| تحریر: مِک برْوکس، ترجمہ: صبغت اللہ وائیں |
مک بروکس کے مضمون کا دوسرا حصہ شائع کیا جا رہا ہے۔ پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ انگریزی میں مکمل مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
جاگیرداری کی طرف عبور
نیا معاشرہ جو کہ مغربی یورپ کی جرمانِک (بربر) یورشوں کے بعد ابھرا، زوال پذیر رومن تہذیب کا ایک ماحصل تھا اور جرمن قبائلی معاشرہ طبقاتی سماج بننے کے ارتقائی مراحل میں تھا۔ ابتدائی یونانی تہذیب کی ڈورین یورشوں کی طرح یہ بھی پیچھے کی طرف ایک قدم ہی معلوم ہوتا تھا۔ پیداوار کی اس قلت نے سماجی زندگی کی ہر سطح کو متاثر کیا۔ تاریک دور کے وہ تاریخی روزنامچے جو کہ بچ گئے ہیں (جیسے کہ ٹورز کے گریگری کی ’فرینک کی تاریخ‘) ہمیں ایک بچگانہ قسم کی احمقانہ سادہ لوحی سے مختلف قسم کے مضحکہ خیز معجزے بیان کرتے ہیں۔ یہ ایسے بیان تھے جو کسی بھی رومن پیٹریشیئن تاریخ دان کو استہزائیہ قہقہوں پر مجبور کر دیتے۔
فن اور ثقافت کے تمام کارہائے نمایاں صرف کلیسا کی مفلوج زندگی ہی میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھے۔ لیکن بربر اپنے ساتھ نئے خیالات اور ایک بار پھر سے آگے بڑھنے کے امکانات لے کر آئے تھے۔
ہم صرف ایک مثال لیتے ہیں، جرمنوں نے وزنی ہل بنائے جو کہ سطح کو محض کھْرچنے کی بجائے اسے اندر تک پھاڑ ڈالتے تھے، نتیجہ فصلوں کی زیادہ بارآوری کی صورت میں نکلا۔
اسی دوران بھلا جرمن قبائل میں کیا ہو رہا تھا؟ رومنوں نے خود کو ایک حیرت انگیز وقت تک ’’مت کرنے کے لئے تقسیم کرتے ہوئے‘‘قائم رکھا۔ انہوں نے محض قبیلے کے مقابلے قبیلے کی تقسیم کو نہیں لیا، بلکہ شعوری طور پر سامان تعیش کے لین دین سے ایک ایسی مراعات یافتہ اشرافیہ کو انہی قبائل کے اندر تیار کیا جو کہ آسانی سے بِک گئی، اس طرح سے ہر قبیلہ خود اپنے ہی خلاف تقسیم ہو کے رہ گیا۔
پہلی صدی عیسوی کے ساتھ ہی ٹیسی ٹسؔ، زیادہ تر قبائل کا جمہوری آئین بتاتے ہی سوئی اونز کی بات پر آ جاتا ہے۔ جو کہ بحری تجارت کرنے والے لوگ تھے: ’’دولت کو بھی انتہائی عزت کا مقام دیا جاتا ہے؛ اور اس طرح ایک اکیلا بادشاہ بلا روک ٹوک اپنے پورے اختیار سے حکومت کرتا ہے اور اپنے اس حق کو غیر مَسوّلہ طور پر اطاعت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اگر جرمنی ہی کو لیں تو وہاں کسی ایک کو بھی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ یہ ایک ایسے داروغہ کی تحویل میں ہیں جو کہ درحقیقت ایک غلام ہے۔ بے کاروں کے ہجوم اگر مسلح بھی ہوں تو کسی بھی وقت آسانی سے فتنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔‘‘
بے باک اور نڈر نوجوانوں کے گرد ان کے محافظ اور جاں نثار قسم کے خدم و حشم رہنے لگے۔ یہ مسلح خدام قبیلے کی مرضی پر نہیں بلکہ اس فرد کے تابع تھے۔ وہ اپنے آقا کو مالِ غنیمت میں بطور تحفہ ملا کرتے تھے۔ یہ لوگ قبائلی معاشرے کے انت کی شروعات تھے۔ کیوں کہ انہوں نے رفتہ رفتہ ایک مستقل مسلح اشرافیہ کا روپ دھار لیا اور اپنے آقا کو اٹھا کے بادشاہ بنا دیا۔
اس فوجی اشرافیہ نے روم کے مالکانِ زمین کو بے دخل کر دیا یا پھر انہیں سلطنتِ روما کی قلمرو میں داخل ہوتے ہی اپنے ساتھ ملا لیا۔ ہمارے اس مختصر سے کتابچے کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ ہم ان تمام تفصیلات کا کھوج کریں جن میں سے مغربی یورپی سماج اگلی چند صدیوں میں گزرا۔ لیکن مرکزی سلطنتِ روما کی کھوئی ہوء شان و شوکت کو بحال کرنے کی سب سے سنجیدہ کاوش یعنی شارلمین کی فرنگی (فرینکِش) سلطنت اور اس کے انجام کا ذکر یقیناً یہاں معلومات افزا ہو گا۔
شارلمین نے یورپ کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور وہاں صوبے قائم کر دیے جو کہ نوابوں کے زیر اثر تھے۔ فوج کو، جو اس کی فتوحات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کام کرتی تھی، کھلانے کے لئے سابقہ’’آزاد‘‘ فرنگی کسانوں (فرنگی یا فرینک کا معنی ’’آزاد‘‘ ہے) کا درجہ گھٹتے گھٹتے کمیرے غلاموں کی حد تک جا پہنچا۔
یہ مجاھدے اْس وقت کے سماج کی پیداواری ذرائع کی اہلیت سے کہیں زیادہ تھے۔ کیوں کہ افزودگی کم تھی، اس لئے ذرائع رسل و رسائل قدیمی تھے۔ شارلمین کے جانشینوں کے عہد میں سلطنت اپنے ہی اندر دھماکے سے پھٹ گئی، نارمن، وائیکنگ اور عربوں نے دھاوے بول دیے اور یہ اپنی تباہی کے دھانے تک پہنچ گئی۔
دولتمند مقامی صاحبِ جائداد لوگوں نے موقعے کو تاڑ لیا۔ انہوں نے ہر طرف اپنے اپنے قلعے قائم کر لئے اور زمین کا دفاع کرنے کے عوض مقامی دیہات کے غیر متنازع مالک بن بیٹھے۔
شارلمین کے جانشینوں کو یہ صورت حال قبول ہی کرنا پڑی۔ انہوں نے اپنے مسلح رکھوالوں کو ادھر ادھر کے تحائف کی بجائے زمینیں دینی شروع کر دیں اور بدلے میں فوجی خدمات اور اپنی مقتدر حیثیت کی قبولیت کا اقرار حاصل کیا۔ جس مرحلے پر سماج تھا وہاں دولت کی سب سے بڑی شکل زمین تھی۔ زمین پر اختیار کا مطلب زائد کی مراعات تک رسائی ہی تھا۔
جاگیردارانہ سماج
یوں جاگیردارانہ سماج فوجی فرائض کی انجام دہی کی شرائط کے بدل میں اسی حساب سے ایک مخروط کی شکل میں نیچے تک ان افسروں کو زمینیں نوازتے ہوئے ابھرا۔
پورا ڈھانچہ ہی کسانوں کی بیگار پر کھڑا تھا جو کہ مالکوں کی زمینوں پر[مفت میں] کام کرتے تھے۔ لیکن ان میں ایک چیز غلاموں سے مختلف تھی، یہ لوگ اپنے آقا کی ملکیت نہیں تھے۔ جاگیرداری بڑے بے ڈھنگے پن سے ارتقا پذیر ہوئی۔ گاؤں میں کچھ لوگوں کے پاس بہت تھوڑی زمین تھی اور وہ لوگ اپنے آقاؤں کے گھروں میں غلاموں یا گھریلو ملازموں کی طرح کام کرتے تھے۔ آزاد کسانوں کے پاس ابھی تک زمین تھی اور انہیں غلے یا خدمت کی صورت میں اس کا کرایہ دینا پڑتا تھا۔ باقیوں کے پاس ایک متوسط سے درجے کی حیثیت تھی۔ وہ اپنی بقاء کی خاطر چھوٹے چھوٹے زمینی قطعوں پر کام کرتے اور باقی سارا وقت آقا کی زمین پر محنت مزدوری کی بیگار کرنے پر مجبور تھے۔
