پاگل ہو چکا تھا اور اس سلسلے میں اس کی کسی صورت مدد نہیں کی جا سکتی تھی۔ کانگریس پر حملے سے پہلے واشنگٹن پوسٹ نے ایک رائے شائع کی جس پر دس سابق سیکرٹری دفاع کے دستخط موجود تھے جنہوں نے انتخابی نتائج پر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کی شدید مخالفت کی تھی۔ کانگریس پر حملہ کرنے والے ٹرمپ حامی عام افراد تھے جو اگر وسیع تر منظر نامے میں دیکھے جائیں تو آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ ان کے پاس کوئی منصوبہ یا حکمران طبقے کی کوئی حمایت موجود نہیں تھی اور ان کا حقیقی طور پر اقتدار پر قبضہ کرنے کا رتی برابر امکان بھی موجود نہیں تھا۔

ٹرمپ کوئی ”معمول“ کا سیاست دان نہیں ہے اور اس کی شعلہ بیانی آمرانہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے حامی یقینا ایک فسطائی تحریک سے نہیں ہیں اور اس کا ابھار امریکی عوام میں رائٹ وِنگ سیاست کی جانب ایک بنیادی جھکاؤ کی عکاسی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ عدم استحکام اور محنت کش طبقے کے سامنے ایک مربوط طبقاتی متبادل کی عدم موجودگی کا اظہار ہے۔ محنت کش طبقہ انقلابی جدوجہد میں کئی شکستوں سے دوچار اور تھکاوٹ کا شکار ہو گا تو ہی ٹرمپ کے لیے ایک عسکری آمریت مسلط کرنے کا آپشن کھل سکتا ہے۔ لیکن اس وقت صورتحال مکمل طور پر الٹ ہے یعنی ہم اگلے کئی سال طبقاتی جدوجہد میں دیو ہیکل اور تاریخی اٹھان دیکھیں گے۔

امریکی سرمایہ داری کو ”دوبارہ عظیم“ نہیں بنایا جا سکتا

2016ء میں ایک قصبے کے ہال میں باراک اوبامہ سے پوچھا گیا کہ محنت کشوں کا مستقبل کیا ہے کیونکہ نوکریاں مسلسل ختم ہو رہی ہیں۔ کیونکہ اوبامہ دو بار صدر بننے کے بعد تاحیات صدارت کی دوڑ سے باہر ہو چکا تھا، اس نے معمول سے ہٹ کر زیادہ سچ بولتے ہوئے آٹومیشن اور بیرون ملک نوکریوں کی منتقلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نوکریاں ”اب کبھی واپس نہیں آئیں گی“۔ ٹرمپ کا وعدہ کہ ”وہ تمام نوکریاں واپس لائے گا“، لیکن اوبامہ نے سوال کیا کہ ”آپ یہ کیسے کریں گے؟ آپ کیا کریں گے؟۔۔ آپ کے پاس کیا جادو ہے؟“

یہ سرمایہ داروں اور ان کے سیاست دانوں کے لیے ایک کڑوا سچ ہے۔ ان کے پاس ایسی کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے جس کے ذریعے معاشی بڑھوتری اور استحکام بحال کیا جائے۔ کوئی سرمایہ دار سیاست دان سرمایہ دارانہ معیشت کی سمت کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ سرمایہ داری اپنی سرشت میں پر انتشار پیداوار ہے اور بورژوا انتخابات محض یہ فیصلہ کریں گے کہ امریکی سرمایہ داری کی ڈوبتی کشتی کا اگلا کپتان کون ہو گا۔

ٹرمپ کا ابھار طویل رجحانات کا انجام ہے۔۔ دہائیوں سے جاری امریکی سرمایہ داری کا نامیاتی انحطاط، لیفٹ اور محنت کش قیادت کی تاریخی تنزلی۔ اس کو شکست دینے کے کسی بھی تناظر میں طویل تاریخ کا جائزہ بھی لینا ہو گا۔ ڈیموکریٹس وقتی طور پر بیلٹ بکسوں کے ذریعے ٹرمپ کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی نظام کے ناگزیر تضادات کو حل نہیں کر سکتے۔ جب تک ایسے امیدوار موجود ہوں گے جو سٹیٹس کو اور سیاسی کرپشن کے خلاف جدوجہد کی شعلہ بیانی کریں گے، اسٹیبلشمنٹ سیاست دان سیاسی منظر نامے پر ان کی جاری حاکمیت کو روکنے میں ناکام رہیں گے۔ لیکن رنگ بے رنگ ”پاپولزم“ کافی نہیں ہے، صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی مستحکم نوکریوں اور پوری عوام کے لیے بہتر معیار زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے تاکہ ہر قسم کی رجعتی شعلہ بیانی کی معاشی بنیادیں ہی ختم ہو جائیں۔

ایسے پروگرام کی فتح مند جدوجہد کے لیے کمیونسٹوں کو تمام سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹیوں کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں محنت کش طبقے کے دشمن ہیں جو امریکی سرمایہ داری کے نامیاتی انحطاط کا کچھ نہیں کر سکتے۔ تجربہ سکھاتا ہے کہ ”کم تر برائی“ کو ووٹ ڈالنا بیکار ہے اور در حقیقت وہ زرخیز زمین تیار کرتا ہے جس پر ”بڑی برائی“ پوری شد و مد کے ساتھ واپس اُگ آتی ہے۔ ہمیں ہر صورت اپنے سیاسی پرچم کو بے داغ رکھنا ہے اور مستقبل کی تیاری کرنی ہے۔ ہمیں شعوری ادراک ہونا چاہیے کہ جن عوامل نے ٹرمپ جیسا کردار ابھارا ہے وہی اعلانیہ طبقاتی جنگ کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔ کیونکہ ٹرمپ اپنے وعدے پورے نہیں کر سکتا اس لیے وہ بھی اپنے حامیوں کی نظر میں رسوا ہو گا۔

ہماری فوری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک طبقاتی طور پر آزاد اور منظم کمیونسٹ پارٹی کو تعمیر کریں جو حتمی طور پر محنت کش طبقے کی اکثریت کو دونوں پارٹیوں سے جیتے گی۔ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ امریکہ میں سیاسی پولرائزیشن کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور محنت کش طبقے کے درست غم و غصے کو مشترکہ دشمن کی جانب منظم کیا جائے۔۔ یعنی بذاتِ خود سرمایہ دارانہ نظام۔

Comments are closed.