جاگیرداری کے تحت استحصال بالکل واضح اور سامنے کی بات تھی۔ کسان اپنی خدمات مالکان کو روپے پیسے، محنت یا پھر پیداوار کی شکل میں ادا کرتے تھے۔ یہ ہر کوئی دیکھ سکتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر جاگیردار اپنے مزارع سے اپنی زمین پر تین کی بجائے چار دن تک کام کرواتا ہے تو دونوں فریقین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ استحصال کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس غلامانہ نظام میں وہ ہفتہ جس میں غلام اپنے زندہ رہنے کا سامان پیدا کرنے کے لئے محنت کرتا تھا اسے بھی غیر ادا شدہ اجرت ہی متصور کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اس کے کام کو بغیر کسی مقصد کے باور کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے تحت اجرتی محنت کش کو اجرت کی شکل میں وہ رقم دی جاتی ہے جسے اس کی محنت کی قدر کے بدل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گویا کہ اس کوساری کی ساری محنت کا معاوضہ ادا کر دیا گیا ہے۔
استحصال تو تینوں قسم کے نظاموں میں پیداکار یعنی محنت کش ہی کا ہوتا ہے: لیکن استحصال کی مخصوص شکل کا قطعی تعین بہرکیف پورے کا پورا سماجی ڈھانچہ ہی کرتا ہے۔
جاگیرداری میں ریاست جن مسلح آدمیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی زیادہ تر حکمران طبقے میں سے لئے جاتے تھے جن کا ہتھیاروں کی طاقت پر اجارہ تھا۔ اس طرح سیاسی اور معاشی طاقت یکساں ہاتھوں میں تھی۔ گاؤں میں انصاف زیادہ تر جاگیردار آقاؤں کی عدالتوں سے ملتا تھا۔ جاگیردار آقا اور اس کے مسلح جتھے پولیس، منصف اور جلاد کے کردار خود ہی ادا کرتے تھے۔
پیچھے مْڑ کر دیکھیں تو ہمیں جاگیرداری ایک ساکت و جامد قسم کے نظام کے طور پر نظر آتی ہے۔ خاص طور پر سرمایہ داری سے موازنہ کرتے وقت تو یہ بات بلاشبہ سچ ہی ہے۔ لیکن جاگیرداری نے انتہائی شاندار قسم کے ارتقائی اقدامات کئے۔
مثال کے طور پر انگلستان کی آبادی 1066ء سے لے کر چودھویں صدی کے اندر اندر ہی غالباً دگنی ہو گئی تھی۔ جو کہ پیداوار میں ہونے والی ترقی کی ایک دلیل ہے۔ بڑے بڑے جنگلات والے اور غیر کاشت شدہ رقبوں کو پہلی بار ہل چلا کر زیرِ کاشت لایا گیا۔ جاگیرداری نے مشرقی یورپ کے وسیع و عریض علاقوں میں نو آبادیاں بنائیں۔
جاگیرداری نے پیداکار کو اپنے مفاد کی خاطر محدود پیمانے پر پیداوار کو بڑھانے کی ترغیب فراہم کی۔
بعض اوقات زراعت یا آبادکاری میں جاگیردار زیادہ فائدہ حاصل کر لیتا بعض اوقات مزارعہ۔
یہ طبقاتی کشمکش پر منحصر تھا۔ جاگیرداروں کا رجحان یہ تھا کہ وہ مشترکہ زمینوں پر تجاوزات کے ذریعے کسانوں کے اپنے قطعوں کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور ان کی مزارعوں والی حیثیت کو زبردستی برقرار رکھیں۔ دوسری طرف کسانوں کی دلچسپی اسی میں تھی کہ وہ جاگیردار کو لگان کم سے کم دیں۔
اس نئے نظام میں پن چکیوں اور پوَن چکیوں جیسی نت نئی ایجادیں متعارف کروائی گئیں۔ جاگیردار اس ترقی کا سارے کا سارا ثمر اپنی ان چکیوں کے استعمال پر بھاری معاوضوں کے ذریعے اینٹھنیکی کوشش کرتے رہے ہوں گے۔ یہ ‘فرسودہ اور دقیانوسی علامتیں’ قرونِ وسطیٰ کے آخری دنوں میں براعظم یورپ کی جاگیردارانہ آمدنی کی سب سے بڑی شکل تھی۔ پیداوار کو بڑھانے کا محرک خواہ جاگیردار کی عیاشیوں کے لئے زیادہ محصولات کی خواہش کی بدولت بنا، یا پھر یہ ان کسانوں کی امنگوں کا نتیجہ تھا جو کہ اس کاروبار میں ترقی پا کر آزاد کسان کی حیثیت حاصل کرنا چاہتے تھے، پیداوار میں بہر طور اضافہ ہی ہوا۔
لیکن جاگیرداری نے بھی غلام داری کی طرح افزودگی کے ارتقاء پر روک لگا دی تھی۔ نسلاً بعد نسلاٍ زراعت کی افزودگی بڑے پیمانے پر ساکت ہو چکی تھی۔ جاگیرداروں کے لئے دولت کے زیادہ سے زیادہ حصول کی آسان ترین راہ یہی تھی کہ زیادہ لوگوں کا استحصال کیا جائے۔ اس طرح سے اس میں جنگ و جدل کے لئے ایک دائمی محرک موجود رہا، جس کا سیدھا سادہ نتیجہ پیداواری قوتوں کا ضیاع اور بربادی تھا۔
قرونِ وسطیٰ کے شہر
طبقاتی سماج کی گذشتہ شکلوں کی طرح جاگیرداری نے اپنے ارتقاء کے دوران شہروں میں نئے سماج کی نیو رکھ دی تھی۔
روم کے شہر ازمنہ وسطیٰ کے جاگیرداری شہروں کی نسبت کہیں زیادہ بڑے اور عالی شان تھے لیکن ان میں ارتقاء کرنے کے امکانات ان جیسے ہرگز نہیں تھے۔ روم کے شہر مالکان زمین اور ان کے تعیش کے لئے سامان تجارت مہیا کرنے والوں کے جمع ہونے پر انتظامی مراکز کی حیثیت سے وجود میں آئے جو کہ ارد گرد کے مضافات کو مونڈتے رہتے تھے۔ دوسری طرف ازمنہ وسطیٰ کے شہر خودتجارت اور دستکاری کا مرکز ہوا کرتے تھے۔
افزودگی کے ارتقاء کے ساتھ لازمی طور پر تجارت بھی پھلی پھولی۔ دستکار وں نے، جو کہ تاریک دور میں اشرافی گھرانوں اور خانقاہوں کے ساتھ نتھی تھے، خود کو تجارت کے ساتھ جوڑتے ہوئے شہری علاقوں کا رْخ کر لیا جہاں وہ تیزی سے ایسی چیزیں بنا پائیں جو نتیجتاً سستی ہوں گی۔ یا پھر یوں کہیں کہ چیزیں صرف ماہر ہنرمندوں ہی کے ہاتھ سے تیار ہوں۔
اب یہ شہر اپنی اصل میں خواہ ایک نئے تجارتی طبقے کے نْطفے میں سے برآمد ہوئے ہوں یا پھر ترقی پذیر جاگیر داروں کے اپنی نت نئی اغراض کو فروغ دینے سے، انہوں نے بہرحال ایک نیا اصول متعارف کروا دیا۔ جاگیرداری کے تسلط اور حکم برداری کے عالمگیر تعلقات کے برعکس وہاں تاجر پیشہ لوگوں کی آزاد انجمنیں تھیں، جو کہ وہ تخلیق کر رہی تھیں جسے ایک جاگیردار نے “ایک نیا اور قابل نفرت نام” قرار دیا تھا، اور وہ تھا ‘کمیون’۔شہر وں کے اندر پیداوار اور تجارت ‘گلڈز’ [یعنی ایک ہی کام کرنے والے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں] کی صورت میں منظم تھی جو کہ آپس میں ہنر مندی کی بنیاد پرمختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔اس طرح پیداوار، قیمت اور معیار کو باقاعدہ رکھنے کی کوششیں کی گئیں۔
سیاہ موت (یعنی طاعونِ اعظم جو چودھویں صدی کے دوران پورے یورپ میں پھیلی) پولینڈ کو نظرانداز کرتے ہوئے گزر گئی [اس وبا نے تقریباً سات سال تک یورپ میں اپنی دہشت پھیلائے رکھی۔ تقریباً بیس کروڑ آدمی لْقمہ اجل بنے۔ صرف پولینڈ حیرت انگیز طور پر اس سے بچ رہا تھا۔ اس میں بہت کم لوگ اس کا نشانہ بنے تھے۔ مترجم]، گلڈز نے خداوند کا شکر ادا کرنے کے لئے مزید “ہولی ڈیز” منانے کا فیصلہ کر لیا۔ درحقیقت وہ محصول میں کمی کرنے کے لئے کام بانٹ رہے تھے۔
گِلڈوں نے برابری کی بنیاد پر کام شروع کیا تھا، لیکن جیسے جیسے شہروں کے رقبے اور آبادی میں بے زمین کسان مہاجرین کی بہتر زندگی کی تلاش میں مسلسل آمد سے اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے ہی گلڈ ماسٹر اس قابل ہوتے گئے ہوں گے کہ ان غریب الوطنوں کے لئے اس حیثیت کا اختیار کرنا دشوار تر کر دیں جس کے وہ خود مالک تھے۔
اسی کے ساتھ ساتھ تجارت پیشہ گِلڈ بھی اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دستکار گِلڈوں کے استحصال سے شہری اشرافیہ بننے کے قابل ہو گئے ہوں گے۔ زیادہ تر شہر اس وقت تک ایک چھوٹی سی چند سری حکومتوں کے زیر تسلط رہے جب تک غریب ھنر مندوں کی شورشوں کے ایک تسلسل نے قرونِ وسطیٰ کے خاتمے تک انہیں مجلسِ حاکمہ میں رائے دینے کی حیثیت نہ دلوا دی۔
اشیاء [کموڈیٹیز] کی پیداوار کے تخلیق کردہ اس نئے امتیاز نے اس چند سری حکومت کو وقت کے ساتھ اپنی پرانی حیثیت ازسرِنو حاصل کرنے کے قابل کر دیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ سب شہر جاگیر دار طبقے سے آزادیوں کے پروانے کے حصول کی لڑائیوں میں مصروف رہے۔
جیسے جیسے محن کی افزودگی بڑھی ویسے ہی تجارت، منڈی کے لئے [اجناس کی] پیداوار، اشیاء[کموڈیٹی کا ترجمہ شئے کیا گیا ہے جو کہ عام معاشیات میں رائج ہے جبکہ زرعی اجناس کے لئے جنس۔ مترجم] کی پیداوار اور زر کی مَعیشت میں بھی اضافہ ہوا۔ شہروں کو خوراک مہیا کرنے کے لئے غلے کی فصلوں کی پیداوار میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا۔ اب کسانوں کی ایک پرت اپنے ساتھیوں کے طفیل امیر سے امیر تر ہوتی منڈی کے لئے پیداوار کرنے والے زمینداروں کی حیثیت اختیار کر گئی۔
انگلستان میں منڈی کی طرف پیداوار لے جانے کے ابھرتے ہوئے کام کا بیشتر آغاز بہرحال جاگیرداروں نے کیا۔ اون کی پیداوار زیادہ اہم ہو چکی تھی۔ جاگیردار مشترکہ زمینوں کو ہھتیانے اور کسانوں کو ان سے بے دخل کرنے کی کھینچا تانی میں آپس میں بھی بر سرِ پیکار رہے ہوں گے۔
چودھویں صدی کے اواخر تک انگلستان میں غلامی کا بڑے پیمانے پر خاتمہ ہو چکا تھا۔ لیکن زمین کے ساتھ بندش قلیل المعیادی پٹے میں بدل گئی۔ گروہ در گروہ بے مایہ کسانوں کو دھکے مار کے زبردستی آوارہ گرد ہو جانے پر مجبور کر دیا گیا (کہ وہ اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ادھر ادھر بھٹکتے پھریں)۔
سترھویں صدی کے آتے آتے اندازاً ساری آبادی کا کم از کم چوتھائی حصہ ضرور ایسا تھا جس کے پاس بھیک مانگ کر گزارا کرنے کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں بچا تھا۔ ترقی، ہمیشہ کی طرح اب بھی، عام انسانوں ہی کی بَلی دے کر پائی گئی تھی۔
جاگیر داری میں طبقاتی جدوجہد
چوں کہ پیٹریشئینز اور پیلے بیئنز کے مابین طبقاتی جدوجہد سیاسی تھی جس کا مقصد ریاست کی قوت کا حصول تھا۔ خاص کر جاگیردار طبقے کی باقیات کی زندگی معاشی سطح کے داؤ پر لگی تھی۔
مزارعوں اور جاگیرداروں کے درمیان طبقاتی جدوجہد بغیر رُکے جاری رہی۔ کبھی کبھی یہ طبقاتی جدوجہد انقلابی جدوجہد میں تبدیل ہو جاتی رہی۔ 1831ء کی کسان بغاوت انگلستان میں سب سے زیادہ قابل ذکر تھی۔
سیاہ موت کے بعد کسان محنت کشوں کی کمی کے باعث مضبوط ہو گئے تھے۔ زمینداروں نے اس نقصان کی تلافی کرنے کے لئے ان کی زندگی کو روایتی ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے دوبھر کر دیا۔ اس نے سماج میں ایک طوفان برپا کر دیا۔
اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ انقلابی کسان تجارتی فصلوں والے جنوب مشرقی علاقوں میں تھے۔ تجارت کے ارتقاء نے ذرائع ابلاغ کو فروغ دیا تھا جو کہ وسیع تر رقبے میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے پر اثر انداز ہوا۔ گو کہ بغاوت اپنے حقیقی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہی رہی لیکن اس نے اپنے جاگیردار آقاؤں کے شکار خو مقاصد کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔
بغاوت ابتدائی سطح پر ہی ناکام ہو گئی کیوں کہ کسانوں ایک ایسا منتشر طبقہ تھے جو کہ ایک دوسرے کے خلاف بٹا ہوا تھا۔
شاہ رچرڈ دوئم نے ان کو ترغیب دی کہ وہ ’’اپنا گھاس پھونس اکٹھا کرنے کی طرف واپسی‘‘ کی راہ لیں، اور اس طرح ان کی کمزوری پر کاری ضرب لگائی۔ کسانوں کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھنا ناممکن تھا۔ پیداوار ابھی صرف اس مقام تک پہنچی تھی کہ آبادی کی صرف ایک قلیل تعداد ہی کو لڑاکوں کے بطور رکھا جا سکتا تھا۔ جبکہ اکثریت کو زمین پر کام کرنا پڑتا تھا۔
اس نقطے کو اسی اثنا میں فرا دولچینو ؔ کی زیرِ قیادت ہونے والی اطالوی کسانوں کی بغاوت سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ اس [تحریک کے] مذہبی خیالات میں ملفوف ہونے کے باوجود کسانوں کے روشن خیال دستوں نے قدیمی کمیونزم کی روایات کو دوبارہ سے زندہ کیا۔
فرا دولچینو ؔ اور اس کے پیروکار اطالوی ایلپسؔ کی طرف پسپا ہو گئے۔ انہیں کھانا بھی تھا اور خود کا دفاع بھی کرنا تھا۔ ان کی حیثیت میں لڑاکوں اور محنت کشوں کی تقسیم نے انہیں نفسیاتی طور پر کمزور کیا جس سے انہیں پسپا ہونا پڑا۔
اس مثال سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جاگیر داری کے اداروں نے اپنے وقت کی پیداواری قوتوں کی صورت حال کے ساتھ کیسے اپنا تال میل درست کیا۔ ماضی کی بدبختیاں بنی نوعِ انسان کی مشقت کی لازمیت کے طور پر موجود رہی ہیں۔
جاگیرداری سے سرمایہ داری تک
مارکس نے جاگیرداری کے خاتمے اور اس سے سرمایہ داری کے ابھار کو ’’قدیمی اجماع‘‘ کا عمل قرار دیا ہے۔ اس عمل نے ایک طرف تو زمینیں خریدنے کی بجائے مال و دولت کو زر کے ڈھیروں کی صورت میں جمع کر دیا اور دوسری طرف خالی ہاتھ اور خالی جیب پرولتاریہ تخیلق کر دیے۔ یہ پیداکاروں کی ان پیداواری ذرائع سے علیحدگی تھی جن سے ان کی بقاء وابستہ تھی۔
ہم جانتے ہیں کہ جاگیرداری میں مزارعے زمین سے منسلک تھے۔ قحط کے دنوں کو چھوڑ کے یہ تعلق ان کو باعزت زندگی کی ضمانت فراہم کرتا تھا۔ روپے پیسے کے ساتھ جس قدر عدم تحفظ جڑا ہے، ماسوائے اشد مجبوری کے کوئی بھی اس کے لئے کام کرنے پر راضی نہیں ہو گا۔ عدم تحفظ مستقل طور پر زر کے ساتھ منسلک ہے۔ اس لئے کوئی بھی انسان اس وقت تک زر کی خاطر کام نہیں کرے گا جب تک کہ اس کو مجبور نہ کر دیا جائے۔ اسی لئے سامراجیوں نے افریقہ میں زر کا ’نفر ٹیکس‘ (پول ٹیکس) لگا دیا اور جنوبی افریقہ میں تو ان کو ہانک کر بنجر و بانجھ زمینوں میں پہنچا دیا گیا تاکہ یہاں وہ اجرتی مزدوری کرنے والوں کی رسد ٹوٹنے نہ دیں [کیوں کہ زمین سے سبزیاں، پھل، اناج یا جنگل سے شکار نہ ہونے کی صورت ہی میں وہ مزدوری پر راضی ہو سکتے تھے۔ مترجم]۔ اسی لئے نجی ہاتھوں میں زمین کی ملکیت کا اجارہ سرمایہ داری کے ارتقاء کی ایک لازمی شرط سمجھا جاتا ہے۔
مارکس نے’’سرمایہ‘‘ میں انگلستان کی مزارعت کے ختم ہونے کی تفاصیل بتائی ہیں۔ جب تاریخ میں کلیسا کی بالادستی کا خاتمہ ہوا تو سابقہ کلیسائی کنگلوں اور بھک منگوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا جو کہ کلیسا کی اس وقت کی پیداوار تھے جب کلیسا کے پاس زمین کا تیسرا حصہ قبضے کی صورت میں ہوا کرتا تھا۔ ’’گلاب کے پھولوں کی جنگ‘‘ میں جب جاگیر داری کے خدم و حشم کا ایکا ٹوٹ کر بکھرا تو اس کے نتیجے میں آوارہ گرد وں کی ایک بپھری ہوئی نسل نے جنم لیا۔
لیکن زمینوں کو ہتھیانے اور بے دخلی کروانے کے سلسلے میں سب سے بڑی نوسر بازی ’جاگیر داروں کی پارلیمان‘ سے ’پارلیمان کے نجی قوانین‘ منظور کروا کے کی گئی، جن کو احاطے بندی کے قوانین کہاجاتا ہے۔ سیدھے اور سادے الفاظ میں یہ ایک ایسی ڈاکا زنی تھی جسے قانون کا تحفظ حاصل تھا۔ یہ ایکٹ اس وقت پاس ہوا جب اون کی تجارت فروغ پا رہی تھی۔ اور جاگیر داروں کو بھیڑوں کے گلے چرانے کے لئے وسیع و عریض چراگاہوں کی ضرورت تھی۔ وہ زمین جو کہ پہلے کم و بیش پانچ سو افراد کی ملکیت تھی، پارلیمنٹ کے حکم سے قانونی طور پر جاگیر دارکو سونپ دی گئی۔اس طرح سارے گاؤں کی زمین مٹھی بھر گڈریے ہتھیا لے گئے۔
یہ سب کچھ تھا تو درندگی کی انتہا ہی لیکن اس نے فرسودہ اور غیر منظم طریق کار کی جگہ تعقلی زراعت کی داغ بیل ڈال کرزمین کی پیداوار کو بڑھایا۔ بعد ازاں صنعتی انقلاب کے ثمرات یعنی جدید مشینری کو ان بڑے بڑے فارموں پر استعمال کرنا ممکن ہو سکا۔
قدیمی اجماع کے اس سارے قصے کا دوسرا پہلو زر کا اجماع تھا۔ سرمائے کی اولین شکل صنعتی سرمائے کے پیداوار کو [اپنے مطابق] تبدیل کرنے سے پہلے تجارتی سرمائے اور مہاجنی سرمائے کے بطور موجود تھی۔
ہسپانوی لٹیروں کے ہاتھوں امریکہ کی ’دریافت‘ نے عالمی تجارت کے محور کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس ’نئی دنیا‘ میں خوب خوب بھاگ جگائے گئے۔
سونے کی ہسپانوی تلاش سفاک ترین درندگی ساتھ لے کر آئی۔ ان کے دورِ حکومت میں ساں دومینگو میں انڈینز کی تعداد 1492ء میں دس لاکھ تھی 1530ء تک یہ کم ہو کر دس ہزار تک رہ گئی تھی۔ کیوبا میں مقامی لوگوں کی آبادی 1492ء میں چھ لاکھ تھی۔ یہ 1570ء کے آتے آتے صرف 270 خاندانوں تک محدود ہو چکی تھی۔
تاجر سرمایہ دار اپنی منہ زور طاقت سے ظلم و ستم کے معرکے سر کرنے میں ایک دوسرے سے بازی مارتے رہے۔ غلامی کو، جسے عرصہ دراز سے مردہ باور کر لیا گیا تھا، عالمی منڈی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کھیتوں اور کانوں کو مزدوروں کی فراہمی کی خاطر دوبارہ زندہ کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ قرونِ وسطیٰ کے اوآخر میں فیوگرز جیسے بڑے بڑے بینکار خاندان نظر آتے ہیں جو کہ طاقتوروں کی بڑھتی ہوئی بھوک اور ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔ جاگیرداروں کے محصولات شہزادوں اور سورماؤں کو جدید دستیاب نت نئی عیاشیاں فراہم کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ یہ اس بات کی ایک انتہائی واضح گواہی تھی کہ زمین پر موجود پیداواری تعلقات پیداواری قوتوں کے ارتقاء کے پیروں میں بیڑیاں ڈالے ہوئے تھے۔
بادشاہت نے بھی مزید زر کی ضرورت کو محسوس کیا اور قرضے لینا شروع کر دیے۔ اس طرح یہ وہ وقت تھا جب ہر قوم نے قومی قرضے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے شروع کر دیے اور ابھی تک ایسا ہی ہے۔ صرف برطانیہ ہی میں یہ قرضہ تقریباً ایک لاکھ ملین پاؤنڈز کا ہے [دس کھرب پاؤنڈز، یا ایک ٹریلیئن پاؤنڈز]۔ (1983ء)
قرونِ وسطی کے اختتام تک انگلستان کے ٹیوڈرس جیسے مطلق العنان بادشاہ مغربی یورپی معاشرے میں ابھرے۔ ان بادشاہوں نے پرانے جاگیردار حکمران طبقے اور آنے والے سرمایہ دار طبقے کے مابین توازن قائم کیا۔
انہوں نے سماج کو آگے لے جانے کے لئے ایسی مضبوط اور مستحکم قومی ریاستوں کی تشکیل کی جن میں تجارت فروغ پا سکے، جس کا لازمی نتیجہ سرمایہ داری ہی کا فروغ تھا۔ انہوں نے نوآبادیات پر قبضے کی جنگوں میں تاجروں کے مفادات کا تحفظ کیا۔
تاحال حقیقت یہی تھی کہ وہ خود اپنے لئے باہر گئے تھے [وہ تاجر جو نو آبادیوں پر قبضے کرنے گئے تھے۔ مترجم]، اور محض جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے درمیان ہونے والی طبقاتی کشمکش میں تعطل ہی کے باعث پھل پھول سکے تھے۔ جیسے جیسے سرمایہ داری نے ترقی کی، ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے میں اپنی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے میل کھاتی ہوئی سیاسی طاقت حاصل کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوتی چلی گئی۔
مطلق العنان بادشاہوں کے اقتدار کے خاتمے کا بیڑا اٹھائے بورڑوا انقلابات سرمایہ داری کی حکمرانی کو ٹھوس بنیادیں فراھم کرنے کے لئے لازمی ٹھہرے تھے۔
زراعت میں ارتقاء کے ساتھ ساتھ دستکاری (مینوفیکچر) کی پیداوار میں بھی ارتقاء واقع ہوتا رہا۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے گلڈز نے پیداواری تعلقات کی عکاسی کی جنہوں نے بنیادی طور پر پیداوار میں ترقی کو ایک اداراتی شکل دے دی۔ بعد ازاں یہی چیز ایک روک بن گئی، جب سرمایہ داروں نے جو کہ گلڈز سے باہر تھے، انہیں مسلسل پھیلتی ہوئی منڈیوں کے لئے اجرتی محنت استعمال کرنے کو کہا۔
گلڈز نے قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لئے محدود پیداوار کے اصول پر کام کیا اور اپنی روایاتی مراعات کو دست درازیوں کے خلاف استعمال کیا۔ تجارتی سرمایہ دار زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعوں پر جزوقتی کام کرنے والے کسان کنبوں کی فاضل محنت ہڑپنے کو لپک پڑے۔ انہوں نے ان کنبوں کو بْنائی کرنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔
دن بدن مزارعت کا انحصار بْنائی کی آمدن پر بڑھتا گیا۔ تاجر خام مال کی رسد اور تیار مال کو گوداموں تک پہنچا پانے کی طاقت سے لے کر مزارعوں، کھڈیوں اور ان کے جھونپڑوں تک کے مالک تھے۔ ان تمام ذرائع پر مکمل اختیار نے ان کے ہاتھوں میں چابک تھما دیے تھے۔
یہ ایک اور نہایت ہی اہم سلسلہ تھا جس کے باعث جاگیردارانہ مزارعت کی حیثیت سکڑ کر پرولتاریہ میں تبدیل ہو کے رہ گئی۔
سرمایہ داری کی لازمیت
سولھویں اور سترھویں دونوں صدیوں میں مسلسل دستکاری کے کارخانے قائم ہوئے۔ یہ معلوم ہو چکا تھا کہ کام کو چھوٹے چھوٹے آسان اور سادہ مرحلوں میں توڑ کر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آدم سمِتھ اپنی کتاب ’’دولتِ اقوام‘‘ سوئیاں بنانے کے عمل میں تقسیمِ کار کی وضاحت کرتے ہوئے شروع کرتا ہے جس [تقسیمِ کار] سے پرانی کاریگری کے مقابلے میں سوئیوں کی ایک بہت ہی بڑی تعداد بہت کم خرچ میں تیّار ہو سکتی تھی۔
اس سے کہیں آگے کام کو سادے اور مسلسل حصوں میں تقسیم کرنے نے ہاتھ کی محنت کو مشین سے تبدیلی کو ممکن بنایا۔ اس طریقے سے پیداوار کے حصول کا علم ہوتے ہی سرمایہ داری نے آلاتِ پیداوارمیں ایک انقلاب برپا کر دیا۔
ایسا بھی نہیں کہ سرمایہ داری اْٹھی اور بغیر کسی رکاوٹ کے سیدھے پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہو گئی۔ نئی بیدار ہوتی پیداواری قوّتیں پرانے پیداواری تعلقات کے سامنے کھڑی تھیں۔ انہیں [پرانے پیداواری تعلقات پر] قابو پانا تھااور نئے پیداواری تعلقات اْستوار کرنے تھے جو کہ اْن نئی پیداواری قوّتوں کے اِرتقاء کے مرحلے پر اْن سے مطابقت میں ہوتے۔
اس کام کا بیڑا بْورژوا انقلابات کے سر رہا۔ 1640ء کا برطانوی انقلاب، 1776ء کا امریکن انقلاب اور 1789۔94ء کاانقلابِ فرانس وہ فیصلہ کْن مبازرتیں تھیں جنہوں نے پْوری دنیا کے پیمانے پر سرمایہ داری کے غلبے کی بنیّاد رکھ دی۔ آخر ان بورڑوا انقلابوں کا مقصد کیا تھا؟ گو کہ جاگیر داری کے غلبے کے دن ختم ہو چکے تھے لیکن زمین مالکان کا مفاد ابھی تک شئے کی پیداوار سے بندھا تھا۔
اگرچہ انگلینڈ میں زمین مالک اشرافیہ مارکیٹ کے لئے پیداوار کرنے کی طرف آگئی تھی لیکن فرانس کے شرفا 1789ء تک زائد پیداوار کا ایک بڑا حصہ کرائے کی شکل میں ہڑَپ کر جاتے رہے، اور اپنی اس مراعات یافتہ حیثیّت کو اشیا کی آزادانہ منتقلی پر ہر قسم کے چنگی محصول لگانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ایسا کرنے سے تمام عوام کے لئے قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ یہی وہ وجہ تھی جس نے بورژوازی کو اشرافیہ کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ قوم کے مفادات کی بحیثیتِ مجموعی نمائندہ ہے۔ مثال کے طور پر 1789ء کی پیرس کے عوام کی بیسٹائل یورش کے ہونے تک، پیرس میں آنے والی خوراک پر محصول، ایک جاگیردارانہ رعایت کے طور پر لگایا جاتا رہا۔
فرانس بورژوا انقلاب کی کلاسیکی مثال ہے جس میں پرانی اشرافیہ کا مکمل صفایا کر دیا گیا۔ 1789ء کے بورژوا انقلاب کے بعد کسانوں میں جو کہ تیزی سے مارکیٹ کے لئے پیداوار کر رہے تھے، ایسا رجحان دیکھنے میں آیا کہ وہ ایک اْبھرتے ہوئے سرمایہ دار اور ایک ‘بے زمین دیہی اْجرتی مزدور’ طبقوں میں بٹ گئے۔ سرمایہ داری کے سامنے مرکزی قومی معیشتوں کوایک چھتر چھایاکی طرح وضع کرنے کا کام بھی درپیش تھا جس کے نیچے نئی پیداواری طبعیں فروغ پا سکتیں۔
جرمنی میں انیسویں صدی کے آتے آتے ایک مستحکم قومی ریاست کے قیام کے لئے سرمایہ دارانہ پیداوار کی ضرورت محسوس کر لی گئی۔
جرمنی 1848ء کے انقلاب کے آنے تک چھتیس رجواڑوں میں بٹا ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی کرنسی، اپنا چنگی کا نظام، اپنا محصول، وزن اور زمین کی پیمائش کے اپنے پیمانے اور اپنا اپنا مقامی نظامِ رسل و رسائل تھا۔
چھوٹی ریاستوں کی یہ افراتفری واضح طور پر بڑے پیمانے پہ جرمن صنعت و تجارت کی ترقی کی راہ میں ایک ناقابلِ عبور روک تھی۔ جرمن بورڑوازی کے ’’اپنا‘‘ انقلاب لانے کی ناکامی، جس کے پیچھے نئے محنت کش طبقے کا خوف موجود تھا، انہیں بسمارک کے گرد ‘پرَشین جنکر’ (مالکان زمین) کی اجارہ داری کے زیرِ اثر لے گئی۔ جنہوں نے ایک جدید سرمایہ دارانہ قوم کی تعمیر کی ضرورت کو جان لیا تھا۔
دوسری طرف برطانیہ اور فرانس میں مطلق العنان بادشاہتوں نے سرمایہ دارانہ ارتقاء کے ڈھانچے کی نشوونما کے ایک ترقی پسندانہ کام کے طور پر قومی یکجہتی کو ایک معقول حد تک حاصل کر لیا تھا۔
ترقی کی راہ میں صرف پرانی اشرافیہ ہی اکیلی روک نہ تھی۔ سرمایہ داروں کا ایک گروہ جو کہ بنیادی طور پر سماج کو آگے لے گیا تھا، بڑی تیزی سے رجعت پسند ہوتا گیا۔ دولتمند تاجر اجارہ داریاں حاصل کرنے کے لئے بادشاہوں پر اپنا رسوخ استعمال کرنے لگے۔اس طرح سے انہوں نے اپنی مراعات کو اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔
ان رجعت پسند سرمایہ داروں کوچھوٹے تاجروں، جو کہ آزادانہ تجارت کی خاطر لڑنے پر مجبور تھے، اور شہری عوام کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح بڑے ساہوکار جو بادشاہ کو قرض دے کر روپیہ بناتے تھے، وہ بھی بادشاہت کے دامن گیر تھے۔
بحیثیّت مجموعی سرمایہ دار طبقہ اب اس قدر طاقت ور ہو چکا تھا کہ سیاسی اقتدار میں شرکت کے لئے زیادہ بولی لگا سکتا تھا، جو کہ اس کے [سرمایہ دارانہ ] انقلاب کی تکمیل کر دیتا۔ مطلق العنان بادشاہت، جو کہ تجارت کے پھیلاؤ کے لئے ایک حفاظتی ڈھال تھی، اب رکاوٹ بن چکی تھی۔ انہیں ٹھکانے لگانا ضروری ہو گیا تھا؛ اور سرمایہ دار طبقے کی خاطر اس فریضے کی انجام دہی کے لئے، کاری گروں اور زمینداروں کے گروہوں کو صف بستہ کیا گیا۔
سرمایہ داری
سرمایہ دار اپنی دولت کو زمین اور غلاموں کے ذریعے نہیں ناپتے بلکہ اس کام کے لئے روپے کااستعمال کیا جاتا ہے۔ اسی دولت نے ان کے لئے صنعتی انقلاب میں پیداوار کرنے کی راہ ہموار کی۔ یہ نسلِ انسانی کے لئے ویسا ہی معنی خیز دور تھا جیسا کہ ہزاروں برس پہلے زرعی انقلاب تھا۔
سرمایہ داری بھی ایک ویسا ہی استحصالی نظام ہے جیسے کہ جاگیرداری اور غلامانہ نظام تھے۔ اسے ممیّز کرنے والی چیز یہ ہے کہ فالتو پیداوار کو صرف کرنے کی بجائے سرمایہ دار اپنے نظام کی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ وہ اسے سارے کا سارا پیداوار میں واپس کھپا دے۔
سرمایہ داری نے اس طرح سے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی اپنے لئے ایک اچھوتا اور کارآمد اصول دریافت کر لیا تھا۔ وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ بہت سے لوگوں کا استحصال کیا جائے، جیسے جاگیر دار حضرات ایسا کرنے کے لئے نہ ختم ہونے والی جنگوں میں اْلجھے رہتے تھے، سرمایہ داری [اپنے پاس کام کرنے والے] لوگوں کا بہت سا استحصال کرتی ہے، اس سے محن کی افزودگی ارتقاء پاتی ہے۔
ایسا کرتے ہوئے یہ ایک ایسے سماج کے امکانات مہیّا کرتی جہاں ہر شئے کی بہتات ہو۔ اور استحصال کرنے والے اور ہونے والوں میں موجود تقسیم کو ختم ہونا پڑے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ایک ایسے اعلیٰ درجے کے سماج کے امکان مہیّا کرتی ہے جو کہ فی الذات سرمایہ داری سے کچھ آگے کا مرحلہ ہو۔
خود سرمایہ داری کا اپنا انحصار اس بات پر ہے کہ ذرائع پیداوار کی اجارہ داری حکمران سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں ہو۔ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اگر ان شرطوں پر کام نہیں کرتی جو کہ سرمایہ دار طبقے کی طرف سے اس پر تھوپی جاتی ہیں تو ان کو تمام ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو جانا پڑتا ہے۔
ویسے تو یوں لگتا ہے کہ اْجرت پہ کام کرنے والے محنت کش اپنے کئے گئے کام کا باقاعدہ معاوضہ پاتے ہیں۔ حقیقت میں ان کا استحصال بھی ایک مزارع یا غلام جتنا ہی ہوتا ہے۔
سرمایہ داری میں ’قوتِ محنت‘ بھی اسی طرح کی شئے (کموڈیٹی) ہے جیسی کہ کوئی اور۔ کیوں کہ یہ بھی بازار میں بیچی اور خریدی جاتی ہے۔ یہ اپنے مالک یعنی محنت کش کی جانب سے بیچی جاتی ہے، اور روپے کا مالک یعنی سرمایہ دار اسے خریدتا ہے۔
لیکن قوتِ محنت باقی اشیاء سے اپنی نوعیت میں اس طرح سے مختلف ہے: کہ اس میں قدر کو پیدا کرنے کے قابل ہونے کی امتیازی خصوصیت موجود ہے۔ سرمایہ دار کے لئے اس کی یہی افادیت ہے۔ اور یہ ہے وہ وجہ جس کی خاطر سرمایہ دارقوتِ محنت کو خریدتا ہے (یعنی مزدوروں کو کام پر لگاتا ہے)۔
جب ’قوتِ محنت‘ کو پیداوار کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے (جیسے مزدوروں کو کام پہ لگا کے) تو قدر اْس پیسے سے کہیں زیادہ پیدا ہوتی ہے جو کہ سرمایہ دار ’قوتِ محنت‘ کے بدلے میں (بطور اْجرت) دیتا ہے۔ اسی چیز سے سرمایہ دار کو منافع حاصل ہوتا ہے۔
اگر قوتِ محنت بازار میں بِکنے کے لئے موجود ہو گی تو ہی سرمایہ دار اْسے خرید پائے گا، لہٰذا قوتِ محنت کا پیدا کرنا لازمی ہے۔ ’’فرد کو جو ملتا ہے‘‘ مارکس لکھتا ہے، ’’قوتِ محنت کا پیدا کرنا، محنت کش کی خود کی باز تخلیق [خود کو دوبارہ سے پیدا کرنے] یا قائم رکھنے پر مشتمل ہے‘‘ اس کے فوراً بعد وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ خود کو قائم رکھنا ایک ’’تاریخی اور اخلاقی عنصر ہے‘‘ [تاریخی یعنی عمرانی اور اخلاقی یعنی تاریخی، مارکسی، ہیگلیائی تناظر میں] یعنی ایک محنت کش خاندان کو زندہ رہنے، اور ‘اْجرتی مزدوروں’ کی ایک نئی نسل کے طور بچوں کو بڑا کرنے کے لئے درکار ہے۔ اس کا دارومدار بھی ان معیاراتِ زندگی پر ہے جو کہ محنت کش طبقے نے اپنے سماج میں جدوجہد سے حاصل کر کے قبول کئے ہیں۔
سرمایہ دار کے استحصال کا جوہر اس بات میں ہے کہ: مزدور اپنی کی گئی محنت کی اْجرت نہیں پاتا بلکہ اْس قوتِ محنت کی پاتا ہے جو کہ اس کے پاس موجود ہے۔ [ان دو کے درمیان] فرق، سرمایہ دار ہتھیا لے جاتا ہے۔
تو یوں محنت کش کے روز کا کام’’لازمی محنت‘‘ اور ’’زائد محنت‘‘ پر مشتمل ہے۔ محنت کش دن کے ایک حصے کو “لازمی محنت” کرتے ہوئے اس طرح سے صرف کرتا ہے، کہ شئے کو بیچنے پر اس کی ساری کی ساری اْجرت نکل آتی ہے۔ باقی بچے ہوئے یومِ کار میں وہ ’’زائد محنت‘‘ کرتے ہوئے وہ قدر پیدا کرتا ہے، جو کہ بِک جانے پر کرایہ، سود اور منافع نکالتی ہے، منافع سرمایہ دار طبقے کو چلا جاتا ہے۔
سرمایہ دار سب سے پہلے تو یومِ کار میں مسلسل اضافے کر کے شرح استحصال میں اضافہ کرتا ہے (مزدوروں کو عام طور پر دیہاڑی کے حساب سے اْجرت ملتی ہے، خواہ وہ جتنے بھی گھنٹے کام کریں)۔
سرمایہ دار ایسا کر سکتے تھے، کیوں کہ دیہات اور قصبوں کی چھوٹے پیمانے کی پیداوار کی تباہی نے فاضل مزدوروں کی نہ ختم ہونے والی فوج پیدا کر دی تھی جو کہ بھوکے ننگوں کے غول کے غول شہروں کی جانب منتقل کررہی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش اپنے مالکان کا ہر حکم بجا لانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی ہلاکت کا خطرہ درپیش تھا۔ 1850ء کے دوران برطانیہ میں کئے گئے سروے کے مطابق وہاں کے لاغر محنت کشوں کی نحیف و نزار نسل فوجی خدمات انجام دینے کے لئے نااہل تھی۔
انیسویں صدی میں، برطانیہ کے محنت کشوں نے اپنے یومِ کار کی قانونی حدود [مقرر کروانے] کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ جسے مارکس نے ’’محنت کش طبقے کی سیاسی معیشت کے لئے پہلی فتح‘‘ کہا۔
ہمیں لازماً یاد رکھنا پڑے گا کہ بعد میں آنے والی اصلاحات سے، خواہ وہ قومی سہولت برائے صحت ہو یا دس گھنٹے کاایکٹ، فائدہ بہرحال حکمران طبقے کا ہوا۔ کیوں کہ اس طرح ان کو جسمانی طور پر تندرست مزدوروں کا ملنا ممکن ہو گیا۔
لیکن سرمایہ داروں کی کوتاہ نظر لالچ کی وجہ سے ان اصلاحات کو بھی مخالف حکمران طبقے کے جبڑوں سے جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکا۔
یوں قدرِ زائد کی شرح کے مادر پدر آزاد اضافے، جسے مارکس ’مطلق قدرِزائد‘ کہتا ہے، (مثال کے طور پر یومِ کار میں اضافہ کرنے سے) پر روک لگا دی گئی جس پر مجبوراً سرمایہ دار ’متعلقاتی قدرِزائد‘ کے حصول کے ذریعے سے استحصال کی شرح میں اضافہ کرنے کی طرف آگئے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ محنت کشوں سے محنت کے زیادہ گھنٹے کام لیا جائے، اْنہیں مزدور کی ’محن کی افزودگی‘ کو بڑھانا پڑا، تاکہ اْتنے ہی گھنٹوں میں کی گئی محنت سے [پیداوار کا] حصول زیادہ ہوجائے۔
زیادہ افزودہ کار محنت کا مطلب یہ ہے کہ مزدوروں کے یومِ کار کا چھوٹا حصہ ان کی زندگی کو قائم رکھنے والی ضروریات (اپنی تنخواہ) کو پیدا کرنے کے لئے مختص ہو، اور زیادہ وقت وہ سرمایہ دار کے لئے ’زائد‘ پیدا کرنے میں لگائیں۔
سرمایہ داری کا دارومدار مقابلے پر ہے۔ ہر سرمایہ دار کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے متقابلین کے مقابلے میں قیمتیں کم سے کم رکھنا پڑتی ہیں۔ سستا بیچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سستا پیدا کرو۔ ہم جانتے ہیں کہ محنت کا وقت، قدر ماپنے کا پیمانہ ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیداوار میں محنت کا وقت کم سے کم کھپایا جائے۔
محن کی افزودگی میں مسلسل اضافے کا بنیادی ذریعہ مشین سازی ہے۔ مارکس کی دی گئی ’’ہتھ کھڈی کے پارچہ بافوں کے کیس‘‘ کی مثال غالباً ان مراحل کی پیش رفت کو بہترین انداز میں واضح کرتی ہے۔
کات مشین (سپننگ جینی) کی ایجاد اور کم قیمت دھاگے کی بے بہا پیداوار، کپڑا بْننے کو مشین سازی کی طرف لے گئی۔ کپڑا بْننا تب تک ایک دست کاری کا عمل تھا۔ کیوں کہ صنعتی انقلاب کے ابتدئی برسوں میں پارچہ بافوں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا تھا، ہتھ کھڈی کو چلانے والے پارچہ باف اس قابل تھے کہ اپنی اجرت کی بولی خود مقرر کرتے، اس طرح سے وہ ایک باقاعدہ ’’محنت کش اشرافیہ‘‘ بن چکے تھے۔ وہ سرمایہ داری کے لئے سستی پیداوار کے آگے ایک روک تھے، نتیجتاً، پاور لْوم خواہ مخواہ ایجاد ہو گئی۔ سرمایہ دار کے لئے ضرورت ہی ایجاد کی ماں بھی ہے، اور باپ بھی۔
یہ تو ایک عام مشاہدہ کرنے والے پر بھی صاف ظاہر ہے کہ برابر کی مقدار میں کپڑے کی پیداوار کرنے پر پاور لْوم محنت کا انتہائی کم وقت خرچ کرتی ہے۔
چاروناچار ہتھ کھڈی کے پارچہ بافوں کو اپنی پیداوار کی قیمت میں کمی کرنا پڑی۔ پاور لْوم کا مقابلہ کرنے کا ان کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔
اپنے عروج کے زمانے میں ہتھ کھڈی پر کام کرنے والوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب تھی۔ ایک ہی نسل کے بعد ان کا صفایا ہوگیا، جن میں سے ہزاروں کی تعداد میں تو وہ تھے جنہوں نے حقیقت میں بھوک کے ہاتھوں جان دی۔ ان میں سے بہت ہی کم ایسے تھے جن کو کام مل پایا، وہ بھی انتہائی کم اْجرت پر، پاور لْوموں کی نگرانی کا۔
سرمایہ داری کی ساری ترقی کا طریقہ یہی رہا ہے۔ لیکن اسی طریقے سے سرمایہ داری نے جدید صنعت کی عالی شان پیداواری طاقتوں کا ارتقا کیا ہے۔
سرمایہ داری نے ریاست کی ایک ایسی شکل کو بھی پروان چڑھایا جو کہ اس کے اپنے اصولوں کے مطابق تھی۔ سرمایہ داری میں مختلف شکلوں کی ریاستیں وجود پذیر رہ سکتی ہیں، ان میں سے ہر شکل طبقاتی جدوجہد کے ارتقا میں ایک مختلف مرحلے کی مماثلت میں ہے۔ پارلیمانی جمہوریت سے لے فسطائیت تک اور ’بوناپارٹسٹ فوجی۔پولیس آمریت‘ کی عجیب الخلقت رنگ برنگی شکلوں میں۔
ریاست کی ان تمام شکلوں میں ایک چیزبہرحال مشترکہ ہے۔۔ آخری تجزیے میں یہ ذرائع پیداوار میں نجی ملکیت کا، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ سرمایے کی حکمرانی کا دفاع کرتی ہیں۔
مارکس اور اینگلس نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی میں جمہوریت ایک مثالی طرزِ حکومت ہے، اول تو یہ سرمایہ داروں کو اپنے اختلافات دور کرنے کے قابل بناتی ہے، دوسرے یہ محنت کش طبقوں کو ایک حرکت پذیر معاشرے کا شائبہ دیتی ہے۔ اس میں ایسی تبدیلیاں آسانی سے کی جا سکتی ہیں جو کہ نظام کے چلتے رہنے کے لئے ضروری سمجھی جا سکتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بورژوا جمہوریت محنت کشوں کو اس بات کا پورا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنا استحصال کرنے والوں کو اْٹھاکے باہر پھینکنے کے لئے اپنے آپ کو منظم کر سکیں۔ سرمایہ داری کی اپنی بقا پذیری کے لئے یہ لازمی شرط ہے کہ ایک ایسا نیا طبقہ ہر وقت موجود رہے جس کے پاس کوئی ملکیت نہ ہو۔
اپنے تمام تر ارتقا میں سرمایہ داری نے اْجرتی محنت کشوں کی تعداد میں اضافہ ہی اضافہ کیا ہے۔
صرف دوسری جنگِ عظیم میں ہی فرانس، اٹلی اور جاپان وغیرہ میں دسیوں لاکھ چھوٹے کسانوں کو زمینوں سے شہروں میں لے آیا گیا۔ یہ اس حد تک ایک ترقی پسندانہ اقدام تھا کہ اس کے ذریعے لوگوں کو دیہی زندگی کی یک رنگی اور پسماندگی سے علیحدہ کر دیا گیا اور دوسری طرف یہ محن کی افزودگی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے، کیوں کہ خوراک کو اْگانے کے لئے اب افراد کی بہت کم تعداد کافی تھی جب کہ باقی لوگ اپنے ہاتھوں کو دیگر بہت سی چیزوں کی پیداوار کرنے کے لئے لگا سکتے تھے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ، سرمایہ داری کو لوگوں کے مفادات کا چنداں خیال نہیں ہے، اسے انتہائی سرد مہری سے صرف قدر زائد چاہیئے، خواہ سوادِاعظم کو اس کی کوئی بھی قیمت چکانا پڑے۔
سرمایہ دارانہ عالمی منڈی
جیسے ہم نے دیکھا ہے کہ سوادِاعظم کے لئے بدبختی کا سندیسہ لانے کے باوجود سرمایہ داری ایک زبردست فعال نظام رہا ہے۔ اس کا مقصد اور محرک صرف زیادہ سے زیادہ قدرِزائد ہے۔
اس طور سے صنعتی سرمایہ داری دنیا پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تجارتی سرمائے نے دوسرے ممالک کے موجود طبعہائے پیداوار سے جس قدر بھی خراج لے سکتا تھا، لے کر خود کو لیس کیا۔ صنعتی سرمایہ، صنعتی انقلاب کے بعد اپنی تخلیق کردہ سلطنتوں میں سستی مصنوعات کا سیلاب لے آیا۔
ان مصنوعات نے دستکاری کے موجود نظام کواپنی لازمیت کے نتیجے میں برباد کرکے رکھ دیا، جو کہ دیہات میں زراعت کے باعث یکجا تھا۔
موجود معاشروں کو جبراً توڑ دیا گیا۔ علاوہ ازیں زراعت کو افزوں انداز میں عالمی منڈی کی احتیاجات کی طرف موڑدیا گیا۔ سرمایہ داری ایک دنیا کو تخلیق کرنے کا آغاز کر رہی تھی جو کہ اس کی اپنی مثل پر تھی۔
یہ عمل سرمایہ داری کے ارتقا کے سامراجی مرحلے میں اپنی معراج پر جا پہنچا۔
مختلف مرحلوں کو جن میں سے ہوتے ہوئے سرمایہ دار ممالک، ماقبل سرمایہ دار اقوام سے تعلق میں آئے، ان کا استحصال کیا، اور انہیں کھینچ کر سرمایہ داری کے چْنگل میں لے آئے، ہندوستان کے معاملے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
پہلے پہل ہندوستان کو حکومتِ برطانیہ کی طرف سے نہیں، بلکہ تاجروں کی ایک انجمن، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے نوآبادی بنایا گیا۔ انہوں نے اینگلوانڈین تجارت پر اجارہ داری قائم کر کے، ارزاں خرید، اور گراں فروشی کرتے ہوئے اپنے لئے اپنا نصیبہ خود تراشا۔ اْنہوں نے ہندوستان کی اندرونی تجارت پر بھی قبضہ جما لیا، اور ان کے اس حرص زدہ تسلط میں قحطوں کے دوران اناج کے بھاؤ آسمان پر جا چڑھے۔۔ جو ضرورت مندوں کی دسترس سے کہیں باہر تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کا دور برطانیہ میں ‘قدیمی اجماع’ کی احتیاج سے جُڑا تھا۔ عیار تاجروں نے غیر مساوی تبادلوں کے ذریعے لکشمی دیوی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے بھاگ جگائے۔ جنگِ پلاسی کے بعد، جس نے برطانیہ کو پورے برِ صغیر کا حکمران بنا دیا تھا، بینک آف انگلینڈ نے پہلی بار دس پاؤنڈ اور پندرہ پاؤنڈ کے نوٹ چھاپے۔ قدامت پسند تاریخ دان ‘برک’ تخمیناً کہتا ہے کہ 1757ء سے 1780ء کے دوران چار کروڑ پاؤنڈ مالِ غنیمت کے طور پر [برطانیہ کے] ہاتھ آئے، جو کہ اس وقت کے لحاظ سے ایک خطیر رقم تھی۔
برطانوی سرمایہ داری کوئی ہمیشہ سے ہی آزاد تجارت کی حامی نہیں رہی تھی۔ یہ تو تب کہیں جا کے ہوا جب برطانیہ نے بڑے پیمانے پر سرمایہ دارانہ پیداوار پر اجارہ داری قائم کر لی۔ درحقیقت، ہندوستانی پارچہ بافی کی برطانیہ میں درآمد پر تقریباً 1830ء تک 70 سے 80 فی صد کے حساب سے محصول لاگو تھا۔
جب لنکاشائر کی مشینی پارچہ بافی کی صنعت ایک ناقابلِ تسخیر مقام پر پہنچ گئی تب کہیں جا کے یہ پابندیاں اْٹھائی گئیں کیونکہ اب ان کی چنداں ضرورت نہ رہی تھی۔ اس وقت ہندوستان کی منڈی سستی کاٹن کی مصنوعات سے لدی پڑی تھی، اور اس کے اپنے پارچہ باف برباد ہو چکے تھے۔
ہندوستانی معاشرے کی تقدیر اب مقابلے کی سرمایہ داری کے ساتھ نتھی ہو چکی تھی۔
گاہے بگاہے، برطانوی سرمایہ داراپنی برآمدات ہندوستان میں بیچنے کے لئے انتہائی کٹھورحربے برتنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ مثال کے طور پر ڈھاکا کے پارچہ بافوں کے ہاتھوں کو کاٹ دیا گیا! ہولناک قسم کے قحط ہر وقت اس علاقے کی ٹوہ میں رہنے لگے تھے، اور پورے کا پورا علاقہ ہی جزوی طور پر ایک جنگل کی صورت اختیار کر گیا تھا۔
1850ء تک ہندوستان لنکا شائر کے کپڑے کی ایک چوتھائی پیداوار کو خریدنے پر مجبور ہو چکا تھا۔
اٹھارہ سو ستاون کے غدر کے بعد برطانوی حکمرانوں نے مقامی آبادی پر قابو پانے کی خاطر، فوجی دستوں کی تیز نقل وحمل کے لئے ریلوے نظام کی تعمیر کی ضرورت کو محسوس کیا۔ یہ ہندوستان کے استحصال کے تیسرے دور کے شروع ہونے کی علامت تھی۔ اشیاء کی بجائے سرمائے کی برآمد کا عنصر غالب شکل اختیار کرگیا۔